یہ ایک حیرت انگیز اتفاق ہے کہ امریکی صدر براک اوباما نے یکم مئی کو اعلان کیا کہ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں امریکی نیوی کے کمانڈوز کے ہاتھوں مارے جاچکے ہیں اور ٹھیک ۶۶ سال قبل جرمن آمر ایڈولف ہٹلر کی موت کا اعلان بھی اس ہی تاریخ کو کیا گیا۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہٹلر نے خودکشی کی تھی۔ دونوں ہی اپنے کاز کے لیے بڑے پیمانے پر قتل عام کے حامی تھے۔
ہٹلر اور اسامہ بن لادن میں اور بھی بہت کچھ مشترک تھا۔ ان کی شخصیت میں بہتوں کے لیے خاصی کشش تھی۔ ہٹلر کی موت نے جرمن نازی ازم کے خاتمے کا اعلان کیا اور اسامہ بن لادن کی ہلاکت اس امر کا اعلان ہے کہ اب دنیا کے لیے دہشت گردی کے حوالے سے سب سے بڑا خطرہ ختم ہوچکا ہے۔
القاعدہ کے نام پر کام کرنے والے گروپ آج بھی پاکستان، افغانستان، عراق، یمن، شمالی افریقا اور صومالیہ وغیرہ میں ہیں مگر القاعدہ نے ایک تنظیم کی حیثیت سے اسلامی دنیا میں باقاعدہ اپوزیشن کی حیثیت حاصل کی تھی اور ۱۹۹۰ء کے عشرے میں القاعدہ کا جادو اس قدر سر چڑھ کر بولا کہ ۲۰۰۱ء میں نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور امریکی محکمہ دفاع کی عمارت پر حملے کی راہ ہموار کرنے میں بھی مرکزی کردار ادا کیا۔ نائن الیون کے بعد میں نے ’’وہ ہم سے اس لیے نفرت کرتے ہیں کہ‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ امریکی خارجہ پالیسی اسلامی دنیا میں امریکا مخالف جذبات کو پروان چڑھانے میں مرکزی کردار ادا کرتی ہے اور دہشت گردی کی راہ بھی ہموار کرتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ لاطینی امریکا اور مشرق بعید میں بھی تو امریکی خارجہ پالیسی نے بڑی پیمانے پر لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا تاہم وہاں سے تو دہشت گردی نہیں ابھری۔ عرب دنیا میں امریکی خارجہ پالیسی کے خلاف ردعمل نے دہشت گردی کی شکل اختیار کی۔ عرب دنیا میں جو غم و غصہ پایا جاتا ہے اس نے امریکا مخالف لہر کا لبادہ اوڑھا ہے۔ سچ یہ ہے کہ عرب دنیا میں چار عشروں سے لوگوں کو دبایا جاتا رہا ہے، حکومت چلانے کے نام پر انہیں غلامی کی طرف دھکیلا گیا ہے اور ان کے بنیادی حقوق غصب کیے گئے ہیں جس کے باعث اب ان میں شدید اشتعال پایا جاتا ہے۔
اسلامی دنیا میں مساجد پر پابندی لگانا کسی بھی آمر کے لیے ممکن نہیں رہا۔ مساجد حکومت اور حکومتی نظام سے نالاں افراد کے مل بیٹھنے کے مقامات میں تبدیل ہوتی گئیں اور رفتہ رفتہ یہیں سے حکومت مخالف تحاریک کا آغاز ہوا۔ مساجد میںجو کچھ ہوتا تھا اس پر سینسر عائد نہیں کیا جاسکتا تھا۔ حکومت مخالف لہر امریکا کے خلاف اس لیے بھی بڑھ گئی کہ وہ آمرانہ حکومتوں کی پشت پناہی کرتا رہا تھا۔
القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن یمنی نژاد سعودی باشندے تھے اور ان کے نائب ایمن الظواہری مصر سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے القاعدہ بنیادی طور پر سعودی اور مصری حکومتوں کو ختم کرنے کے لیے قائم کی تھی۔ اسامہ بن لادن کی موت ایک ایسے وقت ہوئی ہے جب عرب دنیا میں القاعدہ کی اپیل دم توڑ رہی ہے۔ عرب دنیا میں لوگ حکومتوں اور نظام ہائے حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے القاعدہ کا یہ تصور مسترد کردیا ہے کہ حکومتوںکی تبدیلی صرف تشدد کے ذریعے ممکن ہے۔ سیکولر معاشروں میں حکومتی حلقے اس قدر مستحکم رہے ہیں کہ انہیں ختم کرنے کے لیے تشدد کی طرف مائل ہونا فطری بات ہے۔ کئی عرب افریقی ممالک میں حکومتیں خاصے پرامن انداز سے ختم کردی گئی ہیں۔ قاہرہ کے تحریر اسکوائر میں حکومت کے مخالفین نے اسامہ بن لادن یا ایمن الظواہری کی تصاویر نہیں اٹھا رکھی تھیں۔ انہوں نے خلافت یا اسلامی حکومت کے لیے احتجاج نہیں کیا بلکہ جدید جمہوریت کو اپنانے کے لیے گھروں سے باہر آئے۔
اسلامی دنیا میں رائے عامہ کے کئی جائزوں سے معلوم ہوا ہے کہ پانچ برسوں کے دوران القاعدہ کی اپیل کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی گئی ہے۔ اس کا پیغام اب لوگوں کے لیے پرکشش نہیں رہا۔ القاعدہ سے تعلق یا ہمدردی رکھنے والے لوگوں کی تعداد بھی گھٹتی جارہی ہے اور وہ مختلف چھوٹے چھوٹے گروپوں میں بھی بٹ گئے ہیں۔ یہ گروپ کوئی بڑا حملہ نہیں کرسکتے بلکہ مقامی سطح پر ریستوراں اور دوسرے عوامی مقامات ہی کو نشانہ بنانے کی سکت رکھتے ہیں۔ مقامی سطح کے حملوں سے مقامی لوگوں میں القاعدہ کے لیے ناپسندیدگی بھی بڑھتی جارہی ہے۔ ایک زمانے میں یہ تصور یہ تھا کہ القاعدہ جیسے گروپوں میں جس قدر بھی تشدد پسندی پائی جاتی ہے اس کا نشانہ صرف مغرب ہے۔ اب ایسی تنظیمیں اپنے حکمرانوں اور معاشروں کو بھی نشانہ بنا رہی ہیں۔ جب تشدد اپنے ہی معاشرے میں پھیلنے لگا تو سعودی حکومت اور عوام نے بھی ساتویں صدی عیسوی میں جانے کے تصور ہی سے توبہ کی۔
نازی جرمنی اور القاعدہ میں بہت فرق ہے۔ جرمنی ایک مالدار اور ترقی یافتہ ملک تھا۔ القاعدہ کے وسائل بہت محدود تھے۔ اس کا ایک نظریہ تھا، فلسفہ تھا۔ اسامہ بن لادن القاعدہ کے لیے روح رواں تھے جو ایک مالدار گھرانے کے فرد تھے مگر تمام آسائشیں ترک کرکے افغانستان میں سوویت قابض فوجوں کے خلاف جہاد کیا۔ جب جہاد ختم ہوا اور سوویت افواج رخصت ہوگئیں تو اسامہ بن لادن کی بندوق کا رخ امریکا کی طرف ہوگیا۔ اسامہ بن لادن علمی سطح کی عربی جانتے تھے اور اپنی تقاریر کے ذریعے انہوں نے لاکھوں افراد کو اپنا گرویدہ بنایا۔ جو لوگ غیر معمولی حد تک متاثر ہوئے انہوں نے القاعدہ میں شمولیت اختیار کی اور اسامہ بن لادن سے وفاداری کا حلف اٹھایا۔
جن نوجوان خود کش بمباروں نے جان دی وہ خالد شیخ محمد یا ایمن الظواہری کے لیے جان نہیں دے رہے تھے بلکہ اسامہ بن لادن کے لیے موت کو گلے لگا رہے تھے۔ اسامہ بن لادن کی موت کے ساتھ ہی مقصد بھی ختم ہوگیا۔ دہشت گرد ختم نہیں ہوئے مگر مغرب کے وجود کے لیے سب سے بڑا خطرہ ختم ہوگیا۔
اسامہ بن لادن کو جس انداز سے ختم کیا گیا اس سے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے معاملے میں امریکا کے طریقہ کار میں تبدیلی کا بھی پتا چلتا ہے۔ جارج واکر بش اور براک اوباما کو اس بات کا سہرا جاتا ہے کہ انہوں نے خصوصی آپریشنوں کا طریق کار اپنایا اور دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو ختم کیا۔ انہوں نے افغانستان اور پاکستان میں اطلاعات کے حصول اور دیگر متعلقہ امور پر توجہ دی اور وسائل بھی بڑے پیمانے پر صرف کیے۔ یہی سبب ہے کہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس افغانستان میں اپنی مضبوط پوزیشن چھوڑ کر اب سی آئی اے کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھال رہے ہیں۔ خفیہ معلومات کے حصول کا نظام موثر بناکر بہت سے دہشت گردوں کو ختم کیا گیا اور اب اسامہ بن لادن کو ختم کرکے یہ ثابت کردیا گیا ہے کہ یہ طریقہ درست ہے۔
جارج واکر بش نے صرف دہشت گردی ختم کرنے پر نہیں بلکہ قومی تعمیر نو پر بھی توجہ دی۔ ان کا تصور یہ تھا کہ آمر حکومتوں کو ختم کرنے کی صورت میں جمہوریت کی راہ ہموار ہوگی۔ عراق میں صدام حسین کی حکومت ختم کرنے کی پشت پر یہی نظریہ یا فلسفہ کام کر رہا تھا۔ اور جارج واکر بش کی سوچ درست تھی۔ عرب دنیا میں اب انقلاب کا آغاز ہوچکا ہے اور لوگ جمہوریت کے لیے میدان میں آچکے ہیں۔ یہ لوگ ملائیت چاہتے ہیں نہ القاعدہ جیسی تنظیموں کا اقتدار پسند کرتے ہیں۔ یہ حکومت سازی میں اپنی رائے کی اہمیت تسلیم کروانا چاہتے ہیں۔ کسی بیرونی قوت کے لیے جمہوریت متعارف کرانا خاصا دشوار کام ہے۔ فوج کا کام ویسے بھی سیاسی استحکام اور نظام حکومت متعارف کرانا نہیں۔ عراق اور افغانستان میں امریکی فوج نے خاصا جانی اور مالی نقصان برداشت کرکے جمہوریت متعارف کرانے کی کوشش کی اور سچ یہ ہے کہ لاکھ کوشش کے باوجود نتائج ملے جلے رہے ہیں۔
دہشت گردی کا خاتمہ ایک طویل عمل ہے۔ اس میں خفیہ معلومات کا حصول بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ ان معلومات کی بنیاد پر تیزی سے اور پوری قوت کے ساتھ کارروائی کرنی ہوتی ہے۔ امریکی فوج اس معاملے میں غیر معمولی مہارت رکھتی ہے۔ اب القاعدہ کی قیادت تقریباً ختم کی جاچکی ہے۔ یہ تقسیم ٹکڑوں میں بٹ چکی ہے اور اس کے ارکان مستقل روپوشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ افغانستان کے وسیع رقبے پر کنٹرول قائم کرکے القاعدہ اور طالبان کو ختم کرنے کی کوشش کرنے سے کہیں بہتر یہ ہے کہ خفیہ معلومات کی بنیاد پر خصوصی آپریشنز کے ذریعے دہشت گردوں کو ختم کیا جائے۔
امریکی فوج میں لڑائی کی صلاحیت تو بے مثال ہے لیکن قومی تعمیر نو کے معاملے میں وہ زیادہ مستعد ثابت نہیں ہوئی۔ افغانستان میں بگرام ایئر بیس کی جیل اور عراق میں ابو غریب جیل میں قیدیوں پر تشدد کے حوالے سے امریکی فوجیوں کو الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر اب اسامہ بن لادن کو ختم کرنے کے آپریشن نے سب کچھ بدل دیا ہے۔ اس آپریشن نے ثابت کردیا کہ امریکی فوج کہیں بھی، عمدگی سے کارروائی کرسکتی ہے۔ اگر امریکا کوئی بھی فوجی کارروائی غیر مبہم انداز سے اور سوچ سمجھ کر کرے اور اہداف کو سامنے رکھے تو ایک بار پھر دنیا امریکا کا احترام کرسکتی ہے۔
(بشکریہ: ہفت روزہ ’’ٹائم‘‘۔ ۲۰ مئی ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply