
جنوری ۲۰۱۸ء میں برسلز کا شاندار بوزار تھیٹر تاریخی لمحات سے متعلق عوامی جمہوریہ چین کی ویڈیو کا بیک ڈراپ تھا۔ یہ موقع تھا چینی نئے سال کے جشن کا۔ ایک گلوکار فن کا مظاہرہ کر رہا تھا اور اس کی پشت پر چلائی جانے والی ویڈیو میں چین کی کامیابیوں کو نمایاں طور پر پیش کیا جارہا تھا۔ ویڈیو میں چین کے پہلے جوہری دھماکے، عالمی تجارتی تنظیم میں شمولیت، پہلے طیارہ بردار جہاز کی تیاری اور دیگر معاملات سے دنیا کو آگاہ کیا جارہا تھا۔ حاضرین میں موجود سفارت کار، فوجی نمائندے اور دیگر حکام دم سادھے یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ سوال یہ نہیں تھا کہ وہ چین کی کامیابیوں کو دیکھ کر متاثر ہو رہے تھے یا نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ متاثر ہو بھی رہے ہوں، مگر اِس سے کہیں بڑھ کر وہ حیرت زدہ بھی تھے اور تشویش میں بھی مبتلا تھے۔ چین کی بڑھتی ہوئی عسکری قوت، معیشت کے پنپتے ہوئے حجم اور ٹیکنالوجی میں پیش رفت نے یورپ کے بہت سے پالیسی سازوں کو خوابِ غفلت سے جگا دیا ہے۔ یورپی یونین ایک زمانے سے غیر اعلانیہ طور پر، مشنری انداز سے چین کے بارے میں سوچتی آئی ہے۔ چین کے مستقبل کے حوالے سے مختلف اندازے لگائے جاتے رہے ہیں مگر اب اندازہ ہوتا ہے کہ بیشتر اندازے خام خیالی یا خوش فہمی پر مشتمل تھے۔
چین کی معاشی و عسکری قوت میں غیر معمولی اضافے کے ساتھ بیجنگ، واشنگٹن اور برسلز کی اسٹریٹجک تکون میں بھی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے دوران امریکا نے چین کو اسٹریٹجک مدمقابل کے روپ میں زیادہ دیکھا ہے۔ یورپ کے بیشتر قائدین کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ کسی بھی وقت کچھ بھی کہہ سکتے ہیں اور اُن پر مکمل بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ اِس کے نتیجے میں بیشتر یورپی طاقتیں اب حکمت عملی کے حوالے سے زیادہ خود مختاری کی طرف رواں ہوئی ہیں۔ صدر ٹرمپ نے حال ہی میں افغانستان اور شام سے فوج نکالنے کا اعلان کرکے امریکا کی ۱۷ سالہ ملٹری ڈاکٹرائن کے حوالے سے یو ٹرن لیا ہے۔ بہت سوں کے خیال میں اِسی فیصلے نے جیمز میٹس کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا۔ اور یہ کہ اب یورپ کی سلامتی کے حوالے سے معاملات پریشان کن ہوچلے ہیں۔
دسمبر ۲۰۱۸ء میں بیجنگ نے یورپی یونین سے تعلقات کے حوالے سے وائٹ پیپر شائع کیا۔ اس وائٹ پیپر میں درج ہے کہ کس طور چین نے یورپی طاقتوں کے ساتھ مختلف شعبوں میں مل کر کام کیا۔ بالخصوص ہائی ٹیکنالوجی کے شعبے میں۔ وائٹ پیپر میں یہ بھی درج ہے کہ بیجنگ تائیوان اور تبت کے مسئلے پر برسلز سے کیا امید رکھتا ہے۔ اور کس طور چین نے اظہار رائے کی آزادی کے لیے خطرہ بننے والی جعلی اور من گھڑت خبروں کے سدباب کے لیے بھی یورپی یونین کے ساتھ مل کر کام کیا ہے۔ وائٹ پیپر میں یہ بھی درج ہے کہ امریکا کے یکطرفہ اقدامات کے آگے بند باندھنے کے لیے یورپ کو چین کا ساتھ دینا چاہیے۔ چینی قیادت نے اس وائٹ پیپر میں یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ جہاں کہیں بھی امریکا کے انخلا سے خلا پیدا ہوا ہے وہاں وہ اپنا کردار ادا کرکے خلا پُر کرنے کو تیار ہے۔ جرمی رفکن کے الفاظ میں کہیے تو چین نے مابعدِ جدیدیت کے لمحاتِ سعید میں دو عشروں تک ’’یورپی خواب‘‘ کو شرمندۂ تعبیر کرنے کی کوشش کی۔ یورپی یونین کے بعض حکام کہتے ہیں کہ یورپی یونین جیو پالیٹکس نہیں کرتی اور یورپ میں بہت سوں کا خیال ہے کہ جو کچھ بھی یورپی یونین کرتی ہے اُس کے سیاسی عواقب برآمد نہیں ہوتے۔ یوں یورپی یونین اپنے علاقے کو بڑی طاقتوں کے لیے پلے گراؤنڈ کے طور پر پیش کرتی ہے۔ یورپ نے خاصی مشقت سے جو خُوئے اطاعت پروان چڑھائی ہے، اُس نے چین کو بھی کھل کر کھیلنے کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کیے ہیں۔ روس نے یوکرین کے حوالے سے طاقت کا غیر معمولی مظاہرہ کیا اور یوکرین سے جُڑے ہوئے چند اور یورپی ممالک کو بھی کسی حد تک متاثر کیا مگر یورپی یونین کے مجموعی ماحول پر اس کا کچھ خاص منفی اثر مرتب نہیں ہوا۔
یورپی یونین کے حکام بھلے ہی کہتے رہیں کہ یورپی یونین کے اقدامات کے سیاسی نتائج برآمد نہیں ہوتے مگر حقیقت یہ ہے کہ اب بعض یورپی ممالک نے انفرادی سطح پر اور یورپی یونین نے اجتماعی سطح پر چین کو ایک بڑے حریف کے روپ میں دیکھنا شروع کردیا ہے۔ چین کی ’’میڈ اِن ۲۰۲۵ء‘‘ حکمت عملی نے یورپ کی ہائی ٹیک انڈسٹری کے لیے بیداری کا کردار ادا کیا ہے۔
یورپ اور بھارت دونوں ہی چین کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ دونوں کے لیے چین کی بڑھتی ہوئی سیاسی، عسکری اور معاشی قوت نے ویک اپ کال کی سی حیثیت اختیار کرلی ہے۔ ایسے میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا بھارت کا ’’یوا شکتی‘‘ آدرش اور یورپین ڈریم متصادم ہوں گے؟ دسمبر ۲۰۱۸ء میں یورپین کونسل نے ’’ای یو اسٹریٹجی آن انڈیا‘‘ کے حوالے سے اخذ کیے جانے والے خیالات کو قبول کیا۔ کیا اِس سے یورپی یونین اور بھارت کے تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہوگا؟ اب تک عام خیال یہ تھا کہ یورپی یونین نے چین کو زیادہ اہمیت دی ہے اور بھارت کو مجموعی طور پر نظر انداز کیا ہے۔ بھارت کے حوالے سے نئی حکمت عملی اپنانے سے یہ تاثر ابھرے گا کہ یورپی یونین بھارت کو بھی ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ایک ایسے نئے عالمی نظام کو پروان چڑھانے کے حق میں ہے، جو اصولوں کی بنیاد پر کام کرتا ہو۔ علاوہ ازیں یورپی یونین سلامتی سے متعلق سیٹ اپ کو بہتر بنانے کی بھی کوشش کر رہی ہے۔ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ اس وائٹ پیپر کے مندرجات کی بنیاد پر چینی قیادت کس نوعیت کے اقدامات کی راہ ہموار کرتی ہے۔
فروری ۲۰۱۷ء میں فرانس، اٹلی اور جرمنی نے یورپی یونین سے کہا کہ وہ یورپ میں براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری کی اسکریننگ سے متعلق سفارشات مرتب کرنے کے لیے کمیشن قائم کرے۔ تینوں یورپی طاقتوں نے اگرچہ کسی ملک کا نام نہیں لیا تاہم یہ بات طے ہے کہ وہ چینی باشندوں کی طرف سے کی جانے والی براہِ راست سرمایہ کاری کے حوالے سے غیر معمولی تشویش میں مبتلا تھے۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ یورپ کے بعض ممالک میں چینیوں کی سرمایہ کاری اِتنی زیادہ ہے کہ فرانس، اٹلی اور جرمنی کی تجویز پر کھل کر بحث نہیں کی جاسکی۔ یورپی کونسل، یورپی کمیشن اور یورپی پارلیمان … تینوں ادارے اس حوالے سے باضابطہ مذاکرات اور بحث کی منزل سے دور رہے۔ ناقدین کہتے ہیں کہ اس حوالے سے پائی جانے والی موجودہ دستاویز میں ذرا بھی دم نہیں کیونکہ اُس کی ساری طاقت ختم کردی گئی ہے۔
یورپ میں براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری کی اسکریننگ کے حوالے سے تجویز ایسے وقت سامنے آئی ہے، جب یورپی یونین کے بہت سے رکن ممالک کے لوگوں کو یہ شکایت ہے کہ یورپی ممالک میں تو براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری کی اجازت ہے تاہم اس کے مقابلے میں چین میں سرمایہ کاری کی گنجائش دی جاتی ہے نہ کھلی منڈی تک رسائی ہی دی جاتی ہے۔ چین کے بیشتر کاروباری ادارے دراصل ریاستی مفادات کے تابع ہوتے ہیں۔ یورپ میں چینیوں کی سرمایہ کاری ۲۰۰۸ء میں ۷۰ کروڑ ڈالر تھی۔ ۲۰۱۷ء میں یہ ۳۰؍ارب ڈالر کی منزل تک پہنچ چکی تھی۔
یونان کی بندر گاہ پیراس میں چینیوں کی سرمایہ کاری اصل بلغراد اور بڈاپیسٹ سے ہوتے ہوئے باقی یورپ تک راہداری کو معرضِ وجود میں لانے کے لیے تھی، مگر اب صاف محسوس ہوتا ہے کہ اس سرمایہ کاری کے شدید اثرات یونان اور ہنگری محسوس کر رہے ہیں۔ ویسے چینیوں کی بیشتر سرمایہ کاری جرمنی، فرانس اور برطانیہ میں ہے اور زور اس بات پر ہے کہ جو ٹیکنالوجی امریکا سے حاصل نہ کی جاسکتی ہو وہ یورپ سے حاصل کرلی جائے۔
دو طرفہ سرمایہ کاری کے حوالے سے معاملہ اُس وقت زیادہ اُجاگر ہوا جب جرمنی کے معروف روبوٹکس میکر Kuka کو چینی ملکیت کے ادارے Midea نے خریدا۔ تجزیہ کاروں کو معلوم ہوا کہ جرمن انجینئر اب پیپلز لبریشن آرمی کے لیے روبوٹکس تیار کرتے ہیں۔ یہ کوئی اچھا سَودا نہیں تھا۔ اب جرمنی نے بھی براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری پر گہری نظر رکھنا شروع کردی ہے۔
اس بات کو سمجھنا اب کچھ دشوار نہیں کہ چینی قیادت اور پوری قوم چینی خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ یورپ کے اپنے آنگن کے نزدیک بحیرۂ اسود اور بحیرۂ روم میں روس کے ساتھ جنگی مشقوں کا پروگرام ہے اور ساتھ ہی ساتھ بحیرۂ بالٹک میں بھی مشقوں کا پروگرام، جس کے نتیجے میں متعدد یورپی ریاستیں بھی لرزش محسوس کیے بغیر نہ رہ سکیں گی۔
یورپی یونین کے حکام بھی اس بات کو محسوس کر رہے ہیں کہ چین اب روس کے ساتھ مل کر یورپ کو متاثر کرنے والے ماحول میں کام کر رہا ہے۔ فروری ۲۰۱۸ء میں جرمنی کے دو تھنک ٹینکس نے بھی اپنی رپورٹس میں بتایا کہ چین اب یورپ کے معاملات پر غیر معمولی حد تک اثر انداز ہونے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ یہ سب کچھ اس قدر واضح ہے کہ یورپی یونین کے پالیسی ساز اسے کسی طور نظر انداز نہیں کرسکتے۔
جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے بلقان کے خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ میونخ سیکورٹی کانفرنس ۲۰۱۸ء میں جرمن وزیر خارجہ سگمار گیبریل نے چینی صدر شی جن پنگ کے پیش کردہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ چین ایک ایسا نظام تیار کر رہا ہے، جو ہمارے نظام کی طرح جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادی کے اصولوں کی بنیاد پر استوار نہیں۔
بہرکیف، چین نے اپنی بھرپور معاشی قوت کو بروئے کار لاکر یورپ میں اختلاف رائے پیدا کردیا ہے۔ اب بہت سے معاملات پر تمام یورپی طاقتیں ہم آہنگ ہوکر بات نہیں کر رہیں۔ مثلاً مارچ ۲۰۱۷ء میں ہنگری نے ایک ایسے مشترکہ خط پر دستخط سے انکار کیا، جو زیر حراست وکلا پر تشدد کے حوالے سے تھا۔ جون ۲۰۱۷ء میں یونان نے اقوام متحدہ میں ایک ایسے بیان کی راہ مسدود کردی، جس میں چین کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کی مذمت کی گئی تھی۔ جولائی ۲۰۱۶ء میں یورپی یونین کے ایک ایسے بیان کو ہنگری، یونان اور کروشیا نے ویٹو کیا، جس میں بحیرۂ جنوبی چین میں چین کے ملکیتی دعوؤں پر تنقید کی گئی تھی۔ ان تمام مثالوں سے یورپی یونین کی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے سے متعلق چین کی صلاحیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
کئی شعبے ایسے ہیں جن میں یورپ اب بھی واضح طور پر برتری کا حامل ہے۔ نئی ہائی ٹیکنالوجی کے حوالے سے یورپ کو اپنی برتری برقرار رکھنے پر متوجہ رہنا چاہیے۔ ایسا کرنا ترقی اور سلامتی کے حوالے سے مستقبل کو محفوظ بنانے کی خاطر لازم ہے۔ ٹیکنالوجی کی منتقلی کے حوالے سے یورپ کو زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ۵۔جی ٹیکنالوجی کے حوالے سے یورپ کو واضح حکمتِ عملی تیار کرنا ہوگی۔
ہوسکتا ہے کہ یورپی یونین کے حکام کو اپنے آپشن بہت زیادہ پرکشش محسوس نہ ہوتے ہوں مگر وقت آگیا ہے کہ وہ محض تماشائی بنے رہنے کی روش ترک کریں اور میدانِ عمل میں نکلیں۔ یورپ کو اب طے کرنا پڑے گا کہ مابعدِ جدیدیت کے دور میں سلامتی اور ترقی دونوں حوالوں سے مل جل کر کام کرنے کا طریقہ درست تھا یا یہ طریقہ ترک کرنا پڑے گا۔ اور یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ یورپی طاقتوں کا مل جل کر چلنا نئے عالمی نظام کو کسی حد تک بہتر بناسکے گا یا نہیں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“When the China dream and the European dream collide”.(“warontherocks.com”. January 7, 2019)
Good survey and analysis.