
یکم اور دو اگست ۱۹۵۳ء کی شب بارہ بجتے ہی ایک امریکی تہران میں واقع سی آئی اے کے سیف ہاؤس سے باہر نکل آیا۔ اس نے موقع کی مناسبت سے بند گلے کی سیاہ قمیص اور سلیٹی رنگ کی پتلون پہن رکھی تھی، جب کہ پاؤں میں گیوہ نامی نرم ایرانی جوتے تھے۔ مکان کے باہر سیاہ رنگ کی عام سی کار کھڑی تھی۔ امریکی اس کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ یہاں ایک کمبل پڑا تھا، جو اس نے اپنے اوپر ڈال لیا اور گاڑی کے فرش پر لیٹ گیا تاکہ کوئی اسے دیکھ نہ سکے۔
جلد ہی گاڑی ایک بڑی عمارت کے احاطے میں پہنچ گئی۔ پورچ میں ایک دبلا پتلا شخص کھڑا تھا جس نے گاڑی رکتے ہی اس کا دروازہ کھول دیا۔ امریکی اٹھ کر بیٹھ گیا۔ دبلا شخص سیٹ پر آ بیٹھا اور امریکی کو اپنا ہاتھ پیش کیا، ’گڈ ایوننگ مسٹر روزویلٹ۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں آپ کے آنے کی توقع کر رہا تھا، لیکن آپ سے مل کر خوشی ہوئی۔
روزویلٹ نے جواب میں کہا، ’گڈ ایوننگ یور میجسٹی، مجھے خوشی ہے کہ آپ نے لمبے عرصے بعد بھی مجھے پہچان لیا۔ اب مجھے معاملات طے کرنے میں آسانی ہو گی‘۔
اس امریکی کا پورا نام کرمٹ روزویلٹ تھا، جب کہ اس کے پاس کار کی سیٹ پر ایران کے ۳۲ سالہ بادشاہ محمد رضا شاہ پہلوی بیٹھے تھے۔ روزویلٹ امریکی سی آئی اے اور برطانوی خفیہ ادارے ایم آئی ۶ کے بنائے ہوئے منصوبے کے تحت چاہتے تھے کہ شاہ ایران کے جمہوری طور پر منتخب وزیرِ اعظم ڈاکٹر محمد مصدق کو برطرف کر دیں اور اس مقصد کے لیے وہ معاملات طے کرنے رات کے اندھیرے میں چھپ کر شاہ سے ملنے آئے تھے۔ اس واقعے کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب ’’کاؤنٹر کو‘‘
Countercoup: The Struggle for Control of Iran میں کیا ہے۔
امریکا اور برطانیہ کیوں ایک جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے پر تلے ہوئے تھے؟ وجہ بڑی سادہ اور پرکار تھی۔
۱۹۰۸ء میں اینگلو پرشین آئل نامی ایک برطانوی کمپنی نے ایران کے خوزستان صوبے میں تیل کے وسیع ذخائر دریافت کر لیے۔ چرچل نے یہ خبر سن کر کہا تھا، ’پری خانے سے آیا ہوا یہ تحفہ ہمارے خواب و خیال سے بھی ماورا ہے‘ (A prize from fairly-land beyond our wildest dreams)
۱۹۱۴ء میں برطانوی حکومت نے کمپنی کے ۵۱ فیصد حصص خرید کر اسے قومیا لیا۔ بعد میں اس کا نام بدل کر اینگلو ایرانین آئل کمپنی کر دیا گیا۔ اس کمپنی نے ایرانی شہر آبادان میں تیل صاف کرنے کا کارخانہ تعمیر کیا، جو اس وقت دنیا کی سب سے بڑی ریفائنری تھا۔ اسی دوران رائل نیوی کے سربراہ ونسٹن چرچل نے فیصلہ کیا کہ بحری ایندھن کوئلے سے بدل کر تیل کر لیا جائے، جس سے تیل کی مانگ اور ایران کی اہمیت راتوں رات آسمان تک پہنچ گئی۔ رفتہ رفتہ ایران کے مختلف علاقوں میں تیل کے ایک سے بڑھ کر ایک ذخائر برآمد ہوتے گئے اور اے آئی او سی کی قوت اور رسوخ میں اسی تناسب سے اضافہ ہوتا گیا۔
اس تیل سے ایران کو کیا ملتا تھا؟ ایران کا کل حصہ ۱۷ فیصد تھا، کمپنی کا ۸۳ فیصد۔ یہی نہیں، اپنے ٹیکس، ملازموں کی تنخواہیں اور دوسرے اخراجات بھی کمپنی اپنے ۸۳ فیصد سے نہیں بلکہ کل رقم سے منہا کرتی تھی، جس سے ایران کا حصہ مزید کم ہو جاتا تھا۔
۱۹۵۱ء میں اس کمپنی نے کل چار کروڑ پاؤنڈ (آج کے ۹۵ کروڑ پاؤنڈ) کمائے، لیکن اس میں سے ایران کو صرف ۷۰ لاکھ پاؤنڈ دیے گئے۔
یہ صورتِ حال بادشاہ کے لیے تو قابلِ قبول ہو سکتی تھی، لیکن کسی جمہوری رہنما کے لیے اسے ہضم کرنا دشوار تھا۔ اور جس جمہوری رہنما نے اس سلسلے میں کچھ کرنے کا فیصلہ کیا اس کا نام ڈاکٹر محمد مصدق تھا۔
ڈاکٹر مصدق کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے دور میں ایران کے سب سے تعلیم یافتہ شخص تھے۔ وہ پہلے ایرانی تھے جنہوں نے کسی یورپی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی تھی۔ وہ ایک عرصے سے ایرانی سیاست میں سرگرم تھے، اور ان کے سیاسی ایجنڈے میں ایران کا بیرونی طاقتوں پر انحصار ختم کرنا سرِ فہرست تھا۔ ایک طویل جدوجہد کے بعد ۲۸؍ اپریل ۱۹۵۱ء کو انہیں ایران کی قومی اسمبلی مجلس نے ۷۹۔۱۲ کی اکثریت سے ایران کا وزیرِ اعظم منتخب کر لیا۔
مصدق کے اقتدار میں آنے کے کچھ ہی عرصے بعد مجلس نے بھاری اکثریت سے ایک قرارداد منظور کی، جس کے تحت ’’آبادان‘‘ کی ریفائنری کو ایران نے اپنی ملکیت میں لے لیا۔ ایران کے اس عمل پر برطانیہ کا پارہ ساتویں آسمان تک چڑھ گیا۔ وہ کسی طرح سے یہ سونے کی چڑیا ہاتھ سے نکلتے نہیں دیکھ سکتے تھے۔
رات کے اندھیرے میں چھپ کر شاہ سے ملنے سے پہلے روزویلٹ نے میدان ہموار کرنے کے لیے خاصی دوڑ دھوپ کی تھی۔ امریکی اور برطانوی حکام ایک عرصے سے شاہ پر زور دے رہے تھے کہ وہ ڈاکٹر مصدق کو برطرف کر دیں، لیکن شاہ یہ قدم اٹھانے سے ہچکچا رہے تھے۔ ایک برطانوی سفارت کار نے روزویلٹ کو تہران میں بتایا: ’’شاہ میں کوئی اخلاقی جرأت نہیں اور ڈر ان پر بڑی آسانی سے غلبہ پا لیتا ہے‘‘۔
لیکن شاہ کے تذبذب کی وجوہات واضح تھیں۔ انہیں معلوم تھا کہ ڈاکٹر مصدق کتنے مقبول رہنما ہیں اور اگر ان کو برطرف کر دیا جائے تو خدشہ تھا کہ ملک بھر میں اس فیصلے کے خلاف احتجاج کی وہ لہر اٹھے گی جو شاہ کا تختہ بھی بہا کر لے جا سکتی ہے۔
امریکی اور برطانوی ایجنٹوں نے شاہ کو نرم کرنے کے لیے ان کی جڑواں تند خو بہن شہزادی اشرف سے رابطہ کیا، جو پیرس میں رہتی تھیں۔ پہلے تو وہ بھی ڈانواں ڈول تھیں لیکن ایم آئی ۶ کے اہلکار نارمن ڈاربی شائر نے ان کی خدمت میں منک کا کوٹ اور نوٹوں سے بھرا تھیلا پیش کیا، تب کہیں جا کر شہزادی کی برف پگھلی اور وہ ایران جا کر اپنے بھائی کو قائل کرنے پر تیار ہو گئیں۔ ان کے علاوہ سی آئی اے نے اپنے ایک فوجی کمانڈر نورمن شوارزکوف، جو ایرانی فوج کی تربیت کرتے رہے تھے اور شاہ ان پر اعتماد کرتے تھے، کے ذریعے بھی شاہ پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی۔ اس ساری تیاری اور تگ و دو کے بعد کہیں جا کر شاہ اور روزویلٹ کی ملاقات ممکن ہو سکی تھی۔
برطانیہ نے پہلے تو حملہ کر کے آبادان پر قبضے کا منصوبہ بنایا، اس وقت امریکا میں ہیری ٹرومین کی حکومت تھی، جو اس کے حق میں نہیں تھے کیوں کہ امریکا پہلے ہی کوریا میں ایک خونی جنگ لڑ رہا تھا اور کسی اور معاملے میں ٹانگ اڑانے کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔
ادھر سے مایوس ہو کر برطانیہ یہ معاملہ عالمی عدالتِ انصاف اور اقوامِ متحدہ میں لے گیا، مگر دونوں جگہ سے اسے سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر اس نے خلیج میں جنگی جہاز بھیج کر ایران کا محاصرہ کرنے کی کوشش کی، ایرانی تیل خریدنے والے ملکوں کو قانونی چارہ جوئی کی دھمکیاں دیں، مگر ڈاکٹر مصدق نے ہر ایسی کوشش کے جواب میں کہا، ’’میں برطانیہ کو کوئی رعایت دینے پر ایرانی تیل میں فرائی ہونا زیادہ پسند کروں گا‘‘۔
جب ساری تدبیریں الٹی ہو گئیں تو برطانیہ نے پلان بی کے طور پر خفیہ ایجنسی ایم آئی ۶ کے ذریعے ڈاکٹر مصدق کا تختہ الٹنے کی ٹھان لی۔ لیکن وہ یہ کام اکیلے نہیں کر سکتے تھے، انہیں دنیا کی سب سے طاقتور خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے وسائل اور مہارت کی ضرورت تھی۔ ایک بار پھر ڈیموکریٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر ٹرومین آڑے آئے۔ وہ ایران کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے اور انہیں یہ خدشہ بھی تھا کہ اس طرح حکومتیں گرانا آگے چل کر اُلٹا سی آئی اے کے لیے غلط مثال قائم کر دے گا۔ اتفاق سے اسی سال امریکا میں صدارتی انتخابات منعقد ہونا تھے۔ قانون کی رو سے ٹرومین حصہ لے سکتے تھے، لیکن اسی دوران امریکا کو کوریا میں خفت کا سامنا کرنا پڑا تھا، جس کی وجہ سے ٹرومین بہت غیر مقبول ہو گئے تھے۔ انہوں نے سیاست سے الگ ہو جانے کا فیصلہ کر لیا۔ نومبر کو انتخابات منعقد ہوئے اور برطانیہ کی کنزرویٹو پارٹی سے کئی پالیسی معاملات پر اتفاقِ رائے رکھنے والے ریپبلکن پارٹی سے وابستہ سابق جنرل اور دوسری جنگِ عظیم کے ہیرو ڈوائٹ آئزن ہاور نے ۸۹ کے مقابلے پر ۴۴۲؍ الیکٹورل ووٹوں کی لینڈ سلائیڈ فتح حاصل کر لی۔
چرچل اسی موقع کی تاک میں تھے۔ ابھی آئزن ہاور کو اقتدار منتقل بھی نہیں ہوا تھا کہ وہ ’’باہمی دلچسپی کے امور‘‘ پر گفتگو کے لیے امریکا آن پہنچے۔
امریکا کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ برطانوی تیل ایران پی گیا ہے، الٹا امریکی عوام اور قیادت دونوں کی بڑی تعداد نوآبادیاتی نظام ہی کے خلاف تھے۔ اسی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے گرگِ باراں دیدہ چرچل نے پینترا بدلا اور نومنتخب صدر آئزن ہاور اور ڈلس برادرز (جان ڈلس جنہیں آئزن ہاور نے وزیر خارجہ اور ایلن ڈلس، جنہیں سی آئی اے کا ڈائریکٹر نامزد کیا تھا) سے ملاقات کر کے انہیں باور کروایا کہ ڈاکٹر مصدق دراصل چھپے ہوئے کمیونسٹ ہیں اور انہیں مزید اقتدار میں رہنے دیا تو ایران پکے ہوئے سیب کی طرح سوویت یونین کی جھولی میں جا گرے گا۔
اس زمانے میں امریکا میں منہ زور کمیونسٹ مخالف لہر چل رہی تھی اور میکارتھی ازم کا دور دورہ تھا۔ اینٹی کمیونزم جذبات اتنے ’’وائرل‘‘ تھے کہ چارلی چپلن جیسے عظیم لیجنڈ کا امریکی ویزا منسوخ کر دیا گیا، کیوں کہ ان کے بارے میں شبہ تھا کہ وہ کمیونسٹوں سے ہمدردی رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر مصدق کے کمیونسٹوں کی طرف جھکاؤ کی حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ایران میں ’حزبِ تودۂ ایران‘ کے نام سے ایک چھوٹی سی کمیونسٹ پارٹی موجود ضرور تھی لیکن ڈاکٹر مصدق کٹر قوم پرست ہونے کے ناطے ہر قسم کے مارکسٹ اور سوشلسٹ خیالات سے متنفر تھے اور انہوں نے صرف سیاسی آزادی کے طور پر اس پارٹی کو قائم رہنے کی اجازت دے رکھی تھی۔
امریکی لوہا گرم تھا، بس چرچل کے چوٹ لگانے کی دیر تھی کہ آئزن ہاور نے پالیسی میں کایا کلپ کی منظوری دے دی اور سی آئی اے کو حکم ملا کہ کسی بھی قانونی یا غیر قانونی طریقے سے ڈاکٹر مصدق کا پتّہ صاف کر دیا جائے۔
کرمٹ روزویلٹ سابق امریکی صدر روزویلٹ کے پوتے تھے۔ سی آئی اے کی قیادت سے گرین سگنل ملنے کے بعد وہ امریکا سے لبنان پہنچے، وہاں سے بذریعہ کار شام میں داخل ہوئے اور دمشق سے سی آئی اے کے ایک اور ایجنٹ کے ہمراہ عراق سے ہوتے ہوئے ایران میں داخل ہو گئے۔ اپنی کتاب میں وہ لکھتے ہیں کہ خانقن نامی سرحدی چوکی پر تعینات ایرانی امیگریشن اہلکار کی انگریزی دانی کا یہ عالم تھا کہ اس نے روزویلٹ کا پاسپورٹ دیکھ کر اپنے رجسٹر میں ان کا نام ’’مسٹر سکار آن دا فورہیڈ‘‘ (Scar on the forehead) یعنی ’’مسٹر ماتھے پر زخم کا نشان‘‘ درج کیا۔
تہران پہنچتے ہی روزویلٹ کام میں جُت گئے۔ ان سے قبل وہاں سی آئی اے اور برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی۶ نے ’’آپریشن ایجیکس‘‘ (Ajax) کے نام سے ڈاکٹر مصدق کے خلاف خوب دھماچوکڑی مچا رکھی تھی۔ ایجیکس ایک قسم کا کپڑے دھونے والا پاؤڈر ہے، اور اس آپریشن کے منصوبہ ساز اسی طرح سے ڈاکٹر مصدق کا صفایا چاہتے تھے جیسے ایجیکس کپڑوں سے میل نکال باہر کرتا ہے۔
تاریخ دان اسٹیون کنزر اپنی کتاب ’آل دا شاہز مین‘ میں لکھتے ہیں کہ ایک طرف سی آئی اے نے جنرل فضل اللہ زاہدی کو ایک لاکھ ڈالر دے کر ڈاکٹر مصدق کی جگہ اگلا وزیرِاعظم بننے پر راضی کر لیا تھا، تو دوسری جانب آپریشن ایجیکس کے ڈالروں کی مدد سے تہران میں ہر طرف آگ لگا دی۔ ان کی نگرانی میں گلی گلی میں سی آئی اے اور ایم آئی ۶ کے فنڈڈ مظاہرے ہو رہے تھے، جن میں ہر قسم کے کن ٹٹے، نشئی، بدمعاش، حتیٰ کہ پہلوان تک حصہ لیتے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں شاہ کی تصویریں اور لبوں پر ’شاہ زندہ باد‘ اور ’مرگ بر مصدق‘ کے نعرے ہوتے تھے۔
دوسری طرف ’لفافہ بردار صحافی‘ اخباروں میں بڑھ چڑھ کر ڈاکٹر مصدق اور ان کی پالیسیوں کے پرخچے اڑا رہے تھے، جن میں انہیں نہ صرف کمیونسٹ بلکہ یہودی نسل سے قرار دیا جا رہا تھا۔ کچھ کالم نگار انکشاف فرما رہے تھے کہ وہ دراصل اندر سے برطانیہ سے ملے ہوئے ہیں اور انہوں نے تیل کی صنعت کو قومیا کر ایران کی بربادی کے عہد نامے پر دستخط کر دیے ہیں۔ یہی نہیں، کئی کالم سی آئی اے کی جانب سے لکھے لکھائے آتے تھے، اور مدیر انہیں اپنے اپنے اخباروں میں جوں کا توں چھاپنے پر ایک دوسرے سے بازی لینے میں سرگرم تھے۔ ایک رپورٹ کے مطابق تہران کے تین چوتھائی اخبار اس سازش میں شریک تھے۔
سی آئی اے کے ایک اہلکار رچرڈ کاٹم نے اس واقعے کے کئی برسوں بعد ایک انٹرویو میں بتایا: ’’میں کوئی بھی کالم لکھتا وہ اگلے دن ایرانی اخباروں کی زینت بن جاتا۔ اس سے عجیب قسم کی طاقت کا احساس ہوتا تھا۔ ان کالموں میں مصدق کو کمیونسٹوں کے ساتھ ساز باز کرنے والا اور جنونی ثابت کیا جاتا تھا‘‘۔
ملاقات سے قبل روزویلٹ نے شاہ کو پیغام بھجوا دیا تھا کہ وہ امریکی صدر آئزن ہاور اور برطانوی وزیرِ اعظم چرچل دونوں کی طرف سے ان سے ملنے آ رہے ہیں، تبھی جا کر شاہ اندھیری رات کے پردے میں چھپ کر ہونے والی ملاقات کے لیے راضی ہوئے تھے۔
روزویلٹ نے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے شاہ کو بتایا کہ اگر وہ واقعی تسلی کرنا چاہتے ہیں کہ برطانیہ ان کے پیچھے کھڑا ہے تو چرچل نے انتظام کیا ہے کہ اگلی رات بی بی سی اپنی نشریات ختم کرتے وقت ’’اس وقت رات کے ۱۲ بجے ہیں‘‘ کی بجائے ’’اس وقت رات کے ٹھیک ۱۲ بجے ہیں‘‘ کہے گا۔
شاہ کی تسلی تو ہو گئی، مگر انہوں نے جواب میں صاف صاف کہہ دیا کہ وہ کوئی مہم جوئی نہیں کرنا چاہتے اور مصدق کو چھیڑنا بھڑوں کے چھتے کو چھیڑنے کے مترادف ہو سکتا ہے۔
روزویلٹ نے شاہ کا یہ رنگ ڈھنگ دیکھ کر انگلیاں ٹیڑھی کر لیں۔ انہوں نے شاہ کو دو ٹوک الفاظ میں بتایا کہ اگر مصدق کو عہدے پر برقرار رہنے دیا گیا تو ایران ’’دوسرا کوریا‘‘ بن جائے گا اور مغربی طاقتیں کسی صورت میں ایسا نہیں ہونے دیں گی، اور اگر شاہ نہ مانے تو روزویلٹ اسی وقت ایران سے چلے جائیں گے اور ’’کوئی اور راستہ‘‘ اختیار کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ کوریا کے ذکر میں یہ دھمکی پوشیدہ تھی کہ ابھی پچھلے ہفتے ہی امریکا اور کوریا کی جنگ ختم ہوئی تھی، جس میں ۲۰ سے ۳۰ لاکھ لوگ ہلاک اور کروڑوں متاثر ہوئے تھے۔ اس ڈنڈے کے ساتھ روزویلٹ نے گاجر بھی پیش کر دی۔ اگر شاہ اس منصوبے میں ان کا ساتھ دیں تو بطور شاہ ان کے اختیارات میں اضافہ کر دیا جائے گا اور وہ مطلق العنان حکمران بن کر دھڑلے سے ڈنڈے کے زور پر ملک چلا سکیں گے اور کوئی پارلیمان یا جمہوری مجلس ان کے رنگ میں بھنگ ڈالنے کے قابل نہیں رہنے دی جائے گی۔
سی آئی اے کو معلوم تھا کہ ایران میں مُلّا کتنے طاقتور ہیں اور انہیں اعتماد میں لیے بغیر کوئی کام ممکن نہیں۔ اس وقت ایران کے چوٹی کے آیت اللہ مُلّا مصطفی کاشانی تھے جو شعلہ بیان مقرر تھے اور ملک کے طول و عرض میں ان کے ماننے اور چاہنے والے موجود تھے۔ اس کے علاوہ وہ مجلس کے اسپیکر بھی تھے اور تیل کی صنعت کو قومیانے کے بڑے حامی اور استعمار مخالف رہنما تھے۔ روزویلٹ نے ان کی خدمت میں دس ہزار ڈالر (آج کے ۹۷ ہزار ڈالر) کا تحفہ بھیجا تو مُلّا کاشانی کو یو ٹرن لے کر مصدق کے خلاف تند و تیز مہم شروع کرنے میں دیر نہیں لگی۔
امریکی پے رول پر ایک اور با رسوخ مُلّا آیت اللہ محمد بہبہانی بھی تھے۔ ایرانی محقق علی رہنما نے اپنی کتاب Coup in Iran behind the 1953 میں لکھا ہے کہ آیت اللہ بہبہانی کے ذریعے بلوائیوں میں ڈالر تقسیم کیے جاتے تھے، اس حد تک کہ ان ڈالروں کو ’بہبہانی ڈالر‘ کہا جانے لگا۔
امریکی اور برطانوی ایجنٹوں نے اسی دوران کئی اعلیٰ فوجی افسران کو بھی خرید لیا تھا۔ تہران پولیس کے سربراہ جنرل افشارطوس کے ہاتھ ان بکاؤ ایرانی حکام کی فہرست آ گئی، لیکن اس سے پہلے کہ وہ حرکت میں آتے، برطانوی ایجنٹوں نے انہیں قتل کروا دیا۔ افشارطوس پر بدترین تشدد کیا گیا، پھر انہیں پھانسی بھی دی گئی اور گولی بھی ماری گئی۔ اس کے بعد ان کی تشدد زدہ لاش شہر کے ایک چوک میں پھینک دی گئی۔ یہی نہیں، اخباروں نے ان کی بری طرح سے مسخ لاش کی تصویر پہلے صفحے پر شائع کی تاکہ ایک طرف دہشت پھیلے تو دوسری طرف ڈاکٹر مصدق کی حکومت پر اعتماد ختم ہو جائے کہ جو حکومت اپنے پولیس چیف کو نہیں بچا سکتی، وہ عام شہریوں کو کیا تحفظ دے گی۔
ایم آئی ۶ کے اہلکار نورمن ڈاربی شائر نے خود ’اینڈ آف ایمپائر‘ نامی ٹیلی ویژن سیریز کے لیے ۱۹۸۵ء میں ایک انٹرویو میں اعتراف کیا تھا کہ افشارطوس کو ایم آئی ۶ نے قتل کیا تھا۔ یہ ڈاربی شائر کوئی چھوٹے موٹے اہلکار نہیں بلکہ ایم آئی ۶ کی جانب سے آپریشن ایجیکس کے سربراہ تھے اور انہی نے شہزادی اشرف کو ایران جانے پر مائل کیا تھا۔
آدھی رات کی ملاقات میں روزویلٹ نے رضا شاہ کو بتایا کہ اس وقت ایران میں آپریشن ایجیکس پورے زور و شور سے جاری ہے اور اس کے مختلف مراحل ہیں۔
پہلا: مسجدوں، اخباروں اور سڑکوں پر مصدق کے خلاف پروپیگنڈا جاری ہے تاکہ ان کی مقبولیت میں دراڑیں ڈالی جاسکیں۔
دوسرا: شاہی فوجی دستے مصدق کی برطرفی کا فرمان لے کر ان کے پاس جائیں گے۔
تیسرا: جنرل فضل اللہ زاہدی شاہ کی طرف سے بطور وزیرِ اعظم تقرری قبول کر لیں گے۔
روزویلٹ نے شاہ کو بتایا کہ مصدق کی برطرفی کا فرمان تیار ہے، شاہ نے صرف اس پر دستخط کرنے ہیں، بقیہ ساری تیاریاں مکمل ہیں۔
شاہ نے سوچ بچار کی مہلت مانگی اور روزویلٹ کو اگلی رات دوبارہ یہیں آنے کو کہا۔ اس کے بعد روزویلٹ اور شاہ کی کئی ملاقاتیں اسی وقت اور اسی جگہ ہوئیں اور بالآخر شاہ دستخط کرنے کے لیے تیار ہو گئے، لیکن انہوں نے روزویلٹ کے سامنے ایک شرط رکھ دی، وہ دستخط کرتے ہی تہران سے نکل کر سیدھے شمالی شہر رامسر چلے جائیں گے، جہاں ایک طیارہ تیار کھڑا ہو گا تاکہ ’’اگر حالات خراب ہو گئے تو ملکہ اور میں بغداد کے لیے پرواز کر جائیں‘‘۔ شاہ اگلے روز فرمان پر دستخط کیے بغیر رامسر چلے گئے۔ تاہم فرمان وہاں پہنچایا گیا اور انہوں نے اس پر دستخط کر دیے۔
سی آئی اے اور ایم آئی ۶ کی مشترکہ سرتوڑ محنت ٹھکانے لگی۔ اب آپریشن ایجیکس کے اگلے مرحلے پر عمل کا وقت آ گیا تھا۔
۱۵؍اگست کی صبح کرنل نعمت اللہ نصیری فرمان لے کر ڈاکٹر مصدق کی رہائش گاہ پہنچے۔ ڈاکٹر مصدق نے یہ کہہ کر فرمان مسترد کر دیا کہ شاہ کے پاس انہیں معزول کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
August 19, 1953: Massive protests broke out across Iran, leaving almost 300 dead in firefights in the streets of Tehran. Iranian Prime Minister Mohammad Mossadegh was soon overthrown in a coup orchestrated by the CIA and British intelligence. The Shah was reinstalled as Iran’s leader.
تاہم جنرل زاہدی نے اعلان کر دیا کہ مصدق معزول ہو چکے ہیں اور اس وقت ملک کے اصل وزیرِ اعظم وہ ہیں۔ لیکن اس دوران مقبول رہنما مصدق کی حمایت میں شہری سڑکوں پر نکل آئے۔ جگہ جگہ جھڑپیں چھڑ گئیں۔ گلی گلی بلوے ہونے لگے۔ امریکی ڈالروں میں لتھڑے ہوئے آیت اللہ محمد بہبہانی کی قیادت میں مذہبی جلوس نکلنے لگے۔ چار دن تک ملک افراتفری کی دھند میں لپٹا رہا۔ لائنس یافتہ ہواباز محمد رضا شاہ پہلوی، جو رامسر کی محفوظ دوری سے واقعات پر نظر رکھے ہوئے تھے، گڑبڑ سونگھتے ہی اپنی دوسری شاہ بانو ثریا اسفندیاری بختیاری کے ہمراہ خود جہاز اڑا کر پہلے بغداد اور پھر وہاں سے اٹلی بھاگ کھڑے ہوئے۔
تیسری دنیا کے ملکوں کی فوجیں اپنے ملکوں میں ایسی غیریقینی صورتحال برداشت نہیں کر سکتیں، اس لیے فوجی بیرکوں سے نکل آئے، اور ۱۹؍اگست کو ٹینکوں کے ایک دستے نے ڈاکٹر مصدق کے گھر کو گھیرے میں لے لیا۔ یوں ایرانی وزیراعظم معزول ہوئے اور ایرانی جمہوریت کی کونپل پنپنے سے پہلے ہی کچل دی گئی۔
شاہ، جو اس وقت روم کے لگڑری ہوٹل ’ڈولچی ویٹا‘ میں سی آئی اے کے خرچ پر بیٹھے حالات کا جائزہ لے رہے تھے، بازی پلٹتے دیکھ کر ۲۲؍اگست کو خود بھی پلٹ آئے۔ ہوائی اڈے پر اور اڈے سے شہر جانے والی سڑک پر سیکڑوں مداحوں نے ان کا والہانہ استقبال کیا، شاہ زندہ باد کے نعرے لگائے اور ان کی شاہی گاڑی پر گلاب کی پتیاں نچھاور کیں۔ کہا جاتا ہے کہ سب نہیں تو اکثر حاضرین کی مٹھیاں گرم تھیں۔ سی آئی اے کے ڈائریکٹر ایلن ڈلس شاہِ ایران کے ہمراہ تھے۔
جنرل زاہدی نے نئے وزیرِ اعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ ڈاکٹر مصدق پر غداری کا مقدمہ چلا، اور ظاہر ہے غداری کی سزا موت ہوتی ہے، سو ملی، مگر شاہ نے از راہِ ہمدری اسے تین سال کی قیدِ تنہائی اور بعدازاں گھر پر عمر بھر کی نظربندی میں بدل دیا۔
کرمٹ روزویلٹ کا ایران میں کام ختم ہو گیا تھا۔ وہ کسی فاتح سپہ سالار کی سی شان سے امریکا پہنچے اور وائٹ ہاؤس میں صدر آئزن ہاور کو اس کامیاب آپریشن پر بریفنگ دی۔ فائیو اسٹار جنرل آئزن ہاور، جو واقعی سپہ سالار تھے اور دوسری جنگِ عظیم کے دوران یورپ میں اتحادی فوج کے سپریم کمانڈر رہ چکے تھے، اور انہوں نے اس جنگ کے دوران لاکھوں نہیں، کروڑوں لوگوں کو مرتے اور ملکوں کو کھنڈر بنتے دیکھا تھا، اس کامیابی پر حیران اور متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ انہیں اچنبھا تھا کہ جو کام فوجیں کمر توڑ جانی و مالی نقصان اٹھا کر کرتی ہیں، وہ سی آئی اے نے اتنے کم خرچ میں ایک بھی امریکی جانی نقصان کے بغیر کر دکھایا۔ گویا اردو محاورے کی رو سے، ’’ہینگ لگے نہ پھٹکری، رنگ بھی چوکھا آئے‘‘۔
اگلے برس سی آئی اے نے گوئٹے مالا کے صدر ہاکوبو آربینز کی جمہوری حکومت کا تختہ اسی آزمودہ فارمولے کے تحت اُلٹا، پھر پیراگوئے کی باری آئی اور پھر، اور پھر اور پھر۔۔
اور ہاں، ہم اینگلو ایرانین آئل کمپنی کا تو بتانا ہی بھول گئے۔ یہ صبح کی بھولی اگلے سال شام ڈھلے ہی ایران لوٹ آئی، البتہ اب کی بار اس نے ایک کنسورشیم کا چولا پہن کر اپنا نام ’برٹش پیٹرولیم‘ رکھ لیا تھا۔
برٹش پیٹرولیم آج بھی قائم و دائم ہے۔ فرق صرف اتنا پڑا ہے کہ اس کی سابقہ شاہانہ چمک دمک برقرار نہیں رہی، پھر بھی اس کا حالیہ سالانہ ریونیو ۲۸۲؍ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔
(بحوالہ: ’’انڈی پنڈنٹ اردو ڈاٹ کام‘‘۔ ۲۹ نومبر ۲۰۲۰ء)
Leave a Reply