
سیاسی آزادی کے حوالے سے چند ایک اقدامات کے باوجود عرب دنیا کی حکومتیں جمہوریت اور احتساب کے عمل کے حوالے سے اصلاحات نافذ کرنے میں اور سیاسی نظام کو مستحکم کرنے میں ناکامی سے دوچار ہوئی ہیں یا ایسا کرنے سے گریزاں رہی ہیں۔ عالمی بینک کے اعلیٰ افسر مروان معاشر نے اپنی کتاب ’’دی عرب سینٹر‘‘ میں عرب دنیا میں حکمرانی کے طور طریقوں پر بحث کرتے ہوئے اشرافیہ کے برقرار رہنے کی وجوہ واضح کی ہیں۔ ’’دی عرب سینٹر‘‘ سے اقتباسات پیش خدمت ہیں:۔
قدامت پسند اور ’’ترقی پسند‘‘ عرب حکومتوں نے ہمیشہ اپنے ہاں سیاسی اصلاحات کا راستہ روکنے کی کوشش کی ہے۔ سیاسی آزادی کو یقینی بنانے والے چند ایک اقدامات ضرور کیے گئے ہیں تاہم ایسے شفاف اقدامات اب تک نہیں کیے گئے جن سے حقیقی سیاسی آزادی اور سول اور سیاسی ارتقا کو یقینی بنانا اور جمہوریت کو مستحکم کرنا ممکن ہو۔
سیاسی آزادی کو ترجیح نہ دینے کے حوالے سے عرب حکومتیں تین وجوہ بیان کرتی ہیں۔ سیاسی آزادی کو یقینی بنانے سے گریز ہی کے باعث آج دنیا بھر میں جمہوری اقدار کے فروغ کے حوالے سے عرب معاشرے نمایاں پستی کا شکار ہیں۔ بیشتر عرب ریاستیں سیاسی آزادی کے معاملے کو عرب اسرائیل تنازع کے ختم کیے جانے تک موخر رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ ان کا استدلال ہے کہ اس ایک تنازع نے دیگر تمام معاملات کو سرد خانے میں ڈال رکھا ہے یا ثانوی حیثیت دینے پر مجبور کر رکھا ہے۔ یہ استدلال کس قدر کمزور ہے، اس کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔ عرب دنیا میں فلسطین کی آزادی کو سب سے بڑے کاز کا درجہ دیا جاتا ہے۔ پندرہ سے بیس لاکھ فلسطینیوں کی آزادی کو کاز بنانا اور کروڑوں افراد کے سیاسی اور معاشی مقدر کو نظر انداز کرنا کہاں کی دانش مندی ہے؟ عرب دنیا کے قائدین نے جمہوریت کے لیے آواز بلند کرنے کو اس وقت تک کے لیے موخر کردیا ہے، جب عرب اسرائیل تنازع حل ہوجائے، سب کے پیٹ بھرے ہوں اور ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں رقص کر رہی ہوں۔ چار پانچ دہائیوں سے عرب دنیا کی اپوزیشن بھی عرب اسرائیل تنازع کی بنیاد پر کام کرتی آئی ہیں۔ کسی بھی دوسرے مسئلے اور بالخصوص سیاسی آزادی کے معاملے کو وہ خاطر خواہ اہمیت نہیں دیتیں۔ عوام کے جذبات کا بھی انہیں بخوبی اندازہ ہے۔ اپوزیشن جماعتیں چونکہ عرب اسرائیل تنازع کو سب سے زیادہ اہمیت دیتی رہی ہیں، اس لیے حکمراں طبقے کو کبھی کوئی بڑی پریشانی لاحق ہی نہیں ہوئی اور حکمران یہ سوچ کر خوش ہوتے رہے ہیں کہ جب کوئی جمہوریت کے لیے آواز بلند کر ہی نہیں رہا تو اس حوالے سے سوچنے کی بھی کیا ضرورت ہے۔
۱۹۷۹ء میں ایرانی انقلاب کے بعد مشرق وسطیٰ میں سیاسی بیداری کی لہر پیدا ہوئی۔ عرب ممالک میں سیاسی کلچر کے فروغ پانے کی ابتدا ہوئی۔ جب حکومتوں کو خطرہ محسوس ہوا تو انہوں نے سیاسی آزادی کی راہ میں دیواریں کھڑی کیں اور اس کا سبب یہ بتایا کہ سیاسی جماعتوں کے فروغ پانے سے اسلامی انتہا پسند عناصر کے مستحکم ہونے کا خدشہ ہے! اسلام کے نفاذ کی حامی بیشتر جماعتیں مسلح ہونے کے ساتھ ساتھ انقلابی سوچ کی حامل بھی ہیں۔
عرب دنیا کے بیشتر قائدین نے اسلام کے نفاذ کی حامی سیاسی جماعتوں کو کسی بھی قیمت پر روکنے کو ناگزیر قرار دیا۔ الجزائر میں ۱۹۹۲ء کے عام انتخابات میں اسلامی جماعت نے کامیابی حاصل کی، تاہم اسے حکومت بنانے سے روک دیا گیا۔ اس حوالے سے مغرب نے بھی خاصا منفی کردار ادا کیا۔ اسلامی جماعت کو حکومت سازی سے روکنے کا نتیجہ ملک کے عدم استحکام کی شکل میں برآمد ہوا۔ خانہ جنگی ہوئی تو لاکھوں افراد موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ انتخابات جیتنے والی جماعت کو حکومت سازی سے محروم رکھنے کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ملک کا وجود ہی داؤ پر لگ گیا۔
عرب دنیا میں معاشی استحکام بھی محض خواب رہا ہے۔ حکومتیں کوشش کرتی رہی ہیں کہ لوگ خوشحال ضرور ہوں مگر اتنے مستحکم کبھی نہ ہوں کہ دو وقت کی روٹی کے حصول سے بے نیاز ہوکر سیاسی آزادی کے لیے آواز بلند کریں۔ دنیا بھر میں معاشی اعتبار سے مستحکم متوسط طبقہ ہی حقیقی سیاسی استحکام کی راہ ہموار کرتا ہے۔ عرب دنیا کے قائدین کی سوچ یہ تھی کہ سیاسی آزادیوں سے قبل معاشی آزادی ضروری ہے۔ اس حقیقت کو نظر انداز کردیا گیا کہ کسی بھی حکومتی اور ریاستی ڈھانچے میں معاشی استحکام کو اسی وقت یقینی بنایا جاسکتا ہے، جب چیک اینڈ بیلنس کے لیے مضبوط ریاستی ادارے موجود ہوں اور احتساب کا عمل بھرپور انداز سے جاری رکھنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ خود مختار عدلیہ اور آزاد میڈیا بھی اس کے لیے ناگزیر ہیں۔ جن عرب ممالک میں معاشی اصلاحات نافذ کی گئی ہیں ان میں بھی متعلقہ ادارے اور چیک اینڈ بیلینس نہ ہونے کے باعث بد انتظامی اور کرپشن کو خوب ہوا ملی ہے اور اس کے نتیجے میں ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کار کسی بھی بڑے منصوبے میں دلچسپی لینے سے گریز کرتے رہے ہیں۔ اس صورت حال نے معاشی استحکام اور متوسط طبقے کے ابھرنے کی راہ مسدود کی ہے۔ ۲۰۰۴ء میں اقوام متحدہ نے عرب دنیا کی مجموعی ترقی کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں بتایا ’’عرب دنیا میں ’آزادی سے قبل روٹی‘ کا نعرہ مقبول رہا ہے، مگر سچ یہ ہے کہ بیشتر عرب باشندوں کی نظر میں دونوں ہی چیزیں داؤ پر لگی ہوئی ہیں‘‘۔
بیشتر عرب حکومتوں نے غیر اعلانیہ مجموعی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کے وجود کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ عرب حکومتیں سول سوسائٹی کے تصور سے متنفر دکھائی دیتی ہیں۔ انہیں ایسی کوئی بھی تنظیم اچھی نہیں لگتی جو انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرتی ہو۔
عرب دنیا کی سیاسی قیادت (یا سیاسی اشرافیہ) نے نوآبادیاتی دور کے خاتمے کی جدوجہد سے اب تک اس نکتے پر زور دیا ہے کہ عوام کی بہبود کے بارے میں وہ زیادہ جانتی ہے، عوام یا ان کے حقوق کے لیے کام کرنے والے غیر سیاسی عناصر میں اس کا درست اندازہ لگانے کی اہلیت نہیں! سوال انسانی حقوق کا ہو، جمہوریت کا یا پھر اسرائیل سے معاملات طے کرنے کا، ہر مقام پر روایتی سیاسی اشرافیہ نے اپنی اجارہ داری برقرار رکھنے کو ترجیح دی ہے۔ عالمی برادری نے عرب دنیا میں جمہوری کلچر کے فروغ کو روکنے کی شعوری کوششوں کی حمایت صرف اس لیے کی ہے کہ سیاسی کلچر کے پنپنے کی صورت میں عدم استحکام کی راہ بھی ہموار ہوسکتی تھی جبکہ تیل کی رسد یقینی بنائے رکھنے کے لیے قدرے آمرانہ نظام ناگزیر سا دکھائی دیتا تھا۔ تیل کی دولت نے خوشحالی کی راہ دکھائی تو بیشتر عرب باشندوں کو اس بات سے بہ ظاہر کچھ غرض نہ رہی کہ ملک میں کیسا سیاسی نظام کام کر رہا ہے اور کسی بھی سطح پر جمہوریت ہے بھی یا نہیں۔ عرب دنیا میں اگر جمہوریت پروان نہ چڑھ سکی یا اسے پروان چڑھنے سے روکا گیا تو اس کا بنیادی سبب یہ نہیں تھا کہ خطے کی حکومتیں ایسا نہیں چاہتی تھیں۔ خطے سے باہر کے ممالک بھی نہیں چاہتے تھے کہ عرب ممالک میں جمہوری کلچر پروان چڑھے۔ عوام کی رائے کے مطابق فیصلے کیے جانے کی صورت میں ان کے مفادات بُری طرح متاثر ہوسکتے تھے۔
نائن الیون کے واقعات نے مغربی دنیا کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ عرب دنیا میں سیاسی جمود ان کے مفادات کے لیے خطرہ تھا۔ عرب دنیا کے لوگ اپنی حکومتوں سے شدید نفرت کرنے لگے تھے اور اس کے اظہار کے لیے وہ مغربی دنیا کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے درپے تھے کیونکہ ان کا یہ خیال تھا کہ ان کی حکومتوں کو مغربی دنیا اپنے مفادات کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ مغربی دنیا آج عرب دنیا میں سیاسی اور معاشی اصلاحات کی حمایت کر رہی ہے تو اس کا سبب صرف یہ ہے کہ اسے اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کی فکر لاحق ہے۔ امریکا نے عرب دنیا میں سیاسی اصلاحات کی حمایت شروع کردی ہے تاہم بیشتر عرب باشندے اس کی نیت پر بھروسا کرنے کو تیار نہیں۔ اسرائیل کی جانب جھکاؤ رکھنے کے باعث وہ امریکا کو احترام کی نظر سے نہیں دیکھتے۔ اور انہیں اس بات کا بھی اندازہ ہے کہ امریکا عرب دنیا میں سیاسی اصلاحات یا جمہوریت کا فروغ نہیں چاہتا بلکہ نائن الیون کے بعد اپنے مفادات کو تحفظ دینے کا خواہش مند ہے۔ اور لوگوں کا اندازہ کچھ غلط بھی نہیں۔
سیاسی اصلاحات کے واقع نہ ہونے سے عرب دنیا کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایک طرف حکمراں طبقہ مزید بدعنوان ہوتا گیا ہے اور دوسری جانب حقیقی قوم پرست اور مفادِ عامہ کی علم بردار، غیر مذہبی سیاسی جماعتوں کے پنپنے کی راہ مسدود ہوتی گئی ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عرب باشندوں کو اب تک جمہوریت سے محروم رکھا گیا ہے۔ اب تک کوئی بھی گروپ چونکہ خطرہ نہیں بن سکا اس لیے عرب دنیا کے حکمراں طبقے کے بیشتر معاملات شدید غیر شفاف ہیں۔ طاقت کو چند ہاتھوں نے دبوچ رکھا ہے۔ سیاسی وراثت نام کی کوئی چیز اب تک پیدا نہیں ہوئی۔ پورے خطے کے عوام کے مفاد کا سوچنا کسی کے مزاج کا حصہ نہیں۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے ۱۵۸ ممالک کی فہرست میں فلسطینی اتھارٹی سمیت ۱۲ عرب ریاستوں کو ۷۰ ویں نمبر پر رکھا ہے۔ آزاد پریس، مضبوط اپوزیشن اور متحرک سول سوسائٹی کی عدم موجودگی میں عرب دنیا کا حکمراں طبقہ مستحکم ہوتا گیا ہے۔ اس طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے رات دن باہمی تعلقات کو مستحکم بنانے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔ عوام کے مفاد کی بات کرنے والوں کا گلا گھونٹنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو قربان کرنا عرب حکمراں طبقے کی عمومی صفت ہے اور حقیقی صلاحیتوں کی بنیاد پر آگے بڑھنے والوں کی شدید حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ قومی جمہوری سیاسی جماعتوں کو پنپنے سے روکا گیا ہے، جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سیاسی اور معاشرتی خلا کو خود حکمراں طبقے نے انتہا پسند مذہبی عناصر کی مدد سے ختم کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ عرب معاشرے میں انتہا پسند مذہبی جماعتوں کو حکمراں طبقے نے پوری توجہ کے ساتھ پروان چڑھایا ہے۔ کوشش کی گئی ہے کہ ان جماعتوں کے ذریعے چند ایک معاشرتی خدمات کی فراہمی کا بھی اہتمام کیا جائے تاکہ عوام کے دلوں میں ان کے لیے احترام بڑھ جائے۔ مذہبی جماعتوں نے ریاست کی مدد سے سیاسی خامیوں کو دور کرنے کا تاثر دیا ہے۔ عوام کو ریاستی امور میں شریک کرنے کی راہ ہموار کرنے کے بجائے ان جماعتوں نے یہ تاثر مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے کہ متعلقہ حکومتیں جو کچھ کر رہی ہیں وہی ان کے لیے بہتر ہے اور یہ کہ انہیں حکومتی و انتظامی امور میں شرکت کے بارے میں کم ہی سوچنا چاہیے۔
۱۹۸۰ء کی دہائی کے وسط اور ۱۹۹۰ء کی دہائی کے اوائل میں چند عرب حکومتوں نے سیاسی اصلاحات کی جانب مائل ہونے کا عندیہ دیا، تاہم تب تک اسلامی جماعتیں اس قدر مضبوط ہوچکی تھیں کہ دوسری کسی بھی قسم کی سیاسی جماعتوں کے لیے پنپنے کی گنجائش کم ہی رہ گئی تھی۔ جمہوری اقدار کی بات کرنے والی سیاسی جماعتوں کی حوصلہ شکنی ہر سطح پر کی جاتی رہی ہے۔ عوام کو اس قدر ڈرایا دھمکایا گیا ہے کہ اب وہ کوئی بھی تحریک شروع کرنے سے ڈرتے ہیں۔ اور عالمی برادری بھی ان کا ساتھ دینے سے گریز کرتی ہے۔ اردن کی ایک جامعہ کے سینٹر فار اسٹریٹجک اسٹڈیز کے سروے کے مطابق ۷۵ فیصد سے زائد اردنی باشندے اپنی حکومت کی کسی بھی پالیسی یا حکمت عملی پر تنقید سے گریز کرتے ہیں، کیونکہ انہیں اس بات کا یقین ہے کہ ایسا کرنے سے ان کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے! ۹۴ فیصد رائے دہندگان نے کہا کہ ان کا کسی بھی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں اور وہ کسی بھی سیاسی جماعت سے وابستگی اختیار کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ ان حالات نے اردن ہی نہیں، پوری عرب دنیا میں سیاسی اصلاحات کی راہ مسدود کر رکھی ہے۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ نوآبادیاتی دور کے بعد قوم پرست سیاسی جماعتوں نے جمہوری کلچر اپنانے کی کوشش نہیں کی اور چند افراد تمام فوائد بٹورنے میں مصروف ہوگئے۔ حقیقی قومی تعمیر نو کے بارے میں سوچنے والے خال خال تھے۔ ان سیاسی جماعتوں کا استدلال یہ تھا کہ قومی تعمیر نو کو جمہوریت سمیت تمام دوسرے آدرشوں پر فوقیت حاصل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قومی تعمیر نو کے لیے حقیقی جمہوریت کا ہونا لازم ہے۔ مصر، شام، عراق، الجزائر، تیونس اور دیگر عرب ریاستوں میں نو آبادیاتی دور کے خاتمے پر قومی تعمیر نو کو جمہوریت پر ترجیح دی گئی اور عرب اسرائیل تنازع کو بھی دیگر امور کے بالائے طاق رکھنے کا جواز بنایا گیا۔ ان تمام سیاسی قوتوں کو پنپنے سے روکا گیا جو قوم پرستوں اور مطلق العنانیت کے حامیوں کے لیے خطرہ بن سکتی تھیں۔ آزادی حاصل کرنے کے بعد ابتدائی دور میں چند ایک اصلاحات ضرور نافذ کی گئیں تاکہ لوگ مطمئن ہوجائیں۔ زرعی اصلاحات کے علاوہ خواتین کو حقوق دینے سے متعلق قانون سازی کی گئی۔ مگر یہ سب دکھاوا تھا۔ جب پالیسیوں میں خامیوں کی نشاندہی کی گئی تو غداری کے الزامات عائد کیے گئے اور بہت سے مخالفین کو منحرفین قرار دے کر پھانسی کے پھندے کی نذر کردیا گیا۔ عوام کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والے ہر فرد کو ’’عرب کاز‘‘ کا مخالف قرار دے دیا جاتا تھا۔ سیاسی اعتبار سے تنوع کو ایک بُرا لفظ گردانا جاتا تھا۔ متنوع سیاسی آوازوں کے پنپنے کی راہ مسدود کی گئی۔ عرب دنیا میں بادشاہی اور جمہوری مزاج رکھنے والی ریاستوں نے مجموعی طور پر عوام کو اقتدار سے دور رکھنے کی بھرپور کوشش کی۔ نظام کو مستحکم کرنے کے بجائے قیادت کو توانا کیا جاتا رہا۔ شخصی طلسم کی حدود سے باہر پنپنے والے نظریات اور نظام کو کچلنے میں تاخیر یا بخل سے کام نہیں لیا گیا۔ قوم پرست جماعتوں نے آزادی اور جمہوریت کے نام پر جو کچھ کیا وہ سب محض زبانی جمع خرچ تھا۔ قوم پرست جماعتوں نے اقتدار کی گنگا میں جی بھر کے اشنان کیا۔ آزادی کے نام پر عوام کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا اور جمہوریت کے نام پر نرے غیر جمہوری اقدامات کی چوکھٹ پر تمام عوامی مفادات قربان کردیے گئے۔ اس عمل کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ آج کی عرب ریاستیں سیاسی آدرشوں سے محروم ہیں اور ان میں جدید ریاست والی باتیں کرنے والے خال خال ہیں۔ صحت مند سیاسی، معاشی اور معاشرتی رجحانات کو توانا اور متوازن رکھنے اور اقتدار کو چند ہاتھوں تک مرتکز رکھے جانے سے روکنے والا کوئی بھی نظام عرب دنیا میں اب تک پنپ نہیں سکا۔ عرب دنیا میں قائم سیاسی نظام ترقی کو یقینی بنانے یا عرب اسرائیل تنازع کا پائیدار حل تلاش کرنے میں بھی یکسر ناکام رہا ہے۔ اس کا نتیجہ ایسی اسلامی جماعتوں کے پنپنے کی شکل میں برآمد ہوا جو انقلابی نظریات پر یقین رکھتی ہیں اور علاقائی تنازعات کا اپنے نظریات کے مطابق حل تلاش کرنا چاہتی ہیں۔
عرب دنیا لسانی اور مذہبی تنوع کا مرقع ہے۔ اس میں بسنے والے انسانوں کی زبان، ثقافت اور تاریخ یکساں ہے۔ ہر مسلک اور مشرب کے مسلم، عیسائی اور یہودی اس خطے میں آباد ہیں۔ اختلافات کو طاقت کا ذریعہ بنانے کے بجائے عوام کو سکھایا جائے کہ مشترک عرب کاز کے لیے تمام اختلافات کو یکسر نظر انداز کردیا جائے یا ضروری ہو تو کچل دیا جائے۔ بیشتر عرب باشندے یکسوئی کی سوچ رکھتے ہیں۔ وہ اپنے مخصوص مفادات سے ہٹ کر کسی بھی چیز کا تصور تک نہیں کرسکتے۔ کسی بھی معاملے میں تنقیدی انداز سے سوچنے کی تعلیم دی گئی نہ حوصلہ افزائی کی گئی۔ سچائیوں کے متعلق سمجھنے کے بجائے ہمیشہ قطعی گردانا گیا۔ لوگوں کو سکھایا گیا ہے کہ کسی بھی لیڈر، جماعت یا نظام سے محبت ہی وطن کی محبت ہے۔ اس سے ہٹ کر، اختلافات کو ہمیشہ غداری کے مترادف سمجھا گیا ہے۔
{}{}{}
Leave a Reply