
مجھے افسوس رہے گا کہ میرے جذبات کی ترجمانی میری حکومت اور میرے وزیر اعظم نے نہیں کی۔ یہ ترجمانی ترکی کی حکومت اور ترکی کے صدر نے کی۔ ہر معاملے میں ترکی کی طرف مقلدانہ نظر سے دیکھنے والے حکمرانوں نے، نہیں معلوم کیوں اس معاملہ میں ایردوان کی تقلید پسند نہیں کی۔
حسینہ واجد کا مقدمہ کسی قانون، کسی اخلاق اور کسی سفارتی میدان میں ثابت نہیں۔ دنیا کا ہر ذمہ دار فورم اس ٹریبونل کو وحشت کا کھیل قرار دے چکا۔ ’’انٹرنیشنل نیو یارک ٹائمز‘‘ جیسے اخبارات ایک سے زیادہ بار اس کی مذمت کر چکے۔ پھر یہ نومبر ۱۹۷۴ء کے سہ فریقی معاہدے کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ یوں سفارتی آداب سے بھی متصادم ہے۔ اس کے باوجود جماعت اسلامی نے پیشکش کی تھی کہ اگر قابل اعتماد عدالتی نظام جنگی جرائم کو زیر سماعت لاتا ہے‘ تو وہ اس کا سامنا کرنے پر بھی آمادہ ہے۔ صد افسوس ہے کہ حسینہ واجد نے انتقام کا راستہ اپنایا‘ اور بہت سے نیک لوگوں کو اپنی نفرت کی بھینٹ چڑھا دیا۔
سچ یہ ہے کہ یہ مقدمہ اگر بنتا تھا تو ان لوگوں کے خلاف جنہوں نے اپنے ملک، پاکستان کے خلاف، ایک دشمن ملک بھارت کے ساتھ مل کر سازش کی‘ اور اس کے دو حصے کر دیے۔ میں سیاسی جدوجہد کی بات نہیں کر رہا، مکتی باہنی کا ذکر کر رہا ہوں، جو ایک مسلح گروہ تھا اور جس کے افراد کو بھارت میں تربیت دی گئی۔ جنہوں نے عبدالمالک کو ڈھاکا یونیورسٹی میں شہید کیا‘ اور جنہوں نے پلٹن میدان ڈھاکا میں جماعت اسلامی کے پُرامن جلسے پر حملہ کیا‘ اور بہت سے بے گناہوں کو مار ڈالا۔ یحییٰ خان کا کردار بھی یقیناً بہت شفاف نہیں تھا لیکن یہ کسی صورت اس بات کا جواز نہیں بنتا کہ اپنی فوج کے خلاف کسی دوسرے ملک سے مدد لی جائے۔
جماعت اسلامی مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی کے خلاف تھی۔ ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں عوامی لیگ کامیاب ہوئی تو پروفیسر غلام اعظم صاحب نے شیخ مجیب الرحمن کو مبارک باد کا پیغام بھیجا‘ اور صدر یحییٰ خان سے مطالبہ کیا کہ اقتدار اکثریتی جماعت کے حوالے کیا جائے۔ فوجی کارروائی کی مخالفت کی۔ ۱۴؍ اگست ۱۹۷۱ء کو ڈھاکا یونیورسٹی کے کرزن ہال میں ایک جلسہ ہوا‘ جس میں پروفیسر صاحب نے فوجی ایکشن پر تنقید کی‘ اور اسے روکنے کا مطالبہ کیا۔ یحییٰ خان نے ڈھاکا جا کر جب سیاسی راہنماؤں سے ملاقات کی تو امیر جماعت اسلامی ڈھاکا خرم مراد نے ان سے کہا کہ ’’اگر طاقت سے اصلاح ہوتی تو اللہ تعالیٰ پیغمبروں کے بجائے فیلڈ مارشل مبعوث کرتا‘‘ تاہم اگر کوئی جماعت بھارت سے مل کر اور مسلح جتھے بنا کر ملک کو دو ٹکڑے کرنا چاہے‘ تو اسے روکنے کے لیے ایک محب وطن جماعت کو جو کرنا چاہیے، جماعت نے وہی کچھ کیا۔
۲۰۱۰ء میں حسینہ واجد نے جس عدالتی عمل کا احیا کیا، اس کا آغاز شیخ مجیب الرحمن نے کیا تھا۔ ۱۹۷۲ء میں Collaborative Act کے تحت غیر فوجی اور ۱۹۷۳ء میں انٹرنیشنل کرائمز ایکٹ کے تحت فوجی اور نیم فوجی اداروں کے خلاف مقدمہ چلانے کا اختیار حکومت کو مل گیا۔ ایک لاکھ افراد گرفتار ہوئے‘ ۳۷۴۷۱ پر الزام عائد ہوا۔ ۳۴۶۲۳ کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا۔ بعد میں صرف ۲۸۴۸ کے خلاف مقدمات قائم ہو سکے۔ محض ۷۵۲ کو کسی سزا کا مستحق قرار دیا جا سکا۔ ان ۳۷۴۷۱ میں سے کسی ایک کا تعلق جماعت اسلامی سے نہیں تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جب یہ سب واقعات تازہ تھے، اس وقت جماعت اسلامی کا کوئی فرد جنگی جرم میں ملوث نہیں ملا‘ اور اچانک ۲۰۱۰ء میں ایسے مجرم حکومت کے ہاتھ لگے جن کی سزا موت سے کم نہیں ہو سکتی تھی۔
نومبر ۱۹۷۴ء کے سہ فریقی معاہدے کے بعد ۱۹۷۱ء کے واقعات کی بنیاد پر کوئی مقدمہ قائم کرنا غیر قانونی اور غیر اخلاقی تھا۔ اس کے باوجود جماعت اسلامی شفاف عدالتی عمل کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہی۔ پروفیسر خورشید احمد صاحب نے لکھا: ’’آزاد اور غیر جانب دار عدلیہ کے سامنے، ہمارے کارکن انصاف کے حصول کے لیے اور اپنی پاک دامنی ثابت کرنے کے لیے ہر لمحہ تیار ہیں‘‘۔ اس کے باوجود بنگلادیش میں جو کچھ ہوا، وہ سادہ ترین الفاظ میں انصاف، عدل اور انسانیت کا قتل ہے۔
ماضی کی تلخیوں کو فراموش کرنے ہی میں فائدہ ہے۔ سہ فریقی معاہدہ اسی لیے تھا۔ افسوس کہ حسینہ واجد نے تاریخ کے اس سبق کو نظر انداز کیا اور انتقام کا دروازہ کھول دیا۔ اس کے بعد بنگلا دیش میں جو آگ بھڑکے گی، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ حسینہ واجد تو قانون قدرت کے مطابق ایک انجام سے دوچار ہوں گی‘ اگر انہوں نے اپنی روش تبدیل نہ کی۔ سوال یہ ہے کہ اس معاہدے کی خلاف ورزی کے بعد، پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟ کیا ان لوگوں کے حق میں آواز اٹھانا سفارتی آداب کے خلاف ہے، جنہوں نے پاکستان کو متحد رکھنے کی کوشش کی؟ کیا ہمیں آگے بڑھ کر ان لوگوں کو ظلم سے نجات دلانے کے لیے کوئی اقدام نہیں کرنا چاہیے؟
میں جب ان سوالات کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہوں تو مجھے حکومت کے ذہنی افلاس پر شدید جھنجھلاہٹ ہوتی ہے۔ آدمی حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ یہ کیسی ایٹمی قوت ہے، جس کے پاس تین سال سے کوئی وزیر خارجہ نہیں۔ آج یہ ایسی وزارت بن چکی جو آفت آنے کے بعد، اس پر ردِ عمل کا اظہار کرتی ہے۔ پیش بینی کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ بنگلادیش میں یہ سلسلہ ۲۰۱۰ء سے جاری ہے۔ ۲۰۱۳ء میں عبدالقادر مُلّا کو شہید کیا گیا۔ مجھ جیسے بے شمار لکھاریوں پر اس وقت بھی یہ واضح تھا کہ انتقام کا سلسلہ ختم ہونے والا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہماری وزارتِ خارجہ کو یہ دکھائی نہیں دے رہا تھا؟ اس نے ان بے گناہوں اور پاکستان سے محبت کرنے والوں کے تحفظ کے لیے کیا کیا؟ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ کچھ نہیں کیا۔ میرا خیال ہے کہ اگر حکومتِ پاکستان کوشش کرتی تو اموات کے اس سلسلہ کو روکا جا سکتا تھا۔
پاکستان کیا کر سکتا تھا؟ پاکستان سفارتی دباؤ سے بنگلادیش حکومت کو روک سکتا تھا۔ جو اقدام ترکی نے کیا، اگر پاکستان وقت سے پہلے برادر ممالک سے مل کر لابنگ کرتا تو کئی اسلامی ممالک اس پر آمادہ ہو جاتے کہ بنگلا دیش سے اپنے سفیروں کو واپس بلائیں۔ میرا احساس ہے کہ اگر سعودی عرب، ترکی، کویت، ملائشیا اور پاکستان ہی مل کر بنگلا دیش حکومت کو سفیر واپس بلانے کی دھمکی دیتے تو ظلم کے اس سلسلہ کو روکا جا سکتا تھا۔ مگر جو حکومت اب تک خود اپنا سفیر واپس بلانے پر آمادہ نہیں، وہ یہ سب کچھ کیسے کرتی۔ افسوس در افسوس کہ وزیرِ اعظم کی زبان سے اس پر مذمت کا ایک لفظ تک نہیں نکلا۔ کیا ایردوان صاحب، نواز شریف صاحب سے کم سفارتی آداب سے واقف ہیں؟ کیا ان کے کوئی مفادات نہیں؟
مجھے افسوس ہے کہ آج نواز شریف صاحب نے میرے جیسے بہت سے پاکستانیوں کے جذبات کی ترجمانی نہیں کی۔ مطیع الرحمن نظامی صاحب! میں بطور پاکستانی آپ سے شرمندہ ہوں۔
(بحوالہ: روزنامہ ’’دنیا‘‘ کراچی۔ ۱۴؍مئی ۲۰۱۶ء)
Leave a Reply