ہماری فلسطینی ریاست کہاں ہے؟

گزشتہ ہفتے اسماعیل ہنیہ کا نئے فلسطینی وزیراعظم کی حیثیت سے تقرر عمل میں آیا۔ ’’نیوزویک‘‘ Lally Weymouth نے حماس کے اس رہنما کا غزہ پناہ گزیں کیمپ میں واقع ان کی رہائش جہاں وہ اپنی بیوی اور ۱۲ بچوں کے ساتھ رہائش پذیر ہیں‘ سے بذریعہ فون انٹرویو لیا ہے۔


لیلی: حماس کی اتنی بڑی کامیابی سے کیا آپ کو حیرت ہوئی؟

ہنیہ: حماس نے فاتح ہونے کے لیے ہی انتخابات میں حصہ لینے کی منصوبہ بندی کی تھی۔

لیلی: کیا یہ فتح ’فتح پارٹی‘ میں بدعنوانی کی وجہ سے ہوئی یا اس عوامی فلاح کے کاموں کے سبب ہوئی جو آپ لوگوں کے حق میں انجام دیتے رہے ہیں یا پھر حماس کی مسلح مزاحمت کے پروگرام کی فلسطینیوںکی عوامی حمایت کے اظہار کے طور پر ہوئی؟

ہنیہ: حماس کی فتح محض فلسطینی انتظامیہ کی بدعنوانیوں کے سبب نہیں ہے‘ حماس کا اپنا ایک ویژن اور پروگرام ہے اور یہی وجہ ہے جس کی بنا پر فلسطینی عوام نے حماس کا انتخاب کیا۔

لیلی: آپ کی مسلح مزاحمت کی دعوت کی بناء پر کتنے فیصد عوام نے آپ کو ووٹ دیا؟

ہنیہ: مزاحمت بہت سارے اسباب میں سے ایک سبب ہے‘ حماس کی فتح کا۔ لیکن حماس کا کام سیاسی‘ تعلیمی اور فلاحی میدانوں میں بھی ہے۔ ان تمام سرگرمیوں نے حماس کی فتح میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔

لیلی: فلسطینی صدر ابو ماذن اور عالمی برادری نے حماس سے معاملات کے لیے کچھ شرائط رکھی ہیں یعنی (۱)حماس اسرائیل کو تسلیم کرے (۲)اسرائیل کے پی ایل او کے ساتھ جو معاہدات ہیں‘ انہیں بھی وہ تسلیم کرے (۳)تشدد کا راستہ چھوڑ دے‘ کیا آپ ان شرائط کو ماننے کے لیے تیار ہیں؟

ہنیہ: ہم حیران اس پر ہیں کہ اس طرح کی شرائط ہم پر کیوں مسلط کی گئیں۔ وہ اس طرح کی شرائط و سوالات کا رخ اسرائیل کی جانب کیوں نہیں کر دیتے؟ کیا اسرائیل نے معاہدات کا احترام کیا ہے؟ اسرائیل نے عملاً تمام معاہدات کو نظرانداز کر دیا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ پہلے اسرائیل کو فلسطینیوں کا قانونی اور جائز حق تسلیم کرنے دیجیے۔ پھر ہم اس کے متعلق کوئی موقف اختیار کریں گے۔ کس اسرائیل کو ہمیں تسلیم کرنا چاہیے؟ ۱۹۱۷ء کے اسرائیل کو؟‘ ۱۹۳۶ء کے اسرائیل کو؟‘ یا ۱۹۴۸ء کے اسرائیل کو؟ یا ۱۹۵۶ء کے اسرائیل کو؟ یا ۱۹۶۷ء کے اسرائیل کو؟ کن سرحدوں کو اور کون سے اسرائیل کو؟ اسرائیل کو پہلے فلسطینی ریاست کو اور اس کی سرحدوں کو تسلیم کرنا ہے‘ پھر ہمیں معلوم ہو گا کہ ہم کس کے متعلق بات کر رہے ہیں۔

لیلی: اسرائیل دو ریاستوں پر مبنی حل پر راضی ہو گیا ہے‘ اس نے پی ایل او کے ساتھ معاہدات بھی کیے ہیں اور غزہ سے بھی پیچھے ہٹ گیا ہے۔ تو کیا حماس ان معاہدات میں سے کسی کو تبدیل کرنے کے لیے تیار ہے جو اس نے یاسر عرفات کے زمانے سے پی ایل او کے ساتھ کرنا شروع کیے تھے اور تاحال وہ جو ابو ماذن کے زمانے میں کرتا رہا ہے؟

ہنیہ: پہلی بات تو یہ ہے کہ غزہ سے پسپائی یکطرفہ فیصلے اور یکطرفہ منصوبے پر مبنی ہے۔ یہ اسرائیل کی فراخدلی اور کشادہ دلی کے نتیجے میں نہیں ہوئی ہے۔ کیا اسرائیل نے یہ تمام معاہدات ازخودکیے ہیں؟ ہم جنگ کے طلبگار ہیں اور نہ جنگ کا آغاز کرنے والے ہیں۔ ہمیں خون سے کوئی پیار نہیں ہے۔ ہم تشدد کے لامتناہی سلسلے کو بھی پسند کرنے والے نہیں۔ ہم ستم رسیدہ اور مظلوم لوگ ہیں‘ جن کے حقوق کو پامال کیا گیا ہے۔ اگر امن ہمیں ہمارے حقوق دلاتا ہے تو اس سے بہتر بات کیا ہو سکتی ہے۔

لیلی: کیا آپ اوسلو معاہدہ کو مانتے ہیں یاسر عرفات نے جس پر دستخط کیا تھا؟

ہنیہ: اسرائیل خود اوسلو معاہدہ سے مکمل طور پر پھر گیا تھا۔

لیلی: میں اسرائیل کی بات نہیں کر رہا ہوں۔ کیا آپ ایک نئے فلسطینی وزیراعظم کی حیثیت سے اوسلو معاہدے کا پابند خیال کرتے ہیں؟

ہنیہ: آپ کیوں یہ چاہتے ہیں کہ میں ان باتوں کی طرف توجہ نہ کروں جو اسرائیل کہتا ہے؟ اوسلو معاہدہ کہتا ہے کہ فلسطینی ریاست ۱۹۹۹ء تک قائم ہو جائے گی۔ کہاں ہے وہ فلسطینی ریاست؟ کیا اوسلو معاہدہ نے اسرائیل کو یہ حق دیا ہے کہ وہ مغربی کنارہ پر دوبارہ قبضہ کرے‘ دیوار کی تعمیر کرے اور یہودی آبادکاری کو وسعت دے تاکہ یروشلم کو یہود آباد بنایا جاسکے اور یوں اسے مکمل یہودی آبادی میں تبدیل کیا جاسکے؟ کیا اس معاہدے کی رو سے اسرائیل کو یہ حق حاصل ہے کہ غزہ کی بندرگاہ اور ہوائی اڈے پر کام میں خلل ڈالے۔ کیا اسرائیل کو اوسلو معاہدے نے یہ حق دیا ہے کہ وہ غزہ کا محاصرہ کر لے اور فلسطینی انتظامیہ کے لیے وصول شدہ ٹیکسوں کو روک لے؟

لیلی: تو گویا آپ ماضی میں فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان طے پائے معاہدوں کے پابند نہیں ہوں گے؟

ہنیہ: میں نے یہ نہیں کہا بلکہ میں نے یہ کہا کہ اسرائیل!

لیلی: لیکن آپ اسرائیل کے وزیراعظم تو نہیں ہیں۔ کیا آپ ماضی میں اسرائیل اور فلسطینی حکومتوں کے درمیان طے پائے معاہدوں کی پابندی کریں گے؟

ہنیہ: ہم ایسے تمام معاہدوں کا جائزہ لیں گے اور جو معاہدے فلسطینی عوام کے مفاد میں ہوں گے‘ ان پر عمل درآمد کریں گے۔

لیلی: وہ کون سے معاہدے ہوں گے جن کا آپ احترام کریں گے؟

ہنیہ: وہ معاہدے جو فلسطینی ریاست کے قیام کی ضمانت فراہم کرتے ہوں۔ جس میں یروشلم بطور اس کے دارالحکومت اور ۱۹۶۷ء کی جنگ سے پہلے کا خطۂ ارضی شامل ہو‘ اس کے علاوہ ہم ان معاہدات کا بھی احترام کریں گے جو قیدیوں کی رہائی پر تاکید کرتے ہیں۔

لیلی: کیا حماس اسرائیل کو تسلیم کر لے گی اگر اسرائیل ۱۹۶۷ء سے پہلے کی سرحد پر واپس چلا جاتا ہے؟

ہنیہ: اگر اسرائیل ۱۹۶۷ء کی اپنی سرحد پر واپس چلا جاتا ہے تو ہم بتدریج امن قائم کریں گے۔

لیلی: اس کا کیا مطلب ہے؟

ہنیہ: اول یہ کہ ہم استحکام اور امن کی کیفیت پیدا کریں گے‘ جو ہمارے عوام کے لیے تحفظ کا سبب ہو گا جسے شیخ احمد یٰسین (بانیٔ حماس) ایک طویل المیعاد ہُدنا (hudna) کہا کرتے تھے۔

لیلی: کیا مرحلے وار امن کا مطلب یہودی عوام کا حتمی صفایا ہے؟

ہنیہ: ہم یہودیوں کے تئیں دشمنی کا کوئی جذبہ نہیں رکھتے ہیں۔ ہم انہیں سمندر میں غرق کرنا نہیں چاہتے ہیں۔ جو کچھ ہم چاہتے ہیں وہ یہ کہ ہماری سرزمین ہمیں واپس مل جائے۔ ہمارا مقصد کسی کو نقصان پہنچانا نہیں ہے۔

لیلی: کیا آپ اسرائیل کے باقی رہنے کا حق تسلیم کرتے ہیں؟

ہنیہ: اس کا جواب یہ ہے کہ اسرائیل کو یہ کہنے دیں کہ وہ ۱۹۶۷ء کی سرحدوں کے ساتھ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرتا ہے‘ اسے قیدیوں کو رہا کرنے دیں اور اسے تمام فلسطینی پناہ گزینوں کے اسرائیل واپس لوٹنے کے حق کو تسلیم کرنے دیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو پھر حماس کوئی موقف اختیار کرے گی۔

لیلی: تو کیا آپ موجودہ جنگ بندی کو مزید طول دیں گے؟

ہنیہ: میں ہاں یا ناں نہیں کہوں گا کیونکہ یہ مسئلہ اسرائیل رویے سے مربوط ہے۔ اگر اسرائیل ہمیں ایک پرسکون مدت فراہم کرتا ہے اور اپنی جارحیت اور قتل کا سلسلہ روکے رکھتا ہے تو ہم اپنے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کریں گے کہ وہ امن کی صورت حال کو جاری رہنے دیں۔

لیلی: ایسی حالت میں جبکہ امریکا اپنی امداد ترک کر رہا ہے اور فلسطینی حکومت سات سو ملین ڈالرز کے خسارے میں ہے‘ حماس کس طرح اپنی حکومت چلائے گی؟ کیا ایران اس کمی کو پُر کرے گا؟

ہنیہ: ہم خود کفالتی کے لیے ایک اقتصادی منصوبہ رکھتے ہیں جو Rationing اور Public Money کی حفاظت پر مبنی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اسلامی اور عرب دنیا سے ہمارے تعلقات ہیں‘ جنہوں نے یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ ہمیں مدد فراہم کریں گے۔ تیسری بات یہ کہ دنیا کے آزاد اور حریت پسند لوگ فلسطینی عوام کو ہرگز محاصرے میں دیکھنا پسند نہیں کریں گے۔ ہمیں عالمی برادری کی طرف سے یہ اشارے ملے ہیں کہ وہ اپنی امداد بند نہیں کرے گی۔ میں امریکی انتظامیہ سے کہوں گا کہ وہ کسی ایسی قرارداد میں شامل نہ ہو جو فلسطینی انتظامیہ کے مصائب کو دو آتشہ کرتی ہو۔ مجھے یقین ہے کہ امریکی عوام فلسطینیوں کو ان مصائب میں گھرا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے ہیں‘ جس میں یہ اب تک گرفتار رہے ہیں۔

لیلی: آپ کو امریکیوں کو کچھ یقین دہانیاں کرانی ہوں گی مثلاً یہ کہ آپ صدر بش کے دو ریاستی حل سے متفق ہیں‘ یہ کہ آپ تشدد اور خودکش حملوں کی مخالفت کرتے ہیں اور یہ کہ آپ امن کی حمایت کرتے ہیں۔ کیا آپ یہ کر سکتے ہیں؟

ہنیہ: تمام فلسطینی یہ چاہتے ہیں کہ قتلِ عام کا سلسلہ بند ہو اور وہ فلسطینی عوام کو تشدد کے اس لامتناہی سلسلے سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ مگر یہ مسئلہ ہماری طرف سے نہیں ہے‘ اسرائیلیوں کی جانب سے ہے۔

لیلی: کیا آپ اسرائیل کو تسلیم کریں گے؟

ہنیہ: اگر اسرائیل یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ فلسطینی عوام کو ایک ریاست دے گا اور ان کے تمام حقوق ان کو واپس کر دے گا تو پھر ہم اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں۔

لیلی: اسرائیل کا ایسا کوئی چارٹر نہیں ہے جو فلسطینی ریاست کی تباہی کا مطالبہ کرتا ہو۔

ہنیہ: ہم اپنے موقف کا صرف اسی وقت اعلان کریں گے‘ جب اسرائیل ہمارے باقی رہنے کے حق کو تسلیم کر لیتا ہے۔

لیلی: وزیراعظم ایریل شیرون نے دو ریاستی حل کو تسلیم کیا‘ جیسا کہ صدر بش نے کیا۔ آپ کا اس دو ریاستی حل کے بارے میں کیا خیال ہے؟

ہنیہ: ان ساری باتوں کا آغاز اسرائیل کے ساتھ ہوتا ہے۔

(بشکریہ: ’’ڈیلی ٹائمز‘‘۔ کراچی۔ ۲۷ فروری ۲۰۰۶ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*