ایران کا پُرامن جوہری پروگرام ایک اور نیا مقدمہ ہے جو معیار بن سکتا ہے اس بات کی پیمائش کے لیے کہ بش کا وائٹ ہائوس قانون کی حکمرانی میں کس حد تک یقین رکھتا ہے۔ امریکی حکمراں خاص طور سے گزشتہ صدی میں بغیر کسی توقف کے ہر وقت اور ہرجگہ پر یہ تبلیغ کرتے رہے ہیں کہ قانون کی حکمرانی کو محترم جاننا چاہیے اور اسے موثر بنانا چاہیے۔ لیکن عملاً امریکی حکمرانوں نے اس کے برعکس کیا ہے اور بین الاقوامی قانون اور عالمی قراردادوں کا مذاق اڑایا ہے۔ دوسری باتوں کے علاوہ ان کی جو کارکردگی ہے وہ مغربی مووی اور ہالی ووڈ کی فلموں میں دکھائے جانے والے دھوکہ اور فریب دہی کے واقعات جو عموماً انصاف اور قانون سے گریز کے لیے ہوتے ہیں‘ کی یاد دلاتی ہے۔ وائٹ ہائوس نے دنیا کو ہر نُکڑ پر بلا کسی استثناء کے قانون کی حکمرانی کی حفاظت اور ترویج نیز حقوقِ انسانی کے دفاع کی ضرورت کا احساس دلایا ہے۔ لیکن جب یہ ضرورت خود ان کو پیش آتی ہے تو واشنگٹن کے حکمراں ان قوانین کی خلاف ورزی کرنے اور بہت بھیانک انداز میں انہیں پامال کرنے میں ذرا وقت ضائع نہیں کرتے‘ جنہیں دنیا قانون اور انسانی اقدار کے طور پر تسلیم کرتی ہے۔ اقوامِ متحدہ میں امریکی سفیر جان بولٹن نے IAEA کی بہت ہی اہم میٹنگ میں عجلت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ بش انتظامیہ ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے سلامتی کونسل کے فیصلے کا انتظار نہیں کرے گی۔ اس کے علاوہ اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی میں جو اسرائیل حامی بہت ہی اہم لابنگ کرنے والا گروپ ہے‘ اس متنازعہ سفارت کار نے پھر اس کی تصدیق کی یہ کہتے ہوئے کہ واشنگٹن سلامتی کونسل کو ایران کے مبینہ جوہری اسلحوں کے حصول کی کوششوں کو روکنے کے لیے تیزی سے اقدام کرتے ہوئے نہیں دیکھ رہا ہے۔ چنانچہ انہوں نے سالانہ AIPAC کنونشن کے مندوبین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ایران کی جانب سے لاحق خطرے کے تدارک کے لیے جس قدر ہم تاخیر سے کام لیں گے‘ اتنا ہی یہ مشکل مسئلہ بے قابو اور ناقابلِ حل ہوتا جائے گا‘‘۔ عالمی رائے عامہ کو ہر طرح سے یہ حق حاصل ہے کہ وہ معلوم کرے کہ آیا امریکا واقعتا دنیا میں امن اور سلامتی کے لیے کام کر رہا ہے؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو وہ کیسے دنیا کے اعلیٰ ترین عالمی اداروں کے فیصلوں کو نظرانداز کرنے کی جرأت کرتا ہے؟ کس طرح وہ امن‘ سلامتی اور قانون کی حکمرانی کی بات کر سکتا ہے؟ جب کہ اس کے پاس عالمی قوانین و ضوابط پر عمل کرنے کی فرصت نہیں ہے؟ ایک آدمی اس کے ماضی کے سیاہ کارناموں کی بنا پر یہ پوچھ سکتا ہے کہ وہ کون سی اخلاقی بنیاد ہے‘ جس پر امریکا بین الاقوامی امن و استحکام کو فروغ دینے کی ذمہ داری کو انجام دے سکتا ہے۔ اگر امریکا نہیں چاہتا ہے کہ وہ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے انتہائی اہم عالمی ادارے کے فیصلے کا انتظار کرے تو وہ اس عالمی ادارے سے بطور ویٹو پاور کے حامل ملک کے کیونکر وابستہ ہے؟ کم سے کم بات جو کہی جاسکتی ہے‘ وہ یہ کہ اس طرح کا رویہ تضاد پر مبنی ہے اور امریکی حکومتیں زیادہ تر تبدیلیوں میں اس طرح کی متنازعہ پالیسیوں پر عمل پیرا رہی ہیں۔ مثلاً War Crimes Tribunal کے قیام کے لیے بیشتر ملکوں کے اتفاق کے باوجود امریکا نے اس اقدام کی مخالفت کی اور اس کو معرضِ وجود میں آنے سے روکنے کے لیے ہرممکن کوشش کی۔ جب یہ عالمی عدالت واشنگٹن کی سخت مخالفت کے باوجود قائم ہو گئی تو امریکی حکومت نے کئی ممالک کو مجبور کیا کہ وہ امریکا کے ساتھ معاہدہ پر دستخط کریں‘ جس کے تحت معاہد ممالک اور امریکا دونوں مل کر اپنے شہریوں کو اس طرح کے مقدمے سے مستثنی رکھنے کی کوشش کریں گے۔ اب اس کے بعد بین الاقوامی قانون کیا رہ جاتا ہے؟ امریکا نے کئی ممالک کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنایا لیکن اقوامِ متحدہ نے کبھی بھی ان حملوں کی حمایت نہیں کی۔ اگرچہ بعض واقعات میں معاہدے ہوئے لیکن وہ بازو مروڑنے اور بدنامِ زمانہ اِنذار و تحریص کی پالیسی کا نتیجہ تھے۔ کس نے اس استکباری طاقت کو یہ اجازت دی کہ دنیا کے مختلف حصوں سے وہ لوگوں کو اغوا کرے اور انہیں کال کوٹھریوں میں خوفناک حالت میں اسیر رکھے؟ ایک وقت میں جبکہ IAEA کے سربراہ محمد البرادی نے ہمیشہ کے لیے یہ اعلان کر دیا کہ ان کے معائنہ کاروں نے کوئی ایسی شہادت نہیں پائی‘ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ ایران اپنے پُرامن جوہری پروگرام کو فوجی ضروریات کی جانب بھی منتقل کر رہا ہے تو کیوں بش کی ٹیم کو اس مسئلے میں شدت پیدا کرنے اور اس کے عالمیائے جانے پر اصرار کرنا چاہیے؟ امریکی نائب دفاعی سیکرٹری برائے بین الاقوامی امورِ سلامتی Peter Rodmans نے گزشتہ IAEA میٹنگ سے اتفاق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایران کے جوہری مسئلے کو سلامتی کونسل میں اس طرح پھینکنا چاہیے جس طرح کہ دستی بم پھینکا جاتا ہے اور پھر نتیجے کا انتظار کرنا چاہیے۔ کیا امریکی‘ دستی بم سے سلامتی کونسل کو دھماکے سے اڑانا چاہتے ہیں یا اپنے آپ کو؟ اگر کسی چیز پر امریکا یقین رکھتا ہے تو وہ ہے دوہرا معیار۔ عالمی رائے عامہ اور صاحبِ ضمیر لوگ صرف ایک ہی پریشان کن سوال سے دوچار ہیں: ’’دنیا کے ساتھ معاملات کرنے میں امریکا کس مکتبہ فکر کے ساتھ وابستہ ہے؟‘‘
(بشکریہ: ’’ایران ڈیلی‘‘)
Leave a Reply