
پچھلی دو دہائیوں کے دوران بھارت اور پاکستان تقریباً تین بار جنگ کے دہانے تک پہنچ گئے تھے، جن میں ۲۰۰۱ء میں بھارتی پارلیمان پر حملہ، ۲۰۰۸ء میں ممبئی کے دو فائیو اسٹار ہوٹلوں پر دہشت گردانہ کارروائی اور ۲۰۱۹ء میں جنوبی کشمیر کے ضلع پلوامہ میں بھارتی نیم فوجی کانوائے پر خود کش حملہ شامل ہے۔ مگر جو تار ان تینوں واقعات کو جوڑتے ہیں، وہ بھارتی خفیہ ایجنسیوں کو ان کے بارے میں پیشگی جانکاری تھی۔ آخر ان واقعات کو روکنے کے لیے انہوں نے کارروائی کیوں نہیں کی؟ یہ ایک بڑا سوال ہے، جو ہنوز جوا ب کا منتظر ہے۔
پلوامہ حملوں کی دوسری برسی کے موقع پر بھارت کے ایک معروف جریدہ ’’فرنٹ لائن‘‘ نے انکشاف کیا ہے کہ ۲ جنوری ۲۰۱۹ء سے ۱۳ فروری ۲۰۱۹ء تک یعنی حملے سے ایک د ن قبل تک حکام کو گیارہ ایسی خفیہ اطلاعات موصول ہوئی تھیں، جن میں واضح طور پر اس حملہ کی پیش گوئی کی گئی تھی۔ عام انتخابات سے ۸ہفتے قبل اس حملے اور اس کے بعد پاکستان کے بالا کوٹ علاقے پر فضائی حملوں نے ایسی جنونی کیفیت پیدا کی کہ جو بھی اس حملے کے متعلق حقائق جاننا چاہتا تھا، اس کو خاموش کردیاگیا۔ سینئر کانگریسی لیڈر اور مدھیہ پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ ڈگ وجے سنگھ کے مطابق ۸فروری کو جب انہوں نے ٹویٹ کے ذریعے ایک انٹیلی جنس رپورٹ کا حوالہ دے کر سوال کیا، کہ پیشگی اطلاع کے باوجود یہ حملہ کیسے ہوا؟ تو ان کے اس ٹویٹ کو ہی بلاک کردیاگیا۔ فرنٹ لائن کے نمائندے آنندوبھکتو نے اس رپورٹ میں بتایا ہے کہ خفیہ اطلاعات اتنی واضح تھیں، کہ ان پر کارروائی نہ کرنا مجرمانہ زمرے میں ہی آسکتا ہے۔ پولیس سربراہ دلباغ سنگھ اور انسپکٹرجنرل آپریشنز کی میز پر ۱۳؍فروری کو جو رپورٹ پہنچی، اس میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ قومی شاہرا ہ پر آئی ای ڈی بلاسٹ کی تیاریا ں ہو رہی ہیں۔ ایک دوسرے خفیہ ان پٹ میں ضلع پلوامہ کے اونتی پورہ تحصیل کے نزدیک قومی شاہراہ پر لتھی پورہ کراسنگ کو ہائی رسک علاقہ بتایا گیا۔ یہ وہی کراسنگ ہے، جہاں اگلے روز یعنی ۱۴ فروری کو دوپہر سوا تین بجے ایک خود کش بمبار نے نیم فوجی دستوں کے ایک کانوائے کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں ۴۰ اہلکار موقع پر ہی ہلاک ہوگئے۔ تقریبا ًڈھائی ہزار فوجی دستوں پر مشتمل ۷۸ گاڑیوں کا کانوائے جموں سے سرینگر آرہا تھا۔ اس اطلاع میں پولیس کو ہدایت دی گئی تھی کہ قومی شاہراہ کے اس حصے میں سیکورٹی کا خاطر خواہ انتظام کیا جائے۔ پولیس نے بعد میں ایک نوجوان مدثر احمد خان کو اس حملہ کا ماسٹر مائنڈ قرار دے کر ۱۰۰ گھنٹوں کے بعد ہلاک کرکے شاباش سمیٹی۔بتایا جاتا ہے کہ وہ کئی ماہ سے خفیہ ایجنسیوں کے رڈار پر تھا اور اس کی نقل و حرکت نہایت باریکی کے ساتھ مانیٹر کی جا رہی تھی۔ ۲۵ جنوری ۲۰۱۹ء کو جلی حروف میں ایک اطلاع حکام کو موصول ہوئی، جس میں بتایا گیا کہ مدثر اپنے چار ساتھیوں کے ساتھ مڈورہ گاؤں میں موجود ہے اور اگلے چند روز میں اونتی پورہ یا پلوامہ کے آس پاس کوئی بڑی کارروائی ہونے والی ہے۔ ۷ جنوری کی اطلاع ہے کہ چند افراد دیہاتوں میں مقامی نوجوانوں کو آئی ای ڈی، اور دیگر گولہ بارود و اسلحہ استعمال کرنے کی ٹریننگ دے رہے ہیں۔ ان میں سے ایک شخص کی شناخت غیر کشمیر ی کے طور پر کی گئی تھی۔ ۱۸ جنوری کی ایک اور اطلاع میں بتایا گیا کہ ۲۰ مقامی اور ایک غیر ملکی عسکری پلوامہ اور اس کے گر د نواح میں ایک بڑی کارروائی کرنے والے ہیں۔ ۲۲ جنوری کو موصول ان پٹ میں تحریر ہے کہ مدثر اور اس کے ساتھی بڑی کارروائی کرنے والے ہیں۔ اس طرح کی کئی اور اطلاعات ۱۳ فروری تک مسلسل حکام کو موصول ہوتی رہی ہیں۔ آخری وارننگ مختلف انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مشترکہ پلیٹ فارم ملٹی ایجنسی سینٹر یعنی میک پر شیئر کی گئی۔ سوال ہے کہ اتنی واضح پیشگی اطلاعات کے باوجود اس حملہ کو روکنے کے لیے پیش بندی کیوں نہیں کی گئی؟
اگر خفیہ ایجنسیوں کا دعویٰ صحیح ہے کہ مدثر ہی پلوامہ کا ماسٹر مائنڈ تھا، تو اس کے خلاف قبل از وقت کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ جب کی اس کی نقل و حرکت پر خصوصی نظر رکھی جا رہی تھی۔ حملے کے چند روزبعد اس کو عبدالرشید غازی کے ساتھ ہلاک کرکے بظاہر تفتیش کی فائل بند کر دی گئی۔ اس خود کش حملہ کے ایک روز قبل جموں و کشمیر پولیس میں خاصا رد و بدل کیا گیا، جس میں اونتی پورہ کے پولیس آفیسر محمد زید کا تبادلہ بھی شامل تھا۔کسی کارروائی کے خدشہ کے درمیان پولیس میں رو د بدل کرنا اور اس علاقے کے پولیس انچارج کو عین موقع پر ایسے وقت میں تبدیل کرنا، جب و ہ خفیہ اطلاعات کی بنا پر پیش بندیا ں کر رہا تھا، ایک ایسا سوال ہے، جس کا جواب حکام کے لیے دینا لازمی ہے، کیونکہ اس حملے کو بنیاد بنا کر پورے ملک پر ایک جنگی جنون طاری کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں وزیر اعظم نریندر مودی نے دوسری بار قطعی اکثریت کے ساتھ اقتدار میں واپسی کی اور اسی کے نتیجے میں جموں و کشمیر کی آئینی خصوصی حیثیت ختم کرکے اس کو دو حصوں میں تقسیم کیاگیا۔ معروف صحافی اور تھنک ٹینک آبزور ’’ریسرچ فاؤنڈیشن‘‘ کے ایک ممبر ستیش مشرا کے بقول ’’۴۰ سیکورٹی اہلکاروں کی ہلاکت مودی کے لیے بھگوان کا وردان ثابت ہوگئی، اس نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سیاسی غبارہ میں دوبارہ ہوا بھر دی، جو زمین کی طرف آرہا تھا۔‘‘ جس وقت پلوامہ میں حملہ ہوا، تو مودی اس وقت اتراکھنڈ صوبہ کی جم کاربٹ نیشنل پارک میں ڈسکوری ٹی وی چینل کے پروگرام Man V/S Wild کے اینکر بیر گریلز کے ساتھ شوٹنگ میں مصروف تھے۔ اس کے فوراً بعد جب وہ فون پر ایک جلسے سے خطاب کر رہے تھے، تو اس میں انہوں نے پلوامہ کا نام تک نہیں لیا، کیونکہ و ہ جانتے تھے، کہ اس کو کب کیش کروانا ہے۔ عام انتخابات سے قبل موخر ادارہ سینٹر فار سوسئیٹل ڈیولپمنٹ اسٹڈیز کے ایک جائزہ میں بتایا گیا تھا کہ ۱۹ صوبوں میں مودی مخالف لہر چل رہی ہے۔ اس سے ایک سال قبل ۲۱ اسمبلی اور لوک سبھا کی نشستوں کے جو ضمنی انتخابات ہوئے، ان میں بی جے پی کو محض دو نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔ ہندو انتہا پسندوں کے گڈھ یعنی اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کی سیٹ گھورکھپورسے بھی بی جے پی انتخابات ہار گئی تھی۔ اس کے علاوہ پارٹی راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ صوبے گنوا چکی تھی اور مودی کی آبائی ریاست گجرات میں تو کانگریس نے کانٹے کی ٹکر دی تھی۔ ایک اور ادارے ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک رائٹس کے ایک سروے میں بتایا گیا تھا کہ صرف ۶ء۳فیصد ووٹر دہشت گردی یا پاکستان کو کوئی ایشو مانتے ہیں۔ اکثریت نے معاشی صورتحال، نوکریوں کی فراہمی کو انتخابات کے اہم ایشو قرار دیا تھا۔ مگر گودی میڈیا کے ذریعے پلوامہ اور بالا کوٹ کے واقعات کو لے کر ایک جنگی جنون طاری کردیا گیا۔ نوکریا ں اور معاشی صورت حال پیچھے چلی گئیں۔ووٹروں کو بتایا گیا کہ پاکستان اور کشمیریوں کو سبق سکھانے کے لیے ایک سخت شبہہ والے حکمران کی ضرورت ہے۔ ان حملوں کے فوراً بعد بھارت کی ایما ء پر امریکا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جیش محمد کو عالمی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کروانے پر ایک قرار داد پیش کی، جس کومنظور کیا گیا۔ پاکستان پر ایف اے ٹی ایف کی تلوار مزید نیچے کی گئی۔ ووٹروں کو بتایا گیا کہ پاکستان اور کشمیریوں کو سبق سکھانے کے لیے ایک سخت شبیہ والے حکمران کی ضرورت ہے۔ پلوامہ حملوں کے بعد تومشیر امریکی قومی سلامتی جان بولٹن نے تو یہ تک کہہ دیا کہ اپنے دفاع کی خاطر اور جوابی کارروائی کے لیے اگر بھارت بارڈر کراس کرتا ہے، تو وہ اس کی حمایت کرے گا۔ یہ ماضی کی اس پا لیسی کے با لکل برعکس تھا، جب ایسے مواقع پر امریکا کشیدگی کو ہو ا دینے کے بجائے کم کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ ہاں، جب پاکستان نے جوابی کارروائی کرکے ادھم پور میں موجود آرمی کی شمالی کمانڈ کے بالکل پیچھے بم گرائے اور بھارت کا طیارہ گرا کر اس کے پائلٹ ابھی نندن ورتھمان کو گرفتار کیا، تو امریکا نے مداخلت کرواکے اس کو فوراً رہا کروا کے انتخابات سے قبل مودی کے لیے راستہ ہموار کیا، شدید دباؤکوکم کروانے میں مدد دی۔ انسانی سانحہ کو موقع میں تبدیل کرنے کا فن وزیراعظم مودی کے لیے نیا نہیں ہے۔ ۲۰۰۲ء میں پہلی بار بطور وزیر اعلیٰ گجرات میں اسمبلی انتخابات کا سامنا کرنے سے قبل جب دو نامعلوم افراد نے سوامی نارائن فرقہ کی عبادت گاہ اکثر دھام پر احمد آباد میں دھاوا بول کر ۳۲ افراد کو ہلاک کیا، تو انہوں نے انتخابی مہم میں اس کا بھر پور استعمال کرکے پوری ریاست پر ایک جنون طا ری کرکے اس کے لیے پاکستان کے اس وقت کے صدر پرویز مشرف کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ آج تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ آیا کس نے اور کس کی ایما پر یہ حملہ کیا گیا تھا۔ جب ہر طرف سے اس کیس کی تفتیش کے حوالے سے لعن و طعن ہو رہی تھی، تو گجرات پولیس کی کرائم برانچ نے ایک سال بعد جمعیت علما ء ہند کے ایک سرکردہ کارکن مفتی عبدا لقیوم منصوری اور دیگر پانچ افراد کو گرفتار کرکے اس کیس کو حل کرنے کا دعویٰ کیا۔ ان کو نچلی عدالت نے موت کی سزا بھی سنائی جس کو گجرات ہائی کورٹ نے بھی برقرار رکھا۔ مگر ۲۰۱۴ء میں سپریم کورٹ نے اس فیصلہ کو رد کرکے گیارہ سال بعد سبھی افراد کو باعزت بری کرنے کے احکامات صادر کیے۔مفتی صاحب نے اپنی کتاب میں دردناک واقعات کی تفصیل دی ہے، کہ کس طرح ان کو اکشر دھام مندر کے دہشت گردانہ واقعہ میں فریم کیا گیا۔ سخت جسمانی اور روحانی تشدد کے بعد ان کو بتایا گیا کہ وہ باہمی مشورہ اور بات چیت سے اس واقعہ میں اپنا کردار طے کریں، بلکہ مختلف مقدمات میں سے انتخاب کا بھی حق دیا گیا، کہ وہ گو دھرا ٹرین سانحہ، سابق ریاستی وزیر داخلہ ہرین پانڈیا کے قتل، یا اکشر دھام میں سے کسی ایک کیس کا انتخاب کریں، جس میں انہیں فریم کیا جائے۔ نہ ہی نچلی عدالت اور نہ ہی ہائی کورٹ نے یہ جاننے کی کوشش کی، کہ جب خود پولیس کے بقول حملہ آوروں کی لاشیں خون اور کیچڑ میں لت پت تھیں، اور ان کے بدن گولیوں سے چھلنی تھے اور ان حملہ آوروں کے جسموں میں ۴۶ گولیوں کے نشانات تھے، تووہ خطوط کیوں کر صاف و شفاف تھے، جو ان حملہ آورں کی جیبوں سے برآمد ہو گئے تھے، اور جن کے بقول مفتی صاحب اس حملہ کے ماسٹر مائنڈ تھے۔۔ مفتی صاحب کے بقول ان سے یہ خطوط تین دن تک پولیس کسٹڈی میں لکھوائے گئے تھے۔ اسی طرح ۲۰۰۱ء میں پارلیمنٹ حملے کے ملزم افضل گورو نے کورٹ کو بتایا کہ حملہ کرنے والے چار افراد کو وہ پولیس کے ڈپٹی سپریڈنٹ دیوندر سنگھ کے حکم پر دہلی لے کر آیا تھا۔ ہونا تو چاہیے تھا کہ سنگھ کو سمن بھیجے جاتے اور اس کو تفتیش میں شامل کیا جاتا۔ مگر عدالت نے گورو کابیان اس حد تک ریکارڈ کیا کہ وہ ان حملہ آوروں کو سوپور سے ٹرک میں دہلی لے آیا، مگر بعد کا بیان حذف کرکے اس کو موت کی سزا سنائی۔ دیوندر سنگھ کا نام نہ صرف ۲۰۰۱ء میں بھارتی پارلیمان پر ہوئے دہشت گردانہ حملے میں آیا تھا، بلکہ جولائی ۲۰۰۵ء میں دہلی سے متصل گڑ گاؤں میں دہلی پولیس نے ایک ا نکاونٹر کے بعد چار افراد کو گرفتار کیا تھا۔ ان کے پاس ایک پستول اور ایک وائر لیس سیٹ برآمد ہوا۔ گرفتار شدہ افراد نے دہلی پولیس کو ایک خط دکھایا، جو جموں و کشمیر سی آئی ڈی محکمہ میں ڈی ایس پی دیوندر سنگھ نے لکھا تھا، جس میں متعلقہ سیکورٹی ایجنسیوں کو ہدایت دی گئی تھی کہ ان افراد کو ہتھیار اور وائر لیس کے ساتھ گزرنے کے لیے محفوظ راہداری دی جائے۔ دہلی پولیس نے سرینگر جاکر دیوندر سنگھ سے اس خط کی تصدیق مانگی اور ان کی رہائش گاہ پر چھاپہ بھی مارا، جہاں سے انہوں نے اے کے رائفل اور اسلحہ برآمد کیا۔ یہ سب دہلی کی ایک عدالت میں دائر چارج شیٹ میں درج ہے۔ اسی طرح ۱۹۹۵ء میں جنوبی کشمیر میں مغربی ممالک کے پانچ سیاحوں کو جب ایک غیر معروف تنظیم الفاران نے اغوا کیا، تو بھارتی خفیہ ایجنسیوں کو ان کے ٹھکانوں کے بارے میں پوری معلومات تھی۔ بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے طیارے مسلسل ان کی تصویریں لے رہے تھے۔ مگر ان کو ہدایت تھی، کہ سیاحوں کو چھڑانے کا کوئی آپریشن نہ کیا جائے، بلکہ اس کو طول دیا جائے۔ بعد میں ان سیاحوں کو بھارتی آرمی کی راشٹریہ رائفلز نے اپنی تحویل میں لے لیا۔مگر بازیابی کا اعلان کرنے کے بجائے ان کو موت کی نیند سلادیاگیا۔
مقصد تھا کہ مغربی ممالک تحریک آزادی کشمیر کو دہشت گردی سے منسلک کرکے اس کی حمایت سے ہاتھ کھینچیں اور جتنی دیر سیاح مبینہ عسکریت پسندوں کے قبضہ میں رہیں گے، پاکستانی مندوبین کے لیے مغربی ممالک میں جواب دینا اتنا ہی مشکل ہو جائیگا۔اس واقعہ کے ایک سال قبل ہی مغربی ممالک انسانی حقوق کی صورتحال کے حوالے سے بھارت پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے پر غور کر رہے تھے۔یہ واقعہ کشمیر کی جدوجہد میں ایک تاریخی موڑ ثابت ہوا۔
دسمبر ۱۹۹۹ء میں انڈین ایئرلائنز کے طیارہ ۸۱۴۔آئی سی کے اغوا کے معاملے میں خفیہ ایجنسی کے ایک افسر نے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کو دہشت گردوں کے مطالبات تسلیم کرنے کے بجائے مسافروں سے بھرے طیارے کو اڑا دینے کا مشورہ دیا تھا تاکہ پاکستان کو مکمل طور پر بدنام کیا جائے۔ ۲۰۰۸ء کے ممبئی حملوں سے قبل بھی بھارتی حکام کے پاس اس قدر خفیہ معلومات تھیں کہ ان سے دو ماہ قبل جب ممبئی پولیس کے ایک افسر وشواس ناگرے پا ٹل نے شہر کے فیشن ایبل علاقے کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس کا چارج سنبھالا تو ان کی نظر اس خفیہ فائل پر پڑی، جس میں نہ صرف حملوں کا ذکر تھا بلکہ اس کے طریقہ کار پر معلومات بھی درج تھیں۔ان اطلاعات کا ماخذ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے تھی۔ اسی طرح لشکر طیبہ کے مبینہ ٹریننگ کیمپ میں موجود آئی بی کے ایک مخبر کی طرف سے بھیجی گئی پل پل کی اطلاعات موجود تھیں، جن میں حملے کے لیے تاج ہوٹل کی بھی نشاندہی کی گئی تھی۔ اس افسر نے فوراً تاج ہوٹل کی انتظامیہ کو متنبہ کیا کہ وہ معقول حفاظتی انتظامات کا بندوبست کریں۔
ستمبر ۲۰۰۸ء میں اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل میں دھماکا اور اکتوبر میں دوبارہ اسی طرح کی خفیہ معلومات ملنے کے بعد پاٹل نے تاج ہوٹل کی سکیورٹی کے ساتھ گھنٹوں کی ریہرسل کی،کئی دروازے بند کروائے اور اس کے ٹاور کے پاس سکیورٹی پکٹ قائم کی۔ ان انتظامات کے بعد پاٹل چھٹی پر چلے گئے۔اس دوران تاج ہوٹل سے حفاظتی بندشیں اورسکیورٹی پکٹ ہٹوادی گئی۔ بتایا گیا حفاظتی اہلکاروں نے دوران ڈیوٹی کھانا مانگنا شروع کردیاتھا۔ اس حملے کے ماسٹر مائنڈ ابو جندل کے بارے میں صوبہ مہاراشٹر میں ضلع بیہڑ کے رہنے والے بتاتے ہیں کہ وہ پولیس ہیڈکوارٹر میں بطورالیکٹریشن اورمقامی مخبرکام کرتا تھا۔انسداد دہشت گردی سیل کے سربراہ کے پی رگھونشی جب ایک بار بیہڑ کے دورے پر تھے، اس کو اپنے ساتھ لے گئے۔بتایا جاتا ہے کہ ۲۰۰۶ء میں اسی صوبے کے شہر اورنگ آباد میں اسلحے کے ایک بڑے ذخیرے کو پکڑوانے میں انصاری نے کلیدی کردار ادا کیا تھا،جس کے بعد وہ لاپتہ ہوگیا۔ ۲۰۰۸ء میں جن سم کارڈ نمبروں سے وہ تاج ہوٹل میں موجود حملہ آوروں سے گفتگو کررہا تھا یا ان کو ہدایت دے رہا تھا، بعد میں تفتیش میں معلوم ہوا کہ وہ جموں و کشمیر پولیس کی خفیہ ونگ نے خریدے تھے۔ یہ سم کیسے حملہ آورں کے پاس پہنچی تھی ہنوز معمہ ہے۔ ممبئی حملوں کی خفیہ اطلاعات کے باوجود بھارت کی سکیورٹی انتظامیہ کی لاپروائی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب نیشنل سکیورٹی گارڈز (این ایس جی) نے دہلی سے متصل ہریانہ میں اپنے ہیڈکوارٹرسے حملوں کے بیس منٹ بعد ہی نقل و حرکت شروع کی تو کابینہ سیکرٹری اور بعد میں وزارت داخلہ کے ایک جوائنٹ سیکرٹری نے فون کرکے انہیں متنبہ کیا کہ وہ احکامات کے بغیرنقل و حرکت کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔اس تنبیہ کے ستر منٹ بعد وزارت داخلہ نے انہیں بتایا کہ صوبائی وزیراعلیٰ نے این ایس جی کی مدد مانگی ہے اس لیے وہ فوراً ممبئی روانہ ہوجائیں مگر ائیر پورٹ جاکر معلوم ہوا کہ بھارتی فضائیہ کا ٹرانسپورٹ طیارہ ابھی کئی سو کلومیٹر دور چندی گڑھ میں ہے۔ کمانڈو یونٹ کے سربراہ جیوتی دتہ نے را سے ان کا خصوصی طیارہ مانگا تو پتہ چلا کہ اس کا عملہ غائب ہے اور جہاز میں ایندھن بھی نہیں ہے۔آدھی رات کے بعد جب دستہ طیارے میں سوار ہوا توان کو بتایا گیا کہ وزارت داخلہ کے چند افسر بھی ان کے ہمراہ جارہے ہیں اس لیے ان کا انتظار کیا جائے۔ بالآخر جب طیارہ اگلے دن صبح ممبئی پہنچا تو افسرکو لینے کے لیے چمچاتی اور لال بتی والی گاڑیاں موجود تھیں مگر کمانڈو دستوں کو لے جانے کے لیے کوئی ٹرانسپورٹ نہیں تھی۔ ان واقعات کو بھارت نے عالمی فورمز پر پاکستان کو کٹہرے میں کھڑ ا کرنے کے لیے بھر پور استعمال کیا۔نہ صرف ایف اے ٹی ایف، بلکہ کئی اور تلواریں بھی کامیابی کے ساتھ پاکستانی حکمرانوں کے سروں پر لٹکا کر رکھیں۔ اکثر اوقات پاکستانی حکمران اور اس کا میڈیا بھی پروپیگنڈہ کا شکار ہو کر بجائے سوالات کرنے کے، خود ہی اپنے آپ کو مورد الزام ٹھہرانے لگتے ہیں، جس سے عالمی فورمز میں بھارت کا موقف مزید مضبوط ہوتا گیا۔ وقت آگیا ہے کہ پلوامہ، پارلیمنٹ، ممبئی اور اکثر دھام حملوں کی طرف توجہ مبذول کرکے ان کی غیر جانبدارانہ تفتیش کا مطالبہ کیا جائے اور معلوم کیا جائے کہ اتنی معلومات ہوتے ہوئے بھی پیش بندی کیوں نہیں کی گئی۔ آخر معصوم افراد کو دہشت گردی کی خوراک کس نے بننے دیا اور اس سے کیا سیاسی فوائد حاصل کیے گئے؟ لاشوں کے سوداگروں کے نقاب اتارکر انکو کیفر کردار تک پہنچانے کا وقت بھی آگیا ہے۔
(بحوالہ: روزنامہ ’’۹۲ نیوز‘‘ کراچی۔ ۴ مارچ ۲۰۲۱ء)
Leave a Reply