
حربیات کی مشہور کتاب ’’دی آرٹ آف وار‘‘ میں چینی جنرل سُن زو (Sun Tzu) دعویٰ کرتے ہیں ’’ایسی کوئی مثال نہیں کہ کسی قوم نے طویل جنگ سے فائدہ اٹھایا ہو‘‘۔ ہم میں سے بہت سوں کو امید تھی کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ سُن زو کے اس دانائی سے بھرپور نکتے کو ذہن نشین رکھیں گے اور یہ بھی یاد رکھیں گے کہ وہ دنیا کی سب سے طاقتور اور موثر جنگی مشین رکھنے والے ملک کے صدر بن چکے ہیں۔ ہمیں یہ بھی امید تھی کہ وہ بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے عقل پرستی کا مظاہرہ کریں گے۔ چند برسوں کے دوران متعدد ممالک سے امریکا کے تعلقات خاصے پیچیدہ رہے ہیں۔ واشنگٹن کا جارحانہ رویہ کئی ممالک کی تباہی کا باعث بنا ہے۔ سابق امریکی صدر آئزن ہاور نے بہت پہلے امریکیوں کو خبردار کردیا تھا کہ ’’ہمیں دیگر ممالک پر فوجی طاقت سے بے جا اثر قائم کرنے سے گریز کرنا چاہیے لیکن اس کا خطرہ موجود رہے گا۔‘‘ بہت معقول بات تھی لیکن دنیا نے دیکھا کہ آئزن ہاور کا خدشہ درست ثابت ہوا۔
جارج واکر بش کے بعد سے امریکی طاقت کے بے قابو ہو جانے کا خطرہ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ افغان جنگ، عراق جنگ، لیبیا کے خلاف امریکا اور نیٹو کی مشترکہ کارروائی ان بدقسمت ممالک میں لاکھوں ہلاکتوں کا باعث بنی۔ ان بے نتیجہ جنگوں کے نتیجے میں انسانی جانوں کے ضیاع کے علاوہ وسیع پیمانے پر مہاجرین کے بحران نے سر اٹھایا۔ صرف یہی نہیں، داعش جیسا فتنہ پرور گروہ بھی انہی ادھوری جنگوں کی پیداوار ہے۔ ان جنگوں نے جہاں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلائی وہاں امریکی ساکھ کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔
اس وقت جبکہ صدر ٹرمپ اپنی آئینی مدت کے پہلے ۱۰۰ دن مکمل کرچکے ہیں، انہوں نے بہت سے اتحادی ممالک سے بھی بگاڑ پیدا کرنا شروع کردیا ہے۔ صدر ٹرمپ کو ایک بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ایک غیر ملکی سربراہ کی توہین کرتے ہوئے وہ امریکا سے نفرت کرنے والے ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر رہے ہیں۔ باقی دنیا میں موجودہ امریکی قیادت کا مسخرہ پن اور عجیب و غریب رویہ ہدفِ استہزا بن رہا ہے۔ دیگر اقوام یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ ایک غیر سنجیدہ صدر کو عالمی معاملات کی کوئی پروا نہیں۔ اس کے علاوہ وہ اپنے زیادہ ذی فہم افسران کے ساتھ مل کر چلنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ٹرمپ کی طول پکڑتی ہوئی جنگی مہم سمجھ میں آتی ہے۔ وہ ہر مسئلے کو طاقت کے ذریعے حل کرنے کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ ہم نے، جو خوش فہمی کا شکار تھے، امید لگائی ہوئی تھی کہ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے اعلانات کے مطابق بیرونی دنیا میں فوجی مداخلت سے گریز کریں گے۔ ہمیں یاد ہے کہ انہوں نے ۲۰۱۵ء میں کہا تھا کہ ’’جس کسی نے بھی مشرق وسطیٰ کا رخ کیا اُسے مسائل کی ریت چھاننا پڑی‘‘۔ گویامشرق وسطیٰ کی جنگوں کے نتیجے میں مشکلات بڑھتی گئیں۔ اُس وقت ٹرمپ سینے پر ہاتھ رکھ کر کہہ رہے تھے کہ وہ اس دلدل میں کسی صورت قدم نہیں رکھیں گے۔ لیکن یہ تب کی بات ہے۔ آج وہ اس جنگ کو مزید وسیع کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
۱۳؍اپریل کو افغانستان میں دنیا کا سب سے بڑاغیر جوہری بم GBU-43/B المعروف ’’مدرآف آل بمز‘‘ گرایا گیا۔ کہا گیا کہ اس کا ہدف داعش کے زیر زمین ٹھکانے تھے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق اس حملے میں داعش کے ۳۶ مشتبہ جنگجو ہلاک ہوئے۔ دس ٹن وزنی اس مہیب بم کی لاگت ایک کروڑ ۶۰ لاکھ ڈالر ہے۔ اس طرح ایک مشتبہ جنگجو کو ہلاک کرنے کے لیے ۴ لاکھ ۵۰ ہزار ڈالر خرچ کیے گئے۔ تاہم لاگت سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ فوج نے پہلی مرتبہ اس خوفناک بم کا کسی جنگ میں تجربہ کیا۔ بعد میں کہا گیا کہ اس بم سے ۹۰ جنگجو ہلاک ہوئے۔ فی الحال مقامی آبادی کا دل دہلا دینے کے علاوہ اس بم کا کوئی اور عسکری فائدہ دکھائی نہیں دیتا۔ اس بم کے استعمال سے محض نقصان ہی ممکن بنایا جاسکا ہے۔ اس بم کے استعمال کے باعث مقامی آبادی کے نوجوانوں کو جنگجو تنظیمیں بڑی تعداد میں بھرتی کرنے میں کامیاب رہی ہیں کیونکہ وہ امریکا سے اپنی سرزمین پر اتنا بڑا بم گرانے کا انتقام لینا چاہتے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے میڈیا سیکریٹری شین اسپائسر نے اس حملے کے بارے میں کہا ’’اس کا ہدف داعش کی سرنگوں کا جال تھا جہاں اُنھوں نے اپنے ٹھکانے بنائے ہوئے تھے‘‘۔ رائٹرز کے کچھ بے خوف صحافی اس مقام تک جا پہنچے اور انہوں نے ان سرنگوں کو بالکل محفوظ پایا۔ ہاں سطح زمین پر درخت جل گئے تھے اور کچھ چھوٹے چھوٹے مکانات، جو عام شہریوں کے تھے، ضرور تباہ ہوئے تھے۔ہاں، جہاں تک تجربے کی بات ہے امریکا کامیاب ہوا۔ اس کی پوری دنیا میں ہیڈلائنز بن گئیں اور مفت میں تشہیر ہوگئی۔ شام میں ۵۹ کروز میزائل برسانے پر بھی مغربی میڈیا نے جشن منایا تھا۔
انتخابات سے پہلے ٹرمپ نے شام، عراق اور افغانستان کی جنگوں کو ’’رقم اور جانوں کا بے مقصد ضیاع‘‘ قرار دیا تھا۔ اُنھوں نے افغان جنگ کے بارے میں ٹوئیٹ کرتے ہوئے کہا تھا ’’ہمیں افغانستان سے باہر آجانا چاہیے۔ وہاں ہمارے فوجیوں کو افغان ہلاک کر رہے ہیں حالانکہ ہم اُن پر اربوں ڈالر خرچ کرتے ہیں اور اُنہیں تربیت دیتے ہیں‘‘۔ ۱۳؍اپریل کو ٹرمپ نے ٹوئیٹ کرتے ہوئے دنیا کو مطلع کیا ’’امریکا اور روس کے درمیان تعلقات بہتر ی کی طرف گامزن ہیں‘‘ لیکن انہوں نے اقوام متحدہ میں متعین سفارت کار کی تردید نہ کی جنہوں نے کہا کہ ’’ہمیں روس پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے‘‘۔ اگرچہ ٹرمپ نے بارہا کہا تھا کہ روس سے تعلقات امریکا کی خارجہ پالیسی کی نمایاں ترجیح ہیں مگر کوئی بھی اس پالیسی کے خد و خال نہیں جانتا۔ اس کی بجائے خدشہ ہے کہ ٹرمپ روس سے تصادم کی راہ پر گامزن نہ ہو جائیں۔ ٹرمپ کی صدارت کا انداز انتہائی غیر یقینی ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کب کیا کر بیٹھیں۔ ایک بات طے ہے کہ وہ زیادہ بھروسہ طاقت کے استعمال کو یقینی بنانے پر ہی کریں گے۔ اور اگر انہوں نے اس راہ پر سفر جاری رکھا تو انہیں بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ اس کا فائدہ تو کسی کو نہیں پہنچا۔ تباہی سے دوچار ہو جانے والوں کی تعداد البتہ بہت زیادہ ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Who benefits from prolonged warfare?”. (“counterpunch.org”. April 28, 2017)
Leave a Reply