
مغربی میڈیا روایتی طور پر پیشہ ورانہ انداز اختیار کرنے اور صحافت کے اصولوں سے وابستگی کی شیخی بگھارتا ہے، لیکن بین الاقوامی واقعات کی منظرکشی میں جو واحد چیز فراموش کر دی جاتی ہے، وہ اخلاقی اقدار، دیانتداری اور راست بازی کے اصولوں سے انحراف ہے۔ مغرب کے میڈیا کی اپنے سامعین کے ذوق اور صلاحیت سے لاتعلقی کی ایک اہم مثال ۰۹۔۲۰۰۸ء کے قتل عام کی کوریج ہے۔ بی بی سی سے رائٹرز، سی این این سے اسکائی نیوز اور واشنگٹن پوسٹ سے نیویارک ٹائمز تک، تمام صحافتی اداروں نے الفاظ کی جادوگری کا استعمال کرتے ہوئے اسرائیلی حکومت کی سیاہ کاریوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی۔ اسرائیلی فوج کے مظالم اور تشدد کو شاطرانہ انداز میں کم کر کے دکھایا گیا۔ انہوں نے یہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ اسرائیل حقیقت میں قتل عام کا مرتکب ہورہا ہے، اس لیے انہوں نے اپنی رپورٹوں سے قتل عام کا لفظ ہی حذف کر دیا۔ بی بی سی جس کی عیارانہ چالوں سے ہم آشنا ہیں، اس نے ڈیزاسٹر ایمرجنسی کمیٹی کی غزہ کے لیے اپیل نشر کرنے سے انکار کر دیا جو اسرائیلی لابی کے بڑھتے ہوئے تشدد کا شکار تھا۔
بحران کے شکار غزہ کے لیے اپیل نشر کرنے سے انکار ایسا معاملہ تھا جس کے متعلق خود برطانوی عوام نے شکایت کی۔ ۲۳؍ جنوری ۲۰۰۹ء کو انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ سیکریٹری ڈگلس الیگزینڈر نے بی بی سی، اسکائی اور آئی ٹی وی کو مراسلہ لکھا جس میں غزہ کے عوام کے لیے اپیل نشر نہ کرنے پر اظہار تاسف کیا گیا۔ ۲۵؍ جنوری کو آرچ بشپ آف کنٹربری رووان ولیمز نے اسکاٹ لینڈ کے وزیر ایلکس سالمنڈ اور وزیر انصاف شاہد ملک کے ساتھ بی بی سی پر اپیل نشر کرنے کے لیے زور دیا۔ ’’گارڈین‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق بی بی سی نے تسلیم کیا کہ اسی روز اسے عوام کی طرف سے اسرائیل نواز رویہ اختیار کرنے پر ۰۰۰،۱۱ شکایات موصول ہوئیں۔
اسی سال جب محاصرے کا شکار غزہ کی پٹی میں تصادم، انسانی بحران پر منتج ہو رہا تھا اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل نے ایک قرارداد منظور کی۔ جس میں غزہ کے غیر مسلح شہریوں کو قتل کرنے اور جنگی جرائم کاارتکاب کرنے پراسرائیل کی مذمت کی گئی، جو ایسی صورتحال میں تھے جس میں ان کی بیرونی دنیا تک اس حد تک بھی رسائی ممکن نہیں تھی، جس کو استعمال کرتے ہوئے وہ اپنی اہم ترین ضروریات مثلاً خوراک اور ادویات وغیرہ حاصل کر سکتے۔ رائٹرز کی انسانی حقوق کی کونسل کے فیصلے کی رپورٹ غیر متوازن تھی اور یہ واضح کرتی تھی کہ رائٹرز اور میڈیا کے دوسرے ادارے اپنی متعلقہ حکومتوں کی ہدایات کے علاوہ کسی اصول پر عمل نہیں کرتے تھے۔ ۱۲؍ جنوری ۲۰۰۹ء کی رپورٹ اس انداز میں شروع ہوئی تھی ’’اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل نے جس پر غالب اکثریت مسلمان ریاستوں اور ان کے اتحادیوں کی ہے، غزہ کے عوام کے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کرنے پراسرائیل کی مذمت کی ہے‘‘۔
یہ حقیقت دلچسپ ہے کہ رائٹرز اور اس کے حواری مستقل طور پر یہ ادراک کرنے میں ناکام رہے کہ اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا ادارہ جو پانچ مستقل ارکان پر مشتمل ہے اس میں یہ مستقل ارکان برتر حیثیت رکھتے ہیں، جو ان دیگر ۱۹۰ ممالک کے نقطہ نظر کو کم اہمیت دیتے ہیں، جو اس امتیازی طرزِ عمل کی حامل کونسل کے ارکان نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل نے ایران پر جو پابندیاں عائد کیں رائٹرز نے ان کے متعلق کبھی یہ فقرہ نہیں لکھا کہ یو این ایس سی جس میں امریکا اور اس کی یورپی کٹھ پتلیاں غالب حیثیت کی حامل ہیں نے ایران کے جوہری پروگرام کی وجہ سے اس کے خلاف نئی قرارداد منظور کی ہے۔ مغربی میڈیا کے پراپیگنڈے کی یہ وہ چال ہے جس کا وہ استعمال کرتا رہتا ہے… لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ میڈیا کے ان اداروں پر کن کا کنٹرول ہے اور کون ان اداروں کے نظم و نسق کو چلاتا ہے؟ کیا یہ عناصر واقعی رائے عامہ کے ترجمان ہیں یا محض حکومتوں کی ایک مختصر تعداد کی کٹھ پتلیوں کی حیثیت رکھتے ہیں، جو دنیا بھر کے عوام کے ذہنوں کو اپنے استدلال اور منطق کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں اور ان کے سامنے حقائق کو غلط انداز میں پیش کرتے ہیں؟
پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ ٹی وی چینل مثلاً بی بی سی، فرانس۲۴، سی این این اور فاکس نیوز مکمل طور پر سرکاری ملکیت ہیں اور سرکاری ملازمین ہی ان صحافتی اداروں کو چلاتے ہیں۔ اس حقیقت سے قطع نظر کہ ان اہم ٹی وی چینلوں میں مرکزی شخصیات امیر، بااثر یہودیوں پر مشتمل ہیں جو اسرائیلی حکومت کے مفادات کی تشہیر کرتی ہیں۔ یہ ادارے اپنی حکومتوں اور اپنے مدبرین کی ذہنی سوچ کی حمایت اور تشہیر کرنے کے بھی ذمہ دار ہیں۔ ان کی اس پالیسی کی وجہ سیاسی اسٹیج پر اپنے کرداروں کو برقرار رکھنا بھی ہے۔ بی بی سی ورلڈ سروس کو فارن اینڈ کامن ویلتھ آفس فنڈ فراہم کرتا ہے۔ یہ برطانوی حکومت کا وہ ادارہ ہے جو بیرون ملک برطانیہ کے مفادات کو فروغ دینے کا ذمہ دار ہے۔ بی بی سی کی ۰۹۔۲۰۰۸ء کی سالانہ رپورٹ کے مطابق اس نیٹ ورک نے اس دوران ۶ء۲۹۴ لاکھ پائونڈ وصول کیے۔ یہ رقم اس مجموعی بجٹ کا چھوٹا سا حصہ ہے۔ جو برطانوی حکومت بی بی سی ورلڈ سروس کے لیے مختص کرتی ہے۔
فاکس نیوز کے معاملات بھی ایسے ہی ہیں۔ اس ٹی وی چینل کو مختلف ممالک کی ہئیت اجتماعی ’’نیوز کارپوریشن‘‘ چلاتی ہے۔ اسے امریکی و آسٹریلوی میڈیا کی اہم یہودی شخصیات چلاتی ہیں، والٹ ڈزنی کمپنی اور ٹائم وارنر کے بعد نیوز کارپوریشن مختلف ممالک کے میڈیا نمائندوں پر مشتمل دنیا کی تیسری بڑی انجمن ہے۔ علاوہ ازیں فاکس نیوز اور نیوز کارپوریشن کو امریکا کا محکمہ دفاع فنڈ فراہم کرتا ہے۔ فاکس نیوز نے ہمیشہ یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ میڈیا کا آزاد ادارہ ہے، جو کنزرویٹس اور ڈیموکریٹس دونوں کو اظہار رائے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ یہ ادارہ یہود نواز ہونے کے الزامات سے انکار کرتا ہے اور یہ تسلیم کرنے سے بھی منکر ہے کہ یہ پینٹاگون کے زیر کنٹرول کام کرتا ہے، لیکن حقیقت اس سے مختلف ہے۔ متمول اور خوشحال یہودیوں کی ایک مختصر تعداد، اعلیٰ سطح کے امریکی افسروں کے ساتھ روابط رکھتی ہے اور امریکا میں میڈیا کو کنٹرول کرتی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق امریکی میڈیا کے اداروں کی بڑی تعداد کو یہودی چلاتے ہیں۔ دنیا میں اس وقت میڈیا کی سب سے بڑی ہئیت اجتماعی ’’ٹائم وارنر‘‘ ہے۔ اس کے ذیلی اداروں میں نیو لائن سنیما، ایچ بی او، ٹرنر براڈکاسٹنگ سسٹم، سی ڈبلیو ٹیلی ویژن نیٹ ورک، دی ڈبلیو بی ڈاٹ کام، وارنر برادرز، کڈز، ڈبلیو بی کارٹون نیٹ ورک، سی این این، ڈی سی کامکس، ٹائم ان کارپوریشن وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں سے ہر ذیلی ادارہ سینکڑوں جریدوں، نیوز نیٹ ورکس اور ٹی وی اسٹیشنوں کا مالک ہے۔ اس حقیقت نے ہر ادارے کو دیوہیکل کمپنی کی حیثیت دے دی ہے جو ناقابل شکست دکھائی دیتا ہے۔ نیشنل الائنس انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق یہودی وارنر برادرز نے گزشتہ صدی کے ابتدائی حصے میں اس کی بنیاد رکھی۔ یہ ادارہ بڑی سرعت سے ہالی ووڈ میں یہودیوں کے طاقت کے مرکز کا حصہ بن گیا۔ ہر نئی میڈیا کمپنی کو زیادہ تر یہودیوں سے منظوری حاصل کرنا پڑتی ہے۔ دنیا میں میڈیا کی دوسری بڑی ہئیت اجتماعی والٹ ڈزنی کمپنی ہے۔ ۲۰۰۳ء میں اس کا سالانہ ریونیو ۱ء۲۷ بلین ڈالر ہے۔ ۱۹۸۴ء سے لے کر ۲۰۰۵ء تک اس کے سربراہ مائیکل آسٹر یہودی تھے۔ میڈیا کی ایک اور قدآور شخصیت ایڈگر برنف مین جونیئر ہے۔ وہ سی گرام کمپنی کو چلاتے ہیں۔ حال ہی میں اس کمپنی کو دی ونیڈ میں مدغم کر دیا گیا ہے۔ ان کے والد گرنف مین جونیئر ہے۔ وہ سی گرام کمپنی کو چلاتے ہیں۔ حال ہی میں اس کمپنی کو دی ونیڈ میں مدغم کر دیا گیا ہے ان کے والد ایڈگر برنف مین سینئر ورلڈ جیوئش کانگریس کے صدر ہیں۔
یہودی دنیا کے بڑے میڈیا کے ۹۵ فیصد حصے کو کنٹرول کرتے ہیں۔ رابرٹ چرنن جو ۲۰۰۹ء تک نیوز کارپوریشن کے صدر اور چیف آپریٹنگ آفیسر اور فاکس انٹرٹینٹمنٹ کے چیئرمین اور سی ای او تھے۔ ایک سرگرم یہودی ہیں۔ انہوں نے ۲۰۰۳ء میں عراق پر حملے سے پہلے فاکس نیوز کے ذریعے سخت اور شدید پروپیگنڈہ مہم چلا کر اس کارروائی کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے عراق پر حملے کی حمایت کی اور امریکی عوام کواس حوالے سے قائل کر کے کہ عراق میں فوجی مہم ضروری ہے ان کے ذہن تبدیل کرنے میں حصہ لیا۔ اسی طرح اور بہت سے نام ہیں جو میڈیا کی سب سے طاقتور شخصیات ہیں جو امریکا میں بہت سے اخبارات، ٹی وی چینل اور ریڈیو اسٹیشن چلا رہے ہیں۔ مورٹائمرز کرمین، جو ۲۰۰۸ء میں امریکا کی ۴۸ ویں امیر شخصیت تھے، نیویارک ڈیلی نیوز، یو ایس نیوز اینڈ ورلڈ رپورٹ کے مالک اور کانفرنس آف پریزیڈنٹس آف میجر جیوئش امریکا آرگنائزیشن کے سربراہ ہیں۔ یہ امریکا میں اسرائیل کی لابنگ کرنے والا سب سے بڑا گروپ ہے۔ مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ … یہ دعویٰ کہ میڈیا کے امریکی اور برطانوی ادارے آزاد ہیں، غلط ہیں۔ اور ان کے دعوے کا کوئی ثبوت نہیں۔ میڈیا کے امریکی اور برطانوی اداروں کو ان کی حکومتیں فنڈز فراہم کرتی ہیں۔ ان کو پرجوش یہودی کنٹرول کرتے ہیں۔ جن کا مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی مفادات کو فروغ دینے کے سوا کوئی مقصد نہیں۔
(بشکریہ: ’’پریس ٹی وی ڈاٹ کام‘‘۔ ترجمہ: شاہین مصطفی)
Leave a Reply