
میں اکثر سوچا کرتی ہوں کہ عرب حکمرانوں کے دلوں میں اخوان المسلمون کا اتنا زیادہ خوف کیوں ہے؟پورے مصر، عرب امارات اور سعودی عرب کی جیلیں سیاسی قیدیوں سے بھری ہوئی ہیں جن کا تعلق اخوان المسلمون سے ہے،اور اس تنظیم کو ’’دہشت گرد تنظیم‘‘ قرار دے کر اس پر پابندی بھی عائد کی جا چکی ہے۔
اخوان کے حوالے سے خوف کا اس قدر پروپیگنڈا کیا گیا ہے کہ چاہے وہ اسرائیل کی انتہائی دائیں بازو کی تنظیم ہو یا پھر ٹرمپ انتظامیہ، مبالغہ آرائی کر کر کے اسے مشرق وسطیٰ کی شیطانی قوت کے طور پر متعارف کروا دیا گیا ہے۔ اگر متحدہ عرب امارات،سعودی عرب اور قاہرہ کا نقطہ نظر سنیں تو آپ کو ایسا لگے گا جیسا کہ انھوں نے دنیا کے خطرناک ترین دہشت گردوں کو جیلوں میں بند کر دیا ہے۔لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے،اگر آپ ان لوگوں کے کاموں اور نظریات پر نظر ڈالیں تو آپ شاید ہی کوئی مجرمانہ سرگرمی یا انتہا پسندی پر مبنی نظریات تلاش کر سکیں۔
درحقیقت ان جیلوں میں موجود اخوان کے کارکنا ن میں ڈاکٹر،انجینئر اور پی ایچ ڈی ڈاکٹروں کی اتنی بڑی تعداد موجود ہے جو دنیا میں کہیں بھی نہیں۔صورت حال یہ ہے کہ جیلوں میں موجود لوگ نہ صرف اپنے جیلروں سے زیادہ ذہین ہیں بلکہ ان ججوں سے بھی زیادہ قابل ہیں جنھوں نے انھیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلا ہے۔لیکن المیہ یہ ہے کہ خلیجی ممالک میں طاقت کی راہداریوں میں موجود قدآور بونے اخوان کے لوگوں کے ساتھ ذلت آمیز سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔اور یہی حکمران ہیں جو اخوان کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں، ان کا سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ انھیں لگتا ہے کہ اخوان اقتدار پر قبضہ نہ کر لے۔
اب سننے میں آرہا ہے کہ سعودی حکومت نے القسیم اور مکہ کی مساجد کے ۱۰۰ کے قریب آئمہ کرام اور مبلّغین کو معزول کردیا ہے، ان کا جرم یہ ہے کہ انھوں نے حکومت کے احکامات کے مطابق جمعہ کے خطبوں میں اخوان کے خلاف تقریر کرنے سے منع کر دیا تھا۔یہ خبر عربی اخبار ’’الوطن‘‘ نے جاری کی ہے۔ وزارت مذہبی امور نے ہدایات جاری کی تھیں کہ اخوان کو معاشرے میں تقسیم کا ذمہ دار قرار دیا جائے اور اس معاملے پر جمعے کے خطبوں میں لازمی بات کی جائے۔
آج سے بیس برس قبل میں نے جو اسلام قبول کیا تھا اس کی وجہ اس مذہب کی فکری آزادی تھی۔ میں نے ہرگز ان دانشوروں کے کہنے پر اسلام قبول نہیں کیا تھا، جو ڈالر لے کر حکومتی ہدایات کے مطابق خطبے دیتے ہیں۔ذاتی طور پر میں یہ سمجھتی ہوں کہ ریاست کو مذہبی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے۔سابقہ عملی عیسائی ہونے کے ناطے اگرمیں تصور کروں کہ اتوار کی صبح چرچ میں عبادت کے اجتماع کے بعد اگر پادری بورس جانسن کے اقدامات پر تبصرہ کرنا شروع کر دے تو بہت ہی غیر مہذب لگے گا۔اسی طرح یہ بھی بالکل مناسب نہیں لگے گا اگر انجیلا مارکل عیسائی پادریوں کو چرچ میں خطبوں کے لیے احکامات جاری کرے۔
عرب دنیا کی طرح سعودی عرب میں وزارتِ مذہبی امور کی طرف سے احکامات جاری کیے گئے کہ جمعے کے خطبوں میں ’’اخوان ‘‘کے خلاف بات کی جائے اور اسے دہشت گرد تنظیم قراردیا جائے،دراصل اس طرح کے احکامات اسلام کی روح کے مطابق نہیں بلکہ صرف ذاتی مفادات کے حصول کے لیے اس طرح کے احکامات دیے جارہے ہیں۔ میرے خیال میں اس طرح کے احکامات ریاست کی مذہبی معاملات میں مداخلت کی واضح مثال ہیں۔ اور ان احکامات کے پیچھے درحقیقت ریاست کی طاقتور ترین شخصیت ’’محمد بن سلمان‘‘ ہیں۔
غیر پیشہ ورانہ رویہ اور کم ہمتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’’کونسل آف سینئر اسکالرز‘‘ نے جو پریس ریلیز جاری کی اس میں کہا گیا ہے کہ ’’اخوان ایک دہشت گرد گروہ ہے جو اسلامی تعلیمات کی ترجمانی نہیں کرتا بلکہ صرف اپنی عسکریت پسندی، دہشت گردی، غیر اخلاقی کاموں کو اسلام جیسے پر امن مذہب کے پردے کے پیچھے چھپانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
یہ جاننا تو مشکل ہے کہ ان اسکالروں کو اس طرح کی پریس ریلیز جاری کرنے کے لیے کس قسم کی دھمکیاں دی گئی ہوں گی، اور میں اس معاملے میں مبالغہ آرائی سے کام بھی نہیں لینا چاہتی۔تاہم یہ واضح ہے کہ محمد بن سلمان اور ان کے حواری اس بات سے بہت زیادہ خوف زدہ ہیں کہ جس عوام پر وہ بزور طاقت حکمرانی کرتے ہیں انھیں کہیں سوچنے اور سمجھنے کی آزادی حاصل نہ ہو جائے۔یعنی کہ اگر دوسرے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو جن لوگوں کی نمائندگی کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں ان ہی سے خوف کا شکار ہیں۔
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر کے سازشی اتحاد نے ’’عرب بہار‘‘ کو ناکامی سے دوچار کیا،پھر ہم نے دیکھا کہ کس طرح ان ممالک کی مداخلت نے یمن، لیبیا اور عراق کو تباہ و بربادی کی داستان بنا دیا۔ ۲۰۱۳ء میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے مصر میں بغاوت کی حمایت کی جس کے نتیجے میں جنرل عبدل الفتح سیسی نے ملک کی پہلی منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا اور ڈاکٹر محمد مرسی کو صدارت سے ہٹا دیا۔اس کے اگلے ہی برس ریاض نے اخوان کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا۔پھر ۲۰۱۹ء میں ان کے کارکنا ن اور حمایتی افراد کو گرفتار کر نا شروع کر دیا۔۱۹۵۰ء میں جب سعودی حکومت نے مصر اور شام اور دیگر ممالک میں موجود اخوان کے رہنماؤں اور کارکنان کو سیاسی پناہ دی تھی، یہ اخوان پر ابتلا کا دور تھا، اس دور کے سعودی حکومت کے اقدامات کو ذہن میں رکھیں تو موجودہ فیصلے ایک واضح ’’یوٹرن‘‘ محسوس ہوتے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ یہ ’’یوٹرن ‘‘یا تو یاد داشت کو بھلا دینے کی بیماری کا نتیجہ ہے یا پھر سعودی مملکت ایک ایسے خوف کا شکار ہو گئی ہے جوان کے حواس پر چھا گیا ہے۔
آج کل میرے کام کا موضوع ’’انصاف کی عدم فراہمی کی وجہ سے ہونے والے نقصانات اور سیاسی قیدیوں کی حالتِ زار ہے‘‘۔ صحافی ہونے کے ناطے، طالبان کے ہاتھوں اپنے اغوا سے قبل بھی نا انصافی کے موضوع پر ہمیشہ میری توجہ رہی ہے۔خدا کا شکر ہے کہ میرے اغوا کا عرصہ مختصر رہا اور مجھے انسانی بنیادوں پر رہا بھی کر دیا گیا۔
اس کے بعد سے ماورائے عدالت ہونے والے واقعات پر میں نے خصوصی توجہ دی۔اس لیے میں نے بہت سی جیلوں کے دورے بھی کیے جن میں امریکا کے زیر انتظام گوانتا ناموبے کی جیل، یورپ کے حراستی مراکز، جنوبی افریقا کی جیلیں، جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کی جیلوں کے بھی دورے کیے۔ میں نے ان لوگوں سے لرزا دینے والے واقعات بھی سنے جو نیلسن منڈیلا کے ساتھ کیپ ٹاؤن قید میں رہے۔
کچھ اسی طرح کی افسوس ناک کہانیاں آئرش ریپبلک کے لوگوں کی بھی ہیں، جنھوں نے مشہور زمانہ بھوک ہڑتال میں حصہ لیا۔ اس بھو ک ہڑتا ل کے نتیجے میں دس افراد تو موت کے منہ میں چلے گئے تھے،ان مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ اس وقت کی برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر انھیں سیاسی قیدی کے طور پر تسلیم کریں۔دل دہلا دینے والے واقعات تو ایک شامی خاتون نے سنائے جسے بشارالاسد نے خانہ جنگی کے دوران بہت عرصے تک قید رکھا۔
تاہم مصر کی حکومت جس طرح مذہب، صنف کا امتیاز رکھے بنا ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے تو مجھے یقین ہے کہ جہنم میں اس سب کے ذمہ داران کے لیے جگہ ضرور مختص کی گئی ہو گی۔ ذمہ داران سے مراد بدعنوان جج اور وہ لوگ جو اس ریاست کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔اور سب سے اہم ذمہ دار تو جنرل سیسی ہے جو چاہے تو یہ ظلم و ستم رُک سکتا ہے۔
اگر آپ کو اس ظلم و ستم کا اندازہ لگانا ہے، جو یہ ریاستیں جاری رکھے ہوئے ہیں تو زینب الغزالی کی کتاب کا مطالعہ کریں، میں نے جب ان کی کتاب پڑھی تھی تو میرے آنسو ہی رکنے کا نام نہ لیتے تھے۔ اگرچہ انہیں ۱۹۶۵ء میں قید رکھا گیا تھا، تاہم مجھے یقین ہے کہ ظلم و ستم کا طریقہ ماضی سے بھی زیادہ گھناؤنا ہو گا۔
اخوان المسلمون کے زیادہ تر قیدی بزرگ ہیں، جن کی عمریں اسّی سال کے لگ بھگ ہیں۔ انھیں قیدِ تنہائی میں رکھا گیا ہے اور وہ سب زمین پر سوتے ہیں۔ نہ انھیں اہل خانہ سے ملنے دیا جاتا ہے،نہ ضروری ادویات دی جاتی ہیں اور نہ ہی ان کی غذا کا خیال رکھا جا تا ہے۔ ذرا تصور کریں اگر یہ سب آپ کے بزرگوں کے ساتھ کیا جا رہا ہو!
یہ سب نیا نہیں ہے۔۲۰۰۷ء میں انسانی حقو ق کے اس گروپ میں شامل تھی جو اخوان کے رہنماؤں پر چلنے والے مقدمات کی کارروائی دیکھنے کے لیے مصر گیا تھا۔اس وقت کے حکمران ہمیں یہ یقین دلانا چاہتے تھے کہ یہ لوگ خطرناک دہشت گرد ہیں۔ تاہم میں نے اس تنظیم کے راہنماؤں سے ملاقات کی تو میں نے انھیں بہت ہی منظم پایا اور ایسی نظریاتی تنظیم جس کے دل میں اسلام رچا بسا ہوا ہو۔میں نے اس وقت مصری ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ صدر حسنی مبارک کو چاہیے وہ اخوان المسلمون کو قبول کرے اور ان لوگوں کی ذہانت اور صلاحیتوں کو مصری عوام کی بھلائی کے لیے استعما ل کرے۔اس رات جب میں واپس ہوٹل آئی تو میں نے دیکھا کہ میرے کمرے کی تمام چیزیں بکھری ہوئی ہیں اور ہر چیز کی تلاشی لی گئی ہے، یعنی پولیس میرے کمرے کی تلاشی لے کر جا چکی تھی۔
میں بھی پیچھے نہیں ہٹی،اگلے ہی دن اخوان المسلمون کے رہنماؤں کی پیشی کے موقع پر میں عدالت پہنچ گئی۔ تاہم مجھے سماعت سننے کی اجازت نہیں دی گئی، اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ جو ریاست صحافیوں کو اپنا کام کرنے سے روک رہی ہو تو اس کا لازماً مطلب یہ ہے کہ وہ ریاست غیر قانونی اقدامات جاری رکھے ہوئے ہے اور انھیں چھپانا بھی چاہتی ہے۔ ٹرائل ان ججوں کے ذریعے کروایا جا رہا تھا، جن کا حق وانصاف سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔یعنی کہ انصاف دینا جن کے ایجنڈے میں تھا ہی نہیں۔
پھر جب سے سیسی نے فوجی بغاوت کے ذریعے شہید مرسی کی حکومت کا خاتمہ کیا،ملک پھر سے آمرانہ دور میں داخل ہو گیا۔ کب یہ سیسی جیسے حکمرانوں کو سمجھ آئے گی کہ حکومتی جبر دراصل ان کی اپنی کمزوری اور ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔اخوان کو مٹانے کی کوشش کر کے آپ نظریاتی تحریک کا خاتمہ نہیں کر سکتے۔ اور متحدہ عرب امارات کی حکومت کے لیے کتنی ہی شرمندگی کی بات ہو گی، جب برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے ۲۰۱۵ء میں یہ بیان دیا کہ اگرچہ ابو ظہبی حکومت ہم پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ ایک رپورٹ کی بنیاد پر ہم اخوان پر پابندی لگائیں تاہم ہم ایسا نہیں کریں گے۔اس رپوٹ میں اخوان کو تحریک کے بجائے دہشت گرد گروہ کا رنگ دیا گیا تھا۔اس وقت متحدہ عرب امارات پر مغربی جمہوریت میں مداخلت کا الزام لگا تھا۔
ایسی شرمندگی تو کیمرون کو بھی ہوئی ہو گی، جب رپورٹ لکھنے والے سربراہ نے اخوان المسلمون کو ’’کلین چٹ ‘‘دی ہو گی۔ یہ رپورٹ دو سال تک سرکاری دفاتر میں گھومتی رہی۔ پھر دو سال بعد اندرونی دباؤ کے نتیجے میں یہ رپورٹ منظر عام پر آئی۔ ایک برس بعد برطانوی وزارتِ خارجہ کے دفتر سے ایک اور رپورٹ جاری ہوئی جس میں اخوان المسلمون جیسی اسلامی تنظیموں کو جمہوریت کا محافظ قرار دیا۔
یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ برطانوی حکومت نے ایسا کسی سفارت کاری کی وجہ سے کیا یا پھر کوئی معاشی مسئلہ تھا۔ تاہم مجھے خوشی ہوئی کہ برطانوی حکومت کسی دباؤ میں نہیں آئی۔ تاہم برطانوی حکومت کے اس آمر سے تعلقات قائم ہیں، جو انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی کرتا ہے۔
زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ ’’ڈالروں میں اپنی قیمت لگوانے والے یہ اسکالر اخوان المسلمون کے خلاف پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔ اس پروپیگنڈے کا واحد مقصد دولت کا حصول ہے۔
میری ہمدردی ان ہزاروں سیاسی قیدیوں کے ساتھ ہے جو مشرق وسطیٰ کی جیلوں میں قید ہیں اور اپنے عقیدے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ اللہ ان سب کا حامی و ناصر ہو۔آمین۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“Who’s afraid of the Muslim Brotherhood, and why?”(“middleeastmonitor.com”. December 21, 2020)
Excellent article 👍👍👍