
افغانستان کے طول و عرض پر طالبان کے متصرف ہو جانے سے ہزاروں امریکیوں، اتحادیوں اور اتحادیوں کے لیے کام کرنے والے افغانوں کے انخلا کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ یہ لوگ ملک کے مختلف علاقوں میں بکھرے ہوئے ہیں۔ ان کی مدد کرکے انخلا یقینی بنانا ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ اس سے بھی زیادہ بنیادی نوعیت کی اور انتہائی پریشان کن بات یہ ہے کہ امریکا نے اتحادیوں اور بیس برس کے دوران اتحادیوں کے ساتھ رہنے والوں سے مشاورت کیے بغیر یا انہیں اعتماد میں لیے بغیر انخلا کا فیصلہ کیوں کرلیا اور افغانستان میں درپیش چیلنج کو افغانستان پر مکمل کنٹرول یا وہاں سے انخلا کے درمیان انتخاب تک کیوں محدود کردیا گیا۔
ویتنام سے عراق تک شورش کو کچلنے کے نام پر کی جانے والی کوششوں کے حوالے ایک بنیادی سوال تعاقب میں رہا ہے۔ جب امریکا اپنے فوجیوں کی زندگی داؤ پر لگائے، اپنی ساکھ کو خطرے میں ڈالے اور دیگر ممالک کو بھی ملوث کرے تو اسے یہ سب کچھ واضح اسٹریٹجک اور سیاسی اہداف و مقاصد کے تحت کرنا چاہیے۔ اسٹریٹجک یوں کہ ہم جن حالات میں لڑیں وہ واضح ہونے چاہئیں اور سیاسی یوں کہ متعلقہ ملک کے لیے حکومتی نظام یا ڈھانچا واضح ہو تاکہ امریکا اور اتحادیوں کی کوشش کے نتائج کو متعلقہ ملک اور عالمی برادری دونوں کے لیے پائیدار بنانے میں مدد ملے۔
امریکا نے دور افتادہ ممالک میں شورش پر قابو پانے کی کوششوں کے حوالے سے اپنے آپ کو شدید شکست و ریخت سے دوچار کرلیا ہے اور ایسا اس لیے ہوا ہے کہ وہ قابلِ حصول اہداف کے تعین اور انہیں اپنے سیاسی نظام سے جوڑ کر پائیدار حیثیت دینے میں ناکام رہا ہے۔ امریکا کے لیے اب تک عسکری مقاصد غیر معمولی حد تک قطعی اور ناقابلِ عمل رہے ہیں اور سیاسی مقاصد قطعی غیر واضح اور ’’غصِ بصر‘‘ واقع ہوئے ہیں۔ عسکری اور سیاسی مقاصد کو ایک دوسرے سے جوڑنے اور ہم آہنگی پیدا کرنے میں ناکامی سے امریکا بہت سے تنازعات میں یوں الجھا کہ خود اسے بھی اندازہ نہ تھا کہ معاملات خاتمے کی منزل تک کیسے پہنچائے جائیں گے اور اس کے نتیجے میں ہم اندرونی سطح پر اپنے مقاصد کو بہت سے تنازعات کی نذر کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
ہم افغانستان میں اس حالت میں داخل ہوئے تھے کہ طالبان کے زیر تصرف افغانستان سے امریکا پر القاعدہ کے حملے کے نتیجے میں عوام کی حمایت بھی حاصل تھی۔ عسکری کارروائی ابتدائی مرحلے میں غیر معمولی حد تک موافق نتائج پیدا کرنے میں کامیاب رہی تھی۔ طالبان اصلاً پاکستان میں پناہ گاہوں کے ذریعے بچ نکلنے میں کامیاب رہے۔ وہاں سے انہوں نے چند پاکستانی اتھارٹیز کی مدد سے افغانستان میں شورش جاری رکھی۔
جب طالبان افغانستان سے فرار ہو رہے تھے تب ہم نے اسٹریٹجک معاملات پر اپنا ارتکاز کھودیا۔ ہم نے اپنے آپ کو اس بات کا قائل کرلیا کہ افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کا دوبارہ قیام صرف اس صورت میں روکا جاسکتا ہے کہ ملک کو جمہوری اداروں سے آراستہ جدید ریاست میں تبدیل کیا جائے اور وہاں آئین کے تحت حکمرانی یقینی بنائی جائے۔ ایسی کوئی بھی مہم جوئی امریکی سیاسی نظام اور سرگرمیوں سے مطابقت رکھنے والے نظام الاوقات کی حامل ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ ۲۰۱۰ء میں مزید امریکی فوجی افغانستان بھیجنے کے فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے میں نے ایک مضمون میں خبردار کیا تھا کہ عسکری مہم اتنی طویل، لاحاصل اور لایعنی نہ ہو جائے کہ غیر جہادی افغان بھی اس کے خلاف ہوجائیں۔
افغانستان کبھی جدید ریاست نہیں رہا۔ کسی بھی خطے یا معاشرے کو ریاست کی حیثیت اسی وقت حاصل ہوتی ہے، جب پوری قوم کا کوئی ایک مشترکہ نظریہ و فریضہ واضح ہو اور اس حوالے سے قوتِ مقتدرہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہو۔ افغان سرزمین بہت سے معاملات میں زرخیز ہے مگر ریاست کے بنیادی عناصر کے حوالے سے محرومی کی حالت میں ہے۔ افغانستان کو ایک ایسی جدید جمہوری ریاست میں تبدیل کرنا جہاں ریاستی عملداری واضح اور تمام معاملات پر حاوی ہو کئی سال، بلکہ عشرے چاہتا ہے۔ یہ سب کچھ اس ملک کی جغرافیائی ساخت اور لسانی و مذہبی بنیاد پر پائے جانے والے تنوع کے خلاف ہے۔ افغانستان کی منقسم حالت، مختلف علاقوں تک انتہائی مشکل رسائی اور مرکزی اتھارٹی کے فقدان نے اسے دہشت گرد نیٹ ورکس کے لیے انتہائی پرکشش بنایا۔
ریاست کی شکل میں افغانستان کی تاریخ اٹھارویں صدی تک ملتی ہے تاہم اس خطے کے لوگ مرکزی اتھارٹی کے زیادہ قائل نہیں رہے بلکہ اس کے خلاف مزاحمت بھی کرتے رہے ہیں۔ افغانستان کا سیاسی و عسکری استحکام بہت حد تک نسلی و قبائلی بنیادوں پر ممکن بنایا جاتا رہا ہے۔ اصلاً جاگیردار معاشرتی و سیاسی ڈھانچے میں فیصلہ کن حیثیت قبائلی بنیاد پر تشکیل دی جانے والی افواج کے منتظمین کو حاصل رہی ہے۔ افغانستان کے جنگجو سردار آپس میں تو دست و گریباں رہتے ہیں مگر جب کوئی بیرونی قوت حملہ آور ہوکر معاشرے کو باہم جوڑنے اور کوئی مرکزی اتھارٹی متعارف کرانے کی کوشش کرتی ہے تو یہ متحد ہوکر اس کا سامنا کرتے ہیں۔ ۱۸۳۹ء میں برطانوی فوج اور ۱۹۷۹ء میں سابق سوویت یونین کی افواج کے حملوں کے وقت ایسا ہی ہوا تھا۔
برطانوی افواج کو ۱۸۴۲ء میں کابل سے شرمناک اور ہلاکت خیز انداز سے پسپا ہونا پڑا تھا۔ تب صرف ایک یورپی باشندہ ہلاک یا گرفتاری سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوسکا تھا۔ ۱۹۸۹ء میں سابق سوویت افواج کی پسپائی بھی افغان جنگجو سرداروں کے اتحاد اور حرکت پذیری ہی سے ممکن ہوسکی تھی۔ یہ کہنا بالکل بے بنیاد ہے کہ افغان باشندے اپنے لیے لڑنا نہیں چاہتے کیونکہ تاریخی طور پر یہ ثابت ہے کہ وہ اپنے قبائل اور قبائلی خود مختاری کے لیے بے جگری سے لڑتے رہے ہیں۔
امریکا نے افغانستان میں جو کچھ کیا وہ رفتہ رفتہ دہشت گردی اور شورش کے خلاف اس کی دیگر مہمات کی شکل اختیار کرتا گیا یعنی امریکا کے طول و عرض میں اس حوالے سے حکومت کی حمایت گھٹتی گئی۔ طالبان کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے میں کامیابی ممکن بنائی گئی مگر جنگ سے تباہ حال ملک میں قومی سطح کی تعمیر و ترقی سے متعلق کوششوں نے بنیادی عسکری قوت کو جذب کرلیا۔ طالبان پر قابو تو پالیا گیا تاہم انہیں ختم نہیں کیا جاسکا۔ نامانوس قسم کے حکومتی ڈھانچوں کے متعارف کرائے جانے سے سیاسی عزم کمزور پڑگیا اور پہلے سے موجود کرپشن کو غیر معمولی، بلکہ تباہ کن حد تک بڑھاوا ملا۔
افغانستان میں امریکا کے داخلی تنازعات کی بہت سی شکلیں دکھائی دی ہیں۔ شورش کچلنے کے نام پر کی جانے والی کارروائیوں کے تناظر میں جسے ترقی قرار دیا جاتا ہے، اسے سیاسی تناظر میں صرف اور صرف تباہی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ امریکا میں حکومتیں تبدیل ہوتی رہیں اور دونوں جماعتوں کی حکومتوں (انتظامیہ) کے دوران فریقین ایک دوسرے کو زیادہ سے زیادہ مفلوج کرنے کی تگ و دو میں مصروف رہے۔ ایسے میں بعض ایسے اعلانات بھی ہوئے جو عجیب کہے جاسکتے ہیں اور جن سے معاملات مزید الجھے۔ ۲۰۰۹ء میں فیصلہ کیا گیا کہ افغانستان میں مزید فوجی بھیجے جائیں گے اور ساتھ ہی ساتھ یہ اعلان بھی کیا گیا کہ ان کی واپسی ڈیڑھ سال میں شروع ہوگی۔
جن اہداف کا حصول ممکن تھا انہیں ملاکر متبادل کے حوالے سے سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔ شورش کے خلاف کیے جانے والے اقدامات کو طالبان کے خاتمے کے بجائے انہیں قابو میں رکھنے تک محدود کیا جاسکتا تھا۔ سیاسی و سفارتی سطح پر ایک بڑی افغان حقیقت بھی سامنے آسکتی تھی، یہ کہ افغانستان کے پڑوسی (جب وہ ایک دوسرے کے خلاف ہوں تب اور کبھی کبھی ہمارے خلاف بھی) اس بات سے خوف محسوس کریں کہ افغانستان کسی بھی وقت دہشت گردوں کا گڑھ بن سکتا ہے۔
کیا چند ایک شورش مخالف اقدامات کو باہم مربوط کرنا ممکن تھا؟ بھارت، چین، روس اور پاکستان کے مفادات متنوع ہیں۔ تخلیقی انداز سے بروئے کار لائی جانے والی سفارت کاری افغانستان میں دہشت گردی پر قابو پانے کے حوالے سے مشترکہ اقدامات کی راہ ہموار کرسکتی تھی۔ برطانیہ نے ایک صدی تک ہندوستان سے مشرق وسطٰی تک اپنے مقبوضہ علاقوں کا دفاع کامیابی سے کیا تھا۔ اس نے کہیں بھی مستقل فوجی اڈے قائم کرنے کے بجائے مقامی یا علاقائی حامیوں اور معاونین کی مدد سے اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہنے کی حکمت عملی اپنائی تھی۔
افغانستان کے لیے اس نوعیت کے متبادل کو تلاش کرنے کا سوچا ہی نہیں گیا۔ جنگ کے خلاف مہم چلاکر سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور صدر جو بائیڈن نے طالبان سے مذاکرات کا ڈول ڈالا جبکہ طالبان ہی کو تو نکال باہر کرنے کے لیے ہم افغانستان گئے تھے۔ اور ہم نے اپنے دوستوں اور اتحادیوں پر بھی زور دیا تھا کہ وہ طالبان کے خلاف ساتھ دیں۔
اب چاہے کچھ بھی کہا جائے اور کتنی ہی توضیح کی جائے، یہ حقیقت چھپائی نہیں جاسکتی کہ افغانستان سے امریکا اور اتحادیوں کا انخلا شدید نقصانات کا باعث بنا ہے اور منصوبہ سازی ناقص رہی ہے۔ امریکا غیر معمولی صلاحیتوں اور تاریخی اقدار کے ساتھ عالمی نظام کا ایک نمایاں حصہ ہونے کی حیثیت سے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے کر جان نہیں چھڑا سکتا۔ محض انخلا کے ذریعے امریکا سوالات اور احتساب سے بچ نہیں سکتا۔ اپنے اثرات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر کرنے والی جدید ترین ٹیکنالوجی کے حامل ممالک کی مدد سے پائی جانے والی غیر معمولی دہشت گردی کا سامنا کرنا، محدود کرنا اور اس پر قابو پانا ایک بڑا عالمگیر چیلنج ہی رہے گا۔ قومی اسٹریٹجک مفادات اور ہم آہنگی پر مبنی سفارت کاری کے ذریعے معرض وجود میں لائے جانے والے بین الاقوامی ڈھانچے کی مدد سے دہشت گردی کے خلاف مزاحمت لازم ہے۔
ہمیں یہ شناخت اور تسلیم کرنا ہوگا کہ مستقبل قریب میں ایسا کوئی ڈرامائی اسٹریٹجک اقدام ممکن نہیں، جو افغانستان میں ہم پر لگنے والے داغ کو دھونے میں معاون ثابت ہو مثلاً یہ کہ خطے میں نئے رسمی نوعیت کے اعلانات کیے جائیں۔ افغانستان سے انخلا کے معاملے میں امریکا نے جو عجلت دکھائی ہے وہ اتحادیوں کی مایوسی کو کئی گنا کردے گی، مخالفین کے حوصلے بڑھائے گی اور دیکھنے والوں کے ذہنوں میں کنفیوژن کے بیج بوئے گی۔
جو بائیڈن انتظامیہ ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے۔ جو بائیڈن انتظامیہ کو ملکی اور بین الاقوامی ضرورتوں سے مطابقت رکھنے والی جامع حکمت عملی تیار کرنے اور اسے برقرار رکھنے کا موقع ملنا ہی چاہیے۔ جمہوریت دھڑوں کے درمیان تنازعات، اختلافات اور تصادم سے پروان چڑھتی ہے اور اسے عظمت مصالحت اور تصفیوں کی بدولت نصیب ہوتی ہے۔
(مضمون نگار امریکا کے سابق وزیر خارجہ اور سابق مشیر برائے قومی سلامتی ہیں۔)
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“The future of American power: On why America failed in Afghanistan”.(“The Economist”. Aug. 25, 2021)
Leave a Reply