
۱۲ جنوری کو نیشنل پریس کلب واشنگٹن میں ہونے والے ایک پروگرام کے دوران امریکا کے سبکدوش ہونے والے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اپنی تقریر کے دوران الزام لگایا تھا کہ القاعدہ ایران کو اپنے مرکزی اڈے کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ اور ایران اور القاعدہ کا تیس سالہ تعاون حالیہ برسوں میں بلندی کی نئی سطحوں کو چھو رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’۲۰۱۵ء میں تہران نے القاعدہ کو نیا ’’آپریشنل ہیڈ کوارٹر‘‘ بنانے کی اجازت دی ہے۔ اور اب یہ دہشت گرد تنظیم ایرانی ریاست کی نگرانی میں کام کر رہی ہے‘‘۔
پومپیو امریکا کے پہلے رہنما یا سیاسی تبصرہ نگار نہیں ہیں جنہوں نے ایران پر القاعدہ کی حمایت کا الزام لگایا ہو۔ تاہم اس مرتبہ الزامات کی نوعیت بالکل مختلف تھی۔ بہت سے لوگوں نے اسے سیاسی بیان کہہ کر مسترد کر دیا۔ مسترد کرنے والوں کا کہنا ہے کہ پومپیو نئے آنے والی بائیڈن انتظامیہ کے لیے ایران سے معاہدے کو دوبارہ سے قائم کرنے کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کے لیے اس طرح کے بیانات دے رہے ہیں۔ اگرچہ پومپیو کے الزامات میں مبالغہ آرائی ضرور ہے، تاہم اس الزام کے پس پردہ ایسی کوئی بات ضرور ہے جس کی بنیاد پر یہ الزام لگایا جا رہا ہے۔
۲۰۱۵ء میں ایران اور القاعدہ کے مابین ایسا کچھ ضرور ہوا ہے جس کی بنیاد پر یہ الزام لگایا جارہا ہے۔ اس وقت القاعدہ کے چند رہنما ایران کی حراست میں تھے۔ ان قیدیوں کے تبادلے کے موقع پر ایران نے ان رہنماؤں کو آزاد نقل و حرکت کی اجازت دی، اس بنیاد پر یہ لوگ القاعدہ کی عالمی سطح کی کارروائیوں کی نگرانی ماضی کے مقابلے میں زیادہ آسانی سے کر سکتے تھے۔ اگر اس معاہدے کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو ’’القاعدہ ایران‘‘ اتحاد میں اور بہت سی پیچیدگیاں دکھائی دیتی ہیں۔ ایرانی حکومت اور القاعدہ اگرچہ کچھ معاملات میں ایک دوسرے سے تعاون ضرور کرتے ہیں تاہم یہ دونوں عملی شراکت دار نہیں ہیں، جیسا کہ ان کے بارے میں تاثر دیا جاتا ہے۔
ایران اور القاعدہ کے مابین تعاون کا یہ ’’ماڈل‘‘ ایک ایسی حقیقت ہے، جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ ۱۱/۹ واقعہ کی کمیشن رپورٹ کے مطابق ’’نوے کی دہائی میں القاعدہ کے سینئر رہنما دھماکا خیز مواد کی تربیت کے لیے ایران آتے جاتے رہے۔ دیگر ارکان بھی لبنان میں حزب اللہ سے تربیت حاصل کرتے تھے۔اور اس واقعے سے پہلے کے برسوں میں القاعدہ کے ہائی جیکروں نے کئی بار ایرانی سرزمین کا سفر کیا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ القاعدہ اور ایران کے مابین دہشت گردی کی کارروائیوں کے دوران تعاون میں ’’سنی شیعہ‘‘ کی تقسیم کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کرتی۔
اگرچہ القاعدہ کی قیادت کا تعلق انتہا پسند سنی اور شیعہ مخالف جہادی تنظیم سے ہے، تاہم وہ تزویراتی مقاصد کے حصول کے لیے فرقہ وارانہ کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔ جیسا کہ مشرق وسطیٰ سے امریکی فوج کے انخلا کا مطالبہ ایرانی مطالبات میں سے ایک ہے۔ اور اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ مشترکہ مقاصد پر کسی نہ کسی سطح پر تبادلہ خیال کیا جاتا ہے۔ پھر بھی انسدادِ دہشت گردی کے ماہر Assaf Moghadam کا کہنا ہے کہ ایران اور القاعدہ کا باہمی تعاون ہمیشہ بس جوڑ توڑ کی سطح تک رہا ہے۔ ایران نے القاعدہ کو اپنی سرزمین کے استعمال کی اجازت صرف سہولت کاری کے لیے دی ہوئی تھی۔ جیسا کہ القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن نے ۲۰۰۷ء میں اپنے ایک خط میں کہا کہ ’’ایران ہمارے لیے مالی وسائل، افرادی قوت اور مواصلاتی رابطوں کے حوالے سے بہت اہمیت کا حامل ہے‘‘ تاہم انہوں نے القاعدہ رہنماؤں کے وہاں رہائش اختیار کرنے پر پابندی بھی لگائی۔ ان دونوں کے تعلقات میں سخت کشیدگی کے ادوار بھی گزرے ہیں۔
نائن الیون حملوں کے بعد القاعدہ کے متعدد رہنماؤں نے ایران میں پناہ لی، جہاں انہیں حراست میں یا نظربندی کی صورت میں بھی رکھا گیا۔ باہر کی دنیا سے رابطوں پر پابندی ان کے لیے قابل قبول نہ تھی۔ سیاسی تجزیہ نگار Nelly Lahoud نے ان ہزاروں دستاویزات کا مطالعہ کیا ہے، جو ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ سے ملی تھیں، ان کا کہنا ہے کہ ’’جو لوگ ایران میں زیر حراست تھے یا نظربند تھے اور کسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے پا رہے تھے وہ بہت زیادہ مایوسی کا شکار تھے۔ انہوں نے کئی بار متشدد ایرانی اتھارٹیز کے خلاف متشدد احتجاج بھی کیا۔ اور اپنی قیادت سے بھی مطالبہ کرتے رہتے تھے کہ وہ ایران کے ساتھ ان معاملات کو اٹھائیں‘‘۔
۲۰۱۰ء میں القاعدہ کی قیادت کو لکھے گئے ایک خط میں ایرانی حراست میں موجود القاعدہ کے افراد نے شدید مایوسی اور غم و غصے کا اظہار کیا، ان کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ ہمیں یہاں سے رہا کروایا جائے۔ انہوں نے ’’خراسان‘‘ کے بھائیوں کومخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ انہیں رہا کروانے کے لیے کوئی کارروائی کریں، مثلاً ایران کے حکومتی اہلکاروں کو اغوا کیا جائے، پھر ان کی رہائی کے بدلے میں مذاکرات کر کے ہمیں رہا کروایا جائے۔
قیدیوں کا تبادلہ:
۲۰۱۱ء میں القاعدہ اور ایران کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ کیا گیا۔ اس تبادلے میں اسامہ بن لادن کے بیٹے حمزہ سمیت کئی اہم القاعدہ رہنماؤں کی رہائی عمل میں آئی، اور اس کے بدلے میں ۲۰۰۸ء میں پاکستان سے اغوا کیے جانے والے ایرانی سفار ت کار کو رہا کیا گیا۔کچھ برس بعد یعنی ۲۰۱۵ء میں ایک مرتبہ پھر قیدیوں کا تبادلہ ہوا، جس کے ذریعہ ایک اور ایرانی سفارت کار کو رہائی ملی،جسے القاعدہ کی یمنی شاخ نے ۲۰۱۳ء میں اغوا کیا تھا۔ قیدیوں کا یہ دوسرا تبادلہ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ القاعدہ کے رہنما کیوں ایران میں آزادانہ نقل و حرکت کرتے ہیں۔ نیویارک ٹائمز اور دیگر اداروں نے رپوٹ جاری کی تھی کہ ۲۰۱۵ء میں قیدیوں کا جو تبادلہ ہوا اس میں القاعدہ کے پانچ سینئر رہنما رہا ہوئے، ان میں تین مصری تھے، سیف العادل، ابو محمد المصری اور ابوالخیر مصری اور دو کا تعلق اردن سے تھا ابوالقسام اور سری شہاب۔ ان رہنماؤں کے بدلے میں یمن سے اغوا کیے جانے والے ایرانی سفارت کار کو رہا کیا گیا۔ لیکن یہ کہانی مکمل نہیں ہے۔
۲۰۱۷ء میں اس معاہدے کی مزید تفصیلات اس وقت سامنے آئیں جب القاعدہ کی شامی شاخ میں کوئی تنازع ہوا، جس کے نتیجے میں القاعدہ کی شامی شاخ ’’جبلۃ النصرہ‘‘ نے القاعدہ کی مرکزی تنظیم سے علیحدگی اختیار کر کے ایک نئی آزاد تنظیم کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ اب ’’حیات تحریر الشام‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور شام کے شمال مغربی علاقوں پر اس کا قبضہ ہے۔ اور اس گروہ کے القاعدہ کی مرکزی تنظیم سے تعلقات میں سخت کشیدگی پائی جاتی ہے۔
۲۰۱۷ء میں القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری نے اپنے خطاب میں ’’حیات التحریر شام ‘‘کی مذمت کرتے ہوئے اسے تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اس گروہ نے اپنی مرکزی تنظیم کو چھوڑ کر قومی مقاصد کو ترجیح دی ہے، جو کہ قابل مذمت ہے۔ اس کے بعد جوابی بیانات کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ حیات التحریر کے سینئر رہنما ابوالرحیم اتون نے تنظیم کے موقف کا دفاع کرتے ہوئے اپنے اس فیصلے کو درست قرار دیا۔ اس لفظی جنگ کے دوران القاعدہ کے چند رہنماؤں کے نام سامنے آئے جو کہ ۲۰۱۵ء میں قیدیوں کے تبادلے کے نتیجے میں رہا ہوئے تھے۔ اور یہی لوگ بعد میں جبلتہ النصرہ سے اس گروہ کی علیحدگی کی نگرانی کر رہے تھے۔
’’اتون‘‘ کا کہنا ہے کہ ۲۰۱۵ء میں ہونے والے قیدیوں کے تبادلے میں ایران کے زیر حراست القاعدہ کے چھ لوگ رہا ہوئے۔ جن میں سے چار کو ایران چھوڑنے کی اجازت ملی اور وہ شام میں جاکر رہنے لگے۔ جب کہ دو افراد کو حراست سے تو رہا کر دیا گیا تاہم انہیں ایران چھوڑنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ جو چار لوگ شام منتقل ہوئے ان میں ایک ابوالخیر المصری تھے، دوسرے ابوالقسام (اردنی) اور باقی دو کی شناخت کا معلوم نہیں ہوسکا۔ جنہیں ایران میں روکا گیا وہ سیف العادل اور ابو محمد المصری تھے۔جب ان لوگوں کو رہا کیا گیا تو ابوالخیر المصری ایمن الظواہری کے نائب تھے۔ ایمن الظواہری کی دو سالہ غیر موجودگی میں تمام تر ترجمانی ابوالخیر المصری نے کی تھی۔ ’’اتون‘‘ کا کہنا ہے کہ ابوالخیر نے اس دوران ایک ’’لیڈر شپ کونسل‘‘ قائم کی، جس میں ایران میں موجود سیف العادل اور ابومحمد المصری کو بھی شامل کیا گیا، یہ کونسل تمام اہم فیصلے کرنے کے لیے بنائی گئی۔ جب القاعدہ کی شامی شاخ کی علیحدگی کا معاملہ کونسل میں آیا تو اس کونسل میں پھوٹ پڑ گئی۔ شام میں موجود القاعدہ کے رہنما ابوالخیر نے اس تقسیم پر اپنی رضامندی کا اظہار کیا، جب کہ ایران میں موجود القاعدہ کے رہنماؤں نے اس اقدام کی مخالفت کی۔ تاہم ان کی مخالفت کے باوجود القاعدہ کی شامی شاخ القاعدہ سے الگ ہو گئی۔
اتون کے خیال میں ’’ایران میں موجود رہنماؤں کی رائے اہمیت کی حامل نہیں، کیوں کہ وہ لوگ دشمن ریاست میں قید ہیں‘‘۔ اس کے جواب میں ابوالقسام کا کہنا تھا کہ ایران میں موجود لوگوں کو زیر حراست کہنا درست نہیں۔ انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’آپ کے علم میں یہ بات ہے کہ قیدیوں کے تبادلے کے نتیجے میں ان لوگوں کو رہائی مل چکی ہے اور آپ جیسا سمجھ رہے ہیں یہ (سیف العادل، ابومحمد المصری) لوگ ویسے قید میں نہیں ہیں‘‘۔ تاہم انہیں سفر کرنے سے منع کیا گیا ہے اور اس میں بھی اللہ کی کوئی بہتری ہی ہو گی۔ سفر کرنے کے علاوہ وہ لوگ وہاں آزادانہ زندگی گزار رہے ہیں۔
یہ خطوط اور بات چیت مائیک پومپیو کی طرف سے لگائے گئے الزامات کو سچ ثابت کرنے میں مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔ پومپیو کا کہنا تھا کہ ایران نے ایمن الظواہری کے نائب کو وہاں آزادی کے ساتھ رہنے کی اجازت دے رکھی ہے تاکہ وہ القاعدہ کے آپریشن میں انہیں سہولت دے سکے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ’’ایران دہشت گردی کی کارروائیوں میں ان کا شراکت دار ہے بلکہ متعصبانہ پروپیگنڈے میں بھی ان کی مدد کرتا ہے‘‘۔ دوسری طرف ابوالقسام نے اس تعلق کو شراکت داری کانام دینے سے گریز کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ القاعدہ رہنماؤں کی ایران میں آزادانہ نقل و حرکت ۲۰۱۵ء میں قیدیوں کے تبادلے کے لیے ہونے والے معاہدے کا نتیجہ ہے۔ ایران نے یہ اجازت اپنی مرضی سے نہیں دی بلکہ اسے ایسا کرنے پر مجبور کیا گیا۔ مزید یہ کہ الظواہری کے نائب اپنی مرضی سے ایران میں رکے ہوئے نہیں ہیں بلکہ انہیں معاہدے کے تحت ایسا کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔
ایران القاعدہ کے رہنماؤں کو اپنے ملک میں رکھنے پر کیوں اصرار کر رہا ہے۔ اس کا ممکنہ جواب یہ ہوسکتا ہے کہ ایران چاہتا ہے کہ القاعدہ ایران کے خلاف کوئی دہشت گردی کی کارروائی نہ کرے۔ القاعدہ نے مشرق وسطیٰ میں ایرانی حمایت یافتہ گروہوں کے خلاف سخت جنگ کی ہے۔ ان گروہوں میں حزب اللہ اور یمن کے حوثی شامل ہیں۔ اس وجہ سے بہت سے القاعدہ کے جنگجوؤں میں ایران کے خلاف سخت نفرت پائی جاتی ہے۔ اسی طرح القاعدہ کی نظریاتی ساتھی داعش ایران میں کارروائیوں کی ذمے داری قبول کر چکی ہے۔ جیسا کہ ۲۰۱۷ء میں آیت اللہ خمینی کے مزار اور پارلیمان پر حملوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔ایسی صورت حال میں القاعدہ رہنماؤں کی ایران میں موجودگی ایران کے لیے’’ انشورنس پالیسی ‘‘یا ضمانت کا کام کرتی ہے۔
تاہم ان رہنماؤں کی تہران میں موجودگی سے یہ تاثر لینا کہ ایران القاعدہ کو آپریشنز میں تزویراتی حمایت دے رہا ہے، یہ درست نہیں۔ ابھی تک اس الزام کو سچ ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت میڈیا کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔ گزشتہ برس اگست میں ابومحمد المصری کے تہران میں مبینہ طور پر اسرائیلی خفیہ ایجنسی کے ایجنٹوں کے ہاتھوں قتل ہونے سے یہ بات تو ثابت ہوتی ہے کہ انہیں ایران میں آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت تھی، جیسا کہ ۲۰۱۵ء کے قیدیوں کے تبادلے کے تحت طے ہوا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اب ایمن الظواہری کے نائبین میں سے صرف سیف العادل ایران میں موجود ہیں جنھیں آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت ہے۔ تاہم القاعدہ کے دیگر ارکان بھی تہران میں موجود ہیں۔
ایران نہیں افغانستان!
ایران کو اپنی سرزمین پر القاعدہ کی سرگرمیوں کے حوالے سے جواب دہ ہونا چاہیے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ القاعدہ کی مرکزی قیادت کے لوگ تہران میں آزادانہ نقل و حرکت کر رہے ہوں۔ تاہم امریکی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ ایران اور القاعدہ سے لاحق خطرات کو آپس میں مکس نہ کرے، اور ان کی طرف سے دی گئی دھمکیوں اور ان کے باہمی تعاون کے حوالے سے مبالغہ آرائی سے کام نہ لے۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے مختلف چیلنج ہیں، جن سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی بھی مختلف ہونی چاہیے۔ایران کی طرف سے جو چیلنج ہیں، وہ ان کا ایٹمی پروگرام اور خطے میں اس کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ ہے۔ جب کہ القاعدہ وسطی اور مشرقی افریقا میں موجود اپنے اتحادی گروہوں کی مدد سے امریکی سرزمین پر حملوں کی دھمکیاں دیتی ہے۔
نئی امریکی انتظامیہ کو بھی القاعدہ سے لاحق خطرات کو سیاسی رنگ دینے سے گریز کرنا چاہیے۔ گزشتہ انتظامیہ نے افغانستان میں جہاں اسے اپنی فوج کا انخلا کروانا تھا،وہاں القاعدہ سے لاحق خطرات کو تقریباً نظرانداز کر دیا۔ جب کہ اسی القاعدہ کے رہنماؤں کی ایران میں موجودگی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا تاکہ ایرانی حکومت کے خلاف ماحول بنا کر سیاسی فوائد سمیٹے جاسکیں۔
افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا سے القاعدہ کو بھرپور فائدہ ہوگا، تاہم ایران میں رہنماؤں کی موجودگی القاعدہ کے لیے خاص فائدہ مند ثابت نہیں ہو رہی۔ طالبان امریکا کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کے باوجود القاعدہ کے ساتھ تعلقات قائم رکھے ہوئے ہیں، اگرچہ معاہدے میں یہ بات شامل تھی کہ القاعدہ کے ساتھ کسی قسم کا تعلق نہیں رکھا جائے گا۔ القاعدہ تو طالبان کو اب بھی مقتدر طاقت سمجھتی ہے اور افغانستان کو مستقبل کی اسلامی خلافت کا مرکز سمجھتی ہے اور طالبان بھی اس دعوے کی تردید نہیں کرتے۔
دوسری جانب ۲۰۱۵ء میں قیدیوں کے تبادلے کے لیے ہونے والے معاہدے کے نتیجے میں القاعدہ کو بہت زیادہ طاقت نہیں ملی،بلکہ اسے اس معاہدے کا نقصان ہی ہوا ہے۔ معاہدے کے نتیجے میں رہا ہونے والے چھ رہنماؤں میں سے چار کو شام میں مار دیا گیا جب کہ ایک کا قتل ایران میں ہوا۔ یہ حالیہ برسوں میں ہونے والی بہت سی ٹارگٹ کلنگ میں سے ایک ہیں، جنہوں نے القاعدہ کی قیادت کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ اگر مستقبل میں القاعدہ دوبارہ مضبوط ہوتی ہے تو ایسا ایران میں نہیں بلکہ افغانستان میں ہوگا۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“Why are Al Qaeda leaders in Iran?”(“Foreign Affairs”. February 11, 2021)
Leave a Reply