اسرائیل سے یہودی کیوں بھاگ رہے ہیں؟

ایک طرف ایریل شیرون دنیا بھر کے یہودیوں کو اسرائیل آمد کی دعوت دے رہے ہیں تو دوسری جانب یہاں آباد یہودیوں کی بڑی تعداد ترکِ وطن کر رہی ہے۔ اس کی ایک وجہ جہاں فلسطینی مجاہدین کی انتفاضہ تحریک ہے تو دوسری جانب خود اسرائیل اور ایریل شیرون کی جارحیت اور مذہبی انتہا پسندی۔ حالیہ دنوں میں بڑی تعداد میں یہودیوں نے اسرائیل کو ترک کر کے اپنے پرانے ملک کی راہ لی ہے ان کے مطابق یہاں جاری مذہبی منافرت اور لازمی فوجی خدمات ان کے ترکِ وطن کی اصل وجہ ہے۔

یہودی عقیدے کے مطابق اسرائیل ایک ایسا مقام ہے جہاں خدا نے یہودیوں کو ایک بار پھر بسانے کا وعدہ کیا تھا۔ دوسری جنگِ عظیم سے قبل اور اس کے بعد بڑی تعداد میں دنیا بھر کے یہودیوں نے اسرائیل کی جانب نقل مکانی کی۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے لیکن اسرائیل میں آمد کے ساتھ ساتھ یہودیوں کی ایک بڑی تعداد اب اپنے اس خوابوں کے ملک کو ترک کرنے پر بھی مجبور ہے۔ اس کی ایک وجہ اگر یہاں جاری شورش ہے تو دوسری طرف اسرائیلی حکومت کی بڑھتی ہوئی انتہا پسندی‘ جارحیت اور شہریوں کے لیے لازمی فوجی خدمات بھی بڑی حد تک اس کے لیے ذمہ دار ہیں۔

لازمی فوجی خدمات:

اسرائیل میں رہائش اختیار کرنے والے ہر شہری کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی زندگی کا کچھ عرصہ اسرائیلی فوج کی خدمات کے لیے پیش کرے۔ حقوق انسانی کمیٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل میں مستقل طور پر رہنے والے اور وہاں کی شہریت حاصل کرنے والے ہر مرد کے لیے اپنی زندگی کے ۳ سال اسرائیلی فوج کی خدمات کے لیے پیش کرنے ہوتے ہیں۔ خواتین کے لیے یہ مدت ۲۰ سے ۲۱ مہینے ہے۔ تاہم افسران اور خصوصی مہارت رکھنے والے افراد جیسے ڈاکٹر اور نرس کے لیے اس مدت میں اضافہ کا امکان ہے۔ تاہم تمام غیریہودی عورتوں اور فلسطینی مردوں کو اس قانون سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔ ہاں اگر فلسطینی علاقوں میں رہنے والے یہودی رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کرنا چاہیں تو انہیں اس کی اجازت ہے۔

البتہ اسرائیل میں نئے نئے وارد ہونے والے یہودیوں کو یہ مہلت حاصل ہے کہ وہ اسرائیلی شہریت حاصل کرنے کے ۲ سال تک اس خدمت سے مستثنیٰ قرار دیے گئے ہیں لیکن ہنگامی حالات یا ضرورت ہونے پر ۲سال کی مدت پوری ہونے سے قبل بھی انہیں فوجی خدمات کے لیے بلایا جاسکتا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ اس طرح کی خدمات سے انکار کی صورت میں جیل بھی جانا پڑ سکتا ہے۔ اسرائیل کی اس انتہا پسندی نے بھی بہت سے یہودیوں کو اپنے فیصلہ پر نظرثانی کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال آئیگور زادان ہیں۔ وہ ۱۹۹۰ء میں مستقل قیام کی نیت سے اسرائیل منتقل ہوئے لیکن یہاں کی انتہا پسندی اور دیگر اقوام سے علیحدگی سے بدظن ہو کر انہوں نے ۲۰۰۱ء میں اسرائیل کو خیرباد کہا اور اپنے پرانے وطن لوٹ گئے۔ آئیگور زادان کو اسرائیل میں قیام کے دوران دو بار فوجی خدمات کے لیے مدعو کیا گیا اور انتہائی شدید مزاحمت والے علاقوں میں تعینات کیا گیا۔ زادان پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں اور فوج میں طبی خدمات کے لیے ہی انہیں مدعو کیا گیا تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ اپنی تعیناتی کے دوران میں سوچا کرتا تھا کہ شاید کسی زخمی کو علاج کے لیے لایا جائے لیکن اکثر میرا سابقہ لاشوں سے ہی پڑتا تھا۔

 

اسرائیل کی مذہبی منافرت:

اسرائیل سے نقل مکانی کرنے کی ایک وجہ جہاں اسرائیل میں لازمی فوجی خدمات ہیں وہیں یہاں پھیلی مذہبی منافرت کی فضا بھی کھلے ذہن کے آدمی کو یہاں رہنے سے روکتی ہے۔ آئیگور زادان کی اسرائیل ترک کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے وہ کہتے ہیں کہ ’’میں اپنے آپ کو اسرائیل کی بہ نسبت روس میں زیادہ مطمئن محسوس کرتا ہوں۔ شاید اسرائیل سے زیادہ بری زندگی میرے لیے اور کہیں نہیں ہو گی۔ میں کھلے ماحول میں رہنے کا عادی ہوں جہاں کوئی آپ سے یہ نہیں پوچھتا کہ آپ کس فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں؟‘‘

یہ صرف زادان ہی کی رائے نہیں بلکہ اسرائیل میں رہنے والے ہزاروں یہودیوں کو شکایت ہے کہ وہ یہاں انسانوں کے بجائے یہودی فلسفہ کے مطابق زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ گزشتہ مہینے تقریباً ۴۵۰ یہودیوں نے جنوبی امریکا اور فرانس کی اپنی محفوظ جائے پناہ کو تیاگ کر اسرائیل کا رخ کیا تھا لیکن یہاں آکر شاید انہیں احساس ہوا کہ وہ دنیا کے خطرناک ترین خطہ میں آچکے ہیں۔ اسرائیل میں ان نئے لوگوں کا نہ صرف پُرجوش خیرمقدم کیا گیا بلکہ ایریل شیرون ان لوگوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے خود ہوائی اڈہ آیا تھا۔ بی بی سی کے مطابق اس گرم جوشی کا مطلب واضح ہے۔ اسرائیل میں آبادی کا تناسب جس سمت بڑھ رہا ہے اگر یہی حال رہا تو آئندہ ۱۰ سے ۱۵ برسوں میں یہودی ان علاقوں میں اقلیت میں آجائیں گے جہاں اسرائیل کا قبضہ ہے۔ لیکن آبادی میں اضافہ کی جنگ کے محاذ میں بھی اسرائیل کی شکست ہوتی نظر آرہی ہے۔

حالانکہ اسرائیل منتقل ہونے والے یہودیوں کے صحیح اعداد و شمار موجود نہیں لیکن پنسلوانیہ یونیورسٹی کے پروفیسر ایان لسٹک کے مطابق ’’اس بات کا قوی امکان ہے کہ ۲۰۰۲ء کے دوران اسرائیل میں آنے والوں کا فیصد یا تو صفر ہے یا پھر منفی اور اگر فلسطینی انتفاضہ تحریک ایسے ہی جاری رہی تو اس فیصد کے بڑھنے کا بھی کوئی امکان نہیں‘‘۔

لاپتا شہریوں کا مسئلہ:

اسرائیل میں حالیہ دنوں میں پیدا ہونے والا ایک بڑا مسئلہ لاپتا شہریوں کا ہے۔ نئے آنے والے جلد ہی اپنی واپسی کی تیاری کر لیتے ہیں۔ ۲۰۰۳ء کے دوران ایک ہزار یہودیوں نے جنوبی امریکا کو ترک کر کے اسرائیل میں پناہ لی تھی لیکن ایک اندازے کے مطابق ان میں سے نصف اسرائیل چھوڑ چکے ہیں۔ اس کا ثبوت اس بات سے بھی ملتا ہے کہ اسرائیلی پارلیمنٹ کے سابق اسپیکر ابراہم برگ نے بین الاقوامی ہیرالڈ ٹریبیون میں شائع اپنے ایک مضمون کے ذریعہ اسرائیلیوں کی ایک بڑی تعداد کو حیرت زدہ کر دیا۔ ان کے مطابق اگر آپ کسی اسرائیلی سے دریافت کریں کہ کیا وہ چاہیں گے کہ ان کے بچے آج سے ۲۵ سال بعد بھی یہیں رہیں تو آپ کو اکثریت کا جواب منفی ہی ملے گا۔ بلکہ اس کا واضح اشارہ اس بات سے بھی ملتا ہے کہ اب یہاں آباد یہودی اپنے بچوں کو بیرونِ ملک تعلیم کے لیے حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔

یہاں کے اکثر نوجوان تعلیم کے بہانے یورپ کے دیگر ممالک میں آباد ہیں۔

اسرائیلی اعداد و شمار کے مطابق بیرونِ ملک آباد اسرائیلیوں کی تعداد ۴ لاکھ ۵۰ ہزار سے ۹ لاکھ کے درمیان ہے۔ جبکہ ۱۹۹۰ء سے ۲۰۰۱ء کے دوران اسرائیل میں سکونت اختیار کرنے والے یہودیوں کی تعداد صرف ۲ لاکھ ۷۰ ہزار ہے۔ اس طرح تجزیہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دوران اسرائیل آنے والے یہودیوں کی ایک تہائی تعداد نے اسرائیل کو ترک کر دیا۔ اس طرح دیکھا جائے تو اسرائیل میں آباد پوری سوسائٹی بغیر کسی اعتماد کے اسرائیل میں آباد ہے۔ اگر کسی ملک کے شہریوں کو خود اپنے ہی ملک پر اعتماد نہ ہو تو اس کے مستقبل کے لیے اندازہ لگانا قطعی مشکل کام نہیں۔

خود اسرائیلی اہلکار یہودیوں کے اس بدلتے مزاج سے نہ صرف پریشان ہیں بلکہ وہ اس میں تبدیلی کے لیے زبردست اقدامات کر رہے ہیں۔ اب یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ وہ اس میں کتنے کامیاب ہوتے ہیں لیکن ایک بات تو بہرکیف ثابت ہو گئی کہ کسی ملٹری اسٹیٹ (فوجی ریاست) کی بقا بہت ہی مشکل امر ہے۔

(بشکریہ: روزنامہ ’’انقلاب‘‘۔ ممبئی)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*