
یہ سیکرٹری آف اسٹیٹ ہیلری کلنٹن تھیں جنہوں نے ایشیا کی اہمیت تسلیم کرتے ہوئے ’’ایشیا مرکز ہے‘‘ کی اصطلاح ٹکسال کی، اور یہ صدر اوباما تھے جنہوں نے اسے اپنی قومی سلامتی کا سب سے اہم ہدف بنالیا۔ اس کے باوجود ایشیا امریکا سے دور ہٹ رہا ہے۔ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ڈینیل رسل، جو ایشیائی امور کے ماہر ہیں نے گزشتہ دنوں منیلا کا دورہ کیا تاکہ فلپائن کے ساتھ تعلق بہتر بنانے کی راہ ہموار کی جاسکے۔ یہ پیسفک ریاست فلپائن ماضی میں بھی امریکا کا اہم ترین اتحادی رہی ہے۔ لیکن آجکل یہ چین کے ساتھالائنس کرنے یا نہ کرنے کی الجھن میں ہے۔ انہوں نے میڈیا نمائندوں کو بتایا کہ اس وقت دنیا کے بہت سے ممالک اسی الجھن کا شکار ہیں۔
صدر روڈریگو دیٹروٹ (Rodrigo Duterte) بہت سی الجھنیں پیدا کرسکتے ہیں۔ وہ نشے کے عادی فلپائن کے باشندوں کے ساتھ جس طرح آہنی ہاتھوں سے نمٹ رہے ہیں، اُس سے ہٹلر کی یہودیوں کے لیے ظالمانہ پالیسیوں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے صدر اوباما کے بیٹے کے لیے بھی نازیبا الفاظ کہے۔ مسٹر رسل ڈیٹروٹ کے گزشتہ ہفتے بیجنگ کے دورے پر دیے گئے بیان کا حوالہ دے رہے تھے۔ اس کے مطابق وہ ’’امریکا سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے چین اور روس کے ساتھ اتحاد کرنے جارہے ہیں‘‘۔ ڈینیل رسل وہ پہلے امریکی افسر نہیں جو منیلا کے رہنما پر تنقید کرتے دکھائی دیے، اس سے پہلے جولائی میں ڈیٹروٹ کے عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد صدر اوباما نے انہیں انسانی حقوق پر ایک لمبا لیکچر دیا۔ خیر، ایران اور کیوبا جو آجکل امریکی اتحادی ہیں، ایسے لیکچر کی پروا نہیں کرتے۔
بطور صدارتی امیدوار، ریڈریگوڈیٹروٹ نے امریکا مخالف جذبات کو ہوا دی تھی، چنانچہ صدر اوباما کے پاس ناراض ہونے کی وجہ بنتی ہے۔ لیکن پھر صدر آئزن ہاور نے بھی تو فلپائن کے شہریوں کے لیے نازیبا الفاظ (SOB) استعمال کیے تھے۔ بہرحال پھر معاملات بہتری کی طرف بڑھے۔ دونوں ریاستوں کے درمیان گزشتہ صدی کے وسط میں دفاعی معاہدہ ہوا اور امریکی فورسز فلپائن کی بندرگاہ Subic Bay کو استعمال کرتے ہوئے بحرالکاہل میں اپنی طاقتور موجودگی کا احساس دلاتی رہیں۔ یہ بات بھی درست ہے کہ گزشتہ ہفتے فلپائنی صدر کو امریکا سے ’’علیحدگی‘‘ کے بیان کو واپس لینا پڑا، کیونکہ زیادہ تر فلپائنی بزنس مین امریکی روابط پر تکیہ کرتے ہیں۔ ان کے تجارتی روابط امریکی فرموں کے ساتھ ہیں۔
بہرحال خطے کے پنہاں محرکات یہ ہیں کہ اب یہ پہلے سے زیادہ طاقتور ہو چکا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ فلپائن کو طاقتور شمار کرنا غلطی ہو، لیکن اس کے ہمسائے میں عظیم چین پھیلاؤ کی پالیسی پر گامزن ہے۔ چنانچہ فلپائن جیسے چھوٹے ملک کے لیے چین جیسی عقربی طاقت کے سامنے جھک جانا خلافِ حقیقت نہیں۔ شی پنگ کی قیادت میں چین خطے پر غلبہ حاصل کرنے کے عزائم پر کاربند ہے۔ یہ اپنی معاشی طاقت استعمال کرتے ہوئے اپنے ہمسایوں کو اپنے ساتھ ملانے کی پالیسی رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی فوجی طاقت میں بے پناہ اضافہ کررہا ہے۔ چین نے اپنے گرد و نواح سے ہر قسم کے فوائد سمیٹنے کی پالیسی اختیار کررکھی ہے۔ اس کی نظر فضا سے لے کر سمندر تک، ہر چیز پر ہے۔ اس دوران یہ دیگر طاقتوں کے علاقائی عزائم کے راستے میں کھل کر رکاوٹ ڈال رہا ہے۔
امریکا نے اس خطے کی کچھ ریاستوں کے ساتھ بحری مشقیں کی ہیں۔ ان کا مقصد بیجنگ کو یاد دلانا ہے کہ وہ ابھی بھی ایک برتر عالمی طاقت ہے۔ تاہم شی پنگ ان مشقوں سے خائف نہ ہوئے، انہوں نے اپنے توسیع پسندانہ عزائم جاری رکھے۔ چنانچہ صدر اوباما کو چین کے ہمسایوں کو نصیحت کرنا پڑی کہ وہ چین کے ساتھ جھگڑوں کے تصفیے کے لیے عالمی ثالثی عدالت سے رجوع کریں۔ تاہم یہ نصیحت بھی بیکار گئی۔ جولائی میں ہیگ ثالثی عدالت نے جنوبی چین کے سمندر میں ایک متنازع بندرگاہ پر چین اور فلپائن کے درمیان تنازع کی سماعت کرتے ہوئے فلپائن کے حق میں فیصلہ سنا دیا، لیکن چین نے یہ فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اس کی بجائے وہ اپنی برتر عسکری طاقت استعمال کرتے ہوئے اس خطے میں من مانی کر رہا ہے۔
عالمی عدالت کے پاس جانے کے علاوہ امریکا کے پاس کوئی پلان بی نہیں۔ چنانچہ امریکا کے پیسفک اتحادی چین کے ساتھ معاہدے کریں گے تاکہ وہ اس کی مزید توسیع پسندی کا نشانہ نہ بنیں۔ ہوسکتا ہے یہ صورتحال ان ممالک اور امریکا جیسی عالمی طاقت کے لیے توہین آمیز ہو، لیکن امریکا کے سامنے کوئی راستہ نہیں ہے۔ چین اس بلاک میں ایک طاقتور حریف کی صورت سامنے آرہا ہے اور امریکا کے سابق اتحادیوں کے پاس اس کے ساتھ معاہدے کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ صدر اوباما نے چین کے معاشی غلبے سے نمٹنے کی بھرپور کوشش میں پیسفک اتحادیوں سے ایک میگا تجارتی ڈیل، ٹی پی پی “Trans Pacific Partnership” کی، لیکن اس کا خاطر خواہ فائدہ نہ ہوا۔ آج ٹی پی پی ایک مردہ گھوڑا ہے۔ صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اس کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں۔
ہیلری کے سیکرٹری آف اسٹیٹ کے منصب سے دستبردار ہونے (انتخابی مہم میں شرکت کے لیے) کے بعد صدر اوباما نے اُن کی وضع کردہ اصطلاح میں قدرے ترمیم کی اور اسے ’’پیسفک ری بیلنسنگ‘‘ کا نیا نام دیا۔ تاہم یہ کتابی نام حقائق کی ترجمانی نہیں کرتا، بہرحال یہ ایک اچھا تصور ضرور ہے۔ آنے والے عشروں میں امریکا کے ایشیائی بحرالکاہل کی ریاستوں سے تعلقات کی اہمیت میں اضافہ ہوگا۔ تاہم دیکھنا ہے کہ اگلے صدر ان مسائل سے کیسے نمٹتے ہیں، نیز اُن کی ترجیحات کیا ہوتی ہیں؟ صدارتی مباحثوں کے دوران ہیلری کلنٹن نے اس ضمن میں مشکل سوالات کا بہت اعتماد سے جواب دیا۔ اگر وہ منتخب ہو جاتی ہیں تو انہیں اپنے تصورات خاص طور پر ٹی پی پی کو عملی شکل دینے کی کوشش کرنا ہوگی۔ صرف اسی طرح امریکا کے پیسفک ریاستوں کے ساتھ تعلقات بحال ہوسکتے ہیں۔ انہیں صدر اوباما کی گفتار کی طاقت سے آگے بڑھ کر عمل کی طاقت دکھانا ہوگی۔
“Why Asia is ‘pivoting away’ from the US alliance”. (“Newyork Post”. October 24, 2016)
Leave a Reply