
غیر معمولی معاشی نمو نے چین کو ان ممالک کی فہرست میں سب سے اوپر رکھ دیا ہے، جو مزید تھوڑی محنت سے عالمگیر طاقت کا درجہ حاصل کرسکتے ہیں۔ چین میں ترقی کے ثمرات عام ہوئے تو عام آدمی کی زندگی میں مثبت تبدیلی رونما ہوئی۔ خوش حالی ہوئی۔ صرف کا رجحان بڑھا۔ لوگ بچت کی عادت کو پس پشت ڈال کر بہتر زندگی بسر کرنے کی طرف مائل ہوئے۔ مگر متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے چینیوں کو اب بہت سے معاملات میں شدید پریشانی کا بھی سامنا ہے۔ وہ اپنے ایک اکلوتے بیٹے یا بیٹی کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں اور سچ یہ ہے کہ بہت کچھ کرنا پڑ رہا ہے۔ بچے کو مختلف سرگرمیوں کا عادی بنایا جارہا ہے۔ انہیں ورزش کرانی پڑتی ہے۔ ٹیوٹرنگ ہوتی ہے تاکہ وہ بہتر اسکول میں داخلہ حاصل کرسکیں۔ یہ ساری تیاریاں بہت چھوٹی عمر سے شروع کردی جاتی ہیں۔ پھر بچے کے لیے مستقبل کی رہائش کے بارے میں سوچنا پڑتا ہے۔ اگر اس کے پاس ذاتی مکان ہوگا تو کوئی بھی لڑکی اس کی طرف متوجہ ہوگی، ورنہ اس کے لیے شادی کا مرحلہ دردِ سر ہوکر رہ جائے گا۔
چین کی حکومت نے ۱۹۷۹ء میں شدید افلاس پر قابو پانے کے لیے فی گھرانہ ایک بچے کی پالیسی اختیار کی تھی۔ اس انتہائی سخت خاندانی منصوبہ بندی نے جو نتائج پیدا کیے، وہ اب بہتوں کے لیے ڈراؤنا خواب بن چکے ہیں۔ معاشرے پر تھوپی جانے والی خاندانی منصوبہ بندی نے افرادی قوت کے حوالے سے مسائل پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ مرد و زن کے اعداد و شمار میں بھی عدم توازن پیدا کردیا ہے۔ چینی معاشرے میں مرد زیادہ ہیں اور عورتیں کم۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اب لڑکوں کے لیے پسند کی لڑکی تلاش کرنا انتہائی دشوار ہوگیا ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے والدین کے لیے مزید مشکلات پیدا کی ہیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ اب صورت حال سے کس طور نمٹا جائے۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ دوسرے بچے کی بھی گنجائش ہے، تو وہ کہتے ہیں کہ حالات ایسے ہیں کہ ایک بچے کو مستقبل کے لیے تیار کرنا انتہائی دشوار ہوگیا ہے۔ ایسے میں دوسرے بچے کی پرورش اور تربیت کا بوجھ کس طور اٹھایا جاسکے گا۔ بہت سے والدین برملا کہتے ہیں کہ ان کی زندگی پر خود ان کا بھی حق ہے۔ معاشرے کی روش ایسی ہے کہ زندگی (یعنی وقت) اور آمدن کا بڑا حصہ بچے پر خرچ ہو رہا ہے۔ بچوں کی پرورش اور تربیت کا بڑھتا ہوا خرچ اور افراطِ زر کی بلند ہوتی ہوئی شرح نے بہت سے گھرانوں کو مجبور کردیا ہے کہ وہ اپنے خاندان کو محدود ہی رکھیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ مستقبل قریب میں ان کے لیے زیادہ بچوں کے ساتھ زندگی بسر کرنا انتہائی دشوار ہوگا۔ خاندان کو محدود رکھنے یا بچہ دیر سے پیدا کرنے کے رجحان نے چینی معاشرے میں آبادی کا عدم توازن پیدا کردیا ہے۔ نوجوانوں کی تعداد گھٹتی جارہی ہے۔ خواتین کی تعداد میں بھی اضافہ نہیں ہو رہا۔ دوسری طرف، صحت عامہ کی بہتر سہولتوں کی بدولت اوسط عمر میں اضافے سے، معمر افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ رجحان قومی آمدنی میں کمی کا باعث بن رہا ہے۔ خزانے پر اُن لوگوں کا خاصا بڑا بوجھ ہے، جو کچھ نہیں کرتے اور اپنا پورا خرچ حکومت سے وصول کرتے ہیں۔ چین میں آبادی کے اعداد و شمار کے تین ماہرین نے نیو یارک کی پاپولیشن کونسل کے جریدے پاپولیشن اینڈ ڈیویلپمنٹ ریویو میں لکھا ہے کہ چین میں کئی بار قحط آیا، جس سے لاکھوں افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، مگر یہ سارا نقصان معاشرے نے برداشت کرلیا۔ لیکن فی گھرانہ ایک بچے کی پالیسی نے معاشرے کو جو نقصان پہنچایا ہے، اس کی تلافی تقریباً ناممکن ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ چین کی معیشت نے علاقائی اور عالمی سطح پر خود کو عمدگی سے منوایا ہے اور کئی معاملات میں مسابقت کرنے والوں کے لیے خطرات پیدا کیے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ترقی کے ثمرات معاشرے تک منتقل نہیں ہوئے۔ ماحول میں آلودگی کا تناسب اب تک بلند ہے۔ پینے کے صاف پانی تک رسائی آسان نہیں۔ کرپشن کم نہیں ہوئی۔ کمیونسٹ پارٹی نے تمام معاملات پر اپنی گرفت اب تک مضبوط رکھی ہے۔ اظہار رائے کی آزادی پر قدغن لگانے کا سلسلہ جاری ہے۔ بنیادی حقوق تمام شہریوں کے لیے اب تک پوری طرح یقینی نہیں بنائے جاسکے۔ یہ تمام مسائل اپنی جگہ، مگر چین کے لیے آبادی میں عدم توازن کا معاملہ انتہائی سنگین ہے اور مستقبل قریب میں یہ مسئلہ عِفریت کی طرح سامنے آسکتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ۱۹۶۰ء کے عشرے میں چینی خواتین زیادہ بچے پیدا کرتی تھیں۔ تب فی عورت چھ بچوں کا تناسب تھا۔ اب یہ تناسب ایک اعشاریہ پانچ فیصد رہ گیا ہے۔ کھانے والوں کی تعداد گھٹی تو چینی حکومت نے معاشرے کو بہتر اور متوازن بنانے پر توجہ دی۔ ذمہ داریاں گھٹنے پر بہتر منصوبہ بندی کی گئی، جس کے نتیجے میں ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوا۔ مگر جب افلاس کی زنجیریں ٹوٹیں، تب بہت کچھ بدل جانا چاہیے تھا، جو نہیں بدلا اور اس کا نتیجہ آبادی میں عدم توازن کی شکل میں برآمد ہوا ہے۔ اس وقت چین کو آبادی کے اعتبار سے مستحکم اور متوازن رکھنے کے لیے لازم ہے کہ ۲۰۳۰ء تک چین میں فی عورت دو اعشاریہ ایک فیصد بچے پیدا ہوں۔ ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ چین کی آبادی ایک ارب چالیس کروڑ کی حد کو چھونے کے بعد نیچے کی طرف آئے گی۔ کم از کم ماہرین تو یہی کہتے ہیں۔
انسانی تاریخ میں سوشل انجینئرنگ کے انوکھے تجربے کرنے کی دوڑ میں چین کی حکومت نے اپنی پوری آبادی کو داؤ پر لگادیا ہے۔ آبادی کا ایک ٹائم بم نکال کر دوسرا نصب کردیا گیا ہے۔ چین میں اب وہ مسائل ابھر رہے ہیں، جو زیادہ ترقی یافتہ معیشتوں میں دکھائی دیتے ہیں۔ مگر خیر، انہوں نے ان مسائل سے نمٹنے کی زیادہ اور بہتر تیاری کی ہوتی ہے۔ چین اس معاملے میں پسماندہ دکھائی دے رہا ہے۔ چین جتنی تیزی سے مالدار ہوتا جارہا ہے، اس سے کہیں زیادہ تیزی سے بوڑھا ہوتا جارہا ہے۔ اس کے کام کرنے کی صلاحیت میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ سماجی بہبود کے تمام اداروں پر حکومت کا سخت کنٹرول رہا ہے مگر اس کے باوجود نتائج وہ نہیں رہے، جو ہونے چاہیے تھے۔
چین کے نیشنل بیورو آف اسٹیٹسٹکس نے بتایا ہے کہ گزشتہ برس چین کی افرادی قوت میں پہلی مرتبہ کمی واقع ہوئی۔ یہ حکومت کے لیے بہت تشویش کی بات ہے کیونکہ تیزی سے فروغ پاتی ہوئی معیشت کے لیے ناگزیر ہے کہ افرادی قوت متوازن رہے۔ چین میں معاشرتی استحکام یقینی بنائے رکھنے کے لیے معاشی نمو کی شرح بلند رکھنا انتہائی ناگزیر ہے۔ شہروں میں گھرانوں کو ایک بچے تک اور دیہی علاقوں کے گھرانوں کو دو بچوں تک محدود رکھ کر چین کی حکومت نے آبادی میں توازن برقرار رکھنے اور افرادی قوت کو کارگر رکھنے کی کوشش کی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چین میں جن لوگوں نے فی گھرانہ ایک بچے کی پالیسی اختیار کی تھی، انہوں نے بہت سے حقائق کو یکسر نظر انداز کردیا تھا۔ آبادی سے متعلق ان کا علم سطحی تھا۔ انہیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ اس پالیسی کا کیسا بھیانک نتیجہ برآمد ہوگا۔ جب حکومت نے فی گھرانہ ایک بچہ پیدا کرنے کی پالیسی نافذ کی، تب بہت سے گھرانوں نے روایتی طور پر یہی چاہا کہ ان کے ہاں بیٹا پیدا ہو۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج چین میں کم و بیش ڈھائی کروڑ ایسے نوجوان ہیں، جن کے لیے جیون ساتھی تلاش کرنا بہت دشوار مرحلہ ہوکر رہ گیا ہے۔ لڑکیوں کی تعداد واضح طور پر کم ہے، جس سے آبادی میں عدم توازن پیدا ہوا ہے۔
چینی حکومت کو اب بحران کی سنگینی کا اندازہ ہوچکا ہے۔ ۱۵ نومبر ۲۰۱۳ء کو سرکاری میڈیا نے بتایا کہ صدر شی جن پنگ نے خاندانی منصوبہ بندی کی پالیسی کی ’’فائن ٹیوننگ‘‘ کی ہے تاکہ اسے حالات کے مطابق بنایا جاسکے۔ جن جوڑوں میں کوئی ایک فریق اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہے، انہیں دو بچے پیدا کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ خاندانی منصوبہ بندی میں اس تبدیلی سے متوقع طور پر ہر سال کم و بیش دس لاکھ بچوں کا اضافہ ہوگا۔ مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ معاشرے کو جو نقصان پہنچا ہے، اس کے ازالے کے لیے محض خاندانی منصوبہ بندی کی پالیسی تبدیل کرنا کافی نہیں۔ یونیورسٹی آف بیجنگ میں آبادی سے متعلق امور کے ماہر گو باؤ چینگ کا کہنا ہے کہ ’’ہمیں پورا نظام ہی تبدیل کرنا ہے۔ محض خاندانی منصوبہ بندی کی پالیسی بدل دینا کافی نہیں‘‘۔ نیشنل ہیلتھ اینڈ فیملی پلاننگ کمیشن کے نائب وزیر وینگ پائیان کا کہنا ہے کہ فی الحال اسی قدر تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ مگر پھر چند حکام نے نرم لہجہ اختیار کیا جس سے لوگوں کو اندازہ ہوا کہ حکومت بہت سی ایسی پالیسیاں بدلنا چاہتی ہے جو عوام کے لیے اب تک شدید مشکلات کا باعث بنتی آئی ہیں۔
چین میں فی گھرانہ ایک بچے کی پالیسی پر سختی سے عمل کرایا گیا، جس کے نتیجے میں تیس سال کے دوران آبادی میں کم و بیش چالیس کروڑ نفوس کا اضافہ روکا گیا۔ اس دوران ۳۳ کروڑ ۵۰ لاکھ سے زائد اسقاطِ حمل ہوئے۔ تقریباً ۳۰ کروڑ چینیوں کی نس بندی کی گئی یعنی ان کی تولیدی صلاحیت ختم کردی گئی۔ جن خواتین نے اولاد کا کوٹا پورا کرلیا تھا، انہیں پھر سے ماں بننے سے روکنے کے لیے ملک بھر میں سخت میڈیکل چیک اَپ کی روایت قائم کی گئی۔ شہروں میں جوڑے ایک بچے تک محدود رہے۔ دیہات میں اگر پہلا بچہ جسمانی یا ذہنی طور پر معذور ہو یا لڑکی ہو تو دوسرے بچے کی اجازت دی جاتی تھی۔ اگر کسی جوڑے میں ہر فریق اکلوتی اولاد ہو تو اسے دو بچوں کی اجازت دی جاتی تھی۔
سخت گیر خاندانی منصوبہ بندی کے حامی کہتے ہیں کہ اس سے ملک پر آبادی کے غیر ضروری دباؤ کو ٹالنے میں غیر معمولی مدد ملی۔ ۱۹۸۰ء میں فی کس خام قومی پیداوار ۲۰۰ ڈالر سالانہ تھی۔ آج یہ فی کس ۶ ہزار ڈالر کو چھو رہی ہے۔ جب سے فی گھرانہ ایک بچے کی پالیسی اپنائی گئی ہے، ملک بھر میں لاکھوں بلکہ کروڑوں افراد کو افلاس کے چنگل سے نکالنا ممکن ہوا ہے۔ پیکنگ یونیورسٹی کے سوشل ڈیمو گرافر لو جائیہوا کا کہنا ہے کہ حکمرانوں نے عشروں تک جو حکمت عملی اپنا رکھی ہو، اس کے خلاف جانا بہت مشکل ہوتا ہے۔
ناقدین کہتے ہیں کہ خاندانی منصوبہ بندی کی پالیسی اپناکر ترقی کی منطق عجیب ہے۔ جب کوئی ملک ترقی کرتا ہے تو بچے پیدا کرنے کی خواہش اور ضرورت کم ہوتی جاتی ہے۔ جاپان اور اٹلی کی مثال سب کے سامنے ہے۔ ان دونوں ممالک کی آبادی اچھی خاصی تھی مگر جب ترقی یقینی بنائی گئی، تب عورتوں نے کم بچے پیدا کرنا شروع کیے۔ اگر چین میں بھی ترقی کے لیے بہتر منصوبہ بندی کی جاتی، کرپشن پر قابو پایا جاتا، سرمایہ کاری کے لیے ماحول بہتر بنایا جاتا تو کوئی سبب نہ تھا کہ شرح پیدائش نیچے نہ آتی۔ ناقدین یہ بھی کہتے ہیں کہ خاندانی منصوبہ بندی سے چالیس کروڑ نہیں، دس کروڑ بچوں کی پیدائش روکی جاسکی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس حوالے سے کامیابی کے اعداد و شمار بہت بڑھا چڑھاکر بیان کیے جارہے ہیں۔ چین میں فی گھرانہ ایک بچے کی پالیسی عوام نے بھی اپنانا شروع کردی تھی۔ خاندانی منصوبہ بندی کے مخالفین کہتے ہیں کہ اگر حکومت جبر نہ کرتی، تب بھی صرف ایک بچہ پیدا کرنے والے جوڑے بڑی تعداد میں سامنے آتے۔ جن لوگوں نے خاندانی منصوبہ بندی کا فارمولا تیار کیا تھا، ان کا خیال تھا کہ یہ عارضی معاملہ ہے اور چالیس فیصد جوڑوں کو ایک بچے تک محدود رکھنے سے آبادی کنٹرول کرنے میں مدد ملے گی۔ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ پالیسی طویل مدت کے لیے اپنائی جائے گی۔
اب حکومت خاندانی منصوبہ بندی کی پالیسی ختم کرنا چاہتی ہے مگر اس راہ میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں۔ یہ شعبہ ختم کرنے سے لاکھوں چینیوں کو ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ صرف خاندانی منصوبہ بندی کے شعبے میں سرکاری ملازمین کی تعداد پانچ لاکھ سے زائد ہے۔ ایک بچہ پالیسی کی خلاف ورزی پر جرمانے کی مد میں خطیر رقم لی جاتی رہی ہے۔ گویا یہ بھی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ رہا ہے۔ اس معاملے میں بھی کرپشن پائی جاتی ہے۔ مقامی افسران کسی چیک اینڈ بیلنس کے بغیر کام کرتے ہیں۔ معاشی اور معاشرتی امور کے تجزیہ کار اب حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ ترقی کو صرف معاشی اعتبار سے ناپنے کے بجائے معاشرتی اعتبار سے ناپا جائے۔ اب تک چین کی حکومت نے صرف اس بات کو ترقی سمجھا ہے کہ زیادہ سے زیادہ پیداوار یقینی بنائی جائے، برآمدات میں اضافہ کیا جائے اور افرادی قوت بھی برآمد کرکے زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ حاصل کیا جائے۔ اب وقت آگیا ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی کے شدید مضمرات کا ادراک و احساس کرتے ہوئے معاملات کو درست کرنے پر توجہ دی جائے۔ اسی صورت ترقی کے حقیقی ثمرات عوام تک پہنچ سکیں گے۔ آبادی میں عدم توازن سے افرادی قوت کو مستحکم رکھنا ناممکن ہوتا جارہا ہے۔ کم بچوں کی پیدائش سے ہر سال جوان ہونے والوں کی تعداد بھی کم ہوتی جارہی ہے۔ دوسری طرف معمر افراد کی تعداد بھی بڑھتی جارہی ہے جو معیشت پر بوجھ ہے۔ فی گھرانہ ایک بچے کی پیدائش کی پالیسی پر پوری شدت سے عمل کے دوران لڑکے پیدا کرنے پر زیادہ توجہ دی گئی جس کے نتیجے میں اب چینی معاشرے میں لڑکے زیادہ ہیں۔ چینی حکومت اب صورت حال کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے اصلاحِ احوال کی کوشش کر رہی ہے۔ مگر خیر، یہ عمل بہت سست رفتار ہے۔ عالمی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کے تناظر میں اس عمل کو تیز رفتاری سے ہمکنار کرنا ہوگا۔
(“Why China needs more children”… “Time” Mag. Dec. 2, 2013)
Leave a Reply