میں نے بش پر جوتا کیوں پھینکا؟

عراق کے بہادر صحافی منتظر الزیدی رہا ہو گئے ہیں، رہائی کے بعد انہوں نے ایک عوامی اجتماع سے خطاب کیا۔ ان کے اس خطاب کا متن حاضر ہے۔


بسم اللہ الرحمن الرحیم
آج میں تو آزاد ہوں، مگر میرا وطن (عراق) آج بھی جنگی قیدی ہے۔ میں ان سب اصحاب کا شکر گزار ہوں جنہوں نے میرا ساتھ دیا۔ وہ عراق میں ہیں یا عراق سے باہر اسلامی دنیا میں، میرے شکریہ کے مستحق ہیں۔ میں نے جو کام کیا اس کے بارے میں بڑی باتیں ہوتی رہی ہیں۔ میرے بارے میں بھی بہت کچھ کہا اور سنا گیا۔ میرے بہادرانہ کام اور اس کی علامتی حیثیت پر بھی بہت کچھ کہا گیا، لیکن میں صرف اس بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مجھے یہ کام کرنے پر کس چیز نے مجبور کیا۔ یہ وہ نا انصافی تھی جو میرے ہم وطنوں کا مقدر بنا دی گئی اور وہ بے عزتی تھی جو میرے وطن پر تھوپ دی گئی اور اسے فوجی بوٹوں کے نیچے دبا لیا گیا۔ وہ میرے وطن کے بیٹوں کو کچل دینا چاہتے تھے۔ وہ مرد ہوں یا خواتین، بوڑھے یا بچے وہ سبھی کو بوٹوں تلے دبانا چاہتے تھے۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران دس لاکھ سے زائد افراد قابض افواج کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ اس وقت عراق میں پچاس لاکھ یتیم بچے اور بچیاں ہیں، دس لاکھ بیوائیں ہیں اور لاکھوں افراد دشمن کی گولیوں کی زد میں آکر اپاہج ہو چکے ہیں۔ لاکھوں افراد بے گھر ہیں۔

ہم ایسی قوم تھے جس میں عرب، کرد، ترک اور دیگر نسلوں کے لوگوں کے ساتھ مل کر رہتے تھے۔ اکٹھے روٹی کھاتے تھے۔ شیعہ حضرات سنیوں سے مل کر ایک ہی صف میں نماز ادا کرتے تھے۔ مسلمان مسیحیوں سے مل کر حضرت عیسیٰ کا یوم ولادت مناتے تھے۔ اللہ ان سب پر مہربان ہو۔ ہم دس سال سے زائد بھوک پیاس اکٹھے برداشت کرتے رہے۔ ہمارے صبر اور اندرونی اتحاد کے باعث ہم قوم پر ہونے والے ظلم و جبر کو بھول نہ سکے، ہم پر جارحیت کا ارتکاب کیا گیا۔ پہلے ہمارے اندر آزادی کے نام پر ایسے اختلافات پیدا کیے گئے کہ ہمارے بھائی ایک دوسرے سے علیحدہ ہو گئے، بیٹے باپ کو، باپ بیٹوں کو بھول گئے اور ہمارے وطن کو تعزیت کدہ بنا دیا گیا۔ پھر ’’دشمن‘‘ آ گیا، جس نے ملک کو قبرستان میں تبدیل کر دیا۔ قابض فوج ہمیں قتل کر رہی ہے، مساجد اور کلیسائوں کی بے حرمتی کی جا رہی ہے ہمارے گھروں کی حرمت محفوظ نہیں اور ہزاروں افراد کو گرفتار کر کے جیلیں بھر دی گئی ہیں۔

میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں کوئی ہیرو نہیں، لیکن میرا ایک اپنا نقطۂ نظر ہے۔ میرا اپنا مؤقف ہے کہ میرے ملک کی توہین کر کے میری توہین کی گئی ہے۔ میرے بغداد کو آگ لگا دی گئی ہے، میرے عوام کو مارا جا رہا ہے۔ میرے ذہن میں غم و اندوہ کی ہزاروں تصاویر ہیں جو روز بروز مجھے صحیح راستے کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ یہ محاذ آرائی کا راستہ ہے، میں نا انصافی کو مسترد کرتا ہوں، دھوکے، مکاری اور دوغلے پن سے مجھے نفرت ہے۔ ان باتوں سے میری راتوں کی نیند حرام ہو چکی ہے۔ عوام کے قتل عام کی ہزاروں تصاویر میرے پیشِ نظر ہیں جن سے میری آنکھیں آنسوئوں سے بھری رہتی ہیں۔ ابوغریب (جیل) کے اسکینڈل، فلوجہ، جف، حدیثہ، صدر بغداد، بصرہ، دیالہ اور موصل میں قتل عام، بلکہ ملک کے چپے چپے پر شہریوں کا لہو میرے لیے سوہان روح ہے۔ میں نے اپنے وطن کی سرزمین کا جو آتش کی زد میں ہے چپہ چپہ دیکھا ہے۔ میں نے اپنی آنکھ سے مظلوم لوگوں کا مشاہدہ کیا ہے، اپنے کانوں سے یتیموں کی چیخیں سنی ہیں۔ سخت شرمندہ ہوتا رہا، کیونکہ میں بے بس تھا۔

میں بطور اخباری رپورٹر جب اپنے فرائض سے فارغ ہوتا مجھے عراقیوں کے مصائب یاد آتے، عمارتوں کا ملبہ میری آنکھوں کے سامنے آ جاتا اور بسا اوقات مظلوموں کا خون میرے کپڑوں پر بھی موجود ہوتا تو میں دانت پیس کر رہ جاتا، لیکن میں یہ عہد بھی کرتا کہ میں اس سب کچھ کا انتقام ضرور لوں گا۔ آخر وہ موقع آ گیا اور میں نے اس سے فائدہ اٹھایا۔ میں نے مظلوموں کے ہر قطرۂ خون، مائوں کے بیٹوں، یتیم بچوں کی آہ و بکا، (امریکی فوجیوں کا) نشانہ بننے والی خواتین اور یتیموں کی آنکھوں سے بہنے والے آنسوئوں کا حساب چکا دیا۔

جو مجھے اس کام (امریکی صدر کو جوتا مارنے) پر طعنوں کا نشانہ بناتے ہیں ان سے پوچھتا ہوں کہ کیا ان کو علم ہے کہ میں اس جوتے کے ساتھ کتنے برباد گھروں میں جا چکا تھا جو قابض فوجیوں نے برباد کیے۔ میرے اس جوتے کے تلے کے نیچے کتنی بار مظلوموں کا خون آ چکا تھا اور اس جوتے کے ساتھ میں کتنے عراقی گھروں میں جا چکا تھا جہاں خواتین کی عزت لوٹی گئی تھی۔ جب تمام اقدار کی نفی کر دی گئی تو یہ جوتا ہی اس کا مناسب جواب تھا۔

میں نے جب اس مجرم بش کے منہ پر جوتا مارا، میرا مقصد اس کے جھوٹوں کی نفی تھا، یہ میرے ملک پر اس کے بلا جواز قبضے کا جواب تھا۔ اس نے میرے ہم وطنوں کا قتلِ عام کیا تھا۔ اس نے میرے ملک کی دولت لوٹ لی تھی، اسے تباہ اور میرے ملک کے بیٹوں کو ذلیل کر کے رکھ دیا تھا۔ ۶ سالہ ذلت و نکہت، قتل عام، گھروں کی عزت کی خلاف ورزی اور عبادت گاہوں کی بے حرمتی کے بعد یہ ذلیل انسان (بش) اپنی فتح کے نعرے لگانے آیا تھا اور جمہوریت کا راگ الاپ رہا تھا۔ وہ یہاں اپنے مظالم سے زخمی لوگوں کو ’’خدا حافظ‘‘ کہنے آیا تھا اور چاہتا تھا کہ اس پر پھول نچھاور کیے جائیں۔ میں نے اس پر ایک پھول ہی تو نچھاور کیا تھا۔ یہ ان سب کے لیے بھی تھا جو میرے ملک کے خلاف کارروائیوں میں اس کے ساتھ شریک تھے۔ وہ خواہ جھوٹ پھیلا رہے تھے یا عراق پر فوجی قبضے سے قبل اور بعد میں طرح طرح کی باتیں بناتے رہے تھے۔

میں اس روز اپنے پیشہ (صحافت) کی عزت کا بھی دفاع کرنا چاہتا تھا۔ میرے ذہن میں ملک کی عزت خراب کرنے والے تھے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ میں نے بش کو شرمندہ کرنے کے لیے کوئی سوال کیوں نہ کیا۔ آج میں صحافیوں کو بھی جواب دینا چاہتا ہوں کہ پریس کانفرنس سے قبل تو ہمیں سوال کرنے سے منع کر دیا گیا تھا۔ میں سوال کیسے کرتا؟ جہاں تک پیشۂ صحافت کا تعلق ہے، بعض لوگ صحافت کا جو رونا روتے ہیں صحافت تو حُبِ وطن کی آواز ہی ہونی چاہیے اور اگر حُبِ وطن کے تحت کوئی بات کی جائے تو صحافت کو اس کا ساتھ دینا چاہیے۔

اگر میں نے کوئی پیشہ ورانہ غلطی کی ہے یا میری وجہ سے انتظامیہ کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، میں اس کے لیے معافی کا خواستگار ہوں۔ میں نے تو بس ایک شہری کے جذبات کا ہی اظہار کیا ہے، جسے اپنے وطن کی توہین کا صدمہ تھا۔ تاریخ میں ایسے کئی قصے موجود ہیں جب امریکی پالیسی سازوں کے ہاتھوں پیشہ ورانہ تضحیک عمل میں آتی رہی ہے۔ صدر فیڈل کاسترو پر قاتلانہ حملہ ہوا، سی آئی اے کے ایجنٹ جو صحافیوں کے روپ میں تھے اس کی تصاویر بناتے رہے اور عراق میں بھی انہوں نے عوام کو جس طرح دھوکہ دیا ہے اور جو کچھ ہوتا رہا، اس کے برعکس دکھاتے اور بتاتے رہے ہیں، اس کا کیا ذکر کروں۔ کئی اور بھی ایسے قصے ہیں، کیا کیا بیان کروں!

… لیکن میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ امریکی ایجنسیاں مجھے چھوڑیں گی نہیں، کیونکہ میں تو باغی ہوں اور امریکی قبضے کا مخالف ہوں۔ وہ مجھے قتل کرنے یا موقع سے دور رکھنے کی کوشش ضرور کریں گی۔ یہ ایجنسیاں ایسے پھندے تیار کر رہی ہیں جن کے ذریعے مجھے ہلاک کیا جا سکے یا پیشہ ورانہ طور پر بے عمل بنایا جا سکے… اور جب گزشتہ دنوں عراق کے وزیراعظم نے ایک ٹی وی چینل پر یہ کہا کہ ’’وہ اس وقت تک سو نہیں سکا تھا جب تک اس نے میرے تحفظ کا یقین نہ کر لیا اور یہ کہ مجھے بستر اور کمبل مل گیا ہے‘‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب وزیراعظم یہ کہہ رہے تھے اس وقت مجھے شدید تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ مجھے بجلی کا کرنٹ لگایا جا رہا تھا، بجلی کے موٹے تاروں (کیبل) سے مجھے پیٹا جا رہا تھا، لوہے کے ڈنڈوں سے ضربیں لگائی جا رہی تھیں اور یہ سب کچھ اس جگہ کے عقب میں ہو رہا تھا جہاں (امریکی صدر کی) پریس کانفرنس ہوئی تھی۔ جب مجھ پر بدترین تشدد کیا جا رہا تھا پریس کانفرنس جاری تھی اور مجھے لوگوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ ممکن ہے پریس کانفرنس کے بعض شرکاء نے میری چیخ و پکار بھی سنی ہو۔

اگلی صبح مجھے شدید سردی میں ہاتھ پائوں باندھ کر پھینک دیا گیا۔ انہوںنے صبح صبح مجھ پر پانی بھی ڈالا۔ میں وزیراعظم مالکی کی طرف سے بھی معذرت خواہ ہوں کہ انہوں نے سچ کو لوگوں سے دور رکھا۔ میں ان لوگوں کے نام بھی بتائوں گا جنہوں نے مجھے تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ ان میں بعض اعلیٰ سرکاری اور فوجی افسر بھی شامل تھے۔ میں نے اس لیے (امریکی صدر پر) جوتا نہیں پھینکا تھا کہ میرا نام تاریخ میں آ جائے گا یا اس سے مجھے کوئی مادی منافع ہو گا بلکہ میں تو صرف اپنے ملک کا، وطن کا دفاع کرنا چاہتا تھا جو میرا حق ہے اور یہ حق بین الاقوامی طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ میں ایک ملک اور ثقافت کا دفاع کرنا چاہتا تھا۔ جن کی توہین کی گئی ہے۔ ہاں! مجھے یقین ہے کہ تاریخ خصوصاً امریکی تاریخ میں یہ ضرور درج کیا جائے گا کہ امریکا نے کس طرح عراق پر فوجی قبضہ کیا اور عراق کے عوام کو غلام بنا لیا۔

وہ (امریکی) یہ گپ بھی چھوڑیں گے کہ انہوں نے اپنے مقاصد کس طرح حاصل کیے اور کس طرح لوگوں کو بیوقوف بنایا۔ یہ کوئی عجیب بات نہیں ہو گی بلکہ یہ ایسا ہو گا جیسا امریکیوں کے ساتھ اس وقت ہوا تھا جب نو آبادکاروں نے امریکا پر قبضہ کر لیا تھا۔ میں تمام قبضہ گروپوں اور ان کے حامیوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہم موت کو گلے لگا سکتے ہیں، ذلت اور بے عزتی برداشت نہیں کر سکتے۔ میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ میں آزاد منش صحافی ہوں۔ کسی سیاسی پارٹی سے وابستہ نہیں، جیسا کہ مجھ پر تشدد کے دوران بھی کہا جاتا رہا۔ ہاں! میں بائیں بازو کا حامی ضرور ہوں، مگر کسی بھی سیاسی پارٹی کا کارکن نہیں، میں مستقبل میں بھی اپنے ملک کے عوام کے لیے کام کرتا رہوں گا۔ میں کوئی ’’سیاسی جنگ‘‘ نہیں لڑنا چاہتا جیسا کہ بعض لوگ کہہ رہے ہیں۔ میں بیوہ ہونے والی خواتین، یتیموں اور ان سب لوگوں کی بہتری کے لیے کام کرتا رہوں گا جنہیں امریکا کے فوجی قبضے کے دوران نقصان پہنچا ہے۔ میں شہید ہونے والوں کی مغفرت کی دعا کرتا ہوں۔ میری دعا ہے کہ جنہوں نے عراق پر فوجی قبضہ کیا اور اس مذموم کام میں جن لوگوں نے قبضہ کرنے والوں کی مدد کی انہیں شرم آ جائے۔ میں قبروں میں لیٹنے والوں کے لیے بھی دعاگو ہوں اور غلامی کی زنجیروں میں جکڑے جانے والوں کے لیے بھی دعا کرتا ہوں۔ میرا اپنے عزیز وطن کے لیے پیغام ہے کہ غلامی کی رات طویل ہو بھی جائے تب بھی صبح ضرور ہو گی، کیونکہ سورج کو تو چڑھنے سے روکا نہیں جا سکتا۔

حکومت کے لیے میرا پیغام ہے کہ مجھے ان لوگوں کی و جہ سے بڑا اعتماد ملا جو میرے ساتھ قید تھے۔ انہوں نے کہا: منتظر، اگر تم رہا ہو جائو تو ہماری حالت سے بڑی طاقتوں کو آگاہ کرنا… اور میں جانتا ہوں کہ سب سے بڑی اور ہر جگہ حاضر طاقت اللہ تعالیٰ کی ہے اور میں اس سے ہی سبھی کی بھلائی کی دعا کرتا ہوں۔ وہاں جیلوں میں ہزاروں عراقی ہیں جو کئی سالوں سے وہاں سڑ رہے ہیں۔ ان پر نہ کوئی الزام عائد کیا گیا ہے نہ ان پر مقدمہ چلایا گیا ہے۔ انہیں گلیوں چوراہوں سے پکڑ کر جیل میں ڈالا گیاہے۔ میں آپ سب لوگوں کے سامنے اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر کہہ رہا ہوں کہ میں نے اپنا وعدہ جو جیل میں کیا تھا، پورا کر دیا ہے۔ حکومت اور سیاستدانوں کو بتا دیا ہے کہ وہ خود جا کر دیکھیں کہ جیلوں میں کیا ہو رہا ہے اور کس طرح انصاف کی فراہمی میں تاخیر ہو رہی ہے۔

شکریہ! اللہ آپ لوگوں کا حافظ و ناصر ہو۔

(بشکریہ: ’’دی نیشن‘‘ ۔۔۔ ترجمہ: نذیر حق)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*


This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.