
فلسطینی مصالحت کی کنجیاں امریکا کے پاس ہیں، آج یہ معاملہ زیادہ واضح ہو چکا ہے کہ امریکا کی منظوری کے بغیر فلسطینی مصالحت ناممکن الحصول ہے۔ مصالحت کو امریکا کی طرف سے مسترد کرنے کے تین مقاصد ہیں:
(۱) امریکا کی یہ خواہش کہ فلسطینی مسئلہ کا سیاسی تصفیہ موجودہ (غیر نمائندہ) فلسطینی قیادت کے سایہ میں ہو۔
(۲) ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سابق امریکی جنرل کیتھ ڈائن اور موجودہ جنرل مائیکل مولر کی کی اسٹریٹجی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔
(۳) غزہ کو سیاسی و اقتصادی حصار کے تحت رہنے دینے کی امریکی خواہش اس وجہ سے ہے کہ وہ اس کو دنیا کے سامنے اسلامی حکومت کے ماڈل اور پھر اس کی درگت کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے۔
یہ مقاصد امریکی انتظامیہ کو اس بات پر آمادہ کرتے ہیں کہ وہ تمام فریقوں پر اس بات کا دبائو بنائے رکھے کہ مصالحت کے بارے میں وہ حماس کے ملاحظات کو کوئی حیثیت نہ دیتے ہوئے رد کرتے ہیں۔ میرا تو خیال ہے کہ اگر حماس مصری مصالحتی ڈرافٹ پر دستخط کر بھی دے تو فلسطین اتھارٹی کی گردن پر امریکی ویٹو مسلط رہے گا اور ہر عرب یا اسلامی یا یہاں تک کہ فلسطینی مصالحتی کوشش کو ناکام کرتا رہے گا۔ اس لیے کہ اس کے نزدیک موجودہ منقسم فلسطینی حالت ہی فلسطین اتھارٹی کی (غیر نمائندہ) قیادت پر دبائو رکھنے اور فلسطینی عوام پر سیاسی تصفیہ تھوپنے کے لیے آئیڈیل ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ تصفیہ مغربی کنارہ پر ہی لاگو ہو اور غزہ سیکٹر ہولناک سیاسی، اقتصادی، فوجی تجربات کا میدان بنا رہے۔ یہاں تک کہ وہ سرتسلیم خم کرے اور اس کے ساتھ حماس بھی جھک کر نئے تصفیہ کو قبول کر لے۔ یقینی طور پر اس کو اہلِ غزہ نہیں مانیں گے اور ان کی گردنوں پر فوجی مداخلت کی تلوار لٹکتی رہے گی۔
فلسطینی مصالحت مسترد کرنے کا دوسرا مقصد امریکی انتظامیہ کے لیے بہت اہم ہے۔ اس لیے کہ جنرل کیتھ ڈائن اور مائیکل مولر کی اسٹریٹجی ابھی پوری نہیں ہوئی ہے، تکمیل کے لیے اسے وقت چاہیے۔ جدید فلسطینی تعمیر کا عمل اضافی وقت اور تجربات کا محتاج ہے۔ اسی لیے پینٹاگون نے جنرل ڈائن کو واپس بلایااور جنرل مائیکل مولر کو مہم اور نشانہ پورا کرنے کے لیے مقرر کیا۔ یہ صرف محکمہ پولیس کے عناصر کو ٹریننگ دینے یا فلسطینی مزاحمتی عناصر کی گرفتاری کی نگرانی کی بات نہیں، بلکہ بڑا مقصد اس سے بہت زیادہ وسیع ہے اور وہ ہے فلسطینی اقدار اور فلسطینی عوام کے دینی و ثقافتی ورثہ کے پورا نظام کو نشانہ بنانا۔ اصل میں فلسطینی انسان نشانہ پر ہے، مغربی کنارہ کے فلسطینی شہروں میں اس سیاست کے ایک حصہ کے طور پر کسی وقت بھی شراب خانوں اور نائٹ کلبوں کے لائسنس جاری ہونے کا فیصلہ ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ اقتصادی امن کے اصولوں پر مرکوز مرتب عملیات، ترقی و نمو کے پروگرام، سرمایہ دارانہ فکر کا استحکام، وہاں کے باشندوں کے لیے بنک قرضوں کے اجراء میں آسانی اور ان کو طویل المیعاد قرضوں سے جوڑنا تاکہ ان کی سیاسی فکر و سلوک پر پورا تسلط ہو جائے تو پھر ان کے فکر و سلوک کو غیر ملکی مسائل کی طرف موڑا جائے جو اسلامی و وطنی ثقافت سے بالکل دور ہوں۔ ڈائن اور مولر کی اسٹریٹجی کا مقصد فلسطینیوں کے اندر ذہنی شکست کی ثقافت کو مضبوط کرنا ہے۔ اس کا نشانہ فلسطینی شہریوں کی نفسیات ہے، تاکہ اس کا تربیت یافتہ ایک ایسا نومولود فلسطینی ایڈیشن سامنے آئے جو اسرائیل سے محبت کرتا ہو اور مزاحمت و جدوجہد سے نفرت!!
تیسرا مقصد اس بین الاقوامی، علاقائی اور فلسطینی خواہش کا عکاس ہے کہ غزہ کے اسلام پسندوں کی حکومت کے ماڈل کو عالم اسلامی میں منتقل کیا جائے۔ اسی لیے امریکی انتظامیہ نے حماس کو زیرِ حصار غزہ سیکٹر پر زیادہ سے زیادہ ممکن مدت تک حکومت کرنے کے لیے چھوڑ رکھا ہے تاکہ شرق اوسط میں اسلام کی سیاسی تحریکوں کی حکومت کی شبیہ سیاہ کر کے پیش کرتا رہے۔ امریکی خواہش کے مظہر یہ تینوں مقاصد پورے ہوں نہ ہوں، لیکن اب تک تو اس کی صورت صاف و شفاف اور روشن ہے۔ چنانچہ بلعین، نعلین، معصرۃ وغیرہ کے نمونوں سے یہی یقین ہوتا ہے کہ نیا فلسطین ہی آزادی حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کے وسائل ایجاد کر رہا ہے۔ نیز کوئی بھی تصفیہ جو فلسطینی عوام کے مطالبات اور مسلمات کو پورا نہ کرتا ہو چل نہیں پائے گا۔
اور جہاں تک غزہ سیکٹر کا معاملہ ہے تو یہ واضح ہے کہ اس کی ثابت قدمی کی چٹان کے سامنے حصار کی تمام شکلیں ٹوٹ پھوٹ کر رہیں گی اور وہ سر اٹھائے ہوئے دنیا کی آزادی کی تمام تحریکوں کے لیے اعلیٰ نمونہ بنا رہے گا۔ اور ایک دن تاریخ لکھے گی کہ غزہ نے اس کا حصار کرنے والوں کا محاصرہ کر رکھا تھا۔ انشاء اللہ!
(بشکریہ: ہفت روزہ ’’الامان‘‘ بیروت۔ ترجمہ مسعود الرحمن خان ندوی)
Leave a Reply