
میں آزادیٔ فلسطین کے اس عظیم مارچ میں جب سے اس کا آغاز ہوا ہے ہفتے میں دو تین مرتبہ شرکت کرتا ہوں۔ اس مارچ میں شریک ہو کر مجھے اپنا گاؤں زرنوقہ بڑی شدت سے یاد آتا ہے، میرے اس گاؤں کو ۱۹۴۸ میں اسرائیلی غاصب افواج نے نیست و نابود کرکے ہزاروں فلسطینیوں کو بیدخل کردیا تھا،اس میں میرے والدین بھی شامل تھے۔ اس عظیم مارچ کا مقصد ۱۹۴۸ سے شروع ہونے والے ظلم و ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنا ہے۔ ہماری اس جدوجہد کے بنیادی طور پر تین مقاصد ہیں:
ہمارا مطالبہ ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق تمام فلسطینیوں کی ان کے آبائی علاقوں میں واپسی یقینی بنائی جائے۔
غزہ پر انسانیت سوز مظالم، نسل کشی اور بدترین محاصرے، ناکہ بندی کو فی الفور ختم کیا جائے۔
ہمیں امریکی سفارتخانے کی مقبوضہ یروشلم منتقلی کا متعصبانہ فیصلہ ہرگز قبول نہیں۔
اس مارچ کے شرکاء کا تعلق فلسطین کی مختلف سیاسی، سماجی جماعتوں اور سول سوسائٹی سے ہے، یہ پروپیگنڈہ یکسر غلط ہے کہ یہ مارچ حماس کی تحریک پر ہو رہا ہے۔ اس تحریک میں فلسطین کی تمام نمایاں سیاسی جماعتوں کی نمائند گی بشمول فتح، پاپولر فرنٹ، فلسطین لبریشن، ڈیمو کریٹک فرنٹ موجود ہے۔
۱۴ مئی کو میں ان ہزاروں مظاہرین میں شامل تھا جنھوں نے غزہ کے مشرقی حصے کی جانب مارچ کا فیصلہ کیا۔ ’’ـــ آج فلسطین کی تاریخ کا نہایت اہم دن ہے۔ وہ دن جس کا ہر فلسطینی منتظر تھا‘‘۔ یہ وہ تحریر ہے جسے گھر سے نکلنے سے پہلے میں نے اپنی فیس بک وال پر لکھا۔ میرے ہمراہ میرے تین دوست بھی تھے، جن میں ایک استاد، ایک سیلزمین اور ایک متحرک سیاسی کارکن شامل ہے۔ ہر شعبہ زندگی سے وابستہ ہزاروں مرد و عورت اور بچے اپنی فیملی کے ساتھ اس مارچ میں شریک ہیں۔ ہم سب شرکا غیر مسلح، اپنے مطالبات کے حق میں غزہ کے مشرقی باڑ کی جانب پرامن مارچ کر رہے تھے۔ اسی اثنا میں خوفزدہ اسرائیلی حکومت نے اپنے فوجیوں کو فائرنگ کا حکم دے دیا۔ صبح نو بجے جب فائرنگ شروع ہوئی تو مجھے ہر طرف زخمی مرد، عورتوں، بچوں اور نوجوانوں کی اعضا سے محروم لاشیں بکھری نظر آئیں۔ یہ سارے مظاہرین پرامن تھے اور باڑ کو عبور کرنے کی کوشش بھی نہیں کر رہے تھے۔ ان شہدا میں ایک زخمی نوجوان کا چہرہ میں کبھی بھول نہیں سکتا۔ جسے پیٹ میں گولی لگی اور وہ اسپتال لے جانے سے پہلے ہی اپنے رب سے جا ملا۔ ایک اور نوجوان جس نے فلسطینی پرچم سے اپنے منہ کو چھپایا ہوا تھا، اسے گردن میں گولی لگی لیکن وہ خوش قسمتی سے بچ گیا۔ شام ڈھلتے ۶۰ افراد شہید ہوچکے تھے، جبکہ زخمیوں کی تعداد تین ہزار سے زائد تھی۔
سب سے دلخراش منظر ۸ ماہ کی معصوم لیلیٰ اور معذور نادی ابوصالح کے مبارک جسد خاکی کا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں مجھے عزیز دوست احمد العدنی کی شہادت کی خبر ملی، احمد اپنے پیچھے تین سالہ بیٹی چھوڑ گیا۔
ہم جب اس نوجوان اور دیگر شہدا کی تدفین کر رہے تھے، ہمیں یہ محسوس ہورہا تھا ہم اسرائیلی جبر اور مظالم کے سامنے تنہا ہیں، وہ لوگ بھی ہمارے ساتھ نہیں، جنہیں ہمارے ساتھ ہونا چاہیے تھا۔
گزشتہ چھ ہفتوں سے ہم دنیا کی مضبوط ترین افواج میں سے ایک یعنی اسرائیلی فوج کا نہتے مقابلہ کر رہے ہیں۔ جس کے پاس ڈیڑھ لاکھ سے زائد سپاہی، سیکڑوں وار ہیڈز، جدید ترین ٹینک، ایف سولہ طیارے، اپاچی ہیلی کاپٹر، ڈرون اور دیگر خودکار اسلحے موجود ہیں۔
اسرائیل کی ہر ممکن کوشش ہے کہ ہم اس کی غلامی اور محاصرے میں محصور ذلت آمیز زندگی گوارا کرلیں۔ ہمیں دن میں صرف چار گھنٹے بجلی ملتی ہے۔ ہمارا ۹۵ فیصد پانی پینے کے قابل نہیں۔ شدید زخمیوں کو علاج کے لیے مغربی کنارے لے جانے کے لیے مہینوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اسپتالوں کی حالت انتہائی مخدوش ہیں۔ ان اسپتالوں میں ۳۰ مارچ سے لائے جانے والے ۱۲۰۰۰ زخمیوں کو بمشکل طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔
عرب حکومتیں اور یورپی یونین نے سوائے بیانات کے ہمارے لیے کچھ نہیں کیا۔ ان تمام ریاستوں کا رویہ ہمارے حوالے سے شرمناک، منافقت اور بزدلی پر مبنی ہے۔ ہم سے غلامانہ طرز عمل کی توقع کی جارہی ہے کہ ہم ان کے غلام اور ماتحت زندگی بسر کریں، ان کے بچے ہوئے دستر خوان پر شکم سیری کرلیں، اپنی موت کو تسلیم کر لیں اور مزاحمت کا راستہ ترک کر دیں۔ ہمیں بتایا جارہا ہے کہ ہمیں ہماری ہی غلطیوں کی وجہ سے گولی ماری جارہی ہے۔
ہم جب اپنے ہاتھوں سے اپنے پیاروں کو قبر میں اتار رہے ہیں، ہمیں معلوم ہے کہ عرب لیگ، یورپی یونین اور اقوام متحدہ ہمارے لیے کچھ نہیں کرے گی۔ ہمارے پاس ایک ہی قابل عمل راستہ ہے اور وہ عوامی طاقت کے ذریعے منظم جدوجہد کا راستہ ہے۔ ہم عزت کی موت کو زندگی پر ترجیح دیں گے، ہمیں برسوں دھوکا، آس و امید کے درمیان رکھا گیا۔ بالآخر ہم نے اس فیصلہ کن تحریک کا آغاز کر دیا ہے۔
اپنی تحریک کو کامیابی سے منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے ہمیں جنوبی افریقا کی عوامی جدوجہد سے سیکھنا ہوگا، یعنی زیادہ سے زیادہ عوام کو اس جدوجہد اور مشن کے لیے متحرک کیا جائے۔ ہمیں مختلف حکومتوں سے آزادی کی بھیک مانگنے کا رویہ بھی ترک کرنا ہوگا۔ کیا جنوبی افریقا کو مارگریٹ تھیچر اور رونالڈ ریگن کی ہمدردیوں سے کچھ حاصل ہوا؟ نہیں بلکہ افریقی عوام اور دنیا بھر کے باضمیر انسانوں کی کوششوں اور مزاحمت سے ہی نسل پرستی کی عفریت کا مقابلہ ممکن ہوا تھا۔
ہماری جدوجہد اور تحریک اخلاقی بنیادوں پر استوار ہے، لہٰذا ہمیں فتح اور کامیابی، استقامت، عزیمت اور قربانیوں سے حاصل ہوگی۔ ان شاء اللہ!
(ترجمہ: محمودالحق صدیقی)
“Why I marched on may 14 in Gaza near the Israeli fence”. (“aljazeera.com”. May 16, 2018)
Leave a Reply