میں مسلمان کیوں ہوا۔۔۔؟

عرصہ دراز سے مختلف ممالک کے لوگ بڑی تعداد میں سعودی عرب آرہے ہیں تاکہ یہاں کام کر کے کچھ سرمایہ جمع کر لیں اور اپنی معاشی زندگی بہتر بنا سکیں۔ اس لحاظ سے یہ ملک نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ غیرمسلموں کے لیے بھی پرکشش ہے۔ صالح ایچان بھی اسی وجہ سے فلپائن سے سعودی عرب آئے، ان کا پیدائشی نام جوپال ایچان تھا۔ سعودی عرب میں قیام کے دوران انہیں مختلف تہذیبی اور معاشرتی مسائل سے دوچار ہونا پڑا، جن سے نمٹنے کے لیے انہیں بے حد جدوجہد کرنی پڑی۔ ان کی فراست، محنت اور اخلاص سے عجیب و غریب نتائج سامنے آئے، جو کہ ان کے خواب و خیال میں بھی نہ تھے۔ ان کی دلچسپ کہانی ہر بنی نوع انسان کے لیے مشعل راہ ہے۔ ایچان نے اپنی کہانی یوں بیان کی:

ابتدائی مذہبی سرگرمیاں

میری فیملی رومن کیتھولک تھی جو باقاعدگی کے ساتھ چرچ جاتی تھی۔ میں بچپن سے ہی مذہبی سرگرمیوں میں حصہ لیتا تھا، مثلاً جب میں پرائمری اسکول کا طالب علم تھا تو میں چند لڑکوںکی مدد سے چرچ کی صفائی کرنے میں خوشی محسوس کرتا تھا۔ چرچ کی سروس کے دوران میں اپنے مذہبی پیشوا کے معاون کی حیثیت سے ان کے ساتھ کھڑا رہتا تھا۔ جب میں ہائی اسکول پہنچا تو چرچ کے گانے بجانے والے گروپ میں شامل ہو گیا۔ میں کبھی گیٹار بجاتا اورکبھی پیانو اور ساتھ ہی طرح طرح کی لے سے گاتا۔ ہمارے ہاں نوجوانوں کا ایک ایسا گروپ تھا جو مذہبی امورمیں چرچ کی مدد کرتا اور غور و فکر کرتا کہ کس طریقے سے ’’میری‘‘ (MARY) سے محبت اور پوری انہماک سے پوجا کی جائے۔ اس گروپ کا نام ’’لی جنڈ آف میری‘‘ تھا۔ میں اس گروپ میں بھی پیش پیش تھا۔ چرچ میں میری کے کئی بت تھے۔ مثلاً ورجن میری، میری میگڈلین اور امیکولیٹ کنسیپشن۔ ہمارے گروپ کے لیے بھی میری کا ایک مخصوص بت تھا، جس کی ہم بہت شوق سے پوجا کرتے تھے۔

ہمارے چرچ میں عبادت کا طریقہ کار یہ تھا کہ ہمارے پیشوا بائبل پڑھتے اورہم ہمہ تن گوش ہو کر اس کو سنتے۔ اس دوران ہمیں بذات خود کبھی بھی بائبل پڑھنے اور اس پر غور و فکر کرنے کا موقع نہ ملا، سب لوگ صرف سننے پر ہی اکتفا کرتے تھے۔

پہلا نقلاب

کالج کی زندگی کے دوران ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ ایک دوست نے مجھے دعوت دی کہ اس کے چرچ میں عبادت کے طریقہ کار کو دیکھوں۔ یہ چرچ پروٹیسٹنٹ فرقے سے تعلق رکھتا تھا۔ میں دیکھ کر حیران رہ گیا کہ یہاں نہ صرف ان کے مذہبی پیشوا کے پاس بائبل ہے، بلکہ ہر فرد اپنے ہاتھ میں بائبل اٹھائے ہوئے ہے اورجو کچھ پیشوا پڑھتے ہیں‘ باقی افراد بھی اس صفحہ کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مجھے اس سے بڑھ کر یہ تعجب ہوا کہ بائبل میں بار بار لکھا گیا ہے کہ کسی قسم کے بت کی پوجا کرنا جائز نہیں۔ اس تجربے نے میری آنکھیں کھول دیں اور پہلی بار یہ حقیقت مجھ پر منکشف ہوئی، جس نے میری زندگی میں ایک انقلاب پیدا کر دیا۔ میں رومن کیتھولک چرچ کو چھوڑ کر پروٹیسٹنٹ چرچ میں شامل ہو گیا۔ گویا یہ روحانی طور پر نیا جنم تھا، اس لیے یہ فرقہ Born Again کہلاتا ہے۔ میری زندگی میں اس تبدیلی کا مقصد یہ تھا کہ میں بائبل کی تعلیمات کے مطابق کسی بھی بت کی پوجا نہ کروں اور بائبل کو خود پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کروں۔ میں اپنی فیملی میں پہلا پروٹیسٹنٹ تھا، میرے اہل خانہ نے بھی اس نئے چرچ کی تعلیمات سے استفادہ کرنا شروع کردیا اور سب کے سب نئے چرچ میں شامل ہو گئے۔ ہم سب اس چرچ کی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے، میں تعلیم و تربیت کے ایک شعبہ سے منسلک ہو گیا۔ اس طرح مجھے بائبل پر پوری دسترس حاصل ہو گئی، اب میں بھی ایک پیشوا یا پادری کے طور پر کام کر سکتا تھا، اسی وجہ سے چرچ کے اراکین میرا بہت احترام کرتے تھے۔

تصور اسلام

میں اسلام کے بارے میں بالکل کورا تھا۔ میرا خیال تھا کہ مسلمان ایک مذہب کا نام ہے۔ مجھے پرائمری سے لے کر ہائی اسکول تک کسی مسلمان بچے سے ملنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا، اگر کوئی مسلمان بچہ میری کلاس میں تھا تو وہ بھی اسلامی تعلیمات سے بالکل بے بہرہ تھا‘ اس لیے انفرادی طور پر پہچانا نہیں جاسکتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ کالج میں میرے چند اساتذہ مسلمان تھے لیکن وہ بھی محض نام کے، ان کی اور دوسرے لوگوں کے طرزِ معاشرت اور اطوار میں کوئی فرق نہ تھا۔

مجھے مسلمانوںسے نفرت تھی کیونکہ ہمارے ملکی اخبارات اور ٹی وی کھلے عام مسلمانوں کی مذمت کرتے تھے۔ اگر ایک مسلمان کوئی جرم کرتا تو تمام مسلمانوں کو ویسا ہی مجرم قرار دیا جاتا تھا، مثلاً اس بات کا بار بار اعلان کیا جاتا کہ مسلمان دہشت گرد ہیں۔ ہمیں نصیحت کی جاتی کہ کسی مسلمان کے سامنے سے نہ گزرو کیونکہ وہ تمہیں بلادریغ قتل کر دے گا، یہ کہ کسی مسلمان سے لین دین مت کرو کیونکہ وہ بنیادی طور پر بہت برے لوگ ہیں۔

تاہم مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ ہمارے مذہبی پیشوا مسلمانوںکو برا بھلا نہ کہتے۔ وجہ یہ تھی کہ وہ عیسائی فرقوں کے اختلاف اور باہمی برتری اور رسہ کشی میں ہی مبتلا رہتے، اس طرح انہیں دیگر معاملات کی طرف توجہ دینے کا وقت ہی نہ ملتا تھا۔

ملازمت

میں نے کالج سے کمپیوٹر سائنس میں بی ایس سی کی ڈگری حاصل کر لی اور انٹل فلپائینز فرم میں ملازمت اختیار کر لی۔ چند ماہ کے بعد میںنے ایک دوسری کمپنی میں تبادلہ کرا لیا، کیونکہ اس میں میرے لیے مزید تجربہ اور ترقی کے مواقع تھے اور میرے کالج کے کئی ساتھی بھی وہاں کام کرتے تھے۔ میں نے پانچ سال میں کئی نئی چیزیں سیکھ لیں اور چند دوستوںکے اشتراک سے ایک پرائیویٹ کمپنی قائم کر لی۔ لیکن یہ کمپنی زیادہ دیر نہ چل سکی، کیونکہ بعض ساتھی اپنی ذمہ داری انجام دینے میں سنجیدہ نہیں تھے۔ میں نے یہ صورتحال دیکھی تو سب سے پہلے اس سے علیحدگی اختیار کر لی۔

میرے ایک دوست نے یہ رائے دی کہ ہمیں چند سال سعودی عرب میں ملازمت کرنی چاہیے۔ اس طرح ہم معقول سرمایہ جمع کر لیں گے اور پھر اپنے ملک واپس آکر کوئی اچھا کاروبار شروع کر سکیں گے۔ ہم دونوں نے ایک ایجنسی سے رابطہ کیا۔ وہ پہلے سے ہی کمپیوٹر انجینئرز کی تلاش میں تھی جو ایک سعودی بینک کو مطلوب تھے۔ اتفاق سے اس بینک کے منیجر بھی منیلا میں موجود تھے، اس لیے جلد ہی ہمارا انٹرویو ہو گیا اور ہمیں بینک منیجر نے ملازمت کی پیشکش کر دی، لیکن تنخواہ کم ہونے کی وجہ سے ہم نے اس کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ ایجنسی مجھے بار بار فون کرتی رہی لیکن میں نے ایک نہ سنی، لیکن میرے دوست نے مجھے مجبور کیا کہ میں اس کو قبول کر لوں۔ بالآخر محض دوست کا ساتھ دینے کے لیے میںنے بھی یہ پیشکش قبول کر لی اور ہم دونوں سعودی عرب پہنچ گئے۔

(جاری ہے۔۔۔)

***

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*