
گزشتہ چند برسوں کے دوران میں شمالی امریکا میں ہونے والے مسلمانوں کے دو بڑے اجتماعات میں تواتر سے شریک ہوتا رہا ہوں۔ ان سالانہ اجتماعات کے ایک مستقل شریک کی حیثیت سے میں ان اجتماعات کے منتظم اداروں اور انہیں کامیاب بنانے کی ان تھک کوششیں کرنے والے خواتین و حضرات کا دل کی گہرائیوں سے مشکور ہوں۔
لیکن اس سال میں نے’’اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکا (اِسنا)‘‘ کے زیراہتمام امریکی ریاست مشی گن کے شہر ڈیٹرائیٹ میں ۲۹؍اگست سے یکم ستمبر تک اور ’’ریوائی ونگ دی اسلامک اسپرٹ‘‘ (آر آئی ایس) کے تحت کینیڈا کے دارالحکومت ٹورنٹو میں ۲۶ سے ۲۸ دسمبر تک ہونے والے اجتماعات میں شریک نہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ان دونوں اجتماعات میں شرکت سے گریز کی وجوہات مختلف ہیں لیکن مقصد ایک ہی ہے۔
امریکی مسلمانوں کے لیے ’’اِسنا‘‘کے رہنماؤں کی خدمات قابل ذکر ہیں جن پر وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ’’اِسنا‘‘کا سالانہ کنونشن ایک اہم اجتماع ہوتا ہے جو شرکا کی کثیر تعداد اور متنوع سرگرمیوں کے باعث منفرد شناخت رکھتا ہے۔ لیکن حالیہ برسوں میں تنظیم کی قیادت نے سیاسی امور پر اکثر اوقات مبہم موقف اپنایا ہے۔ میں حکام کے ساتھ بات چیت کے دروازے کھلے رکھنے کا قائل ہوں۔لیکن ساتھ ہی ساتھ مختلف معاملات پر اصولی موقف اختیار کرنا، اس کا اعادہ کرنا اور اس کا دفاع کرنا بھی یکساں طور پر اہم ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ حکام کے ساتھ معاملات کرتے ہوئے محض مسلمانوں کے مفاد کے بجائے ان ذمہ داریوں کو بھی پیشِ نظر رکھا جائے جو امریکی معاشرے کا حصہ ہونے کے ناتے مسلمانوں پر عائد ہوتی ہیں۔ موجودہ امریکی انتظامیہ کو سابق حکمرانوں سے ورثے میں ملنے والی داخلہ پالیسی پر تنقید کرنا ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے۔ بلاجواز گرفتاریاں، بغیر عدالتی کارروائی کے تحویل، غیرانسانی نفسیاتی تشدد، قید تنہائی، مخبروں کا مبہم کردار اور ’’ایف بی آئی‘‘ کی جانب سے اختیار کردہ دیگر نہایت پریشان کن اور ناقابل قبول ہتھکنڈوں کی غیر مشروط مذمت کی جانی چاہیے، کیوں کہ یہی وہ اقدامات ہیں جو درحقیقت ہمارے نوجوانوں کو انتہاپسندی کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ ان اقدامات پر تنقید صرف اسلام کا تقاضا ہی نہیں بلکہ ان اقدار کا مطالبہ بھی ہے جو ریاست ہائے متحدہ امریکا کی بنیاد ہیں۔
لیکن اس طرح کے ریاستی اقدامات پر اکثر اوقات ’اِسنا‘ کی قیادت خاموش دیکھنے میں آئی ہے۔ امریکا کی خارجہ پالیسی کے بارے میں بھی تنظیم کے قائدین کا یہی طرزِ عمل ہے۔ اسرائیل کی ناجائز اورغیرانسانی پالیسیوں کے لیے امریکی حمایت پر ’’اِسنا‘‘ کی قیادت کی خاموشی بلاجواز ہے۔ یہاں تک کہ وائٹ ہاؤس کے سالانہ روایتی افطار عشائیے کے دوران جب امریکی مسلمانوں کے رہنماؤں کے سامنے صدر براک اوباما نے اسرائیل کا دفاع کیا اور تقریب میں شریک اسرائیلی سفیر نے اپنے ایک ’’ٹوئیٹ‘‘ میں اس پر مسرت کا اظہار کیا تو اس کے بعد بھی ’’اِسنا‘‘ کے قائدین نے لب گوئی نہیں کی۔
کیا ایسی کسی صورتِ حال میں خاموش رہا جاسکتا ہے؟ آخر ’’اِسنا‘‘ کی قیادت امریکا کے مسلمان نوجوانوں کے لیے کیا مثال قائم کر رہی ہے؟ ’’اِسنا‘‘ کے قائدین امریکا کے مسلم نوجوانوں کو کس طرح کا شہری بنانا چاہتے ہیں؟ ایسے شہری جو خاموش، خوفزدہ اور خوشامدی ہوں؟ یا کسی مفاد کو خاطر میں لائے بغیر عوام کی فلاح کا احساس رکھنے والے ایسے شہری جو انسانی عظمت اور عدل کی اقدار کا تحفظ کریں اور دیانت داری اور سنجیدگی سے ملک کی خدمت کریں؟ ایسے شہری جو خوف کے غلبے تلے غیرمشروط وفادار بنے رہیں یا ایسے لوگ جو ریاست کے وفادار بھی ہوں اور غلط کام پر تنقید کا حوصلہ بھی رکھتے ہوں؟ ’’اِسنا‘‘ کے کنونشن میں میری شرکت تنظیم کے قائدین کی خاموشی کی توثیق کے مترادف ہوگی جو مجھے قبول نہیں۔
میں اس سال ’’آرآئی ایس‘‘ کے کنونشن میں بھی شرکت نہیں کروں گا۔ اس کی وجوہات مختلف ہیں لیکن اسباب یکساں ہیں۔ اس اجتماع کے منتظمین یہ تاثر قائم کرنے کے لیے خاصے متحرک رہے ہیں کہ وہ مختلف خیالات اور نظریات کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں صوفی ازم اور غیرسیاسی رجحانات ہی اس کنونشن پر غالب رہے ہیں۔
واضح رہے کہ مجھے ان رجحانات یا ان کے پس پردہ مقاصد اور سوچ سے ذرا بھی پریشانی نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس اجتماع میں شریک ہونے والے بعض دانشور اور مذہبی مبلغ ایسے ہیں جو صوفی ازم اور سیاست سے گریز کی آڑ لیتے ہوئے مختلف ریاستوں کے سیاسی موقف اور آمریتوں کا دفاع کرتے ہیں۔ مغرب کے عین قلب میں بیٹھ کر اصل صورتِ حال سے ان کی چشم پوشی اور ان گھڑ دلائل کے نتیجے میں خلیجی ریاستوں میں قائم بادشاہی نظام اور مصر کے جنرل السیسی جیسے آمروں کی بیرونِ ملک حمایت میں اضافہ ہوتا ہے۔
مصر کی طرح شام سے لے کر عراق تک کے آمر حکمرانوں کے ہاتھ ہزاروں معصوموں کے خون سے رنگے ہیں اور انہوں نے اپنے مخالفین پر تشدد اور جیلوں میں ڈالنے کی روش اختیار کر رکھی ہے۔ ’’آئی آر ایس‘‘ کے مہمان مقررین خود کو ان تنازعات سے ماورا قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ جس صوفی ازم کی وہ بات کرتے ہیں وہ تو سراسر سیاسی ہے اور ایسی ریاستوں کو یہ خوب راس آتا ہے۔ ان میں سے بعض مقررین کو یک طرفہ خطاب کی دعوت تو قبول ہوتی ہے لیکن وہ مذاکرے میں بیٹھنے سے انکاری ہوتے ہیں کہ کہیں ان کی حقیقت سب کے سامنے نہ آجائے۔ ایسا کرتے ہوئے ان کی ساری کشادہ دلی دھری رہ جاتی ہے۔ یہی ’’صوفی‘‘ لوگ جب آمریتوں کی حمایت کرتے ہیں تو دلیل اور منطق بغلیں جھانکتی رہ جاتی ہیں۔ لہذا میں ایسے کسی اجتماع میں شریک ہو کر اس طرح کے رویے کو جواز فراہم نہیں کرسکتا۔
برائے مہربانی میرے اس موقف کو میرے خاندانی پس منظر کے تناظر میں نہ دیکھا جائے۔ میں نے تمام اسلامی تحریکوں پر مقدور بھر تنقید کی ہے اور میں ان کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتا۔ لیکن میرا موقف ہے کہ تمام آمر حکمرانوں کا مقابلہ کرنا چاہیے اور تمام ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔ ہم خاموش نہیں رہ سکتے یا حیلے بہانے سے خاموشی کے ذریعے بدترین حکومتوں کی حمایت نہیں کرسکتے۔
میں پہلے بھی بارہا یہ بات کہہ چکا ہوں اور پھر اسے دہراؤں گا کہ مغربی ملکوں میں مقیم مسلمان مستقبل میں اہم کردار ادا کریں گے۔ آزاد معاشروں میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے انہیں اپنے مذہب کے بارے میں زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنا چاہیے۔ ان کی شناخت ایک آزاد، متحرک اور صاف گو شہریوں کی ہونی چاہیے، جو اپنے فرائض سے مکمل آگاہ اور اپنے حقوق کے دفاع کے لیے پرعزم ہوں۔ یورپ اور کینیڈا کی طرح امریکا میں مقیم مسلمانوں کو بھی بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے اور ریاست کے جبر اور منفی ہتھکنڈوں پر ہرگز خاموش نہیں رہنا چاہیے۔ اگر وہ اپنی اخلاقیات اور اقدار سے جڑے رہ کر مذکورہ بالا کردار ادا کریں تو یہ مغربی معاشروں میں مسلمانوں کے موثر کردار کی ایک اعلیٰ مثال ہوگا۔
مغربی معاشروں میں بسنے والے مسلمانوں کی موجودہ نسل اس حد تک محتاط اور خوف زدہ ہے کہ وہ کھل کر اپنا موقف بھی بیان نہیں کرسکتی۔ میں خود بھی اسی نسل کا ایک فرد ہوں جس کا وقت پورا ہونے والا ہے۔ اب یہ نئی نسل کی ذمہ داری ہے کہ وہ مغرب میں بسنے والے مسلمانوں کو ایسے رہنما فراہم کرے جو اس حقیقت کا بخوبی ادراک رکھتے ہوں کہ ’’جی حضوری‘‘ کا رویہ نہ صرف ان کی خودی پامال کرتا ہے بلکہ انہیں ان کے فرائض اور ذمہ داریاں بھی فراموش کرادیتا ہے۔ میرا خواب ہے کہ امریکی مسلمانوں کو مرد اور خواتین رہنماؤں کی ایسی نئی نسل میسر آئے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ، خود اعتمادی سے سرشار اور خوف اور لالچ سے آزاد ہو۔ ایسی قیادت جو حکام کے ساتھ مکالمے اور ناقابلِ قبول سمجھوتوں اور نفسیاتی پسپائی کے درمیان فرق جانتی ہو۔ ایسی قیادت جو ماضی میں آزادی کی کئی تحریکوں کی بنیاد بننے والے صوفی ازم کے نام پر خاموشی اور بزدلی کا پرچار نہ کرے۔ اور اللہ کا شکر ہے کہ آج جب میں اپنے آس پاس نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے اپنا یہ خواب تعبیر میں ڈھلتا نظر آتا ہے۔
میں جانتا ہوں کہ میں جس موقف کا اظہار کر رہا ہوں، اس پر نہ صرف کڑی تنقید کی جائے گی بلکہ کئی تنظیمیں آئندہ مجھے اپنے اجتماعات کی دعوت دینے سے گریز کریں گی۔ لیکن یہ میرے لیے کوئی نئی بات نہیں کیوں کہ ایک طویل عرصے تک میری ذات، میری تربیت اور میری ساکھ کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ میرے پاس اتنا وقت نہیں کہ میں ان سطحی الزامات کا جواب دوں۔ مجھ پر الزامات لگانے والے وہ لوگ ہیں جو میرے اٹھائے گئے سوالوں اور میری تنقیدی فکر کا جواب دینے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ میں ان کے ان حربوں اور ہتھکنڈوں سے بخوبی واقف ہوں جن کا مقصد اصل موضوعات اور کرنے کے کاموں سے توجہ ہٹانا ہے۔ میں اس لیے بھی ان اجتماعات میں شریک نہیں ہونا چاہتا کیوں کہ میری وہاں موجودگی سے یہ تاثر جنم لے سکتا ہے کہ میں ان لوگوں کے طرزِ عمل کا حامی ہوں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ طرزِ عمل مغرب میں بسنے والے مسلمانوں کے متعلق میری سوچ سے مکمل طور پر متصادم ہے۔
میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ ہمیں اپنے آپ کو یہ کردار ادا کرنے کے لیے تیار کرنا ہوگا جس کے لیے قوتِ فیصلہ اور مضبوط شخصیت ضروری ہے۔ مسلمانوں کا ضمیر کبھی گوارا نہیں کرسکتا کہ وہ کسی ایسے جبرِ ناروا کو محض اس لیے قبول کرلیں کہ ان کے آس پاس بسنے والے لوگ بھی خاموشی سے تسلیم کرچکے ہوں۔عقل کے نام نہاد تقاضوں اور صوفیت کی من مانی تعبیر کے نام پر مسلمان کو حق گوئی سے باز نہیں رکھا جاسکتا۔
(مترجم:سیف اﷲ خان)
“Why I will not attend the ISNA (August 2014) and RIS (December 2014) conferences”. (“tariqramadan.com”. August 10, 2014)
Leave a Reply