
رچرڈ ایم ایٹون یونیورسٹی آف ایریزونا کے ذیلی شعبہ ’’سنٹر فار مڈل ایسٹ اسٹڈیز‘‘ میں سیاست کے پروفیسر ہیں۔ ان کا زیرِ نظر مقالہ یونیورسٹی آف ایریزونا سے ۲۵فروری ۲۰۰۳ء کو شائع کیا گیا۔
بش انتظامیہ مسلسل اس منتر کا اعادہ کرتی رہی ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں امن کا راستہ بغداد سے گزرتا ہے اس امن کی صورت کیا ہوگی اور بغداد کے راستے ہی کیوں ؟ آج کی بش انتظامیہ میں شامل اربابِ اختیار کا خیال تھا کہ بغداد پر قبضے اور صدام کا تختہ الٹنے سے متعدد فوائد حاصل ہوں گے۔
الف : ایسا ہونے سے علاقائی طاقت کے توازن کو اسرائیل اور امریکہ کے حق میں کر کے شام اور عراق کی قوتوں میںتوازن پیدا کر نا ممکن ہوگا جو اسرائیل کے بڑے اور واضح دشمن مانے جاتے ہیں۔
ب: ایک بڑی عرب ریاست کی شکستِ فاش کے بعد فلسطینیوں کے حوصلے پست ہوں گے اور انہیں شیرون (Sharon) کی سرپرستی میں قائم ہونے والی Bantustan نوآبادی کو نہ صرف تسلیم کرنا ہوگا بلکہ ممکن ہے کہ فلسطین سے بے دخلی کو بھی قبول کرنا پڑے۔
یہ تصورات خارجہ پالیسی کی ذمہ دار درج ذیل تنظیموں کے ہیں جو واشنگٹن میں قائم کیے گئے
۱۔ انسٹی ٹیوٹ فار ایڈوانسڈ اسٹراٹیجک اینڈ پولیٹیکل اسٹڈیز
۲۔ نئی امریکی صدی کے لیے منصوبہ
۳۔ پالیسی بورڈ برائے شعبہ دفاع
۱۔ انسٹی ٹیوٹ فار ایڈوانسڈ اسٹراٹیجک اینڈ پولیٹیکل اسٹڈیز
ان پالیسی ساز اداروں میں پہلے دو کا تعلق دائیں بازو کے مفکرین کے Think Tank سے ہے جو کلنٹن کی انتظامیہ میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ دوسرے اداروں میں امریکن انٹر پرائز انسٹی ٹیوٹ ، ہڈسن انسٹی ٹیوٹ ، انسٹی ٹیوٹ آف ڈیموکریسی اور دیگر ادارے شامل ہیں۔ یہ ادارے کلنٹن کے دور کو جغرافیائی سیاست (Geo Politics) کے انحطاط اور اخلاقی اقدار کے حوالے سے تاریک دور گردانتے ہیں۔ ان اداروں کے مفکرین اقتدار سے باہر بیٹھے حکومت (کے کاموں) سے نالاں ہو کر یہ منصوبے بناتے رہے کہ قابلِ نفرت کلنٹن اور ہیلری کے وائٹ ہائوس سے نکل جانے کے بعد حکومت کو کیا کچھ کرنا چاہئے۔
کلنٹن کے دور کے مفکرین میں سے اہم ترین بلکہ خاص طور پر بش کے قریبی گروہ میں سے رچرڈ پرل شامل ہے جو آج کل شعبہ دفاع کے پالیسی بورڈ کا چیئرمین بھی ہے۔
صدام کے بارے میں پرل کے خیالات کا سراغ ۱۹۹۶ء سے ملتا ہے جب پر ل اور پنٹاگان میں رمزفیلڈ کے نائب ڈگلس فیتھ نے اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتین یا ہو کے لیے حکمت عملی کی تجاویز کا سلسلہ مرتب کیا۔ یہ سلسلہ انسٹی ٹیوٹ فار ایڈوانسڈ اسٹراٹیجک اینڈ پولیٹیکل اسٹڈیزکے لیے مرتب کیا گیاتھا جس کے واشنگٹن اور یروشلم دونوں جگہ دفاتر قائم ہیں۔پرل اور فیتھ نے پہلا کام یہ کیا کہ اسرائیل کو اس امر پر اکسایا کہ وہ معاہدہ اوسلو سے روگردان ہو کر فلسطینیوں سے گولی کی زبان میںبات کرے۔ پھر انہوں نے اسرائیل کو اس پرقائل کیاکہ وہ عراق اور شام کو دشمن نمبر ایک قرار دے۔ اس کے علاوہ انہوں نے اسرائیل کو درج ذیل اقدامات کرنے کی ترغیب دی۔
الف: وہ اردن سے قربت بڑھائے تا کہ اسے شامی مداخلت سے محفوظ اور عراقی امدا دسے بے نیاز کیا جا سکے۔
ب: آخر الذکر اسرائیل کو یہ ترغیب دلائی گئی کہ وہ صدام حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے امریکہ سے مل کر کام کرے ، جسے اسرائیل کا ایک اہم تزویراتی مقصد (Strategic Objective) قرار دیا گیا۔ اس مقصد کے لیے جو منطق پیش کی گئی وہ کچھ یوں تھی: چونکہ شام کا مقصد یہ ہے کہ صدام حسین عراق کا حکمران تو رہے مگر اس کی حیثیت کمزور حکمران کی سی ہو۔ چنانچہ شام کے مقاصد کا توڑ یہ ہے کہ اب بغداد سے صدام کا اقتدار ختم کر کے وہاں ایک مقابلتاً طاقتور حکمران مسلط کیا جائے ( جو کم از کم شام کے کہے نسنے میں نہ ہو، جو امریکہ اور اسرائیل دونوں کے ساتھ دوستی کا دم بھرے اور ان کے علاقائی مفادات کا تحفظ کرے)
اب سوال یہ تھا کہ ایسا حکمران کو ن ہو؟ اس کے لیے یہ ضروری تھا کہ وہ ہاشمی شاہی خاندان سے ہو۔ جسے برطانوی استعمار نے ۱۹۱۸ء میں اردن اور عراق میں اقتدار دلوایا تھا۔ اردن میں تو وہ ہاشمی خاندان اب تک بر سر اقتدار ہے۔ مگر عرق میں اس خانوادے کا اقتدار ۱۹۵۸ء کے انقلاب کے نتیجے میں ختم ہو گیا تھا جب شاہ فیصل دوم کے قتل کے نتیجے میں سیکولر بعث پارٹی برسر اقتدار میں آ گئی تھی اور اب وہی اقتدار صدام حسین کے ہاتھ میں تھا۔گویا اس منصوبے کے نتیجے میں کوشش کی گئی کہ اس پرانے ہاشمی خاندان کی باقیا ت میں سے کسی کو چنا جائے تاکہ اس کا اردن کے ساتھ سابقہ تعلق بحال ہو سکے
ان سفارشات کی بنیاد دو نکا ت پر رکھی گئی۔ اول یہ کہ اسرائیل کے کندھے پر رکھ کر امریکی بندوق چلائی جائے اس کا مطلب یہ ہے کہ فیتھ اور پر ل صرف اسرائیلی مقاصد حاصل کرنے کے لیے یہ سب نہیں کر رہے یا یہ کہ اسرائیل کے لیے کام نہیں کر رہے ( بلکہ اس میں امریکہ کا بھی فائدہ ہے ) ورنہ اسے غداری بھی تصور کیا جا سکتاہے دراصل ایک سابق اسرائیلی محافط نے حال ہی میں خبردار کیا ہے کہ پر ل کا منصوبہ اسرائیل کے لیے ایک ایسا تزو یراتی ماحول پیدا کر سکتا ہے جو عام حالات میں ممکن العمل نہیں سمجھا جا سکتاہے۔
دوسرے لفظوں میں پرل اور فیتھ یہ تصور کر رہے تھے کہ ان کے خیالات ( اور ان کے نتیجے میں جنم لینے والے منصوبے ) خود اسرائیل کے حق میں ہوں گے۔ اتفاق سے یہ خیالات خود امریکہ کے اندورنی مقاصد سے بھی مطابقت رکھتے ہیں۔ خصوصاً پر ل ایک Quid Pro Quo کو چشم تصور سے دیکھ رہا تھا۔
الف : اول یہ کہ اسرائیل میزائلوں کے حفاظتی نظام Missile Defence System کے امریکی منصوبہ میں تعاون کر ے گا جس سے ان امریکی سیاست دانوں کی ہمدردی حاصل ہو سکے گی جو اسرائیل کے بارے میں کچھ خاص نہیں جانتے تاہم وہ ریتھیون (Raytheon) کی طرز کا ایسا نظام اپنے ملک میں قائم کرنے کے خواہش مندضرور تھے۔
ب: اس تعاون کے نتیجے میں اسرائیل کی خواہش یہ تھی کہ امریکی سیاست دان اسرئیل میں امریکی سفارت خانے کی یروشلم منتقلی کے حق میں رائے دیں۔ گویا یہ امریکی منصوبے تھے جنہیں امریکیوں نے اپنی دانست میں امریکہ کے حق میں مرتب کیا تھا۔ اس سلسلے میں دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اس وقت تک ان منصوبوں کی کہیں بھی پذیرائی نہیں ہو پائی تھی۔ یا د رہے کہ ۱۹۹۶ء میں صدر کلنٹن نے فلسطین اور اسرائیل کے درمیان براہِ راست گفت شنید کی حکمت عملی اپنائی تھی اور وہ پرل اور فیتھ کی طرف سے پیش کردہ پیچیدہ طریق کار کے حق میں نہ تھا۔
مگر یہ خیالات دم توڑنے کے بجائے ایک ایسے عمل انگیز واقعے کے منتظر رہے جس کے نتیجے میں انہیں عملی جامعہ پہنانے کا موقع مل جاتا۔
۲۔ نئی امریکی صدی کے لیے منصوبہ
۱۱ ستمبر کے واقع سے پہلے کی ایک اور دستاویز بھی عراق کی ممکنہ جنگ پر روشنی ڈالتی ہے۔ اس کا عنوان ہے۔ ’’امریکی دفاع کی تعمیر نو: لائحہ عمل، افواج اور وسائل برائے نئی صدی‘‘ یہ بیانِ حکمت عملی ۱۹۹۷ء میں قائم کیے گئے ادارے ’’منصوبہ برائے نئی امریکی صدی‘‘ کی طرف سے جاری کیا گیا تھا جس کے ارکان حسب ذیل تھے
٭ رچرڈ پر ل( چیئرمین ڈیفنس ڈیپارٹمنٹ بورڈ)
٭ ڈونلڈ رمزفیلڈ
٭ جیمز وولزے ( کلنٹن کے دور میں ڈائریکٹر سی آئی اے
٭ پال ولفو وٹز ( ڈپٹی سیکریٹری آف سٹیٹ)
٭ ڈین کوئیل (بش سینئر کے عہد میں نائب صدر)
٭ لوئس لبی (ڈک چینی کا چیف آف سٹاف)
٭ بل بینے (ریگن کا ایجوکیشن سیکریڑی اور ڈرگ زار)
٭ ایلیٹ ابرا مز (امریکی قومی سلامتی کونسل کاڈائریکٹر برائے مشر قِ وسطیٰ)
٭ نارمن پوڈ ہو ریٹز(مدیر تبصرہ جات)
٭ جیب بش(گورنر فلوریڈا)
٭ رچرڈ آرمیٹج
٭ ولیم کرسٹل
٭ بروس جیکسن (چیئرمین)
جیکسن اسلحہ بنانے والے ادارے ’’لاک ہیڈ مارٹن‘‘ کا نائب اور ری پبلکن پارٹی کی خارجہ پالیسی کے پلیٹ فارم کا سربراہ بھی ہے۔ یہ جیکسن ہی تھا جس نے ۲۰۰۰ء میں صدام حسین کا تختہ الٹنے کے ری پبلکن پارٹی کے منصوبے کے ایک حصے کو تصنیف کیا تھا۔ یہ ۲۰۰۰ء کے آخری نصف کی بات ہے یعنی بش جونئیر کے برسر اقتدار آنے سے ذرا پہلے جب ’’نئی امریکی صدی‘‘ کے منصوبہ کی رپورٹ بعنوان ’’امریکی دفاع کی تعمیر نو‘‘ کو باقاعدہ شائع کیا گیا۔
یہ ایک انتہائی اہم اور غیرمعمولی دستاویز ہے اس میں یہ دلیل درست قرار دی گئی ہے کہ سابق صدر بل کلنٹن کے عہد میں امریکہ کی حیثیت ایک دوسرے درجے کی طاقت کی ہوکر رہ گئی ہے چنانچہ ملک کے دفاع کی تعمیر نو کے حوالے سے حسب ذیل تجاویز پیش کی گئیں۔
٭عراق کو صدام حسین کا تحتہ الٹنے کے بہانے سے نشانہ بنایا جائے۔
٭اسی ضمن میں عراق کے علاوہ شمالی کوریا ، لیبیا ، شام اور ایران کو بھی( کسی نہ کسی شکل میں ) نشانے پر رکھا جائے۔
٭خلیج کے خطے میں اقوام متحدہ کے نام نہاد امن منصوبوں پر اپنا تسلط قائم کیا جائے۔
٭اسلحے پر ۴۸ بلین ارب ڈالر تک خرچ بڑھا دیا جائے۔
٭بنکر تباہ کرنے والے ایٹمی ہتھیار بنائے جائیں۔
٭سٹار وار کے سلسلے میں شروع کیے گئے منصوبے پر پیش رفت کرتے ہوئے خلا میں عسکریت اور امریکی برتری کے حصول کی نیت سے کچھ مزید اہم اہداف حاصل کیے جائیں۔
٭سائبر کی حدود اوراس سے باہر کی خلا پر مکمل غلبہ حاصل کیا جائے اور
٭حیاتیاتی جنگ کے بعض نئے پہلوئوں کے ارتقاء کو ممکن بنایا جائے۔
اس رپورٹ کے تخلیق کاروں کا خیال تھا کہ ان اقدامات کے بعدا مریکہ کی بالادستی پوری دنیا میں مسلم ہو جائے گی اور اس کا مقابلہ کرنے کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکے گا۔
اگر ایڈ لف ہٹلر کے اس منصوبے کی مثال کو مد نظر رکھا جائے جو اس نے Third reichکے عنوان سے مرتب کر کے اسے ہزار سالہ منصوبہ قرار دیا تھا، تو اس طرح ان حضرات کا یہ صد سالہ منصوبہ کوئی زیادہ حیران کن بات نہیں تاہم ٹام جیفرسن کو کافی حد تک یہ حیران کن ہی نظر آیا ہو گا۔
اس رپورٹ کا اہم ترین حصہ وہ بیان ہے جس کے مطابق امریکہ کو اس منصوبہ پر عمل پیرا ہونے کے لیے پر ل ہار بر جیسے تباہ کن اور عمل انگیز واقعے کی ضرورت ہے تا کہ وہ اپنے اقدامات کو حق بجانب ثابت کر سکے اور اس رپورٹ کے شائع ہونے کے عین مطابق ایک سال بعد گیارہ ستمبر کا واقعہ ہو گیا جسے ذرئع ابلاغ نے واقعی پرل ہار بر سے تشبیہ دی۔
یہ کہنا درست ہے اور نہ مناسب کہ بش انتظامیہ نے گیارہ ستمبر کے خوف ناک سانحے کو ایک مفید تبدیلی کے طور پر لیا ہے۔ البتہ اس سانحے کے نتیجے میں عوام کے دلوں پر جوزبردست خوف طاری ہوگیا تھا اسے حکومت نے بڑی چابک دستی سے اپنے ان منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے عوام کی رائے کو اپنے حق میں کرنے کے لیے استعمال کیا تاکہ وہ دنیا پر اپنی ہیبت طاری کر نے اور مشرقِ وسطیٰ کا منظر نامہ اپنی پسند کے مطابق تبدیل کر سکے۔ مثلاً
الف: اس واقعے کے پانچ گھنٹے بعد ہی سیکریٹری دفاع ڈونلڈ رمز فیلڈ نے اپنے اسسٹنٹ کو حکم دے دیا تھا کہ وہ عراق پر حملے کا منصوبہ پیش کرے۔
ب: اسی طرح صدر بش کی سیکیورٹی ایڈوائزر (اس وقت) کونڈولیزارائس نے اپنے سینئر افسران کو بلا کر کہا کہ ’’وہ اس موقعے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے اپنی تجاویز پیش کریں۔‘‘
’’موقعے سے فائدہ اٹھانے‘‘ کا منصوبہ صرف کونڈولیزارائس ہی کے ذہن کی پیداوار نہ تھا بلکہ اس سانحے کے اگلے ہی روز یعنی ۱۲ ستمبر کو ۴ بجے شام رمز فیلڈ نے شد و مد سے عراق پر حملے کا منصوبہ پیش کرتے ہوئے عراق کو امریکہ کا دشمن نمبر ایک قرار دیا مگر سیکریڑی خارجہ کولن پاول نے اسے یہ کہہ کر سختی سے رد کر دیاکہ سب سے پہلے افغانستان چونکہ وہاں گھسنا مقابلتاًآسان ہوگا۔ یہ امر قابل غور ہے کہ افغانستان کو پہلے نشانہ بنانے کا فیصلہ کسی منطق ، اصول یا منطقی لائحہ عمل کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ محض آسانی کو ملحوظ رکھا گیا تھا۔ تاہم عراق پر حملے کے پہلے سے طے شدہ منصوبے کو ترک نہیں کیا گیابلکہ اس کے برعکس چند روز بعد ہی اس پر عمل درآمد کے اقدامات کا آغاز ہو چکا تھا۔
۳۔ شعبۂ دفاع کا پالیسی بورڈ
گیارہ ستمبر کے واقعے کے صرف ایک ہفتے بعد یعنی ۱۹ اور ۲۰ ستمبر کو دفاعی حکمتِ عملی بورڈ کا اجلاس دو دن مسلسل ہوا جو مجموعی طور پر ۱۹ گھنٹے جاری رہا۔ اس کی صدارت رچرڈ پرل نے کی اور کل اٹھارہ ارکان نے اس میں شرکت کی جن میں درج ذیل افراد بھی شامل تھے۔
رچرڈ پرل (بش سینئر کے دورِ حکومت میں اسسٹنٹ ڈیفنس سیکریٹری چیئرمین)
ہنری کسنجر (سابق سیکریٹری آف سٹیٹ و نیشنل سیکیورٹی کونسل ایڈوائزر)
پال وولف وٹز ( موجودہ ڈپٹی سیکریڑی آف سٹیٹ)
جم وولزے (کلنٹن عہد میں سی آئی اے ڈائریکٹر)
ہیر لڈبرائون (کارٹر عہد میں سیکریٹری ڈیفنس)
ڈیوڈجیریمیا (سابق ڈپٹی چیئرمین جوائنٹ سٹاف)
نیوٹ گنگرچ (سابق سپیکر آف دی ہائوس)
جیمز سلیز نجر (سابق سیکریڑی دفاع)
بورڈ نے فیصلہ کیا کہ افغانستان پر قبضہ کرنے کے فوراً بعد عراق پر چڑھائی کر دی جائے۔ اسی اجلاس میں نیوٹ گنگرچ نے صاف کہا:
’’اگر ہم نے افغانستان پر قبضے کے فوراً بعد عراق پر قبضے کا سنہری موقع گنوا دیا تو گویا ہم اپنی تباہی کو آواز دیں گے‘‘۔
اس منصوبے کے تین اجزاء تھے۔
٭امریکی افواج جنوبی عراق پر قبضہ کر کے بصرہ کے تیل کے میدانوں/ کنوئوں کو اپنے اختیار میں لے لیں۔
٭ اس تیل کو بیچ کر اس سے حاصل ہونے والی رقم سے صدام کے خلاف تحریک چلائی جائے اور اس میں جنوب کے شیعہ اور کردوں کو استعمال کیا جائے۔
٭لندن میں جلا وطن ’’عراقی نیشنل کانگریس‘‘ کے صدر احمد جلابی کو عراق کا صد ر بنا یا جائے۔
٭اسی اجلاس کے نتیجے میں ایک رکن (جیمز وولزے ) کو درج ذیل دو مقاصد کے حصول کے لیے یورپ بھیجا گیا۔
٭عراق کے اندر باغی قوت کی تشکیل کے لیے احمد جلابی سے مشاورت کی جائے۔
٭ایسی معلومات اکھٹی کی جائیں جن سے صدام کا تعلق گیارہ ستمبر کے واقعے اور اسامہ بن لادن سے جوڑا جا سکے۔
آپ نے دیکھا کی عراق پر حملے کا فیصلہ ہو جانے کے بعد صدام حسین کے القاعدہ سے تعلقات کا سراغ لگانے کی کوشش کی گئی۔ اسی کو کہتے ہیں ’’الٹے بانس بریلی‘‘ کو اس کو کافی خیال نہ کیاگیا بلکہ حکمت عملی بورڈ نے یہ بھی طے کیا کہ اگر شام اور ایران ،لبنان میں حزب اللہ کی مدد سے دست کش نہیں ہوتے تو دہشت گردوں کی ان سرپرست ریاستوں کو بھی سبق سکھا دیا جائے گا۔ یعنی بش کے ’’محورِ شر‘‘ یا ’’نشانہ اول‘‘ کے تصور کی بنیا د پہلے ہی رکھی جا چکی تھی۔
۴۔پرل کا تشکیل شدہ نقشہ مشرق وسطیٰ
یہ سب کچھ ستمبر ۲۰۰۱ء میں کیا گیا اور اس کے ایک سال بعد ہی یعنی ستمبر ۲۰۰۲ میں پرل نے پینٹا گون کے سامنے وہ نقشہ رکھاجس میں مشرق وسطیٰ میںما بعد صدام امریکی حکمت عملی کے مقاصد کی تکمیل کا تصور نمایاں کیا گیا تھا۔ یہ غیر معمولی نقشہ اسی تصویر پر مبنی تھا جسے پرل اور فیتھ پہلے ہی ۱۹۹۶ء میں اسرائیلی حکومت کی خدمت میں پیش کر چکے تھے۔ اس نقشے میں کچھ ایسا دکھایا گیا تھا۔
الف : فلسطین کا بچا کچھا حصہ یعنی غزہ اور مغربی کنارہ بھی اسرائیل میں ضم ہو جائے گا۔
ب: وہ علاقہ جو آج کل اردن کہلاتا ہے۔ فلسطین قرار دے دیا جائے گا۔
ج: عرق کو اردن کے ساتھ ماضی کے خونی رشتے کی بدولت جوڑ کر ہاشمی سلطنت بنا دیاجائے گا۔ یہ تصور اکیلے پرل ہی کا نہیں تھا، بلکہ:
ڈونلڈ رمزفیلڈ نے مغربی کنارے او رغزہ کے علاقوں میں یہودی آبادکاریوں کو اسرائیل کی عسکری فتح کے نتیجے میں حاصل ہونے والا قانونی مال غنیمت قررا دیا اور پچھلے سال سے تو اس نے ان علاقوں کو نام نہاد مقبوضہ علاقے کہنا شروع کر دیاہے۔ گویا نظریاتی طور پر یہ علاقے پہلے سے اسرائیل کا اٹوٹ انگ ہیں (اور محض دنیا نے انہیں مقبوضہ کہنا شروع کر دیا ہے۔)
ڈک آرمی نے (جو ہائوس میں اکثریتی پارٹی لیڈر ہے) دریائے اردن کے پار تک فلسطینیوں کی اس نسل کشی کی حمایت کی ہے جسے اسرائیل ’’منتقلی‘‘ کہتے ہیں۔
ایلیٹ ابرامز، جو امریکی قومی سلامتی کونسل میں ڈائر یکٹر برائے مشرق وسطیٰ ہے، فلسطینیوں کے ساتھ کی گئیء کسی بھی امریکی ثالثی کی مخالفت کرتاہے اور کچھ اس طرح اسرائیل کی وکالت کرتا ہے ’’کہ ہمیں اپنے د وستوں یعنی اسرائیلیوں کی بے باکانہ امداد کرنی چاہیے‘‘۔ اس نے اس سے پہلے ۲۰۰۰ء میں بھی لکھا تھا کہ۔
’’یہ ایک عام حقیقت ہے کہ عراق اور ایران کے قبضے میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار اسرائیل کے لیے عظیم خطرہ ہیںاور اس خطرے کا اس سے بہتر تدارک ممکن نہیں کہ امریکہ اس کو میزائلوں کے خلاف ڈھال مہیا کرے اور عراق سے صدام کے اقتدار کا خاتمہ کردے۔‘‘
پرل اور فیتھ کے بیانات کی طرح یہ بیان بھی اگرچہ بش جونیئر کے برسرِ اقتدار آنے سے پہلے دیا گیا تھالیکن گیارہ ستمبر کے واقعے کے نتیجے میں (عام امریکیوں کے دلوں میں) پیدا ہونے والا خوف ہی ان منصوبوں پر عمل درآمد ممکن بنا سکا۔
ماحاصل ِبیان، یہ صرف( اسرائیل میں سوچے جانے والے)حقیقی اسرائیل مفادات ہی نہیں بلکہ وہ مفادات(بھی )ہیں جن کا ادراک Beltwayمیں موجود با اختیار پالیسی ساز بھی کرتے ہیں۔ لیکن عام طور یہ سب کچھ عوام سے چھپایا جاتاہے۔
مثال کے طور پر غور کیجیے کہ واشنگٹن اور نیو یارک پر حملوں کے ایک ہی ماہ بعد امریکہ کے ایک معروف ٹی وی چینل نے اپنے مقبول ترین شو بعنوانWest Wig میں کس طرح دہشت گردی کے مسئلے کی تصویر کشی کی۔ اس کی ایک قسط بعنوان ’’اسحق اور اسماعیل‘‘ میں یہ منظر دکھایا گیا کہ ہائی اسکول کے طلبہ مطالعاتی دورے کے طور پر وائٹ ہائوس دیکھنے جاتے ہیں جہاں انہیں غیر اعلانیہ ہنگامی حالات کے باعث ایک جگہ بند رہنا پڑتا ہے جس کے دوران وائٹ ہائوس کا ایک اہلکار وضاحت کرتاہے کہ گیارہ ستمبر کا واقعہ کن وجوہات کی بنا پر وقوع پذیر ہوا۔
درحقیقت یہ شو گیارہ ستمبر کے حملے کی دو توضیحات پیش کرتاہے۔ پہلی وضاحت میں بچوںکو بتایا گیا کہ عرب مسلمان امریکی خارجہ پالیسی کے تین پہلوئوں کی مخالفت کرتے ہیں۔
٭ سعودی عرب میں امریکی افواج کی موجودگی۔
٭ عراق کے خلاف پابندیوں کی امریکی حمایت۔
٭ ریاست مصر کی بلا جھجک امریکی حمایت۔
مصر کو اسرائیل کی جگہ کیوں دی گئی؟ (غور کرنے سے)یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس ٹی وی شو کی مالی معاونت کرنے والی کمپنیاں جنرل موٹرز، کیمبل سوپ، ویری زون اور انفینٹی اپنے گاہکوں(کی بڑی تعداد) کو ناراض نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ اس کے علاوہ وہ امریکی حکومت کے اسرائیل سے ’’ناجائز تعلق‘‘ کی تشہیر کر کے خود امریکہ کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے۔ مگر ویسٹ ونگ شو نے گیارہ ستمبر کے واقعے کی ایک اور زیادہ دلچسپ توضیح بھی کی ہے۔ ہائی اسکول کے بچوں میں گھر ے وہائٹ ہائوس کے اہلکار نے بائبل جس میں حضرت ابراہیمؑ کے دو بیٹوں حضرت اسحاقؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کے درمیان جھگڑے کا ذکر کیاہے۔ پھر افسر موصوف نے دو بھائیوں کے درمیان بائبل میں بیان کیے گئے اس جھگڑے کو نہ صرف عربوں اور یہودیوں کے درمیان دورِ حاضر کے جھگڑے سے ملا دیا بلکہ اس کو پھیلا کر تہذیب یہود و نصاریٰ اور تہذیب اسلامی کے مابین ہونے والا جھگڑا بنا دیا۔ اس طرح کی دوہری مخالفت ان گھسے پٹے خیالات و نظریات کو مزید تقویت اور ہوا دیتی ہے۔ جو اسلام اور مسلمانوں کی شکل بگاڑ کر پیش کرنے کے لیے پھیلائے جارہے ہیں۔
حال ہی میں (۲۵ فروری ۲۰۰۶ء کو) این بی سی نیوز نے فلوریڈا کے شہر جیکسن ول کے راسخ العقیدہ عیسائی مسلک کے گرجا گھر وں کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کی جس میں ایک عیسائی پادری نے مذمت کرتے ہوئے۔(نعوذ باللہ )حضرت محمد ﷺ کو ایک قاتل اور شیطانی وبا کہا، اور یہ کہ اسلام بنیادی طور پر نفرت کا دین ہے۔(معاذ اللہ)۔
مگر ویسٹ ونگ شو اس سب کچھ کے علاوہ بھی بہت کچھ کرتاہے۔ تاریخی حوالوں سے حضرت اسحقؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کے درمیان مناقشت جو در حقیقت بائبل کے طومارکے نیچے کہیں دفن ہے کا ذکر کر کے دراصل بیان کرنے والا عرب اور اسرائیل کے دور حاضر کے جھگڑے کو وقت کی قید سے ماوراقرار دے کر اسے ناقابلِ مداخلت اور ناقابلِ حل ثابت کرنا چاہتا ہے۔ اس طرح کی تصویر کشی یہ بھی باآسانی ثابت کرتی نظر آتی ہے کہ مشرق وسطیٰ کے حالات و واقعات سے امریکی حکمت عملیوں یا اقدامات کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ چال بھی بش کے اس رویے سے متماثل ہے جس کے ذریعے اس نے گیارہ ستمبر کے معاملے کو زیادہ سے زیادہ پر اسرار بنانے کی کوشش کی ہے اور اسے برائی کے پتلے کی کاربتانی قرار دیا ہے اس نے جان بوجھ کر ایسی کوشش کی ہے کہ دنیا بھر کے عوام بالعموم اور امریکی عوام بالخصوص اس واقعے کو تاریخ کے تناظر میں دیکھنے کا موقع حاصل نہ کر سکیں۔
آخر بش کو اس واقعے کو پر اسرار بنا کر پیش کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی ؟ تا کہ ہم اس واقعے کی اصل وجوہ کے بارے میں کبھی بات نہ کریں بلکہ اسے ایک محفوظ ڈبے میں احتیاط کے ساتھ دفن کردیں اور اس کا ڈھکنا ہمیشہ کے لیے بند رکھیں۔
اور یوں جب ذرائع ابلاغ کے توسط سے عوام کو تاریخی دیو مالائی گتھیوں میں الجھا لیا جاتا ہے تو حکومت عالمی اقتدار حاصل کرنے اور علاقائی (خصوصاً مشرق وسطیٰ کی جغرافیائی) تشکیل نو کے لیے اپنے منصوبوں پر کار بند ہو جاتی ہے۔ حالانکہ ان دونوں امریکی مقاصد کے گیارہ ستمبر سے قبل واضح تاریخی ثبوت ملتے ہیں۔
جہاں امریکہ کی آئندہ فتوحات اور عراق پر قبضے کے لائحہ عمل کے اہداف میں عالمگیر سلطنت اور اسرائیل کے ساتھ مل کر اساسی بنیادں پر دوبارہ تشکیل دیے گئے مشرق وسطیٰ پر غلبہ شامل ہے، وہیں یہ سب کچھ حاصل کرنے کے بہت بڑے معاشی فوائد بھی ہیں بلکہ اس پر صدر آئزن ہاور کا وہ تصور فٹ آتا ہے جس میں اس نے امریکہ کو ایک عسکری صنعت کے کمپلیکس کی حیثیت سے دیکھنا چاہا تھا۔ درج ذیل صنعتی اداروں کا جائزہ قابل غور ہے۔
۱۔ہیلی برٹن
۱۹۹۵ء میں ڈک چینی ہیلی برٹن کا چیف ایگزیکٹو افسر بنا۔ یہ ڈلاس کے علاقے میں موجود ایک تیل کا ادارہ ہے۔ ڈک چینی کی سربراہی میں ہیلی برٹن نے صدام حسین کے ساتھ ۷ کروڑ ۳۰ لاکھ ڈالر کا کاروبار کیامگر جس مہینے وہ چیف ایگزیکٹو بنا ہیلی برٹن نے اعلانیہ امریکی حکومت سے ایک کاروباری معاہدہ کیا جس کے مطابق عراق میں جنگ چھڑ جائے تو عراقی تیل کے کنوئوں میں لگنے والی آگ کو بجھانے اور انہیں دوبارہ قابل استعمال بنانے کا ٹھیکہ ہیلی برٹن کی ذمہ داری ہوگی۔
۲۔براؤن اینڈ روٹ
اسی طرح ہیلی برٹن کی ایک ذیلی تعمیراتی کمپنی کی مثال بھی توجہ طلب ہے جو عراق میں جنگ کے بعد عراقی شہری ڈھانچے مثلاً سڑکوں اور پلوں کی تعمیر نو کے لیے حکومتی قرضوں میں سے ۹۰ کروڑ ڈالر کا حصہ پہلے ہی حاصل کر چکی ہے۔ برائون اینڈ روٹ ہی شعبہ دفاع سے بیرون ملک امریکی ہوائی اڈوں کی تعمیر کے لے ٹھیکے حاصل کرنے والی نمایاں کمپنی ہے۔ ایسے ہی ۱۲ اڈے اس وقت کو سوو میں موجود ہیں۔ اس لیے یہ بات قطعی قرین امکان ہے کہ جب عراق کے جلتے ہوئے ملبے سے دھواں چھٹے گا تو وہاں بھی برائوں اینڈو روٹ ہی امریکی اڈے تعمیر کرتی نظر آئے گی۔
۳۔کار لائل گروپ
حکومتِ امریکہ کی سرپرستی میں چلنے والے نجی کاروباری اداروں کی ایک اور مثال کارلائل گروپ ہے اس نجی عالمی سرمایہ کار ادارے کے پاس ۵ء۲ اارب ڈالر کا سرمایہ موجود ہے جو ٹیلی کمیونی کیشن اور دفاعی مصنوعات بنانے والی تقریباً ۱۶۴ کمپنیوں میں پھیلا ہوا۔ اس کے سینئر ڈائریکٹر ریگن اور بش کی انتظامیہ کے سابق ارکان ہیں۔ انہی میں خود بش سینئر اوراس کا سیکریٹری آف سٹیٹ جیمز بیکر بھی شامل ہے کار لائل گروپ کی ایک ملکیت ’’یونائیٹڈ ڈیفنس‘‘ بھی ہے جو درج ذیل دفاعی سامان تیار کرتی ہے۔:
٭بریڈ لے جنگی گاڑیاں
٭M113 آرمرڈ پرسانل کیریئر
٭M88 A2بحالی گاڑیاں (گرزلی)
٭M7 BFISTاور M-9 ACEآرمرڈگن سسٹم
٭کمانڈ اینڈ کنٹرول کے یے استعمال ہونے والی گاڑیاں(M-4)
٭پیلا ڈین نامی جنگی کمان گاڑی
٭برقی بندوق/ نبض کی حرکت سے چلنے والی اسلحے کی ٹیکنالوجی
٭صلیبی جنگی نظام (یہ نام اسے خاص مقصد سے دیا گیا)
پچھلے دس سالوں سے کار لائل گروپ کے بعض غیر ملکی تعمیراتی کمپنیوں کے ساتھ قریبی روابط رہے ہیں۔ انہی میں اسامہ بن لادن کے والد محمد بن لادن کی کمپنی بھی شامل ہے۔ یہ رابطے گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ء کے ایک ماہ بعد تک قائم رہے ہیں۔
ان تفصیلات سے امریکی حکومت اور اس کے ملک کے صنعتی اور کاروباری اداروں کے باہم گہرے روابط کا ثبوت ملتا ہے۔ عسکری وصنعتی نقطہ نظر سے آنے والی عراقی جنگ (جواب بظاہر ختم ہو کر خانہ جنگی میں بدل چکی ہے) سے منسلک کیے گئے امکانات میں سے اکثر کا شرمندہ تعبیر ہونا ممکن نظر آتا ہے دلچسپ لطیفہ ( جو اس ساری صورت حال سے ابھرتا ہے) یہ ہے کہ کارلائل گروپ کی اسلحہ ساز کمپنیوں کے ذریعے عراقی انفراسٹر کچر تباہ کر دیا جائے گا اور پھر اسی گروپ کی تعمیراتی کمپنیاں اس ڈھانچے کی تعمیر نوکریں گی اور اسی دوران اس سرزمین پر امریکی ہوائی اڈے بھی تعمیر ہو رہے ہوں گے اور موجودہ صدر کے والد محترم کا گروپ یہ تمام فوائد حاصل کر رہا ہوگا۔
یہی وجہ ہے کہ امریکی حکومت یہ بات واضح نہیں کرتی کہ صدام کا تختہ الٹنے اور ٹامی فرینکس کو عسکری حاکم بنانے کے بعد امریکہ کتنا عرصہ بغداد میں رہے گا۔ یہ سلطنت، جسے ’’منصوبہ برائے نئی امریکی صدی‘‘ میں PAX AMERICAN کہا گیا ہے، غیر متعین مدت بلکہ شاید مستقل قائم رہنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
(بشکریہ: مجلہ ’’مغرب اور اسلام‘‘ اسلام آباد۔ شمارہ: جنوری ،دسمبر ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply