
فلسطین اور لبنان خون میں نہارہا ہے۔ دنیا تماشا دیکھ رہی ہے اور امریکا‘ ایران و شام کے خلا ف اپنی شمشیر تیز کررہا ہے ان پر الزام عائد کرتے ہوئے کہ یہ حزب اللہ اور حماس کو ترغیب دے رہے ہیں کہ وہ اسرائیل کی سرحدوں میں گھس کر اس کے خلاف دہشت گردانہ کارروائی انجام دیں۔حتیٰ کہ ایک بے جان سی قرارداد جو قطر کی جانب سے تجویز کی گئی تھی جس میں جنگ بندی اور اسرائیل کے مغویہ فوجیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا تھاکو بھی امریکا نے حقارت کے ساتھ ٹھکرادیا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزارائس اور اقوام متحدہ میں نمائندگی پر مامور امریکی سفیر جان بولٹن نے جنگ بندی کی شدید مخالفت کی ہے ‘جبکہ لبنان کے معصوم شہری موت اور تباہی کی زبردست لپیٹ میں ہیں۔ یہ بھی ایک قابل افسوس بات ہے کہ بیروت حکومت کنارے کھڑے ہونے کو ترجیح دے رہی ہے اور اسرائیل کی ننگی جارحیت کے خلاف ملک کا دفاع نہیں کررہی ہے اور اس نے حزب اللہ کو چھوڑ دیا ہے کہ وہ اسرائیل کی وسیع ترظالمانہ جارحیت کا مقابلہ تن تنہا کرے اور حزب اللہ پورے عزم کے ساتھ ایسا ہی کررہی ہے۔ اس سانحے کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اہم ترین عرب ممالک مثلاً سعودی عرب‘ مصر ‘اُردن اور کویت امریکا کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش میں ایک عجیب و غریب رویے کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیل کی مسلط کردہ تباہی کے لیے خود حزب اللہ کو مورد الزام ٹھہرانے لگے۔ اس حد تک کہ ایک سعودی مفتی نے فتویٰ جاری کردیاکہ حزب اللہ ایک دہشت گرد تنظیم ہے اور مسلمانوں کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگرچہ ان ممالک نے اس انداز میں حماس پر ابھی تک الزام عائد نہیں کیا ہے ‘تاہم ان ممالک نے حماس کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے اور روڈ میپ کو قبول نہ کرنے کی پالیسی کی حمایت میں واضح طور سے سرد مہری کا مظاہرہ کیا۔ کوئی بھی یہ محسوس کرسکتا ہے کہ اسرائیلی جارحیت امریکا کی مجموعی فوجی حکمت عملی کا حصہ ہے جس کا مقصد مشرقِ وسطیٰ میں امریکی سیاسی ایجنڈے کی تکمیل ہے۔ یہ جارحیت واشنگٹن کے اشارے پر ہی شروع کی گئی ہے Weekly Standard کے مدیر William Kristol کے بقول ’’لبنان میں جنگ امریکا کی بھی جنگ ہے او ریہ بہترین موقع ہے کہ ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا جائے اور ایران و شام میں حکومت کی تبدیلی عمل میں لائی جائے۔‘‘ امریکا طویل عرصے سے اس موقع کے انتظار میں ہے کہ ایران اور شام پر جارحیت کرتے ہوئے وہ حماس اور حزب اللہ کو بھی تباہ کردے‘‘ ۱۰ اپریل کے ’’اکانومسٹ‘‘ نے Mr.Pat Robertson جو ایک دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ایوانجیلیکل عیسائی ہیں کی تقریر کو نمایاں کیا ہے جس میں اُس نے ایک فلسطینی ریاست کے قیام کی منطق کی مذمت کی ہے اور اسرائیل کی فوجی طاقت کو خدائی معجزے سے تعبیر کرتے ہوئے اسے سرزمین برائے امن کے کسی اصول کے آگے سرنگوں ہونے سے منع کیا ہے۔ ۲۴ جولائی کے نیوز ویک نے اس جارحیت میں امریکا کے گھنائونے کردار کا انکشاف کیا ہے۔ نیوز ویک کا کہنا ہے کہ صدر بش جب ایک ایئر فورس کے جہاز پر سوار تھے تو انہوں نے اپنے عرب حلیفوں یعنی مصر اور اردن کو مختلف کالیں کیں جن میں انہوں نے اسرائیلی سرحد پر حزب اللہ کی چھاپہ مار کارروائی کو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی بتایا۔ صدر بش اپنے حلیفوں کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ انہوں نے اسرائیل کو ایسے کسی اقدام سے نہ منع کیا ہے جس کی بناء پر لبنان کی حکومت منہدم ہوجائے۔ اس کے بعد انہوں نے عرب ممالک کو تاکید کی کہ قاہرہ میں ہونے والی عرب لیگ کی ہنگامی کانفرنس میں حزب اللہ پر دبائو ڈالیں۔ صدر بش نے نیوز ویک کے ساتھ ایک انٹرویو میں اس امر کی نشاندہی میں کسی جھجک سے کام نہیں لیا کہ انہوں نے کس طرح عرب ممالک کو حکم صادر فرمایا ’’ہمیں یہ بات یقینی طور سے ذہن میں رکھنی چاہیے کہ یہ میٹنگ اسرائیل کی عمومی مذمت کی خاطر نہ ہو اس لیے کہ اگر صورتحال یہی رہی تو یہ اصل مجرموں یعنی حزب اللہ اور حماس کی پردہ پوشی کا سبب ہوگی۔‘‘ پھر خوشی سے انہوں نے اس بات کا ذکر کیا کہ ان کے عرب دوستوں نے انہیں اپنی حمایت کا یقین دلایا۔ سعودیوں نے ایسا بیان جاری کیا جس میں اسرائیلی جارحیت کا الزام درپردہ حزب اللہ پر عائد کیا گیا تھا۔ بیان میں کہا گیا تھاکہ ’’جائز مزاحمت اور غیر ذمہ دارانہ مہم جوئی میں فرق کیا جانا چاہیے۔‘‘ مصری صدر حسنی مبارک اور اُردن کے شاہ عبداللہ نے قاہرہ میں اپنے ایک مشترکہ بیان میں ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا۔ امریکی حکمت عملی کا دوسرا حصہ یہ تھا کہ وہ حزب اللہ کو قریبی اتحاد سے روکے تاکہ وہ فرقہ وارانہ اختلافات کو عبور کرتے ہوئے ایک مشترکہ محاذ کھولنے میں کامیاب نہ ہونے پائے۔ ۲۰ جولائی کو امریکی ایوانِ نمائندگی میں ۱۰۴ ووٹ اسرائیل کے حق میں صرف ۸ ووٹ اس حق میں نہیں تھے کہ مشرقِ وسطیٰ کی جنگ میں اسرائیل کا ساتھ دیا جائے۔ ایوان نے ایران اور شام پر تشدد کو ہوا دینے کا الزام لگایا اور صدر بش کو تاکید کی کہ وہ ان ممالک پر پابندی عائد کریں۔اس سے قبل ۱۸ جولائی کو سینیٹ نے ایک قرارداد منظور کی جس میں اسرائیل کے حقِ دفاع کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے اپنے خلاف جارحیت کو روکنے کے لیے اسے مناسب اقدام اٹھانے کا حق دیا گیا۔ چنانچہ اسرائیل امریکا سے حوصلہ افزائی اور شہ پاکر اپنی کلہاڑی تیز کرنے لگا۔ اسرائیلی چیف آف اسٹاف جنرل Dan Halents جنگ کے لیے بے تاب تھا۔ اس کی اصل پریشانی اسرائیلی حربی صلاحت میں زوال کی وجہ سے تھی۔ بارالان یونیورسٹی کے Prof Gerald Steinburg کا خیال لبنان کے خلاف حملے کا منصوبہ کئی سالوں سے الماری میں تیار پڑا تھا کسی اشتعال انگیزی کے انتظار میں تاکہ منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا جواز مل سکے۔ اسرائیل کی عسکری اصطلاح میں امتناعی قوت کا مطلب بڑے پیمانے پر قتل عام کرنے اور تباہی پھیلانے کا حوصلہ ہے۔ غزہ اور مغربی کنارہ میں ربیوں کی کونسل تو پاگل ہوگئی ہے۔ اس نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ اور لبنان میں تمام شہریوں کو قتل کردے۔ مکہ میں قائم رابطہ عالم اسلامی نے اسے غیر انسانی قرار دیا۔ اب یہ بات بالکل واضح ہے کہ حزب اللہ کی جانب سے اسرائیلی فوجیوں کو اغواء کیے جانے کے سبب اسرائیلی جارحیت شروع نہیں ہوئی بلکہ اس بنا پر اسرائیل کو لبنان پر ایسے ظالمانہ اقدام کا بہانہ ہاتھ آیا۔ حزب اللہ کے اقدام سے انہیں وہ بہانہ مل گیا جس کے مدتوں سے وہ انتظار میں تھے تاکہ وہ امریکی اسرائیلی منصوبے کو عملی جامہ پہنا سکیں۔ اب سوال یہ ہے کہ حماس اور حزب اللہ نے کیوں اسرائیل کو یہ بہانہ فراہم کردیا؟ اس کا جواب اس حقیقت میں پوشیدہ ہے کہ حزب اللہ کو اس انتقامی کارروائی کی طرف مجبوراً رجوع کرنا پڑا تاکہ فلسطینی سرزمینوں اور حماس پر وہ اسرائیلی حملوں کی بوچھاڑ کی شدت کو کم کرسکے جو اسرائیلی جارحیت کے آگے جھکنے پر مجبور ہوتے اگر حزب اللہ کی یہ کارروائی نہ ہوتی اس لیے کہ جارحیت کے نتیجے میں غذا‘ پانی‘ بجلی اورپیٹرول کی فراہمی مکمل طور سے بند ہوگئی حماس کی انتظامیہ کے پاس کچھ بھی پیسے نہ تھے کہ وہ اپنے ملازمین کو تنخواہ دیتی۔ فلسطین سے تمام آمدورفت کی راہیں مسدود کردی گئی تھیں۔ عالمی برادری بے بس نظر آرہی تھی حتی کہ ایک کمزور سی قرارداد جسے قطر نے پیش کیا تھا اسے بھی امریکا نے ویٹو کردیا ۔ اس سلسلے میں سب سے اہم نکتہ جو پیش نظر رکھے جانے کے قابل ہے وہ یہ کہ فلسطین اور لبنان (شیبا فارم) دونوں ہی پر اسرائیل کا تسلط باقی ہے اور یہ کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی منظور شدہ بعض ایسی قراردادیں موجود ہیں جس کے تحت قابض حکومت کے تحت رہنے والے اس کے خلاف مسلح جدوجہد کرنے کے حقدار ہیں۔ حزب اللہ ایک جنگی تنظیم ہونے کے ناطے اس کی مستحق ہے۔ دشمن کے فوجیوں کو اغواء کرنا اس کی سرگرمیوں کے دائرے میں ہے۔ اس سے قبل کی جنگ میں جب اسرائیل حزب اللہ کے ہاتھوں شکست کھا کر جنوبی لبنان سے نکلا تھا تو دونوں کے مابین عالمی سطح کا ایک معاہدہ طے پایا تھا جس کی رو سے دونوں اس بات کے پابند ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے شہروں اور شہریوں پر حملہ آور نہیں ہوں گے چنانچہ حزب اللہ کے ذریعہ اسرائیل کے فوجیوں کا اغواء کیا جان اس معاہدے سے تجاوز نہیں ہے۔ اس کے شہری آبادی کو اسرائیل میں اس وقت نشانہ بنایاجب اسرائیل نے غیر مسلح لبنانی عوام پر بے دریغ بم برسانا شروع کردیا۔ جہاں تک حماس کے ذریعہ ایک اسرائیلی فوجی کو اغواء کیے جانے کی بات ہے تو یہ اس لیے جائز ہے کہ فلسطین ہنوز اسرائیل کے زیر قبضہ ہے اور مقبوضہ عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ قبضے کے خلاف مسلح جدوجہد کرے اس لیے یہ اقدام بھی جائز ہے۔ اس کے علاوہ حما س کی کارروائی اسرائیلی فوجیوں کے ذریعہ سے بچوں کے قتل کے بعد سامنے آئی تھی جبکہ یہ بچے غزہ کے ساحل سمندر پر پکنک منارہے تھے۔ لہٰذا حماس کی جوابی کارروائی قانونی و اخلاقی ہر دو اعتبا رسے جائز تھی۔ آپ اقوام متحدہ کی قرارداد جو ۹ دسمبر ۱۹۸۵ء کو پاس ہوئی تھی کو اقوام متحدہ کی اس قرارداد کے ساتھ پڑھیں جو ۱۶ دسمبر ۱۹۹۲ء کو پاس ہوئی تھی۔ یہ قرارداد غاصب حکومتوں کے خلاف مسلح جدوجہد کو جائز قرار دیتی ہے۔ اول الذکر قرارداد تمام ریاستوں کو تاکید کرتی ہے کہ وہ بین الاقوامی دہشت گردی کے پیچھے کار فرما اسباب کے خاتمے کی رفتہ رفتہ کوششیں کریں اور تمام صورتحال پر خصوصی توجہ دیں‘ بشمول بیرونی قبضے کے جو بین الاقوامی دہشت گردی کے فروغ کا باعث ہوسکتا ہے۔ موخرالذکر قرارداد جس کا تعلق حقِ خودارادیت سے ہے تمام ریاستوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ فوری طور سے فوجی مداخلت بند کردیں اور بیرونی ممالک و سرزمینوں پر اپنا قبضہ ختم کر دیں نیز اپنے تمام ظالمانہ اور امتیازی اقدامات خاص طور سے وہ سفاکانہ اور غیر انسانی طریقے جو متعلقہ لوگوں کے خلاف اقدامات کو موثر بنانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں‘ سے باز آجائیں۔ گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ۱۹ دسمبر ۲۰۰۳ء کو دوبارہ اس قرارداد کی ان الفاظ میں توثیق کی۔ تمام ممالک اس امر کو یقینی بنائیں کہ کوئی بھی اقدام جو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اٹھائے جاتے ہیں وہ بین الاقوامی قوانین کے دائرے میں عائد ہونے والے فرائض سے ہم آہنگ ہو اور یہ کہ یہ اقدامات حقوق انسانی پر اقوام متحدہ کی قراردادوں اور فیصلوں سے متصادم نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ اسرائیل‘ حزب اللہ و حماس کی نام نہاد دہشت گردی کا جواب اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں کی حد میں رہتے ہوئے دے سکتا تھا۔ لبنان اور فلسطین کے خلاف اس کی فضائیہ کی جانب سے وحشیانہ بمباری جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر معصوم شہریوں کا قتل عام ہوا ہے اور غیر فوجی انفرااسٹرکچر کی تباہی عمل میں آئی ہے دراصل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ صدر بش اسرائیل کی اس سفاکانہ اور بڑے پیمانے پر فوجی جارحیت کو حق بجانب قرار دے رہے ہیں اور اسے اسرائیل کا دفاعی حق بتارہے ہیں۔ امریکی کانگریس بھی جب اسرائیل کے حق میں قرارداد پاس کررہی تھی تو اس نے اسرائیل کی اس جارحیت کو اس کا دفاعی حق بتایا۔
اقوام متحدہ کے چارٹر کے دفعہ ۵۱ میں جس دفاعی حق کا ذکر ملتا ہے اور بین الاقوامی عدالت انصاف جو اس کی وضاحت کی ہے۔ موجودہ صورتحال پر اس کا اطلاق کسی طرح سے نہیں ہوتا ہے اور اس سے اپنے دوفوجیوں کے اغواء کے بدلے لبنان اسرائیلی جارحیت کا ہرگز جواز پیدا نہیں ہونا چاہیے۔ بین الاقوامی عدالت نے نکاراگوا کے معاملے میں (۱۹۹۶ء) یہ فیصلہ دیا تھا کہ ریاستیں اپنے دفاع کی خاطر کوئی فوجی کارروائی کا حق نہیں رکھتی تاآنکہ اُن پر ایسا حملہ نہ ہوا ہو جو مسلح جنگ کے زمرے میں نہیں آتا ہے۔ مسلح حملہ کے امتناع کا اطلاق اس ریاست پر ہوگا جس نے کسی دوسری ریاست میں مسلح گروہ روانہ کیا ہو۔ کسی کارروائی کو مسلح حملہ سے تعبیر اس وقت کیا جائے گا جب یہ ریگولر آرمی کی طرف سے ہو نہ کہ کوئی سرحدی حادثہ ہو۔ اس فیصلے کی رو سے حماس اور حزب اللہ کے ذریعہ اسرائیلی فوجیوں کا اغواء سرحدی حادثے کے زمرے میں آئے گا نہ کہ حملے کے زمرے میں جس کی وضاحت اقوام متحدہ کے چارٹر کی دفعہ ۵۱ میں کی گئی ہے۔ لبنان پر اسرائیل کے حملے کا جواز اقوامِ متحدہ کی قرارداد ۱۵۵۹ اور ۱۶۸۰ میں تلاش کیا جاتا ہے جن میں کہا گیا ہے کہ لبنانی حکومت اپنے دائرہ اختیار کو ایسے ملک کے ہر حصے تک وسعت دے گی اور یہ کہ حزب اللہ کو غیر مسلح کیا جائے گا۔ یہ جواز زیادہ قابل غور نہیں ہے اس لیے کہ حزب اللہ نے حالیہ لبنانی انتخاب میں حصہ لیا اور پارلیمنٹ کی ایک تہائی نشست اس کے حصے میں آئی اور کابینہ میں دو اہم وزارتیں بھی اس کے حصے میں آئیں۔ لہٰذا جنوبی لبنان میں اس کی موجودگی سیاسی عمل میں اس کی جڑیں مضبوط ہونے کے ساتھ ہے جو کہ کسی بھی طریقے سے لبنان کی خودمختاری کی نفی نہیں ہے۔ اس کے برعکس حزب اللہ نے اپنی فوق العادت کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیل کو لبنان سے بھگایا ہے اور یوں اس نے لبنان کی خودمختاری کو بحال اور مستحکم کیا ہے۔ کوئی بھی چیز لبنان کے مفاد میں اس سے زیادہ بری نہیں ہوگی کہ حزب اللہ کو غیر مسلح کردیا جائے۔ لبنانی فوج کی کسی مدد کے بغیر جارح کو مار بھگانے میں اس نے جو کردارادا کیا ہے اس کے پیش نظر یہی مناسب ہے کہ حزب اللہ کو جنگ کے لیے تیار رکھا جائے تاکہ وہ ملک کی ارضی سلامتی کا تحفظ اور دفاع کرسکے جبکہ اسرائیل فلسطین اور لبنان کے خلاف ننگی جارحیت کا مرتکب ہوتا رہا ہے چنانچہ لازم ہے کہ اُس کے ساتھ اس قسم کا سلوک کیا جائے۔ بہرحال یہ اپنے واٹرلو سے بنت جبیل میں دوچار ہوا جبکہ اس کے فوجیوں کو حزب اللہ نے نرغے میں لے لیا اور اس کی پیش رفت کو ناکام بنادیا۔
ان میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ حزب اللہ نے امریکی حمایت یافتہ اسرائیلی فوج کے خلاف اپنی بے نظیر شجاعت مندانہ مزاحمت کا اظہار کرتے ہوئے پوری مسلم دنیا کی رگوں میں برق دوڑادی ہے جس کی وجہ سے امت فرقہ وارانہ ‘ لسانی اور علاقائی تقسیم جو اس امت میں موجود ہے‘ سے اوپر اُٹھ گئی ہے اور اسلامی اتحاد اور اخوت کے ایک نئے دور کا آغاز ہوچکا ہے۔ جونانتھن اسٹیل ایک احتجاج کی ’’گارجین‘‘ میں روداد بیان کرتے ہوئے ایک عورت کی مثال پیش کرتا ہے جو ایک سال پہلے تک حزب اللہ کی شدید مخالف تھی اور شام کے خلاف مظاہروں میں حصہ لیا کرتی تھی اب دوسرے بہت سارے لوگوں کی طرح یہ حزب اللہ کی زبردست حامی ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘ کراچی۔ ۱۵ اگست ۲۰۰۶)
Leave a Reply