
کیا تیونس کی النہضہ جماعت ’اسلام ازم‘ کو ترک کر رہی ہے، جو اس کی نظریاتی پہچان اور بنیادی شناخت ہے؟
۲۰۱۲ء کے بعد ہونے والے پہلے تین روزہ جماعتی اجتماع میں ارکان نے اس سوال پر تند و تیز اور معرکتہ الآرا بحثیں کیں۔ ۱۹۷۰ء کی دہائی کے اواخر میں ایک اسلام پسند قومی سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آنے والی النہضہ کی تحریک اب دعوت اور سیاست کو علیحدہ کرنے پر گامزن ہے۔
یہ جماعت تین دہائیوں سے زائد عرصے تک ایک نظریے کی پیروی کرنے کے بعد اب اسے چھوڑ کر ایک نئے قسم کے شہری اسلام ازم کو اپنا رہی ہے۔ نظریاتی طور پر نئی النہضہ شہری ریاست کے نظریے کو قریب قریب اپنا چکی ہے۔ یہ ترکی کی حکمران جماعت ترقی و انصاف پارٹی کے ماڈل سے نزدیک جبکہ مصر کے اخوانی ماڈل سے دور ہو رہی ہے۔ اول الذکر جماعت کم سے کم نظریاتی سیاست کرتی ہے جبکہ موخر الذکر تاریخی طور پر سیاست کو اسلام زدہ کرنے کے عزائم بناتی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعتی اجتماع میں پارٹی کے صدر شیخ راشد الغنوشی اپنی گفتگو میں ایک نئے بیانیے کو اپنائے ہوئے تھے، جس میں منڈی، معاشی ترقی کی اہمیت اور نظریاتی سیاست، جو تیس سال سے زیادہ عرصے تک ان کی سوچ کا بنیادی حصہ تھی، چھوڑ دینے پر زور تھا۔
لیکن النہضہ آخر سیاسی اسلام کو چھوڑ کیوں رہی ہے؟
پہلی وجہ النہضہ کا ’گہری ریاست (deep state)‘ کے ساتھ معاملات معمول پر لانے کی کوشش ہے۔ ’گہری ریاست‘ کی اصطلاح سیاسی و فوجی اسٹیبلشمنٹ کے لیے گھڑی گئی ہے، جس پر تیونس کے آنجہانی صدر حبیب بورقیبہ کے بنائے ہوئے سیاسی نظام کے نقوش ابھی باقی ہیں اور جو اپنی نوعیت میں سیکولر ہیں۔
تیونس کا معاشرہ بھی انہی خطوط پر استوار ہے اور مخلوط رجحانات کا حامل ہے۔ یہاں اسلام کی حرمت کا قوی احساس موجود ہے مگر سیاست سمیت زندگی کے تمام مساوی پہلووں میں مشغولیت کا میلان بھی ہے۔
آخرکار اب النہضہ بہت تدبیر کے ساتھ خود کو معاشرے کے مطابق ڈھال رہی ہے اور اپنی شناخت کو تیونس کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔ النہضہ ایک بڑی سیاسی قوت ہے جس کی ۳۵ سے ۴۰ فیصد مستقل سیاسی حمایت ہے۔
النہضہ کے اس اقدام کا دوسرا محرک زیادہ پیشہ ورانہ انداز میں کام کرنے کی کوشش ہے۔ ایک نئی شناخت کے ساتھ جو مذہب کو سیاست سے علیحدہ رکھتی ہے، النہضہ نے مکمل طور پر ایک شہری سیاسی جماعت بننے میں حائل بڑی رکاوٹ کو دور کر لیا ہے۔
وہ تمام ترامیم جو مطلق اکثریت، ۸۰۰ سے زائد ووٹوں کے ساتھ اجلاسوں میں منظور ہو گئی ہیں، ثابت کرتی ہیں کہ کئی ماہ کی اندرونی بحثیں جماعت کے اندر اصلاح پسندوں کی کامیابی پر منتج ہوئی ہیں۔
ان ترامیم کے نتائج میں جماعت کی شوریٰ کونسل کا مزید بااختیار ہونا بھی شامل ہے، جس کے ۱۰۰؍ارکان براہِ راست اجلاسوں کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں اور باقی پچاس کو یہ ۱۰۰؍نمائندے یعنی شوریٰ منتخب کرتی ہے۔ سہ جماعتی حکومت میں النہضہ کی شراکت داری نے، جس نے ملک کو ۲۰۱۴ء کے اوائل میں جمہوری دستور دیا، خود النہضہ کو ایک قیمتی ’’تجربے‘‘ سے نوازا ہے جس کی روشنی میں وہ غور و فکر، اصلاح اور تبدیلی لاسکتی ہے۔
نظریے میں تبدیلی کا تیسرا سبب تقسیم کے راستے جمہوریت تک پہنچنے کی کوشش ہے۔ یہ کسی بھی سیاسی جماعت کی بلوغت کی نمایاں نشانی ہے۔
النہضہ کی تاریخ کا سب سے دلچسپ اور اپنی نوعیت کا پہلا مذاکرہ ۲۲ مئی کی صبح کو منعقد ہوا۔ تحریک کی پہلی اور دوسری نسل کی نمائندگی کرنے والے تین راہنما سامنے آئے اور جماعت کی اندرونی تنظیم، قیادت اور انتظام پر کھل کر اپنے مؤقف کا دفاع کیا۔
تیونس میں ۲۰۱۱ء کے انقلاب سے پہلے اس طرح کا مذاکرہ ناقابلِ تصور تھا۔ النہضہ کی اندرونی جمہوریت نے جماعت میں ایک قسم کی تقسیم کو جنم دیا ہے لیکن یہ بذاتِ خود کوئی بری شے نہیں۔ شاید اس کی وجہ نظریاتی اسباب ہیں۔
الثابت
جمہود (غیر متغیر) اور تبدیلی/حرکت (المتغیر) کی تقسیم اس تبدیلی کی ایک توجیہ ہوسکتی ہے۔ سیاست تبدیلی کے دائرے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہاں عوامی افادیت یا ’مقصدی فریم وَرک‘ کا سوال بھی موجود ہے۔
تیونس کے خاص حالات اور مطالبات نے اس اقدام کے لیے تحریک دی۔ مسلم دنیا میں مذہب سے وابستہ کردار خود کو داعش جیسوں سے مختلف دکھانا چاہتے ہیں۔ النہضہ کی بھی یہی مثال ہے، جس کا بیانیہ بھی ’اعتدال پسندوں‘ بمقابلہ ’انتہا پسندوں‘ پر مشتمل ہے۔
تیونس کے قومی منظرنامہ پر شاید النہضہ اپنے ان ناقدین کے خدشات کو ختم کرنا چاہتی ہے، جو سمجھتے ہیں کہ اس کا ایک خفیہ مذہبی ایجنڈا ہے۔ یعنی ایک دفعہ طاقت میں آنے کے بعد وہ آمریت نافذ کر دے گی۔
اس تبدیلی کا مقصد یہ ظاہر کرنا بھی ہے کہ النہضہ تیونس کی سیاسی شناخت کا احترام کرتی ہے تاکہ لبرل اور سیکولر حلقوں کی تنقید کو رَد کیا جاسکے۔ النہضہ اب دعویٰ کرسکتی ہے کہ وہ نظریاتی شناخت کی سیاست سے بالاتر ہو کر کام کرنے کو تیار ہے۔
(ترجمہ: طاہرہ فردوس)
“Why is Tunisia’s Ennahda ditching political Islam?”. (“aljazeera.com”. May 24, 2016)
Leave a Reply