
قومی سلامتی کے حوالے سے اسرائیلی پالیسی عجیب سی لگتی ہے۔ امریکا اور یورپ میں بہت سوں کو اس بات پر حیرت ہے کہ ایک طرف تو اسرائیل یہ کہتا رہا ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام اس کے لیے بقا کا مسئلہ ہے مگر دوسری طرف اس نے عالمی برادری کی طرف سے ایران کے جوہری پروگرام کو ختم یا قدرے غیر مؤثر کرنے کی ہر کوشش کی شدید مخالفت کی ہے۔ اب اسرائیلی وزیراعظم بینامین نیتن یاہو نے ایران اور پانچ بڑی طاقتوں کے درمیان جوہری پروگرام کے معاملے پر معاہدے کی مخالفت کی ہے اور اس حوالے سے یہ کوشش کی ہے کہ اس مسئلے کا کوئی حل تلاش ہی نہ کیا جائے۔ جولائی میں برطانوی وزیرِ خارجہ فلپ ہیمنڈ نے کہا تھا کہ بنیامین نیتن یاہو کے طرزِ عمل سے ایسا لگتا ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ ایران اور پانچ بڑی طاقتوں کے درمیان جوہری معاملات میں کوئی بھی معاہدہ طے پائے یا اس پر عمل ہو۔ اور یہ ان کی خواہش ہے کہ اس مسئلے پر ایران اور بڑی طاقتوں کے درمیان مناقشے کی سی کیفیت برقرار رہے۔
اسرائیل کے سیاسی لیڈر بھی کوئی واضح تصور نہیں رکھتے کہ فلسطینیوں کے ساتھ پرانے مسئلے کو کس طور حل کریں۔ اسرائیل نے فلسطینی علاقوں پر جو قبضہ اب تک برقرار رکھا ہے، اُس پر اسے دنیا بھر میں مطعون کیا جاتا ہے۔ اگر اس کا کوئی حل تلاش نہ کیا گیا تو یا تو اسرائیل اپنی جمہوریت سے ہاتھ دھو بیٹھے گا یا پھر اسرائیل میں یہودیوں کی تعداد گھٹتی جائے گی۔ اسرائیلی حکومت میں ایسے لوگ کم ہی ہیں جو فلسطینیوں کے جائز مطالبات تسلیم کرتے ہوئے انہیں ایک الگ ریاست دینے کے حق میں ہیں۔ وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے بھی کئی بار قدم آگے بڑھاکر پسپائی اختیار کی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ بھی اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ فلسطینیوں کو الگ ریاست دی جاسکتی ہے۔ ویسے وہ کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ دو ریاستوں کا قیام ہی مسئلے کا بہتر حل ہے۔
اسرائیل نے قومی سلامتی کے حوالے سے اگر تعمیری سوچ نہیں اپنائی تو اس کی پشت پر کوئی چیز غیر منطقی ہے نہ کوئی انتشار ہے، بلکہ یہ سوچ کارفرما ہے کہ اس وقت ان تمام بنیادی مسائل کا کوئی مستقل اور قابلِ قبول حل موجود ہی نہیں، جن سے اسرائیل طویل مدت سے نبرد آزما ہے۔ آج بھی اسرائیل اگر بہت سے بنیادی مسائل کو حل کرنے کے بجائے محض ٹال رہا ہے اور زیادہ سے زیادہ دیر تک وقت لیتے رہنے کی کوشش کر رہا ہے تو اسے کسی واضح پالیسی کا فقدان نہیں بلکہ پالیسی ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ اسرائیل کی ریاستی مشینری چاہتی ہے کہ فی الحال کسی بھی مسئلے کو مستقل بنیاد پر حل نہ کیا جائے بلکہ معاملات کو اس حد تک ٹالا جائے کہ فریقِ ثانی کسی بھی نوع کے معاہدے پر مجبور ہوجائے۔ کبھی کبھی یہ پالیسی غلط ثابت ہوتی ہے اور ناکام ہوجاتی ہے، مگر یہ حماقت سے بھری ہوئی ہرگز نہیں۔
یہ سوچ کہ کسی بھی مسئلے سے گھبرانا نہیں چاہیے اور اسے تیزی سے حل کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے اس پر قابو پانا سیکھنا چاہیے، تاکہ مناسب وقت آنے پر اس سے خوب فائدہ ہو، نہ تو غلط سوچ ہے اور نہ ہی اس سے کوئی غلط نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ فلسطینیوں کے معاملات میں اسرائیل نے جو پالیسی اختیار کر رکھی ہے، وہ بہت سے مواقع پر اسرائیل کو غیر معمولی فائدہ دیتی ہوئی نظر آئی ہے۔ امریکی پالیسی سازوں کو بھی مشرقِ وسطیٰ کے معاملات میں ایسی ہی پالیسی اپنانی چاہیے۔
بہت سوں کی نظر میں اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو انتہا پسند اور عقابی سوچ رکھتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ وہ اچھے خاصے قدامت پسند ہیں۔ انہوں نے اب تک مجموعی طور پر یہی سوچ اپنائی ہے کہ جس طور بھی ممکن ہو، معاملات کو زیادہ سے زیادہ تاخیر کی نذر کیا جائے تاکہ کوئی بھی ایسی پالیسی اسرائیل کو نقصان نہ پہنچائے جو بے سوچے سمجھے بنائی گئی ہو۔ وہ جانتے ہیں کہ اسرائیل انتہائی نامساعد حالات میں گِھرا ہوا چھوٹا سا ملک ہے۔ ایسے میں اس کے پاس غلطی کی گنجائش بہت کم ہے۔ نیتن یاہو کسی بھی بڑی تبدیلی کے خلاف ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ کوئی بھی بڑی تبدیلی اسرائیل کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ کسی چھوٹی سی تبدیلی کو بھی انتہائی پریشان کن خیال کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اسرائیل کی پالیسیوں کو جنگجویانہ خیال کرتے ہیں، اور امریکا میں صدر اوباما سمیت بہت سوں کے خیال میں اسرائیل کی پالیسی خوف اور بزدلی کی مظہر ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے۔ نیتن یاہو نے اب تک بڑھک مارنے کے انداز سے جو کچھ بھی کہا ہے، وہ بہت حد تک جنگ پسند ذہنیت کا مظہر دکھائی دیتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل معاملات کو زیادہ سے زیادہ دیر تک غیر حل شدہ رکھنا چاہتا ہے تاکہ اپنی مرضی کا موقع ہاتھ آتے ہی پسندیدہ حل سامنے لایا اور منوایا جائے۔ اسرائیلی قیادت نے اب تک اپنے فکر و عمل سے یہی ثابت کیا ہے کہ معاملات کو ٹالتے رہنے ہی میں زیادہ فائدہ ہے۔ کسی بھی ممکنہ فائدے کی طرف عوام کو متوجہ کرنے کے بجائے وہ ممکنہ نقصان کی طرف زیادہ دھکیلتے اور اس سے ڈراتے ہیں۔ فلسطینیوں کے معاملے میں اسرائیل کی جو بھی پالیسی ہے، وہ نیتن یاہو سے زیادہ ان کے وزیر دفاع موشے یالون کی وضع کردہ ہے۔ اپنی ۲۰۰۸ء میں شائع ہونے والی کتاب ’’داریکھ اروکا زارا‘‘ (ایک طویل مختصر راستہ) میں موشے یالون نے اسرائیل کے سولیوشن ازم اور ناؤ ازم پر خاصا واویلا کیا ہے۔ یعنی یہ کہ فلسطینیوں کے مسئلے کا کوئی حل تلاش کیا جائے اور فوری طور پر تلاش کیا جائے۔ انہوں نے لکھا کہ کسی بھی دیرینہ مسئلے کا کوئی ایسا حل تلاش کرنا ممکن نہیں جو بہت تیزی سے تمام معاملات کو درست کردے۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان پائے جانے والے مسائل کا کوئی بھی جامع اور سب کے لیے قابلِ قبول حل تلاش کرنا آسان نہیں کیونکہ معاملات کی کوئی حد مقرر نہیں ہے (Open-ended) ، یعنی یہ کہ ایک بات کے کئی پہلو ہیں اور کسی بھی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اسرائیل میں موشے یالون اور ان کی سی سوچ رکھنے والے دوسرے بہت سے پالیسی سازوں کا کہنا ہے کہ ہر معاملے کا کوئی نہ کوئی حل تلاش کرنا امریکی سوچ ہے۔ امریکی قیادت سامنے آنے والے ہر مسئلے کا کوئی نہ کوئی فوری حل سوچتی ہے اور پھر اس حل کو یقینی بنانے کے لیے وہ سب کچھ کر گزرتی ہے، جو کرنا چاہیے۔
موشے یالون اور ان کے ساتھی یہ سمجھتے ہیں کہ اگر اسرائیل بھی کسی مسئلے کو حل کرنے پر یقین کرنے لگے تو اس کے دشمن یہ سمجھنے لگیں گے کہ اسرائیل کو کسی نہ کسی طور مسخّر کیا جاسکتا ہے اور یہ کہ دشمن یہ سوچنا بھی ترک کردیں گے کہ اسرائیل ناقابل تسخیر ہے۔ یالون اور ان کے ساتھیوں کے نزدیک اسرائیل کا اصل مسئلہ یہ نہیں کہ وہ کسی حل پر یقین نہیں رکھتا، بلکہ یہ ہے کہ فلسطینی صہیونیت پر یقین رکھنے کو تیار نہیں یعنی کہ جہاں تاریخی طور پر اسرائیل تھا، وہ اب یہودیوں کی ایک باضابطہ ریاست کا وجود تسلیم کیا جائے۔ جب تک فلسطینیوں کی اکثریت اپنی یہ سوچ ترک نہیں کرتی، تب تک اس مسئلے کا کوئی دیرپا اور جامع حل نہیں نکالا جاسکتا۔ اور یہی سبب ہے کہ بنیامین نیتن یاہو اور ان کے ساتھیوں کو نہیں لگتا کہ ایسا کوئی حل مستقبل قریب میں ممکن ہے۔
فلسطینی مسئلے کے حوالے سے اسرائیلی ریاست کی سوچ میں اب تک اچھا خاصا ابہام پایا جاتا ہے۔ نیتن یاہو نے اسرائیل کے ساتھ فلسطینی ریاست کے وجود کو تسلیم کرنے اور اس سے بہتر تعلقات استوار رکھنے کی بات کہی ہے مگر انہیں اس معاملے میں موشے یالون اور ان کے ہم خیال افراد کی حمایت حاصل نہیں۔ دائیں بازو کی مذہبی جماعت دی جیوئش ہوم کے سربراہ اور کابینہ میں نیتن یاہو کے ساتھی نیفٹالی بینیٹ نے ۲۰۱۳ء میں یہودی آباد کاروں کی ییشکا کونسل میں کہا تھا کہ ان کے ایک دوست کو فوج میں خدمات انجام دیتے ہوئے ایک بار کمر میں بم کا ٹکڑا لگا۔ آپریشن کی صورت میں جسم فالج زدہ بھی ہوسکتا تھا، یہ بھی ہوسکتا تھا کہ اس دوست کو باقی زندگی بستر پر گزارنا پڑتی اور یہ بھی ہوسکتا تھا کہ کچھ نہ ہوتا اور وہ بالکل نارمل ہو جاتا۔ نیفٹالی بینیٹ کا کہنا تھا کہ اس وقت اسرائیل بھی ایسی کیفیت سے دوچار ہے۔ کوئی خطرہ مول لینے کے بجائے بہتر یہ ہے کہ اسرائیل کو فلسطینی مسئلے کے ساتھ زندگی بسر کرنی چاہیے۔
کسی بھی مسئلے کا حل تلاش کرنے سے گریز کی پالیسی اسرائیل نے ایران کے معاملے میں بھی اپنا رکھی ہے۔ اسرائیلی ٹیلی ویژن سے افشاء ہونے والی قومی سلامتی کے اجلاس کی ایک خفیہ میٹنگ کی ریکارڈنگ سے معلوم ہوتا ہے کہ سابق اسرائیلی وزیراعظم ایہود بارک، نیتن یاہو اور سابق وزیر خارجہ ایویئر لبرمین نے تین مرتبہ اس بات کی حمایت کی کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کردیا جائے مگر موشے یالون اور ان کے ہم خیال لوگوں نے اس کی شدید مخالفت کی اور اسرائیلی قیادت کو حملے سے باز رکھا۔ حملہ کرکے معاملے کو ختم کرنے کی پالیسی اختیار کرنے یا کوئی باضابطہ حل تلاش کرکے مفادات کو داؤ پر لگانے کی راہ پر گامزن ہونے کے بجائے معاملات کو جوں کا توں رکھنے کی روش اپنائی تاکہ قومی سلامتی کے حوالے سے مفادات کو داؤ پر لگانے تک نوبت نہ پہنچے۔ امریکی صدر براک اوباما نے ایران سے جوہری معاملات پر معاہدے کے مخالفین کو چیلنج کیا ہے کہ وہ اس سے بہتر حل تجویز کر دکھائیں مگر بنیامین نیتن یاہو کے لیے بہتر حل تجویز کرنا مسئلہ نہیں۔ وہ تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ معاملات کو جوں کا توں رہنے دیا جائے۔
نیتن یاہو اور موشے یالون کی ملی جلی سوچ یہ ہے کہ فلسطین اور ایران کے معاملے میں کوئی بھی حل تلاش کرنے کے بجائے معاملات کو جوں کا توں رہنے دیا جائے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اگر کوئی بڑی تبدیلی لانا ہی پڑے، یعنی کسی حل کو اپنانے پر مجبور ہونا ہی پڑے تو اس وقت کہ جب نسلوں کی تبدیلی سے نئی سوچ آچکی ہو یا پھر مشرقِ وسطیٰ میں اتنی زیادہ تبدیلیاں واقع ہوچکی ہوں کہ دونوں معاملات میں کوئی حل قبول کیے بغیر چارہ نہ ہو۔
ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ اسرائیل کے مجموعی مزاج میں اس قدر ہچکچاہٹ کیوں پیدا ہوئی۔ آخر ایسی کیا بات ہوئی کہ اسرائیلی کسی بھی حل کو قبول کرنے پر اب آمادہ نہیں ہو پاتے؟ بات کچھ یوں ہے کہ ۱۹۹۰ء کے اوائل میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان معاملات طے کرنے کے حوالے سے کچھ پیش رفت ہوئی۔ اسرائیلی قیادت نے اندازہ لگایا کہ اب فلسطین کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل کرنے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ مگر ایسا کچھ نہیں تھا۔ امن مذاکرات ناکام ہوئے۔ اسرائیل کے لیے بہت کچھ ایسا تھا جسے قبول نہیں کیا جاسکتا تھا۔ جب معاملات بگڑے اور صاف محسوس ہونے لگا کہ اسرائیل کے ہاتھ کچھ نہ لگے گا تب موشے یالون اور اسی قبیل کے دوسرے بہت سے لوگوں نے سوچنا شروع کیا کہ کسی بھی مسئلے کا کوئی مستقل حل تلاش کرنے سے کہیں بہتر یہ ہے کہ معاملات کو ٹالتے رہیے، جب تک اپنی مرضی کا حل سامنے نہ آجائے۔
ابتدا میں موشے یالون بھی یہی چاہتے تھے کہ اوسلو میں شروع ہونے والے امن عمل کے ذریعے فلسطینیوں سے کوئی معاملہ طے پا جائے۔ ۱۹۹۳ء کے اوسلو معاہدے کی انہوں نے بھی تائید اور حمایت کی۔ مگر بعد میں اسرائیلی ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ فلسطینی قیادت کی نیت کچھ اور ہے۔ ایک طرف تو فلسطینی یہ تسلیم کرنے کو تیار نہ ہوئے کہ جہاں کسی دور میں یہودیوں کی ریاست تھی، وہاں اب اسرائیل کے وجود کو تسلیم کیا جائے اور دوسری طرف فلسطینی قیادت نے یہودیوں کے خلاف تشدد پر اُکسانے والوں کی بیخ کنی میں بھی دلچسپی نہ لی۔ حماس نے جب ۱۹۹۶ء میں حملوں کا سلسلہ شروع کیا، یاسر عرفات نے اس کے خلاف کریک ڈاؤن پر رضامندی ظاہر نہ کی۔
بعد میں جب یاسر عرفات کو ۲۰۰۰ء کے کیمپ ڈیوڈ مذاکرات میں نئی سوچ کے ساتھ دیکھا اور اس کے بعد دوسری انتفاضہ شروع ہوئی، تب عام اسرائیلی بھی موشے یالون کی طرح ہی سوچنے لگے۔ انہیں صاف محسوس ہونے لگا کہ فلسطینی قیادت اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہے نہ تشدد روکنے کے لیے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم ایہود بارک نے مذاکرات میں فلسطینیوں کو اندازوں اور توقعات سے کہیں بڑھ کر رعایتوں سے نوازا تھا۔ بیشتر اسرائیلی یہ سمجھتے تھے کہ فلسطینی قیادت کو اس قدر رعایتیں نہیں دی جانی چاہیے تھیں۔ رعایتیں دینے کے باوجود فلسطینیوں کو تشدد ترک کرنے پر آمادہ نہ کیا جاسکا۔ اکتوبر ۲۰۰۰ء میں ایہود بارک کو کہنا پڑا کہ امن کے معاملے میں اسرائیل کا کوئی شراکت دار نہیں اور اس بات سے بیشتر اہل وطن نے اتفاق کیا۔
اُسی زمانے میں اسرائیل نے اپنے متعدد دیرینہ مسائل کو یک طرفہ طور پر حل کرنا شروع کیا۔ ۲۰۰۰ء میں اسرائیل نے جنوبی لبنان سے فوج واپس بلائی اور ۲۰۰۵ء میں غزّہ کی پٹّی سے آباد کاروں اور افواج کو واپس بلالیا گیا۔ مگر اس کے باوجود یہودیوں کے خلاف نفرت کم نہ ہوئی اور اسرائیلی مفادات کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رہا۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ اسرائیل میں بہت سوں نے معاملات کو یک طرفہ طور پر درست کرنے کی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔
تب سے اب تک مشرقِ وسطیٰ میں حقیقی امن کی راہ ہموار نہیں ہوسکی ہے۔ یاسر عرفات کے جانشین محمود عباس سے اسرائیلی قیادت نے کئی ادوار پر مشتمل مذاکرات کیے ہیں مگر اب تک کسی بھی بڑی بات پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا ہے۔ اس دوران عرب دنیا میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ عوامی بیداری کی لہر اٹھنے کے بعد سے کئی ممالک خرابی کی نذر ہوئے ہیں۔ عراق کی حالت پہلے ہی قابلِ رحم تھی۔ اب شام بھی تاراج ہوچکا ہے۔ اسرائیلی علاقوں پر راکٹ داغنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ بہت سے اسرائیلی یہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل پر حملوں میں ایران کا ہاتھ ہے جو لبنان میں حزب اللہ اور غزّہ کی پٹّی میں حماس کی بھرپور مدد اور حمایت کرتا ہے۔
کون سا طریقہ ہے جو اسرائیل نے آزماکر نہیں دیکھا؟ طاقت بھی استعمال کرلی۔ مذاکرات بھی کیے اور یک طرفہ اقدامات بھی۔ اب عام اسرائیلی یہ سمجھتے ہیں کہ ہر اعتبار سے معمول کی زندگی ان کے مقدر میں لکھی ہی نہیں گئی۔ انہیں اندازہ ہوچکا ہے کہ انہیں ایک طویل جنگ لڑنی ہے اور کسی بھی بڑے منصوبے پر عمل سے یکسر گریز کرنا ہے۔ اسرائیل ڈیموکریٹک انسٹی ٹیوٹ اور تل ابیب یونیورسٹی کے ایک مشترکہ سروے میں ۶۷ فیصد رائے دہندگان نے کہا کہ وہ اب بھی فلسطینیوں سے مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں مگر انہیں یقین نہیں کہ مذاکرات کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے۔
فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان مستحکم مذاکرات کا باقاعدہ میکینزم نہ ہونے کے باعث بعض ماہرین نے نیم پختہ نوعیت کے متبادل طریقے بھی تجویز کیے ہیں۔ ایک طرف تو یہ تجویز دی جاتی ہے کہ فلسطینیوں کو ان کی الگ ریاست دینے کے بجائے اسرائیل کی مکمل شہریت دے دی جائے، تاہم غزہ کی پٹّی کے فلسطینیوں کو شہریت نہ دینے کی بھی تجویز دی گئی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ اسرائیل کی حکومت فلسطینیوں کے لیے ریاست کا حق تسلیم نہ کرے اور جمہوریت کو بھی خیرباد کہہ دے یعنی انتہائی سخت اور غیر لچکدار نوعیت کی آمریت کو گلے لگالے۔ خود اسرائیلی حکومت بھی ایسے حل کو قبول نہیں کرتی جن میں فلسطینیوں کو ساتھ رکھنے کی وکالت کی گئی ہو۔ بنیامین نیتن یاہو نے فلسطینیوں کی ریاست کا حق محض نظریے کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ یالون اس بات کے حق میں نہیں کہ اسرائیلیوں کو ریاست کا حق دیا جائے۔ نینیٹ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو غرب اردن کا بڑا علاقہ اپنے میں ضم کرلینا چاہیے، گو کہ ان کی نظر میں ایسا کرنا مستقبل قریب میں ممکن نہیں۔ اسرائیل کے بیشتر رہنما کسی بھی مستقل نوعیت کے میکینزم کی عدم موجودگی میں متبادل نوعیت کے اقدامات کو عارضی طور پر قبول کرنے کا عندیہ دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں جب معاملات جوں کے توں دکھائی دیتے ہیں، تب دراصل اسرائیل کے پیروں تلے سے زمین سرک رہی ہوتی ہے۔ یہی معاملہ اسرائیلی قائدین نے ایران کے معاملے میں بھی رکھا ہے۔ ایران کی جوہری تنصیبات پر یک طرفہ نوعیت کے حملے سے گریز کی پالیسی اپنائی گئی ہے مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی تسلیم کی جاتی ہے کہ ایران میں قیادت کی تبدیلی کے بغیر بات نہیں بنے گی۔ یعنی نیتن یاہو نے مجموعی طور پر ایک ایسی پالیسی اختیار کر رکھی ہے جس میں فلسطینیوں اور ایران سے تنازعات کا کوئی حل تلاش نہ کرنے کو ترجیح دی گئی ہے۔ یعنی معاملات کو ٹالتے رہیے۔ کوئی باضابطہ حل تلاش کرنے کے بجائے محض وقت لیتے رہنے کی پالیسی اب تک اسرائیل کے حق میں گئی ہے۔ یہ بات کچھ زیادہ حیرت انگیز نہیں کہ نیتن یاہو کی یہ پالیسی عالمی امور کے میکینزم سے مطابقت رکھتی ہے۔
اینٹی سولیوشن ازم کہاں ناکام ٹھہرتا؟
رجعت پسند ذہنیت نے اب تک اسرائیل کا ساتھ دیا ہے۔ نیتن یاہو کی پالیسیاں اب تک کارگر رہی ہیں۔ مصر اور شام میں بہت کچھ الٹ پلٹ گیا مگر اسرائیل کی سرحد محفوظ رہی۔ ان دونوں ممالک کے معاملات سے اسرائیل میں کوئی بگاڑ پیدا نہ ہوا۔ مگر کیا واقعی اسرائیل کی پالیسیاں کامیاب رہی ہیں؟ جو کچھ اسرائیلی قیادت نے ایک عشرے کے دوران کیا ہے، اُس سے عالمی سطح پر اسرائیل کی پوزیشن بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ عالمی برادری میں اس کی ساکھ خراب ہوئی ہے اور وہ اپنی بات بہتر ڈھنگ سے منوانے کی پوزیشن میں نہیں رہا۔
ایران سے جوہری تنصیبات کے معاملے میں معاہدہ کامیاب اور کارگر ثابت ہوتا ہے یا نہیں، اِس سے قطع نظر نیتن یاہو کی پالیسیوں نے اسرائیل کو عالمی برادری میں تنہا کردیا ہے۔ امریکا سے بھی اس کے تعلقات بگڑے ہیں اور تجزیہ کاروں کی نظر میں وہ ایک ایسا ملک ہے جو کسی بھی تنازع کا کوئی بھی حل قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ایران کے معاملے میں نیتن یاہو کی شرائط اتنی سخت تھیں کہ ان سے کسی بھی بار آور نتیجے کے برآمد ہونے کی کوئی توقع نہ تھی۔ اسرائیلی قیادت نے لچک کے دعوے بہت کیے مگر زمینی حقیقت اس کے برعکس تھی۔
فلسطینیوں کے معاملے میں بھی نیتن یاہو اور یالون نے اپنے معیارات اس قدر بلند رکھے ہیں کہ ان کے لیے کسی بھی سطح پر لچک دکھانا اور پسپائی اختیار کرنا تقریباً ناممکن ہوچکا ہے۔ ان کا یہ مطالبہ درست ہے کہ فلسطینی یہودیوں کا ریاست رکھنے کا حق تسلیم کریں اور یہ بات اس لیے درست ہے کہ ایسا کرنے کی صورت میں فلسطینیوں کو بھی اپنے اجداد کی سرزمین پر واپس آنے اور آباد ہونے کا حق مل سکے گا۔ مگر فریقین کو یاد رکھنا چاہیے کہ کسی بھی حل کو اپنانے کی راہ پر گامزن رہنے کی خاطر انہیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ تمام شرائط تسلیم کرنا کسی بھی فریق کے لیے ممکن نہ ہوگا۔ مثلاً یہ سوچنا محض تصور کی حد تک ہے کہ فلسطینیوں کو ان کے اجداد کی سرزمین پر آباد ہونے دیا جائے گا اور تمام حقوق کی ضمانت فراہم کی جائے گی۔ اور اسی طور جو فلسطینی اپنے اجداد کی سرزمین پر دوبارہ آباد کیے جائیں گے، اُن سے یہ توقع رکھنا عبث ہوگا کہ وہ کبھی اسرائیل کو ایک ریاست کی حیثیت سے مکمل طور پر تسلیم کرسکیں گے۔ اگر فلسطینیوں کو اس بات پر مجبور کیا گیا کہ وہ یہودیوں کا ایک باضابطہ ریاست رکھنے کا حق تسلیم کریں تو معاملات زیادہ بگڑیں گے۔ یہ بات نیتن یاہو اور یالون بھی جانتے ہیں کہ ایسا کرنا ان کی اپنی اینٹی سولیوشنزم کی پالیسی کے یکسر منافی ہوگا۔
حکمتِ عملی کی سطح پر رجعت پسندی اختیار کرنے کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ تمام آپشنز کھلے رکھے جانے چاہئیں۔ نیتن یاہو نے اب تک اس نظریے کی حمایت کی ہے کہ یہودیوں اور فلسطینیوں کی باضابطہ تقسیم ہونی چاہیے، یعنی فلسطینیوں کا ریاست قائم کرنے کا حق تسلیم کیا جانا چاہیے۔ مگر اب فلسطینیوں کی طویل المیعاد پالیسی میں فلسطینیوں کی ریاست کا حق دھندلاتا دکھائی دے رہا ہے۔ یالون اور بینیٹ نے غرب اردن میں یہودی بستیوں کی تعمیر کی کھل کر حمایت کی ہے۔ محدود پیمانے ہی پر سہی، نیتن یاہو نے بھی غرب اردن میں یہودی بستیوں کی تعمیر کا عمل جاری رکھا ہے۔ اگر یہی سب کچھ طویل مدت تک جاری رہا، جیسا کہ یالون اور بینیٹ جیسے لوگوں کا نظریہ ہے، تو نیتن یاہو کا یہودیوں اور فلسطینیوں کی تقسیم کا نظریہ ناقابلِ عمل ہوتا جائے گا۔ دائیں بازو کے اسرائیلیوں کی نظر سے بھی یہ نکتہ اوجھل تو نہ ہوگا، جو یہ سمجھتے ہیں کہ فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر سے مستقبل بعید میں دو ریاستوں کا نظریہ قابلِ عمل نہ رہے گا۔
نیتن یاہو نے اب تک خارجہ پالیسی کے میدان میں قدرے لبرل اپروچ کا حامل ثابت ہونے کی کوشش کی ہے۔ اندرون ملک ان کا معاملہ یہ ہے کہ فلسطینیوں کے مطالبات ٹالتے رہیے۔ ملک سے باہر لبرل اور ملک کے اندر رجعت پسند رہنے کی ان کی پالیسی اب تک زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوئی بلکہ معاملات کو الجھانے کا باعث بنی ہے۔ ایران سے جوہری معاملے پر مغربی طاقتوں کے معاہدے پر بھی وہ اندرون ملک اپنی بات منوانے میں زیادہ کامیاب ثابت نہیں ہوسکے ہیں۔ ان کے بارے میں مجموعی تاثر یہ ابھرا ہے کہ وہ کوئی بھی حل قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اور ہر معاملے میں صرف انکار کی راہ پر گامزن رہتے ہیں۔
معاملات کو ٹالتے رہنے اور قابو میں رکھنے کی پالیسی کو کامیاب اُسی وقت قرار دیا جاسکتا ہے، جب اس سے (اپنے حق میں) مثبت نتائج برآمد ہوں۔ نیتن یاہو نے جو پالیسی اپنائی ہے، اس کے نتیجے میں اسرائیل کو فائدہ ضرور پہنچا ہے۔ اسرائیل کے پڑوس میں کئی معاشرے شدید بحرانی کیفیت سے دوچار ہیں۔ مصر اور شام میں ہر طرف خرابیاں ہیں مگر اسرائیل مجموعی طور پر محفوظ رہا ہے۔ ایک طرف تو اسرائیل کی معیشت تیزی سے فروغ پاتی رہی ہے اور دوسری طرف جوہری معاملات میں بالادست ہونے کا تصور اس کی سلامتی یقینی بنانے میں غیر معمولی حد تک کارگر ثابت ہوا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ سب کچھ اچھا ہے۔ اسرائیل نے معاملات کو ٹالتے رہنے کی جو پالیسی اختیار کی ہے، اس پالیسی نے اُس کے لیے عالمی سطح پر بہت سی پیچیدگیاں پیدا کی ہیں۔ عالمی برادری میں اس کی تنہائی بڑھی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ امریکا سے اس کے تعلقات بھی شدید متاثر ہوئے ہیں۔ ایسے میں یہ توقع کیوں کر رکھی جاسکتی ہے کہ اس کے لیے کسی بھی میدان میں کوئی مشکل پیدا نہیں ہوگی۔ ایک طرف تو فلسطینیوں کے مسائل کو مسلسل نظر انداز کیا جاتا رہا ہے اور پھر ان کی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کا راستہ بھی روک دیا گیا ہے۔ غزہ کی ناکہ بندی نے اسرائیل کو پوری دنیا میں مزید ناقابل قبول بنادیا ہے۔ یورپ میں بھی اس کے حوالے سے مزید ناپسندیدگی پیدا ہوئی ہے۔ یہ صورتحال فلسطینیوں میں بھی شدت پسندی کو ابھار رہی ہے۔ اعتدال پسند فلسطینیوں کی آواز دبتی جارہی ہے۔ اسرائیل نے جو غیر لچکدار پالیسی اپنا رکھی ہے، اُس کے نتیجے میں فلسطین کے حامی اور صہیونی ریاست کے مخالفین توانا ہوتے جارہے ہیں۔ یہ سب کچھ اسرائیل کے لیے کسی بھی طور پسندیدہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شدت پسند مذاکرات پر حاوی ہوتے جائیں گے اور یوں معاملات کو خوش اسلوبی اور امن کے ساتھ نمٹانا دشوار تر ہوتا جائے گا۔
اسرائیل نے اب تک لاکھوں فلسطینیوں کو اپنے کنٹرول میں رکھنے پر زیادہ توجہ دی ہے، جس کے نتیجے میں سیاسی اور معاشی بگاڑ پیدا ہوا ہے۔ اسرائیل کی معیشت کے لیے بھی مشکلات پیدا ہوئی ہیں اور معاشرے کا تانا بانا بھی اس سے شدید متاثر ہوا ہے۔ اسرائیلی قیادت اب تک سرحدوں کا حتمی تعین نہیں کرسکی ہے۔ پالیسیوں کے حوالے سے عوام بھی منقسم ہوچکے ہیں۔ فلسطینیوں سے معاملات طے کرنے کے حامی اور مخالفین آمنے سامنے ہیں۔
اسرائیل کے یہودی بہت سے معاملات میں محتاط رہتے ہیں اور ان کا ماضی بھی کچھ ایسا ہے کہ انہیں ایسا کرنا پڑتا ہے۔ یورپ میں یہودیوں کو اذیت سے دوچار کرنے کی تاریخ ہے۔ انہیں مختلف سطحوں پر مظالم کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ مگر اب جو کچھ وہ کر رہے ہیں اس کے نتیجے میں حالات کو بہتر انداز سے جھیلنے کی ان کی اپنی صلاحیت بھی کمزور پڑتی جارہی ہے۔ بیسویں صدی کے اوائل میں یہودیوں نے اپنی تاریخ کے آگے ہتھیار ڈالنے کے بجائے نئے سرے سے زندگی بسر کرنے کی ٹھانی اور صہیونی ریاست کا تصور اپنایا۔ اپنی ریاست قائم کرکے انہوں نے شناخت کو نمایاں کیا۔ اب پھر ضرورت اس بات کی ہے کہ اسرائیلی قیادت اپنی ترجیحات کا نئے سرے سے تعین کرے اور ان ترجیحات کی روشنی میں اپنی تاریخ دوبارہ رقم کرے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ابتدا میں اپنے آدرش کا ہر حصہ مکمل کرنا ممکن نہ ہو، مگر اس کی پروا کیے بغیر کوشش تو کی جانی چاہیے۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ واشنگٹن کیا کرسکتا ہے۔ صدر براک اوباما نے اب تک نیتن یاہو اور یالون کی سی اپروچ کے ساتھ ہی کام کیا ہے تاہم امریکی پالیسی ساز ایران اور فلسطینیوں کے معاملے میں اسرائیلی پالیسی سازوں سے غیر معمولی اختلافات رکھتے ہیں۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ فلسطینیوں کے مسئلے کو لٹکا کر رکھا جائے، جبکہ واشنگٹن کی خواہش یہ ہے کہ معاملہ جلد از جلد نمٹا کر حقیقی امن کی راہ ہموار کی جائے۔ کوئی بھی فریق اپنی رائے تبدیل نہیں کرے گا، اس لیے بہتر یہ ہے کہ ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرتے ہوئے معاملات کو خوش اسلوبی سے نمٹایا جائے۔ محاذ آرائی دونوں میں سے کسی ایک کے لیے بھی سودمند نہیں۔ دونوں کو اپنے اپنے مفادات کا بھی خیال رکھنا ہے۔ امریکا کسی بھی طور اپنے مفادات سے دست بردار ہونا پسند نہیں کرے گا۔ کیونکہ واحد سپر پاور ہونے کے ناطے یہ اس کے لیے عزت کا مسئلہ ہے۔ دوسری طرف اسرائیل بھی کسی معاملے میں عجلت پسندی کا مظاہرہ کرکے اپنے کسی بھی مفاد کو داؤ پر نہیں لگاسکتا۔ دونوں ممالک کی نظر اپنے طویل المیعاد مفادات پر ہے۔
ایران کے معاملے میں نیتن یاہو اب تک امریکا کے ساتھ کھڑے ہونے میں ناکام رہے ہیں۔ امریکا چاہتا ہے کہ ایران کو کسی نہ کسی طور اپناکر معاملات کو نمٹایا جائے مگر نیتن یاہو کچھ اور چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ ایران کی کوئی بات نہ مانی چاہیے اور اسے صرف وہ رعایتیں دی جانی چاہئیں جو بڑی طاقتیں چاہیں۔ یہ سوچ معاملات کو الجھانے والی ہے۔ اسی غیر لچکدار رویے نے ایران کو جوہری پروگرام اپ گریڈ کرنے پر متوجہ کیا تھا۔ امریکا چاہتا ہے کہ معاملات خوش اسلوبی سے نمٹا دیے جائیں تاکہ آگے بڑھنا ممکن ہو۔ دوسری طرف اسرائیل کوئی حل قبول کرنے کے لیے بظاہر آمادہ نہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ معاملات کو مؤخر کرتے رہنے کی صورت میں زیادہ سے زیادہ وقت لیا جائے۔ ایسا کرنے ہی سے معاملات کو قابو میں رکھنا ممکن ہوسکے گا۔
ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ ایران کے معاملے میں اسرائیل نے امریکا کو بھی درخور اعتنا سمجھنے کی زحمت گوارا نہیں کی ہے۔ امریکی قیادت یہ محسوس کرتی ہے کہ اسرائیل نے ایران سے ڈیلنگ میں امریکا کو ایک طرف ہٹانے یا نظر انداز کرنے کی کوشش کی ہے۔ امریکا کے لیے یہ سب کچھ ناقابل برداشت ہے۔ اگر ایران سے معاہدے کو اسرائیل نے بھی قبول نہ کیا تو ہوسکتا ہے کہ امریکی قیادت سے اس کے اختلافات شدت اختیار کرلیں۔ ایسی صورت میں ایک طرف تو ایران خوش ہوگا کہ اس کی مرضی کا ماحول پیدا ہوگیا اور دوسری طرف فلسطینی بھی امریکا اسرائیل اختلافات سے فائدہ اٹھائیں گے۔ ایسے میں ان کے لیے اپنے مؤقف پر زور دینا آسان ہوجائے گا۔ یہ صورتحال امریکا کے لیے کسی بھی طرح قابلِ قبول نہیں ہوگی، کیونکہ وہ نہیں چاہے گا کہ فلسطینی اپنی بات منوانے کے حوالے سے بہتر پوزیشن میں آئیں۔ اگر کبھی اسرائیل نے بھی ایسے ہی حالات پیدا کیے تو امریکا کے لیے مشکلات بڑھ جائیں گی۔ امریکا اب بھی چاہتا ہے کہ ایران سے معاملات مکمل طور پر نمٹا دیے جائیں۔ اس کے لیے وہ دھمکیوں کا سہارا بھی لیتا ہے اور لالچ کا بھی۔ براک اوباما اور ان کے جانشین کے لیے بہتر یہی ہوگا کہ وہ ایران کو دی جانے والی دھمکیوں کو اصل ثابت کر دکھائیں۔
امریکا کے لیے فلسطینی مسئلے پر جامع مگر لچکدار اپروچ رکھنا آسان نہیں مگر کوشش یہی ہے کہ معاملات کو قابو میں رکھا جائے اور اسرائیل کو کسی ایسے حل کے اپنانے کی طرف مائل کیا جائے جس سے معاملات طویل مدت کے لیے درست ہوجائیں۔ مگر یہ سب کچھ ایسا آسان نہیں جیسا دکھائی دیتا ہے۔
امریکا کے لیے اصل مسئلہ اسرائیل اور فلسطینیوں کو کسی ایسے عبوری حل کی طرف مائل کرنا ہے، جس کی مدد سے مستقل اور پائیدار حل کے اپنانے کی راہ ہموار ہو۔ غرب اردن کے بڑے حصے پر اسرائیل قابض ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ وہاں سے اسرائیل کا انخلا ہو۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے، جب اسرائیلی قیادت کو یقین دلایا جائے کہ ایسا کرنے سے اس کے مفادات داؤ پر نہیں لگیں گے۔ اسرائیل چاہے تو فلسطینیوں پر عائد پابندیاں نرم کرکے معاملات کو درست کرنے کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔
سب سے بڑا مسئلہ اسرائیل میں ان لوگوں کو راضی کرنا ہے جو فلسطینیوں کی نیت پر بھروسا کرنے کو تیار نہیں۔ اسرائیلی پالیسی میں معمولی سی بھی تبدیلی آنے پر فلسطینی دوبارہ شدت پسندی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں کوئی بھی مستقل اور پائیدار حل تلاش کرنا آسان نہیں۔ فریقین میں اعتماد پیدا کرنا انتہائی ضروری ہے۔
بہت سے اسرائیلیوں کا یہ خیال ہے کہ فلسطینی علاقوں سے انخلا یک طرفہ تھا اور ناکام رہا مگر وہ اس حقیقت کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ یہ انخلا دو مراحل پر مشتمل تھا۔ پہلے مرحلے میں فلسطینی علاقوں کے بیچوں بیچ قائم یہودی بستیاں ختم کی گئیں اور دوسرے مرحلے میں ان علاقوں سے اسرائیلی فوج کو نکالا گیا۔ یہودی بستیوں کو بزور ختم کیا گیا۔ لوگوں کو نکالا گیا اور ان کے مکانات مسمار کردیے گئے۔ اس سے اسرائیلی معاشرے میں تھوڑا بہت انتشار ضرور پھیلا، تاہم اس سے اسٹریٹجی کے میدان میں کامیابی حاصل ہوئی۔ چند بستیوں کو محفوظ رکھنا بہت بڑا دردِ سر تھا۔ وسائل بھی خرچ کرنا پڑتے تھے اور کشیدگی بھی برقرار رہتی تھی۔ عسکری نقطۂ نگاہ سے اسرائیل زیادہ کامیاب نہ رہا۔ جب یہودی بستیاں ختم کردی گئیں تو حماس اور دیگر گروپ مضبوط ہوکر ابھرے۔ اسرائیل نے جب فلسطینی علاقوں کی ناکہ بندی کی تو کشیدگی ایک بار پھر بڑھ گئی۔ فلسطینی اور یہودی دونوں ہی ایک بار پھر شدید عدم تحفظ کا شکار ہوگئے۔ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی حملوں نے کئی علاقے تباہ کردیے اور ہزاروں فلسطینی ہلاک و زخمی ہوئے ہیں۔ اسرائیلی شہریوں میں عدم تحفظ کا احساس مزید توانا ہوگیا ہے۔ انہیں ہر وقت یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ کوئی فلسطینی خودکش حملہ آور ان کی زندگی کا خاتمہ نہ کردے۔ دوسری طرف اسرائیلی فوج بھی ہر وقت تیاری کی حالت میں رہتی ہے کہ کہیں کوئی ایسی بات دکھائی دے اور وہ حملہ کرے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اسرائیل اپنی افواج کو دوبارہ فلسطینی علاقوں میں تعینات کردے۔
امریکا کے لیے بھی لازم ہے کہ فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر کے حوالے سے اپنی پالیسی پر عمل کرے اور جو وعدے کر رکھے ہیں، انہیں پورا کرے۔ براک اوباما نے ۲۰۰۹ء میں یہودی بستیوں کی تعمیر کے حوالے سے چند ایک پابندیوں کی بات کی تھی۔ مگر بعد میں وہ سب کچھ بھول گئے۔ فلسطینیوں کے لیے اب بھی یہ خطرہ موجود ہے کہ یہودی دوبارہ ان کے علاقوں میں نہ آدھمکیں۔ امریکا کو اس حوالے سے واضح پالیسی اپنانا پڑے گی۔ امریکا نے یہودی بستیوں کی تعمیر پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا جس نے امریکا اور اسرائیل کے درمیان خلیج وسیع کردی۔ صدر اوباما نے جو چاہا تھا، اس کی بنیاد پر اسرائیلی عوام نیتن یاہو کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ امریکا کو اب یہودی بستیوں کے حوالے سے ایسی پالیسی اختیار کرنا پڑے گی جس میں غیر معمولی حد تک توازن پایا جاتا ہو اور جس کی مدد سے فلسطینیوں کو بپھرنے سے روکا بھی جاسکے اور مستقبل میں دو ریاستوں والا حل اپنانے کی راہ بھی مسدود نہ ہو۔
اسرائیلی حکومت کا فرض ہے کہ مشرقی بیت المقدس میں یہودی بستوں کی تعمیر کا معاملہ ختم کردے، کیونکہ یہ معاملہ داخلی سلامتی کے لیے شدید خطرہ ہے۔ اسرائیل کے پاس ایک اچھا آپشن یہ بھی ہے کہ بعض فلسطینی علاقوں کا کنٹرول فلسطینیوں ہی کو سونپ دے تاکہ وہ بہتر طریقے سے زندگی بسر کرسکیں۔ یہ آپشن مستقبل میں کسی بڑی خرابی کی راہ مسدود کرسکتا ہے۔
امن کی راہ ہموار کرنے میں سب سے اہم کردار خود فلسطینیوں کو ادا کرنا ہے۔ اگر وہ غرب اردن اور غزہ کی پٹی میں تمام دھڑوں پر مشتمل حکومت قائم کریں تو بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ یوں اسرائیل کو اچھا پیغام جائے گا اور وہ معاملات کو بہتر انداز سے نمٹانے کی کوشش کرے گا۔
اگر فلسطینی اپنے مسئلے کے پائیدار حل کے لیے اسرائیل سے بات کرنا چاہتے ہیں تو انہیں متحدہ حکومت کی طرف جانا پڑے گا۔ تمام بڑے دھڑوں پر مشتمل حکومت ہی کام کرسکتی ہے۔ اس معاملے میں فلسطینی مقتدرہ کا کردار بہت اہم ہے۔ اسرائیل کے ساتھ سکیورٹی سے متعلق امور تو فلسطینی مقتدرہ ہی کو طے کرنا ہیں۔
جب تک کوئی باضابطہ حل نہیں نکال لیا جاتا، تب تک اسرائیل اور فلسطینیوں کے بیانات اور تقریروں سے بڑھک کا عنصر ختم کرنا بھی لازم ہے تاکہ صورتحال کچھ پُرامن رہے۔ تشدد پر قابو پانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ اگر اسرائیل اور فلسطینی چاہتے ہیں کہ معاملات زیادہ خراب نہ ہوں تو مزید تشدد سے گریز کرنا ہوگا تاکہ بات چیت جاری رہے اور کوئی پائیدار حل تلاش کرنا ممکن ہوسکے۔ دونوں طرف کے قائدین امن کے حوالے سے مستقبل قریب میں کوئی حتمی نوعیت کا اقدام کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ ایسے میں بہتر یہی ہے کہ یہ عبوری دور ڈھنگ سے گزارا جائے۔ تعلقات میں نشیب و فراز کے کئی مراحل آئے ہیں۔ خطے کو عدم استحکام سے بچانے کے لیے اب فریقین کو افہام و تفہیم سے کام لینا ہوگا تاکہ معاملات قابو میں رہیں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Why Israel Waits”.
(“Foreign Affairs”. Nov-Dec., 2015)
Leave a Reply