
ڈاکٹر منصف المرزوقی تیونس کی دستور ساز اسمبلی کے صدر رہ چکے ہیں اور ملک کے صدر بھی منتخب ہوئے اور تین سال اس عہدے پر فائز رہے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں۔ ان کی پہچان حقوق انسانی کے معروف جہدکار اور متعدد کتابوں کے مصنف، تجزیہ نگار، سیاسی ناقد اور نظریہ ساز کے طور پر رہی ہے، آپ دنیا کی موثر ترین شخصیتوں کی فہرست میں جگہ رکھتے ہیں۔ ان حوالوں سے ان کی یہ تحریر خصوصی طور پر قابل توجہ ہے۔ اس میں انھوں نے صرف رائج تصورات پر تنقید پر اکتفا کیا ہے۔ اسلامی تحریک سے وابستہ افراد کی ذمہ داری ہے کہ اس طرح کی تنقید کے ساتھ وہ اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں متبادلات بھی دنیا کے سامنے پیش کریں۔
عظیم امریکی دانشور نوم چومسکی ایک دلچسپ مکالمے میں کہتے ہیں: ’’ہر وہ شخص جو کورونا کی وبا سے پہلے والی فطری صورت حال واپس آنے کا خواب دیکھتا ہے، وہ غلطی پر ہے، کیوں کہ وہ صورت حال کسی بھی طرح فطری نہیں تھی‘‘۔
اس وبائی بیماری نے اس’فطری‘صورت حال کا پول کھول کر رکھ دیا ہے،جس کے بارے میں کچھ لوگ خواب دیکھ رہے ہیں کہ جیسے ہی کامیاب علاج اور مرض بچاؤ ویکسین کی دریافت ہوگی،وہ اس کی طرف واپس لوٹ جائیں گے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے جیسا کہ کچھ دوسرے لوگ سمجھتے ہیں کہ اس وبائی بیماری کے خاتمے کے ساتھ ہی ہم یکایک ایسی دنیا میں چلے جائیں گے جس کا کورونا سے پہلے والی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔
البتہ یہ یقینی ہے کہ بحران کی خطرناکی ہم سب کو ان تمام اصولوں پر از سر نو بالکل جڑ سے جائزہ لینے پر مجبور کرے گی جن پر موجودہ دنیا کو بنایا گیا ہے، اور یہ چیز دیر یا سویر، ہمارے طرزِ زندگی اور طرز فکر میں بنیادی تبدیلی ضرور لائے گی، اس کی ابتدا ہو چکی ہے اگرچہ بہتوں کو اس کا ادراک نہیں ہوپا رہا ہے۔
یہ وبائی بیماری اس زلزلے کے مانند ہے، جو انجینئروں کو مجبور کردیتا ہے کہ وہ قدیم منہدم عمارتوں کے نقائص کوسمجھنے کے بعد ایسی عمارتیں تخلیق کریں جو مستقبل میں زلزلوں کے سامنے ٹھہر سکیں۔ بالکل اسی طرح اب ہم بحیثیت افراد، اقوام اور ملکوں کے دوبارہ سوچنے پرمجبور ہوں گے،تاکہ ہم نے جو فکری اور مادی نظام اور پالیسیاں تعمیر کررکھی ہیں ان کے تمام کمزور پہلوؤں کی نشان دہی ہو، اور اس ہولناک تجربے نے ہمیں جو سکھایا ہے اسے بہتر تعمیر میں کام لا ئیں۔
کورونا کے زلزلے نے جس سسٹم کو سب سے زیادہ ہلا کر رکھ دیا ہے، وہ نظامِ صحت ہے۔ اس وبائی بیماری کا مقابلہ کرنے میں غریب ممالک کے نظامِ صحت کا ناکام ہوجانا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے، لیکن امریکا،برطانیہ اور اٹلی جیسے بڑے مغربی ممالک کی ایسی سانحاتی تصویر سامنے آنا جس میں یہ ممالک چینی فوجی طیاروں سے طبی امدادمنتقل کرتے نظر آتے ہیں۔ تواس کا مطلب ہے کہ ان تما م ملکوں کو تلخ سے بھی زیادہ سخت جائزوں کی ضرورت ہے، اپنے صحت کے سسٹم کو نئے سرے سے قائم کرنے کے لیے۔
درحقیقت مجھے امریکی نظامِ صحت کے زمیں بوس ہو جانے پرتعجب نہیں ہوا،جس کی اصلاح کی باراک اوباما نے کوشش کی تھی، لیکن پھر ڈونالڈ ٹرمپ نے آکر اس آدمی کی تمام اصلاحات پر پانی پھیر دیا۔ مجھے برطانوی نظام کے گھٹنے ٹیکنے پر بھی حیرت نہیں ہوئی جو آج اخلاقی اصولوں سے عاری لبرل ازم کی قیمت خود بھی ادا کررہا ہے،اور وہاں کے بے گناہ مریضوں سے بھی ادا کرا رہا ہے۔
یاد پڑتا ہے کہ ۸۰ کی دہائی کے آغاز میں تیونس کے شہر سوسہ میں فیکلٹی آف میڈیسن میں طب وقائی کے پروفیسر کی حیثیت سے پانچویں سال کے طلبا کے سامنے مجھے دنیا میں رائج صحت کے نظاموں کے عنوان پر لیکچر دینے تھے۔ مجھے ان کاتقابلی جائزہ پیش کرنا تھا، جس میں نمونے کی حیثیت سے سوویت یونین بطور کمیونسٹ ملک، امریکا بطور سرمایہ دار ملک تھے اور سویڈن اور برطانیہ بطور ان ممالک کے تھے جنھوں نے سوشلزم اور کیپٹلزم کے بہتر افکار کو اخذ کیا۔
صحت عامہ پر خرچ اور نتائج کے حوالے سے، میں طلبا کو بتارہا تھا کہ صحت کا بدترین نظام امریکی نظام ہے۔ اس کی لاگت بہت زیادہ ہے اور بیماری سے لڑنے اور شرح اموات میں کمی لانے کے لحاظ سے اس کا حاصل بہت کم، خوآہ اس کا تعلق نوزائیدہ بچوں سے ہویا بوڑھوں سے۔یہ سب اس لیے کہ امریکا کا نظامِ صحت مریضوں کے مفاد کی خاطر نہیں بنایا گیا، بلکہ ایک انتہا پسند لبرل ازم کے مفاد کی خاطر بنایا گیا ہے جس کے نزدیک صحت ایک سامان ہے، خرید وفروخت کے ہر سامان کی طرح۔ اور اسپتالوں یا انشورنس کمپنیوں کی فکر صرف نفع کا حصول ہے، کسی بھی چیز سے زیادہ۔
میں طلبہ کو دستیاب سائنسی اعداد و شمار کی بنیاد پر بتاتا تھا کہ صحت کا سب سے بہترین نظام برطانوی نظام ہے، کیوں کہ وہ انصاف، منصوبہ بندی اور مریضوں کی آزادی پر مشتمل ہے۔ اور اس لیے بھی کہ ریاستی ٹیکس کے ذریعے اس کی مالی اعانت ہوتی ہے۔ یہ مارگریٹ تھیچر کے اقتدار میں آنے سے پہلے کی بات ہے،جب ۸۰ کی دہائی کے آخر میں اس نے آکر برطانوی صحت کے نظام کی چیر پھاڑ نہیں کی تھی۔ اس کے یہاں ’کی ورڈ‘ نج کاری تھا، اوراس کا ماننا تھا کہ اسپتال ایک اقتصادی ادارہ ہے جو مریضوں پر اس نفع میں سے ہی خرچ کرے گا جو اسے خود مریضوں سے حاصل ہوگا۔
یہ تو طے ہے کہ لبرل ازم جو اب تک دنیا کے سرکردہ معاشی ماہرین جیسے تھامس پیکیٹی کی بمباری کے نیچے رہا، اس بحران سے اور زیادہ لاغرہوکر نکلے گا، صرف اس نظامِ صحت کی کارکردگی کی وجہ سے نہیں جس کا وہ ذمہ دار ہے، بلکہ اس عالمی اقتصادی مشین کے اتنی جلدی بیٹھ جانے کی وجہ سے، جسے اس نے اپنے ہاتھوں سے بنایا تھا، خاص طور سے ۸۰ کی دہائی کے آخر میں امریکی صدر ریگن اور برطانوی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر کے درمیان معاہدوں کے بعد۔
جیسے ہی وبائی بیماری ہم پر حملہ آور ہوئی، پیداوار دھڑام سے نیچے آگری، کیوں کہ دنیا کے کونے کونے میں قائم فیکٹریوں کے درمیان مواصلاتی نظام ٹھپ پڑگیا، جنھیں سستے مزدوروں کے پیش نظر یہاں وہاں بانٹ دیا گیا تھا۔اس کے نتیجے میں اچانک گویابے روز گاری کی سونامی آگئی، اور اس کے بعد زیادہ کمزور ملکوں میں بھوک مری کی واپسی کا خطرہ منڈلارہا ہے۔ یہ سخت حالات لبرلزم کے پرستاروں کا انتظار کررہے ہیں۔
اقوام اور اشرافیہ نے فطرت کو تباہ وبرباد کرتے ہوئے اپنے عیبوں اور کوتاہیوں سے صرف نظر کرلیا تھا، کیوں کہ انھوں نے یہ مان لیا تھا کہ بہت سے مواقع کی طرح یہ بھی دولت بڑھانے کا میدان ہے۔ لیکن وہ اپنی ذمہ داری سے معاف نہیں کیے جائیں گے،موجودہ اقتصادی بحران میں اور کورونا کے خاتمے کے بعد اس بحران کے نتیجے میں جو اوربحران آئیں گے،ان پر نہ اقوام خاموش رہیں گی اور نہ بڑی عالمی کمپنیوں کے دباؤ میں آکر بہت سے ممالک۔
وطنیت اور قومیت
اس وبائی بیماری نے اس تصور کی مضحکہ خیزی اس طرح نمایاں کردی ہے کہ اس پر کسی کارٹون کا گمان ہوتا ہے۔ یہ وائرس ہمیں یہ دل پذیرسبق دیتا ہے کہ انسانیت ایک ہے اور یہ دنیا ایک ہے۔ بھلا آج آزاد قومی فیصلے جیسے تصور کا کیا مطلب رہ جاتا ہے،جب کہ تم ایسی دنیا میں رہ رہے ہو جوباہم مربوط اور گتھم گتھا ہے۔ جس میں ہر وطن ایک مشترک نسیج کے خلیے کی طرح ہے، اس کی زندگی سے ہر خلیے کی زندگی ہے، اس کی بیماری اسے بیمار کرتی ہے اور اس کی موت اس کی موت بن جاتی ہے۔
آج ایسی دنیاوی سرحدوں کا کیا مطلب رہ گیا جس میں چمگادڑوں کا گوشت کھانے کی چینیوں کی حرص کے نتیجے میں ہزاروں اطالوی، ہسپانوی اور فرانسیسی موت کا شکار ہوتے ہیں، لبنانی بھوک کی خاطر مظاہرہ کرتے ہیں،تیونس میں سوجی اور آٹے سے لدے ہوئے ٹرکوں پر ڈاکہ زنی کے واقعات بڑھ جاتے ہیں،برطانوی وزیراعظم آئی سی یو میں ایڈمٹ ہوتے ہیں، اور دنیا کی نمبر وَن فوجی قوت کا سربراہ تمام لوگوں کے لیے مذاق بن جاتا ہے جب وہ اس بیماری کے علاج کے لیے عبقری تجاویز پیش کرتا ہے۔
جمہوریت کے بارے میں کیا کہیں؟ وبائی مرض سے پہلے ہی یہ تکلیف کی حالت سے دوچار تھی، اوپر پاپولزم کی ہتھوڑی اور نیچے کرپشن کا سندان۔ اس صورت حال نے صحافت، پارٹیاں اور انتخابات جیسے اس کے تمام ستونوں کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا۔ اب اس وبائی بیماری کے بعد وہ اتنی لاغر ہوچکی ہے کہ اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔ نئے اور پرانے ڈکٹیٹرموقع سے فائدہ اٹھانے میں لگے ہیں، اور مغربی جمہوریت کی ناقص کارکردگی کاچینی نظام کی کارکردگی کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے، اسے مستقبل کے بہترین سیاسی نظام کے طور پر پیش کررہے ہیں۔
اس وقت انھیں یہ یاد دلانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے کہ جنوبی کوریا نے وبا سے مقابلہ میں سب سے بہترکارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ان کی نگاہیں چین اور اس کے نظام پر ٹکی رہیں گی، جس میں شاید عرب اپنے سب سے قدیم، سب سے گہرے اورسب سے خطرناک واہمی یعنی ’آمرانہ عادلانہ نظام‘ کی کامیابی دیکھ رہے ہیں۔
اب انسانی حقوق کولیں۔ اس وقت انفرادی اور اجتماعی آزادیوں کو بڑھتے ہوئے خطرے سے پیدا ہونے والا بڑا اشکال یہاں پایا جاتا ہے، کیوں کہ ٹیکنالوجی نے نگرانی اور تعاقب کی سہولتیں بہت بڑھادی ہیں اور اس وبائی مرض نے اب تک کے سب سے بڑے پیمانے پر اس کا تجربہ کرنے کا سنہری موقع فراہم کیا ہے۔
اس وبا نے ہمارے سامنے حقوق کے علم برداروں کی حیثیت سے ایسے چیلنج کھڑے کردیے ہیں جو اس سے پہلے کبھی درپیش نہیں آئے تھے۔
آج ہم جانتے ہیں کہ کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر کہنہ بیماریوں میں مبتلا عمر رسیدہ افراد ہیں۔ کیا ہم نسبتاً اس چھوٹے طبقے کی زندگیوں کی چند سال مزیدحفاظت کی خاطر جو اپنی طبعی عمر پوری کرنے والے ہی ہیں، معاشی پہیے کو روک کراور لاک ڈاؤن کی قید عائد کرکے کروڑ ہا کروڑ لوگوں کے کھانے پینے اور کام کرنے کے حق کو داؤ پر لگادیں؟ یہ سوال حقوق کو درپیش ایک بڑے چیلنج کی ترجمانی کرتا ہے۔
حقوق انسانی کے عَلَم بردارکی حیثیت سے ہمارا رد عمل ان بڑے مال داروں کے سلسلہ میں کیا ہونا چاہیے جن کے بیچ بحر اوقیانوس یا بحر الکاہل میں چھوٹے چھوٹے جزیرے خریدنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ جہاں وہ اپنے خاندان او ر محافظوں کے ساتھ محفوظ رہیں، جب تک کہ اس وبا کا خاتمہ نہ ہوجائے۔ انہیں اس بات کی پروا بالکل نہیں ہے کہ انسانوں کا بڑاحصہ یا تمام انسان موت کا نوالہ بن جائیں گے۔ کیاملکیت کا حق جیسا کہ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کے سترہویں باب میں درج ہے،غیر مشروط اور لا محدود ہے؟ کسی بھی حوالے سے اس کو چھیڑا نہیں جاسکتا ہے؟ کیا اس کی حیثیت بھی اس اعلامیہ کے پانچویں باب جیسی ہے جس میں جسمانی تشدد اور بے حرمتی کی سخت ممانعت ہے؟ یایہ اضافی حق ہے جس کی متعین حدیں ہیں؟
کیا ریاست کا یہ فرض نہیں ہے کہ ایسے حالات میں حد سے زیادہ دولت پر قابض اشخاص کے اس حق کو معطل کردیا جائے، اس دولت کی حد تک جو انھوں نے ذخیرہ کررکھی ہے اور ان کی ضروریات سے بہت زائدہے۔ تاکہ اس کے ذریعہ کروڑوں بھوکے افراد کو بھکمری سے بچایا جائے۔ اس لیے کہ ان کا تعلق بھی انسانی قبیلے سے ہے اور انہیں اس صورت میں بھی جینے کا حق ہے اگر وبا کی مدت دراز ہو؟
وہ بھی ایسی صورت میں جب کہ خود اس عالمی اعلامیہ کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے، صرف اس باب کی حد تک نہیں بلکہ دوسرے ابواب کی سطح پر بھی، تنقیح اور اضافے کے پہلو سے از سر نو جائزے کی ضرورت ہے۔
معاملہ یہ نہیں ہے کہ ہم ان تمام نظریات کا انکار کردیں جن کی ہم اب تک پرستش کرتے ر ہے، یا ہم ان سرابوں کے پیچھے اب تک دوڑتے رہنے پرجن کی ہماری اقوام نے بھاری قیمت ادا کی ہے سینہ کوبی کریں۔
صحیح بات یہ ہے کہ ہم ہمیشہ عصر حاضر کے حقائق، اس کے تصورات،اس کی زبان اور اس کی صورتوں کو بنیاد بناکر غور و فکر کرتے ہیں۔ اور معاشرے کی ترقی اور مشکلات کے ہر مرحلے میں ہم میں سے ہرایک نے اپنی اپنی جگہ حل پانے کی کوشش کی ہے۔ ان میں سے کچھ حل کامیاب ہوگئے، اور انھوں نے ہی کسی بھی درجے میں معاشرے کو ارتقا کی راہ دکھائی، اور کچھ حل ایسے ہیں جن کی حدیں سامنے آگئیں اور انھیں بہتر بنانے کی ضرورت کا ادراک ہوا، اور کچھ حل ایسے ہیں جنھیں تجربات نے غلط یا ازکار رفتہ ثابت کردیا ہے، اور ان کے متبادل کی تلاش لازم ہوگئی ہے۔
بس آج ہمیں یہی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وبائی مرض نے ان تمام پرانی دراڑوں کو عیاں کردیا ہے جو ہمارے معاشروں میں جہاں تہاں مقدس ترین فکری مقدسات میں پائی جاتی تھیں۔ وہ وطنیت ہو، (یاقومیت ہو جو وطنیت کی وسیع تر شکل ہے)، ترقی پسندی ہو، جمہوریت ہو، لبرلزم ہو، انسانی حقوق ہوں یا سیاسی اسلام ہو۔
اس طرح کا جائزہ مہنگا او رکرب انگیزہوگا، کیوں کہ اس کی مزاحمت ان معبدوں کے پہرے داروں کی طرف سے ضرور ہوگی، جن کے عین قلب میں کورونا کی مار پڑی ہے۔
میں نے اپنے عہدِجوانی میں ایک تنقیدی کتاب لکھی تھی۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کا لہجہ بہت سخت ہے، اس کا عنوان ہے ’فی سجن العقل ’یعنی دماغ کے قید خانے میں‘۔ اس میں ایسے لوگوں کی ذہنیت کا بیان ہے، جن کے بارے میں گلیلیو نے کہا ہے ’’یہ لوگ ارسطو کی کتاب میں پڑھی ہوئی غلطیوں کو جھٹلانا گوارا نہیں کرتے، چاہے ان حقائق کو جھٹلانا پڑ جائے جنھیں وہ اپنی سر کی آنکھوں سے آسمان میں دیکھتے ہیں‘‘۔ بعدازیں میں نے عقیدے رکھنے والوں کے موقف کو اپنے تجربات سے سمجھا، یا سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں، کیوں کہ وہ درحقیقت ایک ناگزیر فرض انجام دیتے ہیں۔
دراصل معاشروں کو سب سے زیادہ خوف خلفشار سے ہوتاہے۔ اس کی سب سے اہم طلب استحکام واستقرار ہوتی ہے۔ اور اسی لیے اسے روایت پسندوں کے بریک کی ضرورت رہتی ہے۔ لیکن جو چیز معاشرے کو سب سے زیادہ کمزور کرتی ہے وہ جمود ہے، اور معاشرے کی اہم طلب ارتقا ہے۔ لہٰذا اسے ہمیشہ اصلاح پسندوں اور انقلابیوں کی ضرورت رہتی ہے۔ انجام کار نہ تو روایت پسندوں کو اصلاح پسندوں اور انقلابیوں سے چھٹکارا مل سکتا ہے، اور نہ ہی اصلاح پسندحضرات روایت پسندوں سے چھٹکارا پا سکتے ہیں،جب کہ اجتماعی ذہن کو دونوں کی ضرورت ہے تاکہ ٹھہراؤ او رحرکت کے درمیا ن توازن برقرار رہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ بحث کرنے میں وقت اور صلاحیت کو ضائع نہ کیا جائے جو شعوری یا غیر شعوری طور پر پرانے افکار اور رواجوں کی حفاظت کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں۔ زمانہ خود ان کے لیے کافی ہے کیوں کہ ان میں بہترین لوگوں کا انجام یہ ہوگا کہ وہ بالآخردرمیانی حل تلاش کریں گے، اور ان میں بدترین لوگوں کا انجام یہ ہوگا کہ وہ ایسی عمارت کے اندر پڑے سڑتے رہیں گے جس کی دیواریں دن بدن کھوکھلی ہوتی جائیں گی، یہاں تک کہ انہی کی ہڈیوں کے ڈھانچوں پر گرپڑیں گی۔
اس کی مثال کے لیے ہم پچاس کی دہائی کی قوم پرستی کو لیتے ہیں۔ یہ عربی قوم پرستی کی ایسے تصور کی حفاظت کرتی رہی جس کا زمانہ بیت گیا۔ اس کے باوجود آج تک وہ ایسے آمروں کا دفاع کررہی ہے جو اس مصیبت زدہ امت کے ساتھ بھیانک جرائم کا ارتکاب کرتے رہے۔ایسے جرائم جن کے ارتکاب کی جرأت نہ استعمار کرسکتا ہے اور نہ ہی صہیونیت۔
اب بس یہ باقی رہ جاتا ہے کہ اس نازک ترین صورتحال میں اجتماعی عقل کاحرکیاتی حصہ اپنی ذمہ داری انجام دے۔
ضروری ہے کہ ہم اپنے لیے سرعت کے ساتھ قدروں پر مبنی ایسے فکری نظام کی تشکیل کرلیں جسے قطب نما کی حیثیت حاصل ہو۔ ساتھ ہی ایسے فعال سیاسی وسائل پیدا کریں، جو افکار اور قدروں کو ایکشن میں تبدیل کردیں اور اس طرح افراد، اقوام او ر انسانی نسل کو بچانے کا کام کریں۔
ابھی تک نہ تو ایسا کوئی نظام پایا جاتا ہے اور نہ ہی اس کے نقوش کی ابتدائی صورت ہی نظر آتی ہے۔آج کون کہہ سکتا ہے کہ لبرل ازم، قومیت، جمہوریت، سیاسی اسلام، ترقی پسندی اور انسانی حقوق کے مابعد کے لیے اس کے پاس کوئی واضح تصور ہے؟
بس ایک ثابت شدہ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں باکس کے باہر سوچنا ہوگا۔ اپنی جہالت کے ساتھ، مسائل کی خوفناک پیچیدگی کے ساتھ اوراجتماعی عقل کے روایت پسند حصے کے ساتھ سخت کشمکش کرتے ہوئے۔ راستہ ایک ہی ہے اور وہ ہے ’فکری نفیر‘ کا اعلان، اور اس تصور کو نکھارنے کے لیے اپنی تمام توانائیوں کو اکٹھا کردینا۔
یہ کیسے؟
دیکھیں سائنسی محققین نے اس بحران کا کیسے سامنا کیا ہے۔ چینیوں نے وائرس کے جینیاتی ترکیب سے متعلق اپنی دریافتوں کو چھپا کر نہیں رکھا بلکہ اسے دنیا بھر کے اہل تحقیق کے سامنے رکھنے میں جلدی کی اور یہی ان کے دوسرے ملکوں کے ساتھیوں نے کیا۔ اسی طرح آج ایک اور تجربہ اسی وقت جاری ہے، یہ ایک امریکی یونیورسٹی کی پہل ہے،جو دنیا کے زیادہ سے زیادہ کمپیوٹروں کو ایک نیٹ ورک میں جمع کرنے کی کوشش کررہی ہے، تاکہ اسے ایسی زبردست کمپیوٹیشنل پاور حاصل ہوجائے، جو اس پروٹین تک جلد از جلد رسائی کی کوششوں میں مددگار ہو جو وائرس کو خلیوں کی سطح پر اترنے اور پھر داخل ہونے سے روک سکے۔
اس میں شامل ہونے کے لیے اس کی ضرورت نہیں ہے کہ آپ خود بھی محقق ہوں یا پروٹین کے ماہر ہوں، آپ کو صرف اپنے فارغ وقت میں اپنا کمپیوٹر ادھار دینے کی ضرورت ہے تاکہ اس کے امکانات کو باقی کمپیوٹروں کے امکانات میں شامل کیا جاسکے۔ جہاں تک سائنسی عمل کی بات ہے تو وہ سائنسی ماہرین کے کرنے کا کام ہے۔ یہ دو مثالیں ہیں جو نئے راستے کا پتا دیتی ہیں۔
ہمیں اپنے تجربات اور آگاہیوں کو ایک ساتھ ایک ہی ٹوکری میں ڈالنے کی ضرورت ہے، اپنی عقلوں کو آپس میں جوڑ نا ہے۔ اس نئے فکری نظام کی تشکیل کی یہ دو بنیادی شرطیں ہیں جس کی ہمیں اشد ضرورت ہے، جس سے شاید ہم اپنی حفاظت کرسکیں۔ یا شاید ہم زبردست اجتماعی عالمی عقل میں، جسے ہم اپنی نگاہوں کے سامنے تشکیل پذیر ہوتے دیکھتے ہیں، اور اس میں ہماری کچھ حصہ داری نہیں ہوتی ہے۔ اور یہ ابن خلدون کے زمانے سے ہے، پھر سے نئے افکار داخل کرنے لگیں۔
(بحوالہ: ماہنامہ ’’زندگیٔ نو‘‘ نئی دہلی۔ ستمبر ۲۰۲۰ء)
Leave a Reply