
حال ہی میں بھارت نے اچانک مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کر کے اسے وفاق کے زیر انتظام دو خطوں میں تقسیم کر دیا۔ پاکستان کے پُرجوش وزیراعظم عمران خان نے اس مسئلے کو اٹھانے کے لیے ایٹمی جنگ کی دھمکی سمیت تمام تر ذرائع استعمال کیے ہیں۔ زیادہ تر ممالک نے ان کی آواز پر کوئی خاص توجہ نہیں دی، بلکہ اس بات پر زوردیا کہ دونوں ممالک اس مسئلے کو مل جل کر حل کریں۔پاکستان کے سیاستدانوں اور عوام کو دنیا بھر کے ردعمل سے اتنی مایوسی نہیں ہوئی جتنی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے ایسے موقع پربھارتی وزیراعظم کو سب سے بڑا سول ایوارڈ دیے جانے پر ہوئی۔ تاریخی طور پر پاکستان ان دونوں ممالک کو ’’امت مسلمہ‘‘کاروح رواں سمجھتا تھا اور بحران کی صورت میں ان ہی کی طرف دیکھتا تھا۔موجودہ حالات میں بھارت، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور امریکا کی تزویراتی شراکت داری پر نظر ڈالی جائے تو اس بات کی واضح طور پر ضرورت محسوس ہو گی کہ اتحاد بین المسلمین کے تصور پر ازسر نو غور کیا جائے۔
نئی دہلی کی جانب سے کی جانے والی یکطرفہ کارروائی کے بعد اماراتی سفیر نے اسے بھارت کا ’’داخلی معاملہ‘‘ قرار دیا، جب کہ سعودی وزارت داخلہ نے بھی اس موقع پربہت محتاط بیان دیا۔کویت،عمان،بحرین اور خاص طور پر سعودی عرب اور عرب امارات کے ردعمل پر پاکستانی وزیر خارجہ نے افسوس کرتے ہوئے کہا کہ ’’مسلم امہ کے بھارت کے ساتھ معاشی مفادات وابستہ ہیں‘‘۔ شاہ محمود قریشی نے پاکستانیوں کو مشورہ دیا کہ ’’ہمیں ان سے اچھی امید نہیں رکھنی چاہیے‘‘۔ تاہم ذرائع ابلاغ اور عوام میں عرب ممالک کے ردعمل کو مایوس کن طور پر لیا گیا۔ ایک معروف انگریزی اخبار نے تو ’’بکھری ہوئی امت‘‘ کے عنوان سے اداریہ بھی شائع کیا۔
شاہ محمود قریشی کی جانب سے اپنائے جانے والا معاشی مفادات کا موقف دراصل تصویر کا ایک رخ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں خلیجی ریاستوں کے لیے بھارت ایک بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ دونوں ممالک کا بھارت کے ساتھ مشترکہ تجارتی حجم ۸۰ ؍ارب ڈالر ہے۔ لیکن ان مایوس کن اور بدلے ہوئے رویوں کی واحد وجہ صرف معاشی مفادات نہیں ہیں۔ کیوں کہ کشمیر کے معاملے پر پاکستان کے موقف کی کھل کر حمایت کرنے والے ممالک ایران، ملائیشیا اور ترکی کا بھارت کے ساتھ تجارتی حجم پاکستان کے مقابلے میں دس گنا زیادہ ہے۔پاکستان کو جس مایوس کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس کی بنیاد ی وجہ کچھ اور ہے۔ممکنہ طور پر یہ وجہ نئے بنتے ہوئے جغرافیائی و سیاسی اتحاد ہیں۔
تزویراتی شراکت دار کا نیا مثلث:
اس وقت مندرجہ بالا دو خلیجی ممالک اور امریکا کے درمیان تزویراتی شراکت داری اور تعلقات اپنے عروج پر ہیں،اس کی بڑی وجہ صدر ٹرمپ کی ذاتی دلچسپی ہے۔جمال خاشقجی کے قتل اور یمن پر حملوں پر کانگریس اور عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے، لیکن صدر ٹرمپ ان سب باتوں کے باوجود اپنے دونوں خلیجی اتحادیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ایران کے ساتھ جنگ کی صورت میں آبنائے ہرمز میں آنے والی تباہی کا اندازہ ہونے کے باوجود، دونوں خلیجی ریاستیں ایران کے حوالے سے امریکی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔
دوسری طرف بھارت اور امریکا کے تعلقات اب تزویراتی شراکت داری میں تبدیل ہو چکے ہیں۔امریکا کی طرف سے بھارت کو تجارتی معاملات میں خصوصی درجے سے نوازا گیا،مسعوداظہر کو دہشت گرد قرار دینے کے لیے ہر فورم پر امریکا نے بھارت کی حمایت،اور باہمی تجارت کے حجم کا ۱۴۲؍ارب ڈالر تک پہنچ جانا اس بات کی علامت ہے کہ بھارت امریکا تعلقات میں روز بروز بہتری آرہی ہے۔ چند معاملات میں دونوں ممالک کے درمیان کچھ مسائل بھی ہیں جیسا کہ اسلحے اور تجارتی معاملا ت میں، لیکن دونوں ممالک بات چیت سے ان کو حل کرنے کے لیے کو شاں ہیں۔
اس تکون کا تیسرا رخ یہ ہے کہ ان ممالک کے درمیان ہر شعبے میں باہمی تعلقات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ توانائی، دفاع، تجارت، ٹیکنالوجی اور ثقافت سمیت ہر سمت میں باہمی تعاون بڑھتا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر بھارتی کنسورشیم نے سعودی عرب کی کمپنی ’’آرامکو‘‘ اور متحدہ عرب امارات کی ابوظہبی ’’نیشنل آئل کمپنی‘‘ کے ساتھ معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ یہ کنسورشیم ان کمپنیوں کے ساتھ مل کر بھارت میں دنیا کی سب سے بڑی ریفائنری لگائیں گے، اس معاہدے کی مالیت ۴۴؍ارب ڈالر ہے۔ اس معاہدے کے علاوہ خلیجی ممالک کے ساتھ اسی طرح کے دیگر معاہدے بھی ہیں۔
متحدہ عرب امارات،جہاں تقریباً ۳۳ لاکھ بھارتی رہتے ہیں، بھارت کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ دونوں ممالک کے تعلقات گزشتہ برس ایک نئے دور میں داخل ہوئے جب دونوں ممالک نے تزویراتی تعلقات کی بنیاد رکھی اور دونوں ممالک نے مل کر بحری فوجی مشقیں بھی کیں۔ اس کے علاوہ ابو ظہبی کے شہزادے محمد بن زید النہیان نے مندر کی تعمیر کے لیے ایک بڑا قطعہ اراضی وقف کیا۔
اسی طرح فروری ۲۰۱۹ء میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے نئی دہلی کا دورہ کیا اور دورے کے دوران انھوں نے Strategic Partnership Council کے قیام کا اعلان کیا۔ اس کونسل کے قیام کا مقصد توانائی، دفاع اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبہ جات میں باہمی تعاون کو بڑھانا ہے، اس کونسل کے قیام کے علاوہ تقریباً ۱۰۰؍ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدوں پر بھی دستخط کیے گئے اور یہ دورہ اس نازک وقت میں کیا گیا جب سعودی ولی عہد پر جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے انگلیاں اٹھائی جا رہیں تھیں۔ایسے وقت میں بھارت نے اس حوالے سے مکمل خاموشی کی پالیسی اپنا کر اپنی حمایت کا اعلان کیا۔ نریندر مودی نے شہزادہ محمد بن سلمان کو بوسہ دے کر اور گلے لگا کر صدر ٹرمپ اور ولادی میر پوٹن کی طرح ان کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی۔
سعودی عرب،متحدہ عرب امارات اور نئی دہلی تعلقات میں ان ممالک کی باہمی گرم جوشی ہی شامل نہیں بلکہ صدر ٹرمپ کا بھی اہم کردار ہے۔اور اس کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یمن پر حملہ اور جمال خاشقجی کے قتل پر بھار ت کی خاموشی،اسی طرح دونوں خلیجی ممالک کی کشمیر کے معاملے میں سرد مہری میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ ہے ان معاملات میں امریکا کا ’’مؤقف‘‘۔ اس تزویراتی مثلث کے تینوں ممالک کی نہ تو روایات مشترک ہیں نہ تاریخ اور نہ ہی دشمن، بس جو چیز ان کو جوڑے ہوئے ہے وہ ہیں مشترکہ اور خود غرضی پر مبنی ’’مفادات‘‘ اور اسے ’’جغرافیائی سیاست‘‘ پر ایک جیسے موقف کا ہونا تقویت دیتا ہے۔
دونوں خلیجی ممالک بھارت کے ساتھ تزویراتی تعلقات رکھنے کے باوجود،جنھیں امریکا کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے، پاکستان کو ضرورت کے وقت مالی امداد فراہم کرتے رہتے ہیں۔ اس کی تازہ مثال حال ہی میں دی گئی مالی امداد سے لی جا سکتی ہے۔ اس امداد کو امت مسلمہ کے تناظر میں دیکھ کر پاکستان کو کسی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔ دونوں بادشاہتیں پاکستان کے ساتھ تاریخی تعلقات کو عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہیں، اور پاکستان کو اس بات کا اندازہ اب خود سے ہو جانا چاہیے۔
امت مسلمہ بنا امریکی اتحادیوں کے:
عمران خان انتظامیہ نے کشمیر کے مسئلے پر اپنے دیرینہ سیاسی موقف کو یکدم تبدیل کر کے اسے مذہبی رنگ یعنی ہندو مسلم کا مسئلہ بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرنا شروع کر دیا ہے۔ عمران خان اب یہ موقف اپنا رہے ہیں کہ ہندو قوم پرست حکومت کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریتی حیثیت کو تبدیل کرنا چاہتی ہے۔اور اس موقف کا ’’کلیو‘‘ ان کو بھارت کی داخلی سیاست سے ملا ہے۔منصوبہ بندی سے اپنائے جانے والے اس موقف کا مقصد پچاس منتشر اسلامی ممالک اور ان کی تنظیم (OIC) کی توجہ اور ان کا ردعمل درکا ر تھا۔تاہم ان کی طرف سے اپنی اپنی خارجہ پالیسی کے مطابق مختلف ردعمل سامنے آئے۔
ایران کے سپریم لیڈر ’’آیت اللہ خامنہ ای‘‘ نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ ’’بھارت کواس خطے(کشمیر) کے مسلمانوں کو ظلم و تشدد اور نا انصافی سے بچانے کے لیے انصاف پر مبنی پالیسی اپنانی چاہیے‘‘۔مزید برآں ایرانی پارلیمان نے بھارتی کارروائی کو روکنے کے لیے قراداد بھی منظور کی۔ دوسری طرف ترک صدر طیب ایردوان نے پاکستان کی مکمل حمایت کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ اپنی حمایت کا یقین بھی دلایا۔ ملائیشیا کے وزیر اعظم نے اقوم متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرنے پر زور دیا، جو کہ دراصل پاکستانی موقف کی حمایت ہی ہے۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جن دو ممالک ایران اور ترکی نے کھل کر بھارت کی مذمت کی ہے، ان کے امریکا سے اچھے تعلقات نہیں ہیں اور اہم بات یہ ہے کہ پاکستان نے اپنے موقف کی حمایت کرنے والے ان اسلامی ممالک کی زیادہ پذیرائی نہیں کی۔ بلکہ افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ وہی وزیر خارجہ جو امت مسلمہ کی بے حسی پر بیانات دے رہے تھے انھوں نے ان ہمدرد ممالک کا شکریہ تک ادا نہیں کیا۔پاکستان میں امت مسلمہ کے تصور کو سعودی عرب اور امارات سے جوڑا جاتا ہے، اور اسی تصور نے پاکستان کو دھوکے میں رکھا ہوا ہے۔
آنے والے وقت میں امریکا،سعودی عرب،متحدہ عرب امارات اور بھارت کے درمیان تزویراتی شراکت داری مزید مضبوط ہو گی۔پاکستان کے لیے بہتر یہی ہو گا کہ وہ بین الاقوامی اسلامی اتحاد کے لیے ملائیشیا،ایران اور ترکی کے اتحاد کی طرف غور کرے۔اور اس اتحاد کو ادارہ جاتی شکل ’’D-8 اکنامک ڈیولپمنٹ فورم‘‘ کے نام سے پہلے ہی دی جا چکی ہے۔جغرافیائی و سیاسی طورپرامت مسلمہ کا نیا تصور تشکیل پارہا ہے اور اس نئی امت مسلمہ میں امریکا کے اتحادی شامل نہیں ہو ں گے اور یہ ایک حقیقت ہے، جس کاسامنا مستقبل میں اسلام آبا د کو کرنا ہوگا۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“Why Pakistan needs a new strategy for the pending political gulf crisis”. (“nationalinterest.org”. September 15, 2019)
Leave a Reply