
دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ نئے صدر اوباما کی زیر قیادت بھی اسی جوش و خروش سے جاری ہے۔ امریکا اگر کوئی چیز مستقل جاری رکھے ہوئے ہے تو وہ پاکستان میں (اس کے نزدیک مشتبہ) اہداف پر ’’بے انسان‘‘ (unmanned) ڈرون طیاروں سے حملے ہیں۔ اس طرح پاکستانیوں کی نظر میں امریکا کی ساکھ کو اگر کوئی چیز سب سے زیادہ نقصان پہنچا رہی ہے تو وہ یہی ڈرون حملے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی کی حیثیت سے حکومت پاکستان کا بھی اہلِ وطن کی نظروں میں تاثر خراب ہوتا جا رہا ہے۔
ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حدود میں… اور وہ بھی مفروضہ دوست اور ’اتحادی‘ ملک کے علاقے میں… دور تک گھس کر اہداف مقرر کرنا جدید جنگوں کی تاریخ میں ایک ایسی پالیسی ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ پاکستان کے خودمختار علاقے میں اہداف پر بمباری کر کے امریکا دراصل اپنے اس شرمناک ریکارڈ کو بہتر بنا رہا ہے جو اس نے ویت نام جنگ کے دوران لائوس اور کمپوچیا (اب کمبوڈیا) پر شبہ کی بنیاد پر بے رحمی سے بمباری کر کے قائم کیا تھا۔
اُس موقع پر بھی ایسا کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہ تھا کہ ایک خونریز تصادم میں پھنس جانے والی دونوں کمزور ریاستیں ہند چینی کے گھنے جنگلات میں ’ہو چی منہہ ٹریل‘ کی گزر گاہ بن چکی ہیں۔ آج فاٹا کے معاملے میں امریکی انٹیلی جنس کا جو رویہ ہے، عین یہی رویہ ویت نام جنگ کے دوران بھی رہا تھا، یعنی امریکا کو شبہ تھا کہ ویت کانگ کو اسلحے کی فراہمی کا راستہ لائوس اور کمپوچیا سے ہو کر گزرتا ہے۔ ان دو بے چارے ملکوں پر جارحیت کے لیے امریکا کو ملنے والی واحد آڑ یہ تھی کہ سرد جنگ میں اس کے دو حریف …روس اور چین … امریکی حملے کے خلاف تھے اور ان کی ہمدردی ویت نام کے مزاحمتی گروپوں کے ساتھ تھی۔
پاکستان امریکا کا مخالف ملک نہیں بلکہ استعمار کا ایجنڈا آگے بڑھانے والا اتحادی ہے۔ یہ امریکا اور نیٹو سے لڑنے والے مبہم دشمنوں القاعدہ اور طالبان کو اسلحہ بھی فراہم نہیں کر رہا۔ امریکی جنگی مشین نے جیسا ویت نام میں کیا تھا ویسا ہی آج پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشت پھیلا کر کر رہی ہے اور اس مقصد کے لیے اسے کھوکھلی اور بودی انٹیلی جنس کی مدد حاصل ہے۔ چنانچہ امریکا خود ہی جج، جیوری اور جلاد کے طور پر سرگرم ہو کر قبائلی عوام کے دلوں میں تشدد اور دہشت کے بیج بو رہا ہے۔
امریکا کے عالمی ایجنڈے کو ان دو دشمنوں (القاعدہ اور طالبان) سے جو خطرات لاحق ہیں انہیں اس نے اپنی سہولت کی خاطر بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔ یہ بات کوئی معمہ نہیں رہی کہ امریکا نے اپنی سپر پاور حیثیت اور اپنی زبردست فوجی طاقت کو نہتے اور غیر منظم گروپوں سے لاحق چیلنج کو (اگر بالفرض اسے چیلنج کہا جا سکے) بین البراعظمی رُخ کیوں عطا کیا ہے۔ امریکا نے اپنی عالمی مہم میں نیٹو اور دیگر اتحادیوں آسٹریلیا وغیرہ کو ساتھ ملا کر اپنی عذرداری پیش کرنے کی کوشش کی۔
پاکستان کی سا لمیت اور خودمختاری کی یوں کھلم کھلا خلاف ورزی کرنے کے لیے امریکا کو کوئی قانونی، سیاسی یا اخلاقی بنیاد نہیں مل سکتی، چنانچہ بغیر کسی بنیاد کے ڈرون جارحیت برقرار رکھنے سے یہ بات محض مذاق بن کر رہ جاتی ہے کہ پاکستان دہشت گردی کو اکھاڑ پھینکنے کی امریکی کوششوں میں ’ساتھی‘ ہے۔
جب دو ملکوں میں کوئی سیاسی اتحاد یا مفاہمت ہوتی ہے تو ایک دوسرے کا احترام اس میں بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے موجودہ مرحلے پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ پاک امریکا تعلقات میں اس بنیادی تقاضے کو انتہائی سنگ دلی سے پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ ڈرون حملے پاکستان کے مفروضہ ’اتحادی‘ عوام کو امریکیوں کے ساتھ محبت میں مبتلا نہیں کر رہے ہیں۔ قانونی لحاظ سے دیکھا جائے تو امریکی موقف میں اتنے بڑے بڑے جھول ہیں کہ جنہیں ہمالیہ کی مٹی بھی پُر نہیں کر سکتی۔
عالمی قانون کسی ملک کو کسی ملک پر بلا اشتعال بمباری کی اجازت نہیں دیتا۔ دنیا کے کسی بھی حصے میں کوئی آزاد عدالت مبہم دشمن سے برسرپیکار کسی ملک کو یہ حق نہیں دے گی کہ وہ بے زمین دشمن … جیسا کہ القاعدہ اور طالبان ہیں … کی آڑ میں تیسرے ملک پر محض اس مشتبہ ’ثبوت‘ کی بنیاد پر بمباری کرے کہ وہاں دشمن پناہ لے رہا ہے۔ دشمن کا پیچھا کرتے کرتے کسی آزاد ملک میں جا گھسنے کی مثال ترک فوج میں مل سکتی ہے جو کردوں کے اکثریتی علاقے شمالی عراق میں وقتاً فوقتاً جا گھستی ہے۔ اس علاقے میں کردوں کی کالعدم تحریک ’پی کے کے‘ ایک عرصے سے سرگرم ہے، اور عراقی انٹیلی جنس بھی اس کی تصدیق کرتی ہے۔
ترک فوج کا یہ فعل تو کسی حد تک جائز ہے کہ وہ ایسی مقامی مزاحمت سے لگ بھگ ۲۵ برس سے برسرپیکار ہے جس نے اس کی سرزمین پر ہزاروں کو موت کے گھاٹ اتارا اور لاکھوں اس سے متاثر ہوئے، نیز اس پالیسی سے اختلاف کرنے والے لوگ بھی ہیں۔
تاہم ترکی کے مقابلے میں امریکا کے پاس جواز کا کوئی شمّہ تک نہیں ہے۔ کردوں کی تحریک کے نقصانات ترک باشندوں اور ترک سرزمین کو اٹھانے پڑ رہے ہیں۔ اس کے برعکس مزاحمت کی حالیہ لہر امریکی سرزمین پر جاری نہیں ہے اور اس لہر سے نمٹنے کا جو اختیار اسے اقوام متحدہ سے ملا ہے وہ بہت محدود ہے، اور اگر امریکا دبائو اور دھمکی سے کام نہ لیتا تو یہ اختیار اسے ہرگز نہ ملتا۔
اقوام متحدہ نے نائن الیون کے بعد امریکا کو افغانستان پر حملے کا جو اختیار دیا وہ کھلی چھٹی نہیں تھی، حالانکہ نائن الیون کرنے والے مشتبہ افراد میں کوئی افغان نہ تھا۔ اسی طرح پاکستان کا بھی اس واقعے سے کوئی لینا دینا نہ تھا چنانچہ پاکستان کو افغانوں کا ساتھی قرار دینا اور اس کے علاقوں کو بے انسان طیاروں سے میزائل اور بمباری کا نشانہ بنانا ہر گز رَوا نہیں۔
امریکا کی پالیسی یہ ہے کہ درست اور غلط کا فیصلہ کرنے کا اختیار صرف اسی کو ہے، اسی طرح خودمختار ریاستوں کو اچھے اور برے رویے کے تصدیق نامے عطا کرنا بھی اس نے اپنا حق سمجھ لیا ہے، اس کے یہ طور طریقے ناقابل قبول ہیں۔ جنگل کے قانون کا آغاز ایسے ہی طور طریقوں سے ہوا کرتا ہے، جہاں ویسے توسب برابر ہوتے ہیں لیکن چند جانور دوسروں سے زیادہ ’’برابر‘‘ ہوتے ہیں، جہاں طاقتور کو نہ صرف یہ حق ہوتا ہے کہ اپنی مرضی سے زندگی گزارے بلکہ یہ طے کرنا بھی کہ دوسروں کو کس طرح سے زندگی گزارنی چاہیے، یا مرنا چاہیے۔
مایوس کن کارکردگی کی حامل حکومت پاکستان کے پاس، عوام کے اس جائز سوال کا کوئی جواب نہیں کہ اس کے مزعومہ فرنٹ لائن فوجیوں کو ایک ’اتحادی‘ ملک کی مرضی سے کیوں ہدف بنا کر زخمی اور ہلاک کیا جا رہا ہے۔ ۱۰ ماہ میں ۴۰ سے زائد ڈرون حملے! دنیا کے کسی اور ملک کے مقابلے میں پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری کی اتنی اور ایسی تحقیر! ان حقائق نے پاکستان کے حکمراں طبقے کو حقیقتاً عجیب حالت میں لا کھڑا کیا ہے۔ ایک ایسے وقت، جب بے انسان طیارے معصوم مردوں، عورتوں اور بچوں کے پرخچے اڑا رہے ہوں، یہ طبقہ امریکیوں کے ساتھ قسمت آزمائی کی اپنی پالیسی کا ہرگز دفاع نہیں کر سکتا۔
کم سے کم الفاظ میں افسوس اسی طرح ظاہر کیا جا سکتا ہے کہ اوباما نے بش کی میراث کو نہ صرف خوب خوب سنبھالا ہے بلکہ اس میں اضافہ ہی کیا ہے۔ تاہم اوباما کے اس رویے نے نیو کانز (neocons) اور اسی قبیل کے دوسرے لوگوں میں مسرت کی لہر دوڑا دی ہے۔ ان کا اوباما سے اس کے لبرل ازم پر ہزار بار اختلاف ہو سکتا ہے لیکن بش کی دھن پر اس نے (اخلاقیات یا قانون سے ماورا) جو سُر چھیڑا ہے وہ نیو کانز کی شادمانی کے لیے کافی ہے۔
امریکی قدامت پسندوں کے اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے ۱۲ جولائی کو انتہائی اشتعال انگیز اداریہ شائع کیا جس میں پاکستان کے خلاف غیر اعلانیہ جنگ چھیڑنے پر اوباما پر دادوتحسین کے ڈونگرے برسائے گئے ہیں۔ ان الفاظ کے پیچھے اداریہ نگار کی مکروہ ہنسی صاف سنائی دیتی ہے: ’’جب حکومت پاکستان اپنے علاقے پر خودمختاری ثابت کر سکتی ہے تو وہاں پریڈیٹر [Predator] حملوں کی کوئی ضرورت نہیں، تب تک بے انسان بمبار ہی سہی‘‘۔
بڑھتی ہوئی ہلاکتوں پر آزاد میڈیا کی تشویش پر اداریے میں ناراضی ظاہر کی گئی ہے۔ حکومت پاکستان کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق پریڈیٹر حملوں میں القاعدہ کے صرف ۱۴ مبینہ ’نہایت اہم‘ افراد پکڑے گئے ہیں جبکہ اس دوران ۷۰۰ سے زائد معصوم اور بے گناہ شہری ہلاک یا زخمی ہوئے۔
حکومت پاکستان کو معصوم خرگوشوں کے خون سے کوئی غرض دکھائی نہیں دیتی، وہ شکاری کتوں کا ساتھ دینے پر تُلی معلوم ہوتی ہے۔ اس کا بظاہر شریکِ جرم ہونا پاکستانیوں کے نزدیک سب سے اہم بات ہے۔ ڈرون حملوں پر حکومت کا سکوت کانوں کے پردے پھاڑے دے رہا ہے اور اہل پاکستان کے ان خدشات کو ہوا مل رہی ہے کہ انہیں افغان جنگ کی مشینری میں بطور ایندھن استعمال کیا جا رہا ہے، وہ جنگ جس کی تپش سے پاکستان کراچی تا خیبر اور اس سے بھی پرے جھلس رہا ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘ ۱۹ جولائی ۲۰۰۹ء۔ ترجمہ: منصور احمد)
Leave a Reply