ڈرون حملوں پر انحصار کیوں؟

بش انتظامیہ کے بعد اوباما انتظامیہ بھی ڈرون حملوں پر انحصار میں اضافہ کر رہی ہے۔ انسانی حقوق کے ادارے امریکی حکومت پر دبائو بڑھا رہے ہیں کہ ڈرون کے بڑھتے ہوئے استعمال کو روکا جائے۔ معروف تھنک ٹینک ’’نیو امریکا فائونڈیشن‘‘ کے لیے مرتب کی جانے والی رپورٹ ’’دی ایئر آف دی ڈرون‘‘ میں پیٹر برگن اور کیتھرین ٹائیڈ مین نے بتایا ہے کہ ڈرون حملوں میں (جنہیں فوجی اصطلاح میں ’کومبیٹ ایئر پیٹرول‘ کہا جاتا ہے ) شہریوں کی ہلاکتیں بڑھتی جارہی ہیں۔ اور ان حملوں کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اہم عسکریت پسند رہنمائوں اور ان کے گروپوں کے کارکنوں کی ماورائے عدالت ہلاکت کی راہ بھی ہموار ہوتی ہے۔ پیٹر برگن اور کیتھرین ٹائیڈ مین نے ۱۱۴ ڈرون حملوں کا جائزہ لیا جن میں ۵۴۹ سے ۸۴۹ ؍افراد مارے گئے۔ ان میں ۳۲ فیصد شہری تھے۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سابق امریکی صدر جارج واکر بش کے دونوں ادوار میں ڈرون حملوں پر زیادہ انحصار نہیں کیا گیا اور مجموعی طور پر صرف ۴۶ ڈرون حملے کیے گئے جبکہ بارک اوباما کے پہلے ہی سال میں ۵۱ ڈرون حملے کیے گئے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ شدید نکتہ چینی کے باوجود صدر اوباما تاحال ان حملوں میں کمی کے بجائے اضافے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ رواں سال کے پہلے دو مہینوں میں ڈرون حملوں میں ۱۴۰ ؍افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

امریکی کمانڈر ڈرون پر اس لیے زیادہ انحصار کر رہے ہیں کہ اس صورت میں امریکی فوج کے جانی نقصان کا احتمال برائے نام بھی نہیں ہوتا۔ پائلٹ کے بغیر اڑنے والے یہ طیارے تباہ کر بھی دیے جائیں تو واشنگٹن میں بیٹھے ہوئے اعلیٰ ترین حکام کی نیک نامی یا کارکردگی پر کوئی حرف نہیں آتا۔ اوباما انتظامیہ کے لیے سب سے بڑھ کر اہم یہ ہے کہ افغانستان اور عراق میں متعین فوجیوں کی مزید لاشیں گھر نہ پہنچیں۔ افغانستان اور عراق سے تابوت امریکا پہنچتے ہیں تو نہ صرف فوج کی ساکھ بری طرح متاثر ہوتی ہے بلکہ امریکی حکومت کی مشکلات بھی بڑھ جاتی ہیں۔ جانی نقصان میں اضافے کا ایک ہی مطلب ہوگا‘ اوباما کے دوبارہ انتخاب کی راہ میں ایک اہم رکاوٹ کی تشکیل۔

امریکی رائے عامہ اس بات پر سخت نالاں ہے کہ حکومت نے افغانستان اور عراق میں فوجیوں کو ایک ایسی جنگ میں پھنسا رکھا ہے جس کا نتیجہ کسی بھی طور امریکا کے حق میں نہیں نکل سکتا۔ اوباما انتظامیہ کی کوشش ہے کہ امریکی افواج افغانستان سے مزید کسی بڑے جانی نقصان کے نکل جائیں۔ ملک کے مختلف علاقوں میں امریکی اور نیٹو افواج نے کارروائیاں ضرور شروع کی ہیں تاہم ان کا بنیادی مقصد یہی نظر آتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح وقت کو قتل کیا جائے! امریکی افواج بیشتر معاملات میں زمینی کارروائی سے گریز کر رہی ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ افغانستان سے انخلا کی ڈیڈ لائن کے اعلان سے طالبان نے حکمت عملی تبدیل کرلی ہے۔ طالبان جانتے ہیں کہ امریکیوں کو جانی نقصان سے بچنے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ کانگریس میں حکومت کو زیادہ مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

ایسے میں طالبان کے لیے وہ مسائل نہیں رہے جو چند سال قبل تھے۔ ایسے میں ڈرون حملوں ہی کو ترجیح دی جاتی رہے گی۔ ہلمند میں زمینی کارروائی کے دوران امریکی اور نیٹو افواج کو شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ طالبان نے مرجاء اور ناد علی میں قدم قدم پر بارودی سرنگیں اور گھریلو ساختہ بم بچھا رکھے ہیں۔ چند سو طالبان کو زیر کرنے کے لیے اب تک ۱۵؍ہزار امریکی، نیٹو اور افغان فوجی ہلمند کے آپریشن مشترک میں شریک ہوچکے ہیں۔ امریکی فوج اس نوعیت کی زمینی کارروائی سے بچنے کے لیے ڈرون کا سہارا لے رہی ہے۔

امریکی فوج کے کمانڈر ڈرون کے ذریعے صرف دشمنوں کو ہلاک کرنے کا کام ہی نہیں لے رہے بلکہ ان کے ٹھکانوں اور علاقوں کے بارے میں اہم معلومات بھی حاصل کر رہے ہیں۔ دوسری جانب ڈرون کے ذریعے فضائی سروے کیا جارہا ہے جو پوست کی کاشت والے علاقوں کی نشاندہی میں خاصا معاون ثابت ہو رہا ہے۔ کمانڈر چوبیس گھنٹے الرٹ اور باخبر رہنا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ڈرون کا استعمال بے حد مفید ثابت ہو رہا ہے۔

(بشکریہ: روزنامہ ’’ٹیلی گراف‘‘ لندن۔ ۴ مارچ۲۰۱۰ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*