
ایسا کبھی کبھار ہی ہوتا ہے کہ امریکا کے لیے کوئی معاملہ انتہائی اہم ہو، وائٹ ہاؤس کے لیے انا کا مسئلہ بن چکا ہو اور سعودی عرب و متحدہ عرب امارات نے کھل کر مخالفت کی ہو۔ مصر کے معاملے میں ایسا ہی ہوا ہے۔ جولائی میں جب فوج نے منتخب صدر محمد مرسی کو برطرف کرکے اقتدار پر قبضہ کیا، تب دنیا بھر میں اس عمل کی مخالفت کی گئی اور امریکا کو بھی مصر کی فوجی حکومت کی مخالفت پر مجبور ہونا پڑا۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے مصر کی فوجی حکومت کے لیے ۱۲؍ارب ڈالر کے امدادی پیکیج کا اعلان کردیا۔ یہ پیکیج امریکا اور یورپ کے مجموعی امدادی پیکیج سے چار گنا تھا۔ اس پر حیرت تو ہونی ہی تھی۔ دوسری طرف سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی نیت بھی واضح تھی۔ دونوں ممالک نہیں چاہتے تھے کہ مصر کی تاریخ میں پہلی منتخب حکومت تسلسل سے ہمکنار رہے۔ وہ چاہتے تھے کہ اخوان المسلمون کی حکومت ختم ہو اور معاملات اُسی طرح چلتے رہیں، جس طرح پہلے چلائے جاتے تھے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ پورا مشرق وسطیٰ جب بے قابو ہوتا جارہا ہے تو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو جمہوریت کچلنے کی راہ پر کیوں گامزن ہونا پڑا ہے؟ یہ دونوں ممالک بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں مغرب کے لیے ناقابل قبول ہونے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں؟
آئیے، سعودی عرب پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ سعودی حکومت قومی پیداوار کا ۱ء۹ فیصد سے زائد دفاع پر خرچ کرتی ہے۔ امریکا اور یورپ سے جدید ترین اسلحہ خریدا جاتا ہے۔ سعودی عرب کی فوج ۲ لاکھ نفوس پر مشتمل اور خاصی تحرک پذیر ہے مگر اس کے باوجود سعودی عرب نے موثر دفاع یقینی بنانے کے لیے اپنی فوج سے کہیں بڑھ کر علاقائی اور بین الاقوامی اتحادوں پر انحصار کیا ہے۔ ۱۹۴۵ء میں اس وقت کے امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ نے طیارہ بردار جہاز یو ایس ایس کوئنسی پر اس وقت کے سعودی حکمران ابن سعود سے ملاقات کی تھی۔ تب سے اب تک امریکا دفاعی امور میں سعودی عرب کا سب سے قریبی حلیف رہا ہے۔ اگر کبھی امریکا نے سعودی عرب مفادات کے خلاف بھی کوئی موقف اختیار کیا تب بھی سعودی حکمرانوں نے امریکا سے تعلق ترک کرنا بہتر نہ سمجھا۔
امریکی مفادات کے اعتبار سے مصر کوئی خاص ملک نہیں۔ مصر کے جرنیل سعودی حکمرانوں سے غیر معمولی تعلق کے حامل رہے ہیں۔ سعودی عرب کے لیے کسی بھی حد سے گزرنے میں مصر کے جرنیلوں نے کبھی تذبذب کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ۱۹۸۰ء کے عشرے میں سابق سوویت یونین کے خلاف مجاہدین کو صف آرا کرنے کے لیے جب سعودی عرب کو ہتھیاروں کی ضرورت پڑی تو مصر کے فوجی حکمرانوں نے طیارے بھر کر اسلحہ بھیجنے میں ذرا دیر نہیں لگائی۔ مصر کے حکمرانوں نے سعودی شاہی خاندان کے لیے جو خدمات انجام دی ہیں، اُن کی ایک طویل داستان ہے۔ ۲۰۰۳ء میں اس وقت کے مصری صدر اور فضائیہ کے سابق سربراہ حسنی مبارک نے تب کے سعودی ولی عہد عبداللہ بن عبدالعزیز کے قتل کی سازش ناکام بنائی۔ یہ سازش لیبیا کے اس وقت کے حکمران کرنل معمر قذافی نے تیار کی تھی۔ عبداللہ بن عبدالعزیز سعودی عرب کے ولی عہد ہی نہیں، در پردہ سربراہِ مملکت بھی تھے۔
مجھے ایک ذریعے نے بتایا کہ سعودی فرماں روا عبداللہ بن عبدالعزیز اب بھی مصریوں کے احسان مند ہیں اور یہی سبب ہے کہ مصر سے سعودی عرب کے تعلقات خالص ذاتی سطح کے ہیں۔
مصر کے مستقبل کے حوالے سے سعودی حکمراں خاندان خاصا فکر مند ہے۔ سعودی عرب سمجھتا ہے کہ مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت چل نہیں سکتی کیونکہ اخوان میں اتنی طاقت نہیں کہ تمام معاملات کو بہتر طریقے سے چلاسکے۔ ساتھ ہی وہ اس خوف میں بھی مبتلا ہے کہ مصر بھی کہیں لیبیا کی طرح شدید انتشار کا شکار نہ ہوجائے۔ کرنل معمر قذافی کے قتل کے بعد لیبیا میں اب تک استحکام پیدا نہیں ہوسکا ہے۔ سعودی فرماں روا کا خیال ہے کہ مصر میں صرف ایک ہی ادارہ مکمل توانا بچا ہے جو پورے ملک کو کنٹرول کرسکتا ہے۔ یہ ادارہ فوج ہے، اس لیے حکومت بھی فوج ہی کو کرنی چاہیے۔
سعودی عرب نے مخصوص سیاسی نظریات کے باعث اخوان المسلمون کو کبھی قبول نہیں کیا۔ شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے والد عبدالعزیز بن سعود نے جب ۱۹۳۲ء میں اقتدار قائم کیا تب سعودی سرزمین پر پائے جانے والے وہابی فرقے کے عمائدین سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ مساجد، ثقافت اور تعلیم پر ان کا کنٹرول ہوگا اور اس کے جواب میں وہ ملک کے سیاسی معاملات مثلاً شاہی خاندان کے تسلسل، خارجہ پالیسی اور فوجی امور میں مداخلت سے باز رہیں گے۔ یہ معاہدہ کم و بیش ۸۰ سال سے رو بہ عمل ہے۔
سعودی عرب نے مذہب اور سیاست کو الگ کردیا ہے جبکہ اخوان المسلمون کا بنیادی تصور یا نظریہ یہ ہے کہ مذہب اور سیاست الگ الگ چیزیں نہیں ہیں بلکہ سبھی کچھ مذہب کے دائرے میں آتا ہے۔ اخوان المسلمون کے مرکزی قائدین سیاسی جدوجہد اور اقتدار کے حصول پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کی نظر میں سعودی عرب کے حکمران اقتدار پر قابض ہیں۔ ایسے میں یہ بات حیرت انگیز نہیں لگتی کہ سعودی عرب کے حکمرانوں نے اخوان المسلمون کے خلاف بھرپور کارروائی کے لیے مصر کے جرنیلوں کی دل کھول کر مالی معاونت کی۔
مصر میں جب عوامی بیداری کی لہر اٹھی اور اخوان المسلمون تیزی سے ابھر کر سامنے آئی تب سعودی حکمرانوں نے یہ پورا معاملہ خاموشی سے دیکھا۔ انہوں نے اخوان کو جمہوری طریقے سے منتخب ہوکر حکومت بناتے بھی دیکھا۔ اس مرحلے پر ان کی طرف سے کوئی مداخلت نہیں ہوئی۔ وہ اگلے مرحلے کا انتظار کر رہے تھے۔ پھر جب اخوان کی حکومت کا تختہ پلٹ دیا گیا تب سعودی حکمران سامنے آئے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ سعودی شاہی خاندان کو سب سے زیادہ خطرہ اخوان المسلمون سے ہے۔ وہ شیعوں سے بڑھ کر اخوان المسلمون کو خطرناک گردانتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر اخوان المسلمون کی مقبولیت بڑھی ہے۔ سعودی عرب کو اس سے زیادہ خطرناک بات یہ لگی کہ اس کی حدود میں کم و بیش ۲۰ لاکھ مصری کام کرتے ہیں، جو انتہائی افلاس میں زندگی بسر کرتے رہے ہیں۔ ان غریبوں کے لیے اخوان المسلمون کے پیغام میں خاصی کشش پائی جاسکتی ہے۔ اس سے بھی زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ سعودی عرب میں سکونت پذیر مصریوں کی واضح اکثریت مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے علاقے حجاز میں ہے۔ اب تک اس امر کے آثار نہیں کہ مسلمانوں کے دو مقدس ترین شہروں کا کنٹرول سعودی شاہی خاندان کے ہاتھ سے نکل رہا ہے یا نکل سکتا ہے مگر سعودی حکمرانوں کی نظر مستقبل پر ہے۔ وہ کسی بھی تبدیلی کے امکان کو نظر انداز کرنے کے لیے تیار نہیں۔
(رابرٹ بیئر، مشرق وسطیٰ کے لیے سی آئی اے کے سابق کیس آفیسر ہیں۔ انہوں نے کئی امریکی اخبار و جرائد کے لیے لکھا ہے، جن میں ’’ٹائم‘‘، ’’وینیٹی فیئر‘‘ اور ’’وال اسٹریٹ جرنل‘‘ نمایاں ہیں۔)
(“Why Saudi Arabia is Helping Crush the Muslim Brotherhood”… “New Republic”. Aug. 26, 2013)
Leave a Reply