
سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل نے وزارتی فورم ’’فرینڈز آف سیریا‘‘ کے اجلاس کو شام کے کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق امریکا اور روس کے مشترکہ اقدام پر حملے کے لیے استعمال کیا۔ ان کا زور اس بات پر تھا کہ روس اور امریکا کے مشترکہ اقدام کو اقوامِ متحدہ کے منشور کے باب نمبر سات کے تحت سلامتی کونسل کی قرارداد کا بھی سہارا دیا جانا چاہیے تھا تاکہ کیمیائی ہتھیار تلف یا عالمی برادری کے حوالے کرنے کے حوالے سے بشارالاسد انتظامیہ پر دباؤ میں اضافہ ہوتا۔ ان کا یہ بھی استدلال تھا کہ بظاہر بشارالاسد امریکا اور روس کے مشترکہ اقدام کو اپنے حق میں استعمال کرتے ہوئے وقت لے رہا ہے، جس کے نتیجے میں ریاستی مشینری کو منحرفین کے خلاف مزید کارروائیوں اور ان کا خون مزید بہانے کا موقع مل جائے گا۔
شہزادہ سعود الفیصل نے جنیوا پروسیس کے ذریعے بشارالاسد انتظامیہ کو جائز حیثیت دلانے کی کوشش سے بھی خبردار کیا۔ انہوں نے اس نکتے پر زور دیا کہ شام میں حکومت کے جبر کے خلاف سینہ سپر ہونے والوں کو مزید سیاسی، معاشی اور عسکری امداد فراہم کی جائے تاکہ وہ مضبوط ہوکر بشار انتظامیہ کو سیاسی حل کی طرف جانے پر مجبور کرسکیں۔
امریکا اور روس نے شام کے کیمیائی ہتھیاروں سے نمٹنے کے معاملے میں جو رویہ اپنایا ہے، اس سے سعودی عرب ناراض ہے۔ دوسری طرف سعودی قیادت اس بات پر بھی سخت برہم دکھائی دیتی ہے کہ امریکی صدر براک اوباما ایران کے معاملے میں کچھ زیادہ جذباتی رویہ اپنا رہے ہیں اور اس سے تعلقات بہتر بنانے کے معاملے میں خاصے آگے جارہے ہیں۔ اس صورتِ حال میں یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ سعودی عرب شام میں ریاستی مشینری کے خلاف نبرد آزما ہونے والوں کی مدد کرے گا، اور اس معاملے میں ممکنہ طور پر وہ اعتدال پسندوں اور شدت پسندوں کے درمیان فرق کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرے گا۔ ایسے میں سوچا جاسکتا ہے کہ شام میں حال ہی میں قائم ہونے والے اسلامک الائنس کو سعودی حکومت کی حمایت اور مدد حاصل رہی ہوگی۔ ترکی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ شام کے کردوں کو کمزور رکھنے والے گروپوں کو بھرپور معاونت فراہم کرتا ہے۔
سعودی عرب کے سرکاری اخبار ’’الشرق الاوسط‘‘ میں العربیہ ٹی وی کے جنرل منیجر عبد الرحمن الراشد کا ایک مضمون شائع ہوا ہے، جس میں اوباما انتظامیہ پر شدید نکتہ چینی کی گئی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اگر صدر اوباما نے ایرانی صدر حسن روحانی کی مسکراہٹ اور ایرانی قیادت کے میٹھے الفاظ پر بھروسا کرلیا تو وہ ایک ایسی غلطی کریں گے، جس کا ازالہ کسی بھی طور نہیں کیا جاسکے گا۔
ایسا لگتا ہے کہ حالات اور واقعات نے سعودی عرب کو حیرت زدہ کردیا ہے۔ انہیں شاید یہ یقین نہیں تھا کہ شام کے معاملے میں امریکا اور روس بہت حد تک ایک ہوجائیں گے یعنی اختلافات بھلاکر مشترکہ اقدام تک پہنچ جائیں گے۔ دوسری طرف سعودی قیادت کو ایران کے معاملے میں امریکی صدر کی غیر معمولی بے تابی سے بھی پریشانی اور حیرت ہے۔ اس نے سوچا نہیں تھا کہ امریکا اور ایران کے صدور یوں براہِ راست رابطے تک پہنچ جائیں گے۔
سعودی عرب کی قیادت امریکا سے غیر معمولی تعلقات کی حامل ہے اور اس امر کا امکان خاصا قوی ہے کہ وہ دباؤ ڈال کر اوباما انتظامیہ کو ایران سے تعلقات خوشگوار بنانے سے باز رکھنے کی کوشش کرے گی۔ مگر کیا ایسی کوئی بھی کوشش کامیابی سے ہمکنار ہوگی؟
امریکی صدر بخوبی جانتے ہیں کہ اس نوعیت کے کسی بھی دباؤ سے کس طور نمٹا جاسکتا ہے۔ ماہرین اور مبصرین کا خیال یہی ہے کہ ایران کے مسئلے پر سعودی عرب کی طرف سے پڑنے والے دباؤ کو صدر اوباما عمدگی سے ختم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اس وقت انہیں سعودی عرب سے زیادہ اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کو رام کرنے کی فکر لاحق ہوگی۔
ایران کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاکر صدر اوباما نے ایسا قدم اٹھایا ہے، جو آگے چل کر امریکا کے لیے زیادہ سودمند ثابت ہوگا۔ انہیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ اگر مشرق وسطیٰ میں امریکا کو اپنی موجودگی کا معیار بہتر بنانا ہے اور نئے سرے سے اچھی ابتدا کرنی ہے تو ایران سے تعلقات بہتر بنائے بغیر چارہ نہیں۔
مگر خیر، امریکا کے لیے سعودی عرب کو نظر انداز کرنا بھی آسان اور ممکن نہیں۔ سعودی حکومت نے امریکا کے سرکاری بونڈز میں کم و بیش ۱۶۰۰؍ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ اگر امریکی پالیسیاں موافق نہیں رہتیں تو وہ یقینی طور پر سرمایہ کاری ختم کرنے کے بارے میں سوچ سکتی ہے۔
شام میں سعودی عرب جو کچھ بھی کرنا چاہتا ہے، اس سے امریکا کو کچھ خاص غرض یقیناً نہیں ہوگی۔ وہ ممکنہ طور پر آنکھیں موند سکتا ہے۔ شام میں امریکا کو کچھ بھی داؤ پر نہیں۔ اور ویسے بھی خانہ جنگی کے نتیجے میں یہ ملک اس قدر کمزور ہوچکا ہے کہ اب اس سے اسرائیل کو کچھ خاص خطرات لاحق نہیں رہے۔ اگر شام میں سلفی عسکریت پسندوں نے سعودی عرب کی مدد سے لڑتے ہوئے روسیوں کے خلاف محاذ کھولا تو امریکا اپنے منحرف سنوڈن کے حوالے سے روس سے بدلہ لینے کی خاطر خاموش یا غیر جانبدار رہے گا۔ سعودی حکومت نے شمالی روس سے تعلق رکھنے والے بہت سے سلفی عسکریت پسندوں کو شام میں حکومت کے خلاف بھرتی کر رکھا ہے۔
اب سوال یہ رہتا ہے کہ ایران کی حکمتِ عملی کیا ہے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ان تمام معاملات کو ایران صرف اپنے مفاد کے نقطۂ نظر سے دیکھ رہا ہوگا۔ ایرانی قیادت مغرب سے تعلقات بہتر بناکر بہت کچھ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ایران نے اپنی سوچ کو کبھی محدود نہیں ہونے دیا۔ وہ اب بھی چاہتا ہے کہ عالمی سطح پر کوئی اہم کردار ادا کرے۔ بہر حال، ایران کسی بھی حالت میں سعودی عرب کی طرح کمتر حصہ لینے پر راضی نہ ہوگا۔ وہ اپنی تہذیب کی طرح اپنے معاشرے کو بھی سعودی معاشرے سے برتر سمجھتا ہے۔
سعودی عرب کی پریشانی کا سبب کچھ اور ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں کسی بھی نئے سیٹ اپ کا قیام سعودی عرب کو کہاں چھوڑے گا؟ امریکا نے اسے اب تک اپنے حلیفوں کی پہلی صف میں رکھا ہے۔ سعودی شاہی خاندان اب تک اقتدار میں ہے تو صرف اس لیے کہ اس کی پشت پر امریکا موجود ہے۔ اب اگر امریکا نے ہاتھ کھینچ لیا تو کیا ہوگا؟
الشرق الاوسط کے جس مضمون کا ہم نے حوالہ دیا ہے اس میں مصر کی صورتِ حال کے حوالے سے صدر اوباما کی سوچ کا بھی تجزیہ کیا گیا ہے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ عرب دنیا میں عوامی شعور کی بیداری کے حوالے سے امریکا اور ایران کے خیالات اور موقف میں خاصی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
ِِِِِِِِ
(“Why Saudis are upset with Obama”… “rediff.com”. Oct. 1, 2013)
Leave a Reply