چند امریکی فلم سازوں نے جو گستاخانہ فلم بنائی ہے، اس پر اسلامی دنیا میں شدید احتجاج کیا گیا ہے۔ لیبیا میں امریکی سفیر کو قتل بھی کردیا گیا۔ اس حوالے سے امریکی سیاست دان اور میڈیا نے غیر عاقلانہ اور بے سر و پا تبصرے کیے ہیں۔ ایک بار پھر یہ سوال پورے زور و شور سے اٹھایا گیا ہے کہ ہم امریکیوں سے اسلامی دنیا کے لوگ اس قدر نفرت کیوں کرتے ہیں؟ دنیا بھر میں امریکا سے نفرت کرنے والے مسلمانوں کی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نائن الیون سے ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔
میڈیا کے ذریعے امریکی قیادت نے عام امریکیوں کے ذہن میں یہ بات ٹھونسنے کی کوشش کی ہے کہ مسلمان ہم امریکیوں کی ثقافت اور طرزِ زندگی سے نفرت اور ہماری ترقی سے حسد کرتے ہیں۔ اور یہ کہ وہ ہمارے سیاسی آئیڈیلز کو بھی اپنانا نہیں چاہتے۔ ایسا نہیں ہے۔ امریکیوں سے نفرت ثقافت یا طرزِ زندگی کے فرق کی بنیاد پر نہیں۔ امریکی قیادت نے چھ عشروں کے دوران مسلم دنیا کے ساتھ جو کچھ کیا ہے اب اس کا نتیجہ سامنے آ رہا ہے۔ مسلم دنیا میں منتخب حکومتوں کو گرانے اور آمریت کو فروغ دینے میں امریکی پالیسیوں کا مرکزی کردار رہا ہے۔ اپنی مرضی کی کٹھ پتلی حکومتیں قائم کرنے کے چکر میں امریکا نے اسلامی دنیا میں کئی معاشروں کو شدید بگاڑ سے دوچار کیا ہے۔ گستاخانہ فلم پر مسلمانوں نے جس اشتعال کا مظاہرہ کیا وہ خاصا جنونی تھا۔ ایک بار پھر یہ سوال اٹھایا جانے لگا ہے کہ مسلمان تشدد پسند کیوں ہیں؟ امریکی قیادت نے چھ عشروں کے دوران مسلم دنیا کے ساتھ جو کچھ کیا ہے اس کا یہی نتیجہ برآمد ہونا تھا۔
امریکا جس مرحلے سے گزر رہا ہے، اس مرحلے سے برطانیہ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے وقت گزر رہا تھا۔ دو صدیاں برطانیہ نے کئی خطوں پر حکومت کی۔ مگر جب طاقت جواب دے گئی تو برطانیہ کے لیے مختلف خطوں پر تسلط برقرار رکھنا ممکن نہ رہا۔ دوسری جنگ عظیم کے وقت برطانیہ برائے نام سلطنت رہ گیا تھا۔ تب امریکا کو استعماری قوت بننے کا شوق چڑھا۔ ساری دنیا کو اپنے ٹھینگے کے نیچے رکھنے کی برطانوی عادت امریکا نے بھی اپنائی۔ سب کو طاقت کے ذریعے فرماں بردار بنانے کی روش پر امریکی قیادت بھی گامزن ہوئی۔
میں نے ۲۰۰۸ء میں اپنی کتاب ’’امریکن راج‘‘ میں یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ امریکا اسلامی دنیا کے حوالے سے غلط پالیسیوں پر عمل پیرا رہا ہے، اور اب بھی بہت کچھ ایسا کیا جاسکتا ہے جس سے دونوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت تبدیل ہوسکتی ہے۔ امریکا نے چھ عشروں کے دوران اسلامی دنیا کے حوالے سے جو حکمت عملی اپنائی ہے اس نے صرف بگاڑ پیدا کیا ہے۔ اب کچھ ایسا کرنا ہے جو معاملات کو درست کرے۔ مگر ایسا کچھ نہیں کیا جارہا۔ برطانیہ نے ہندوستان پر لڑاؤ اور حکومت کرو کے اصول کے تحت راج کیا۔ ہندوستان میں چھوٹی چھوٹی خود مختار ریاستوں کو فروغ دیا گیا۔ سب نے اپنی اپنی چھوٹی فوج بنائی۔ اور پھر یہ چھوٹی ریاستیں آپس میں دست بہ گریباں ہوتی رہیں۔ ۱۸۵۷ء میں اس فوج نے بغاوت کی جو برطانیہ نے ہندوستان کو کنٹرول کرنے کے لیے مقامی طور پر تیار کی تھی۔
امریکا نے افغانستان، عراق، لیبیا، صومالیہ، یمن اور دیگر مسلم ممالک میں جو خرابیاں پیدا کی ہیں اب ان کے نتائج بھگتنے کا وقت بھی قریب دکھائی دے رہا ہے۔ فلسطین کے مسئلے کو چھ عشروں تک نظر انداز کرکے امریکا نے اسرائیل کو پورا تحفظ اور سہولتیں فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے نتیجے میں نفرت بڑھی ہے۔ متعدد ممالک پر اپنی مرضی کی حکومتیں تھوپنے کے لیے امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے نے کئی منتخب حکومتیں گرائیں اور آمروں کی حوصلہ افزائی کی۔ مگر اب امریکا کو معاملات بہتر بنانے کے لیے بہت کچھ کرنا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ دیر ہو جائے۔
میری کتاب کو کسی امریکی پبلشر نے ہاتھ نہیں لگایا۔ سبب اس کا یہ تھا کہ اس میں امریکی پالیسیوں پر شدید تنقید کی گئی تھی اور حکمت عملی کی خامیوں کی نشاندہی کرکے اصلاح کی راہ پر گامزن ہونے پر زور دیا گیا تھا۔ یہ کتاب کینیڈا اور یورپ سے شائع ہوئی۔
دسمبر ۲۰۱۰ء میں عرب دنیا میں تبدیلی کی لہر شروع ہوئی۔ تیونس، مصر، لیبیا، یمن اور شام میں لوگ سڑکوں پر آگئے۔ تیونس میں زین العابدین بن علی کی حکومت کا بوریا بستر لپیٹ دیا گیا۔ اس کے بعد مصر میں حسنی مبارک کے تیس سالہ اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ امریکا نے ان ممالک میں چالیس سال سے عوام کے جذبات کچل کر رکھے تھے اور اسرائیل کے مفادات کو تحفظ فراہم کیا تھا۔
مسلم دنیا میں امریکا سے نفرت بڑھتی جارہی ہے۔ اگر مسلمان امریکا کے خلاف ہیں تو اس کے سیاسی نظریات اور طرزِ زندگی کی بنیاد پر نہیں۔ امریکی قیادت نے مسلم معاشروں کو دوسری جنگ عظیم کے بعد سے شدید دباؤ میں رکھا ہے۔ اِس دباؤ کے نتیجے میں اسلامی دنیا میں یہ تاثر عام ہے کہ امریکا صرف بگاڑ پیدا کرنا چاہتا ہے اور اسلامی معاشروں کو کسی بھی حال میں ترقی سے ہمکنار دیکھنے کے لیے تیار نہیں۔ امریکا سے نفرت کا اظہار دہشت گردی ہے، نہ مذہبی انتہا پسندی۔ یہ سب کچھ تو امریکی پالیسیوں کے خلاف ردعمل ہے۔ امریکی قیادت نے چھ عشروں تک پوری کوشش کی ہے کہ مسلم معاشروں میں کوئی حقیقی منتخب حکومت کام نہ کرے، ملک کو ترقی نہ دے اور کسی بھی اعتبار سے مغربی اور بالخصوص امریکی مفادات کے خلاف نہ جائے۔
میں نے ’’امریکن راج‘‘ میں یہ بات پوری صراحت کے ساتھ بیان کی ہے کہ مسلم دنیا میں امریکا کے خلاف جو کچھ ہو رہا ہے، وہ انتہا پسندی یا دہشت گردی نہیں بلکہ پالیسیوں کا رد عمل ہے۔ پہلے برطانیہ نے دو صدیوں تک مسلم معاشروں کو تاراج کیا، ان کے وسائل پر قبضہ کیا اور ان میں سیاسی استحکام پیدا نہیں ہونے دیا۔ اور اب امریکا مسلم معاشروں کو غیر مستحکم رکھنے پر تُلا ہوا ہے۔ مسلم معاشرے ڈھائی صدیوں سے مغرب کے خلاف صف آرا رہے ہیں۔ مسلم دنیا میں تیل اور دیگر معدنیات پر قبضہ کرنے کی مغربی کوششوں کے خلاف ردعمل کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔ کرپٹ، نا اہل اور ضمیر فروش حکمرانوں کے ذریعے اپنی مرضی کے فیصلے کرائے جاتے ہیں۔ پاکستان اس کی ایک واضح مثال ہے جہاں ضمیر فروش حکمرانوں نے ہمیشہ مغربی مفادات کے تابع فیصلے کیے ہیں۔
برطانیہ نے ہندوستان پر راج کرتے رہنے کے لیے جو فوج تیار کی تھی، اس نے ۱۸۵۷ء میں بغاوت کی۔ اب ایسا لگتا ہے کہ امریکا نے افغانستان پر حکومت کرتے رہنے کے لیے جو مقامی فوج تیار کی تھی وہ بغاوت پر تُلی بیٹھی ہے۔ افغانستان کو قابو میں رکھنے اور خطے پر کنٹرول بہتر بنانے کے لیے امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا بہانہ تراش کر حملہ کیا۔ افغانستان کے غیر پشتون عناصر پر مشتمل فوج تیار کی جو پشتون آبادی اور بالخصوص طالبان کے زیر اثر علاقوں کے خلاف لڑتی رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں وہاں لسانی اور فرقہ وارانہ تقسیم بڑھی ہے۔ یہ وہی برطانوی حکمت عملی ہے جس کے نتیجے میں مخالفین کو آپس میں لڑاکر حکومت کی جاتی تھی۔
اگر اب بھی امریکا کے خلاف مسلم دنیا میں شدید نفرت پائی جاتی ہے تو حیرت کیسی؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ صدارتی امیدوار مٹ رومنی نے مسلم ممالک کے خلاف واضح طور پر مخاصمانہ رویہ اختیار کیا ہے؟ ایوان نمائندگان کے سابق سربراہ نیوٹ گنگرچ، مائیکل بیچ مین اور رک سینٹوریم نے کھل کر اس بات کی وکالت کی ہے کہ مسلم دنیا سے تعلقات کشیدہ رکھے جائیں۔ فلسطینی کاز کا امریکا نے اب تک گلا دبا رکھا ہے۔ فاکس نیوز، وال اسٹریٹ جرنل اور دیگر اخبارات و جرائد اب تک مسلم دنیا کے خلاف زہر اگل رہے ہیں۔
سی آئی اے نے پاکستان، افغانستان، عراق، صومالیہ اور کئی دوسرے اسلامی ممالک میں خرابیاں پیدا کیں۔ اب مالی کی باری ہے۔ اس کے لیے مشرقی اور شمال مشرقی افریقا میں امریکی فوجی پہنچ چکے ہیں۔ سوڈان کے دو ٹکڑے کیے جاچکے ہیں۔ امریکی سرپرستی میں قائم عیسائی ریاست (جنوبی سوڈان) تیل کی دولت سے مالا مال ہے۔ امریکی پالیسیوں کے نتیجے میں کئی مسلم معاشرے تاراج ہوئے ہیں۔ ان پالیسیوں کی کوکھ سے ہویدا ہونے والی خرابیوں کے باعث ۹۰ لاکھ فلسطینی، ۲۰ لاکھ افغان اور ۲۰ لاکھ عراقی پناہ گزین کی حیثیت سے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اور اب شام کو تباہی کے دہانے تک پہنچادیا گیا ہے۔ سعودی عرب اور الجزائر میں امریکا کی مرضی کی حکومتیں قائم ہیں۔ وسط ایشیا میں بھی امریکا کی مرضی کے حکمران ہیں۔ ان ممالک میں آمریت عام ہے۔
اسلامی دنیا میں امریکا سے نفرت کے درجنوں اسباب ہیں۔ کروڑوں نوجوان بیروزگار ہیں۔ معیشت کا بیڑا غرق کردیا گیا ہے۔ سکیورٹی بنیادی مسئلہ ہے۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کو فروغ دے کر معاشروں کو شدید عدم توازن سے دوچار کردیا گیا ہے۔ منتخب اور مقبول حکومتوں کو مختلف اقدامات کے ذریعے غیر مستحکم کرنا اور پھر اپنی مرضی کے حکمرانوں کو مسلط کرنا امریکی پالیسیوں کا حصہ رہا ہے۔ پاکستان میں بھی امریکا نے اپنی مرضی کے حکمران مسلط کر رکھے ہیں۔ تمام اہم فیصلوں پر امریکا نواز حکمران اور حکام اثر انداز ہوتے ہیں۔ امریکا کی مرضی سے متعین ہونے والے حکام اور سیاست دان امریکا ہی کے مفاد میں فیصلے کرتے ہیں۔
اسلامی دنیا میں جس قدر خرابیاں پائی جاتی ہیں، ان تمام کے لیے تو نہیں مگر بیشتر کے لیے امریکا ذمہ دار ہے۔ ان خرابیوں کو دور کرنے اور اسلامی دنیا سے تعلقات بہتر بنانے پر امریکی قیادت کو خاص توجہ دینا ہوگی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے وقت برطانوی سلطنت کا جو حال تھا وہی حال اب امریکی سلطنت کا ہے۔ اس کا راج خطرے میں ہے۔ اور کیوں نہ ہو؟ برطانیہ کی طرح امریکا کے پاؤں میں مٹی ہی لگی ہوئی ہے!
(“Why the American Raj is Under Seige?”… “Ericmargolis.com”. Sep 28th, 2012)
Leave a Reply