
ایران اور چھ بڑی طاقتوں کے درمیان طے پانے والے معاہدے سے خطے میں وہ ممالک ضرور پریشان ہیں جن پر اس معاہدے کے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور انہوں نے اپنا ردعمل ظاہر کرنے میں تاخیر بھی نہیں کی ہے۔ سعودی عرب اور اسرائیل نے اس معاہدے کو خطے کے لیے خطرناک قرار دیا ہے۔ اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ تاریخی غلطی ہے۔ سعودی عرب کا ردعمل خاصا محتاط رہا ہے۔ اس معاہدے کا خاصی احتیاط سے خیر مقدم کرتے ہوئے سعودی عرب نے ایسا بیان جاری کیا ہے، جس میں ہر لفظ بہت احتیاط سے منتخب کیا گیا ہے اور جس کا مجموعی تاثر یہ ہے کہ معاہدہ تو ہوگیا مگر مغرب کی جانب سے ایران کو دوبارہ قبول کرنا چند ایک مشکلات کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
امریکی سیاست میں سعودی عرب کا ایسا اتحادی کوئی نہیں، جو قابل ذکر بھی ہو اور اوباما انتظامیہ کے خلاف اٹھ کھڑا ہو۔ دوسری طرف وہ اس پوزیشن میں بھی نہیں کہ دیگر طاقتوں کو امریکا کے سامنے لا کھڑا کرے۔ فرانس اور برطانیہ اس کے اہم اتحادی ہیں مگر وہ بھی کچھ نہیں کرسکتے۔ تیل کی پیداوار میں اس کا حریف روس بھی امریکا کے خلاف نہیں جاسکتا اور سعودی تیل کا بڑا خریدار چین بھی امریکا اور دیگر مغربی طاقتوں سے مخاصمت مول لینے کے لیے فی الحال تیار نہیں۔ ایران کے جوہری عزائم سے تو سعودی عرب پریشان ہے ہی مگر مزید پریشانی اس امر سے بھی ہو رہی ہے کہ خطے میں سیاسی قوت کا توازن تبدیل ہو رہا ہے۔ ایران کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہو رہا ہے (یا کیا جارہا ہے)۔ اس سے ایک طرف تو خطے میں سعودی عرب کا مقام متاثر ہو رہا ہے اور دوسری طرف اس کی داخلی سلامتی بھی خطرے میں پڑسکتی ہے۔ سعودی عرب ایک ایسے ایران کو دیکھ رہا ہے، جو عراق اور لبنان میں مستحکم ہوچکا ہے۔ شام میں بھی ایران کی پوزیشن کمزور نہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اب واشنگٹن سے بھی تہران کے تعلقات بہتر ہوتے جارہے ہیں۔ ایران کی راہ میں بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں۔ سعودی عرب سمیت خلیجی و عرب ریاستوں میں شیعہ اقلیت کو اب سُنّی حکمرانوں کے خلاف متحرک کرنے میں بھی ایران پیچھے نہیں۔
چند ہفتوں کے دوران سعودی عرب نے ایران سے امریکا کے بڑھتے ہوئے تعلقات اور خطے میں اس کی پوزیشن بہتر بنانے کے اقدامات پر شدید ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ سعودی عرب کے سُپر اسٹار فائنانسر اور شاہی خاندان میں کالی بھیڑ سمجھے جانے والے شہزادہ الولید بن طلال نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے، اس سے سعودی اشرافیہ بھی بہت حد تک متفق ہے۔
’’وال اسٹریٹ جرنل‘‘ کے ایڈیٹوریل بورڈ سے گفتگو کرتے ہوئے شہزادہ الولید بن طلال نے کہا ہے کہ ’’امریکا اپنے پیروں پر کلہاڑی مار رہا ہے۔ یہ مکمل انتشار کی حالت ہے۔ کوئی پالیسی دکھائی نہیں دے رہی‘‘۔ چند دن بعد لبنان میں سعودی عرب کے سفیر شہزادہ محمد بن نواف بن عبدالعزیز نے کہا کہ ایران سے امریکا اور دیگر عالمی طاقتوں کے مذاکرات سعودی عرب اور دیگر علاقائی ممالک کو مغرب سے برگشتہ کرنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ انہوں نے بالواسطہ طور پر دھمکی بھی دی کہ ضرورت پڑی تو سعودی عرب اپنے لیے جوہری ہتھیار حاصل کرلے گا۔
سعودی عرب کی طرف سے سرکاری سطح پر امریکا کے خلاف ناراضی کے اظہار سے اندازہ ہوتا ہے کہ سعودی حکمران کس حد تک برگشتہ ہیں۔ یاد رہے کہ ڈیڑھ ماہ قبل سعودی عرب نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غیر دائمی نشست حاصل کرنے کے لیے پہلے تو لابنگ کی، مگر جب اسے سیٹ دی گئی تو اس نے مغرب کی مخاصمانہ پالیسیوں کے خلاف اور سلامتی کونسل کے ڈھانچے میں اصلاح نہ کرنے پر احتجاج کرتے ہوئے سیٹ لینے سے انکار کردیا۔ سعودی حکومت کا یہ اقدام ان سعودی سفارت کاروں کے لیے انتہائی حیرت کا باعث تھا جنہیں اس منصب کے لیے غیر معمولی تربیت فراہم کی گئی تھی۔ امریکا میں سعودی سفیر کی حیثیت سے ۲۲ سال گزارنے والے انٹیلی جنس چیف شہزادہ بندر بن سلطان نے ایک مغربی سفارتکار سے گفتگو میں کہا کہ سلامتی کونسل کی غیر دائمی رکنیت قبول کرنے سے انکار اقوام متحدہ سے نہیں بلکہ امریکا سے شدید ناراضی کا اظہار تھا۔
سعودی عرب کی حکومت شام کے بارے میں زیادہ فکرمند تھی۔ شام میں بشار الاسد انتظامیہ نے اگست میں شہریوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کیے۔ امریکا نے جب بشار الاسد انتظامیہ کو سبق سکھانے کے لیے حملوں کی بات کی تو سعودی عرب نے اس کا بھرپور ساتھ دینے کا اعلان کیا مگر پھر یہ ہوا کہ امریکا اور روس نے مل کر شام کے کیمیائی ہتھیار ختم کرنے کا منصوبہ بنایا اور اس حوالے سے ان میں معاہدہ ہوگیا۔ یہ امریکا کی بڑی سفارتی کامیابی تھی کیونکہ وہ شام میں عسکری طور پر ملوث ہوئے بغیر کیمیائی ہتھیار ختم کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ سعودی عرب چاہتا تھا کہ اوباما انتظامیہ شام میں عسکری طور پر ملوث ہو تاکہ بشار انتظامیہ کو ختم کرنے کی راہ ہموار ہو۔ امریکا اور روس کے درمیان معاہدے کی صورت میں بشار انتظامیہ کو قانونی اور جائز حکومت کی حیثیت سے بھی تسلیم کرلیا گیا اور اس کی برطرفی کا خطرہ ٹل گیا۔ جب سلامتی کونسل نے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی بنیاد پر شام کے خلاف کسی بھی کارروائی سے گریز کیا تو سعودی عرب نے سوچا کہ یہ ایک ایسا کلب ہے، جس میں شمولیت اختیار نہ کرنا ہی بہتر ہے۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے ۴ نومبر کو ریاض جاکر سعودی حکمرانوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ امریکا اب بھی سعودی عرب کی سلامتی یقینی بنائے رکھنے کے عہد پر کاربند ہے۔ اس موقع پر سعودی وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل نے شام کو مقبوضہ ملک قرار دیا۔ سعودی عرب نے خطے میں ایران کے اثرات کا دائرہ محدود رکھنے کی جتنی بھی کوششیں کی ہیں، وہ اب تک ناکام رہی ہیں۔ سعودی عرب نے لبنان میں ایرانی اثرات کم کرنے کے لیے انتخابی سیاست میں دلچسپی لی مگر حزب اللہ مضبوط ہوکر سامنے آئی۔ عراق میں بھی نوری المالکی کو وزیر اعظم کی حیثیت سے برقرار رکھنے کی ایرانی کوششیں کامیابی سے ہمکنار ہوئیں اور سعودی عرب بے بسی سے یہ تماشا دیکھتا رہا۔ شاہ عبداللہ نے ۲۰۰۷ء میں حماس اور فتح کے درمیان معاہدہ کرایا تاکہ حماس پر سے ایرانی اثرات کم کیے جاسکیں مگر یہ معاہدہ چند ماہ میں ٹوٹ گیا، جب حماس نے غزہ کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد تعاون کے لیے ایران کی طرف دیکھنا شروع کردیا۔ پورے خطے میں معاملہ یہ تھا کہ ایرانی فتح پارہے تھے اور سعودی ناکامی سے دوچار ہوتے جارہے تھے۔
سعودی عرب کی پریشانی کا اصل سبب یہ ہے کہ ایران کے اثرات غالب آتے رہے تو خلیج کی تمام ریاستوں میں شورش کی کیفیت پیدا ہوگی۔ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں کو یقین ہے کہ ایران کے بڑھتے ہوئے اثرات کے باعث اس خطے کی شیعہ اقلیتیں بھی حوصلہ پائیں گی اور یوں داخلی انتشار بڑھتا جائے گا۔ سعودی عرب نے ۲۰۱۱ء میں بحرین میں شیعہ اقلیت کی طرف سے چلائی جانے والی احتجاجی تحریک کو اسی نظر سے دیکھا گوکہ اس میں ایران کا کردار بظاہر نہیں تھا۔ شام میں البتہ بشار الاسد انتظامیہ کے خلاف شدید مزاحمت سے سعودی عرب کو تقویت ملی اور وہ عشرے میں پہلی بار ایرانی اثرات کو کسی حد تک کنٹرول کرنے میں کامیاب ہوا۔
مصر میں حسنی مبارک کی حکومت کا خاتمہ سعودی عرب کے لیے کسی حد تک دھچکا تھا کہ اس کا ایک حلیف (حسنی مبارک) چلا گیا تھا مگر اس سے زیادہ بری صورتِ حال یہ ہوئی کہ اخوان المسلمون کی حکومت قائم ہوئی۔ ایران کے خلاف کشمکش میں سعودی عرب کسی بھی طور اخوان پر بھروسا نہیں کرسکتا۔
امریکا یہ سمجھتا ہے کہ ایران کو قبول کرنے کی صورت میں اس کے جوہری عزائم ختم ہوں گے اور یہ بات سعودی عرب کے حق میں جائے گی۔ دوسری طرف سعودی عرب کا خیال یہ ہے کہ جوہری ہتھیاروں کے پروگرام سے دست بردار ہونے کے صلے کے طور پر امریکا اور اس کے مغربی اتحادی شام، عراق، لبنان اور خلیج فارس میں اس کی برتری کو تسلیم کرلیں گے۔
سعودی وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل کہتے ہیں کہ ’’امریکا سے معاملات میں اچھا خاصا آدمی بھی پاگل ہوجائے‘‘۔ دوسری طرف امریکی پالیسی ساز بھی سعودی عرب کے بارے میں یہی رائے رکھتے ہیں۔ بعض معاملات میں امریکا اور سعودی عرب کے درمیان اختلافات رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اس وقت دونوں ممالک کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ علاقائی مسائل پر امریکا اور سعودی عرب نے کبھی ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہیں دیکھا۔ سعودی عرب نے ۱۹۷۹ء میں اسرائیل اور مصر کے درمیان امن معاہدے کا خیرمقدم نہیں کیا تھا۔ اس نے ۲۰۰۳ء میں عراق پر امریکی لشکر کشی کی بھی مخالفت کی تھی، مگر امریکیوں کو بھی چند شکایات رہی ہیں۔ ایک طرف تو تیل سے متعلق پالیسی ہے اور دوسری طرف انتہا پسندوں کو کی جانے والی فنڈنگ ہے۔ امریکا نے اسرائیل کے خلاف عرب دنیا کی جنگ میں اسرائیل کا ساتھ دیا تھا، جس پر سعودی عرب نے تیل کی فراہمی روک کر شدید احتجاج کیا تھا۔ اس سے تیل کی عالمی منڈی پر شدید اثرات مرتب ہوئے۔
صدر براک اوباما نہیں سمجھتے کہ مشرق وسطیٰ کے معاملے میں امریکا پر بہت زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ وہ اب امریکی پالیسی سازوں کی توجہ مشرقی ایشیا پر مرکوز رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ بشار انتظامیہ کی برطرفی سعودی عرب کے لیے تو بڑی کامیابی ہوسکتی ہے، امریکا کے لیے یہ کوئی بڑی ترجیح نہیں۔ امریکا اب فلسطینی مسئلے کو بھی مشرق وسطیٰ سے متعلق اپنی پالیسی کا مرکزی نکتہ نہیں گردانتا۔ امریکا میں اب تیل اور گیس کی پیداوار بھی بڑھتی جارہی ہے جس کی بدولت ان کا مشرق وسطیٰ اور خلیجی ریاستوں پر انحصار کم ہوتا جارہا ہے۔ توانائی کے ذرائع کے معاملے میں مشرق وسطیٰ پر کم ہوتا ہوا انحصار بھی مغرب اور بالخصوص امریکا کو اس بات کی تحریک دے رہا ہے کہ سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کو زیادہ اہمیت نہ دی جائے اور علاقائی سطح پر ان کا کردار بڑھانے کے لیے کچھ نہ کیا جائے۔
بہت سے اختلافات کے باوجود امریکا اب بھی دفاعی امور میں سعودی عرب کی اولین ترجیح ہے۔ یورپ کمزور ہوچکا ہے۔ روس کی طاقت میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ چین میں مشرق وسطیٰ کے حوالے سے کوئی کردار ادا کرنے کی طاقت ہے نہ خواہش۔ ایسے میں داخلی سلامتی یقینی بنانے اور ایران کے اثرات محدود رکھنے کے لیے سعودی عرب کو امریکا ہی کی طرف دیکھنا پڑے گا۔ ابھی دونوں ممالک میں مزید اختلافات رونما ہوں گے۔ مقاصد کے حوالے سے اتفاق رائے پایا بھی جائے تو ترجیحات کے معاملے میں یقینی طور پر اختلافات جنم لیتے رہیں گے۔ اگر عشروں بعد دونوں کے درمیان رنجشیں منطقی نقطۂ عروج پر پہنچ بھی گئیں تو کوئی دھماکا نہیں ہوگا کیونکہ ہر معاملہ خاموشی سے دبتا اور بیٹھتا چلا جائے گا۔
(ایف گریگوری گاز، یونیورسٹی آف ورمونٹ میں سیاسیات کے پروفیسر اور بروکنگز دوہا سینٹر کے نان ریزیڈنٹ سینئر فیلو ہیں۔ وہ ’’آئل مونارکیز‘‘ اور ’انٹر نیشنل ریلیشنز آف دی پرسین گلف‘‘ کے مصنف ہیں۔
(“Why the Iran Deal Scares Saudi Arabia”… “The New Yorker”. Nov. 26, 2013)
Leave a Reply