
۲۰۱۷ء میں جب جاپانی وزیراعظم شانزو ایب نے بھارت، آسٹریلیا اور امریکا کے حکام کو منیلا میں ملاقات کی دعوت دی تو اس خبر میں ایسا کچھ نہیں تھا جو چین کے لیے پریشانی کا باعث بنتا۔اس وقت چینی وزیر خارجہ Wang Yi نے طنز کرتے ہوئے اس محفل کے بار ے میں کہا تھا کہ ’’QUAD (اس گروپ کو ’’کواڈ‘‘کا نام دیا گیا تھا)کا یہ اجتماع صرف ذرائع ابلاغ میں سرخیوں میں آنے کی ایک کوشش ہے‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’یہ بحرالکاہل یا بحرہند کی اس جھاگ کی طرح ہے جو توجہ چاہتی ہے لیکن پھر خود بخود بیٹھ جاتی ہے‘‘۔ایسا بیان دینے کے لیے بیجنگ کے پاس ٹھوس وجہ بھی تھی۔چینی ماہرین کا خیال تھا کہ ’’کواڈ‘‘کے ارکان ممالک کے مفادات ایک دوسرے سے بہت زیادہ متصادم ہیں اس لیے ان سب کا کسی مشترکہ حکمت عملی یا منصوبہ بندی تک پہنچنا تقریباً نا ممکن ہے۔ویسے بھی اس طرح کے اتحاد کا تجربہ ایک دہائی قبل بھی کیا جا چکا ہے جس کے کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے تھے۔
تاہم نومبر ۲۰۱۷ء کے اس اجتماع کے چند سالوں میں ہی چین کو اپنی پہلے بیانات پر ازسرنو غور کرنا پڑا۔ اس سال مارچ میں جب ’’کواڈ ممالک‘‘ کے سربراہان سطح کا پہلا اجلاس منعقد ہو ا اور اس کی پریس ریلیز جاری کی گئی تب سے چینی حکام نے اس اتحاد کو تشویشی نظر سے دیکھنا شروع کر دیا۔اس سربراہی اجلاس کے بعد چینی ماہرین نے یہ اخذ کیا کہ آنے والے سالوں میں چینی عزائم کے سامنے یہ اتحاد ایک چیلنج کے طور پر سامنے آئے گا۔
چین کے ساتھ ’’تزویراتی مقابلہ‘‘واشنگٹن میں ایک ایسا ایشو بن گیا ہے، جس پر وہاں کی دونوںسیاسی جماعتیں ایک جیسا مؤقف رکھتی ہیں، اور وہاں کی دونوں جماعتوں میں بہت کم ہی کسی ایشو پر اتفاق رائے ہو پاتا ہے۔ اس خطرے کو بھانپتے ہوئے چینی صدر نے کہا تھا کہ’’مستقبل کے عالمی نظام میں چینی بالادستی کے لیے اگر ہمیں کسی سے مقابلہ کرنا ہو گا تو وہ امریکا ہوگا، کیوں کہ امریکا چینی بالادستی کی راہ میں رکاوٹ بنے گا‘‘۔ صدر ژی کا خیال ہے کہ اب سے لے کر ۲۰۳۵ء تک چین کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ معاشی،ٹیکنالوجی اور فوجی لحاظ سے دنیا کے تمام ممالک سے آگے نکل جائے۔ اس کے لیے وہ خاص طور پر ایشیائی ممالک پر زور ڈال رہا ہے کہ ’’دنیا میں چینی بالادستی اب یقینی ہے اور ان کے لیے اس کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں کہ وہ چینی مطالبات کو تسلیم کریں‘‘۔ اس سے چین بغیر گولی چلائے عالمی نظام کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کے قابل ہو جائے گا اور بغیر گولی چلائے وہ دنیا میں قائدانہ کردار سنبھال لے گا۔
چین کی نظر میں ’’کواڈ‘‘ کی اہمیت اس لیے بڑھ رہی ہے کیوں کہ یہ واحد اتحاد ہے جو چین کے خلاف مزاحمت کرنے والے تمام ممالک کو ایک ساتھ جمع کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چینی حکام اس اتحاد کے مقاصد اور پیش قدمی میں رکاوٹ ڈالنے کی بھرپور جدوجہد کر رہے ہیں۔ اور چین کو لگتا ہے کہ اگر یہ اتحاد کامیاب ہوا تو ہماری بالادستی کی جدوجہد میں خلل ڈالنے کا باعث بنے گا۔
ساتھ مل کر:
جاپانی وزیراعظم ایب نے ’’کواڈ‘‘ لانچ کرنے کی پہلی کوشش ۲۰۰۴ء میں کی تھی، جب آسٹریلیا، بھارت، امریکا اور جاپان نے مل کر سونامی جیسی آفت سے نمٹنے کے لیے کوششیں کی تھیں۔ ایب نے چاروں ممالک کی مشترکہ سکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کے لیے کواڈ کے قیام کا آئیڈیا پیش کیا تھا۔ تاہم بقیہ دارالحکومتوں نے کسی خاص گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کیا۔
امریکی صدر جارج بش کو خدشہ تھا کہ ایک ایسے وقت میں جب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اسے چین کی ضرورت ہے، اس اقدام سے چین اپنے آپ کو تنہا محسوس کرے گا اور ہو سکتا ہے کہ جواب میں وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون سے پیچھے ہٹ جائے۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد جب وکی لیکس سامنے آئیں تو اس میں پتا چلا کہ امریکی انتظامیہ کی طرف سے خفیہ طور پر علاقائی طاقتوں کو یہ یقین دلایا گیا تھا کہ ’’کواڈ‘‘ کبھی حقیقت کا روپ نہیں دھار سکے گا۔ دہلی میں من موہن سنگھ نے ’’کواڈ‘‘ سے کسی بھی قسم کے فوجی تعاون کو خارج ازامکان قرار دے دیا، کیوں کہ بھارت کا خیال تھا کہ چین سے بہتر تعلقات ہماری ضرورت ہیں۔ ادھر کینبرا میں جان ہارورڈ کی قدامت پسند حکومت نے چین کے ساتھ فائدہ مند معاشی تعلقات کی بنیاد پر ایسے کسی بھی اقدام کی مخالفت کردی اور آسٹریلیا نے تو سہ فریقی اتحاد میں بھارت کی شمولیت کی بھی کھل کر مخالفت کی۔ جنوری ۲۰۰۷ء میں آسٹریلیا نے سرکاری طور پر بیجنگ میں اس اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ اس اتحا د کے بانی شانزو ایب نے جب نومبر ۲۰۰۷ء میں غیر متوقع طور پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تو ان کے جانے کے ساتھ ہی ’’کواڈ‘‘ کا آئیڈیا اپنی موت آپ ہی مر گیا۔ جب ایک دہائی بعد ایب نے ان ممالک کو دوبارہ اکٹھا کیا تو اس وقت تک تزویراتی حالات میں ڈرامائی تبدیلیاں رونما ہو چکی تھیں۔ سالہا سال سے امریکا چین بڑھتی ہوئی کشیدگی، جنوبی اور مشرقی چین کے سمندروں میں چین کا آمرانہ رویہ اور چین اور بھارت کے مابین متنازع زمین پر بار بار کی جھڑپوں نے ان ممالک کے دارالحکومتوں میں چین کے خلاف تزویراتی حکمت عملی کے حوالے سے کان کھڑے کر دیے تھے۔ تاہم بیجنگ کا اب بھی خیال تھا کہ متضاد مفادات کی وجہ سے یہ ممالک اکٹھے نہیں ہو سکیں گے۔ حالاں کہ ’’کواڈ‘‘ ممالک کے سفارتکاروں نے ’’ایسٹ ایشیا‘‘ کانفرنس کے موقع پر ایک میٹنگ کی، جس کی کوئی مشترکہ پریس ریلیز تو جاری نہ کی جاسکی، تاہم سب سفارت کاروں نے اپنے اپنے بیانات دیے اور کہا کہ مفادات کے حوالے سے ابھی اختلافات موجود ہیں۔ ستمبر ۲۰۱۹ء میں نیویارک میں ’’کواڈ‘‘ کے وزرائے خارجہ اجلاس کے موقع پر بھی چین بڑی حد تک لاتعلق ہی رہا۔ تاہم اس اجلاس کے اختتام پر وزرائے خارجہ نے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا اور ’’کواڈ‘‘ کے مقاصد کا بھی اعلان کیا، جس میں سب سے اہم ’’آزاد اور کھلے بحرالکاہل‘‘ کے لیے جدوجہد تھا۔ پھر جون ۲۰۲۰ء میں بھارتی اور چینی فوج کے درمیان سرحدی پٹی پر جھڑپیں ہوئیں، جس کے نتیجے میں ۲۰ بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے۔ اس کے بعد وہی نئی دہلی جو ’’کواڈ‘‘ اتحاد میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لیا کرتا تھا، اسے اپنی تزویراتی ترجیحات کا ازسرنو تعین کرنا پڑا اور اب اسے چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کے سامنے اپنا توازن برقرار رکھنے کی جلدی تھی۔
اکتوبر ۲۰۲۰ء میں ’’کواڈ‘‘ممالک کے وزرائے خارجہ کا جب ٹوکیو میں دوبارہ اجلاس ہوا تو بیجنگ نے اس اتحاد پر توجہ دینا شروع کی۔ امریکی سکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے بہت واضح الفاظ میں کہا کہ ہمارا مقصد تھا کہ ’’کواڈ‘‘ کو ادارے کی شکل دے کر اس کے ذریعے ایک مکمل سیکورٹی فریم ورک بنایا جائے اور وقت آنے پر اس اتحاد کو وسعت دی جائے تاکہ چینی کمیونسٹ پارٹی کی طرف سے ہمیں جن چیلنجز کا سامنا ہے ان کا مقابلہ کیا جاسکے۔ (مائیک پومپیو اس سے پہلے نیوزی لینڈ، ویت نام اور جنوبی کوریا کو معاشی، ٹیکنالوجی اور سپلائی چین کے حوالے سے اکٹھا کر کے ایک اجلاس کر چکے ہیں جس کو ’’کواڈپلس‘‘ کا نام دیا گیا تھا)۔
اس اجلاس کے بعد بھارت نے آسٹریلیا کو اپنی بحری مشقوں (مالابار) میں شرکت کی دعوت دی، جو کہ جاپان اور امریکا کے ساتھ مل کر جاری تھیں۔ یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ بھارت نے اس سے پہلے ان مشقوں میں آسٹریلیا کو شریک کروانے سے منع کر دیا تھا،کیوں کہ وہ چین کی ناراضی مول نہیں لینا چاہتا تھا۔ جون میں ہونے والی سرحدی جھڑپوں نے بھارت کے لیے فیصلہ سازی میں آسانی پیدا کر دی۔
تقسیم سے حملے تک:
پہلے پہل تو حکمت عملی بنانے والے چینی ماہرین کا خیال تھا کہ اس مسئلے کا سادہ سا حل ہے کہ ’’گاجر اور چھڑی‘‘ کا استعمال کیا جائے، یعنی کواڈ رکن ممالک کے معاشی اور دفاعی مفادات کے درمیان ایک لکیر کھینچ دی جائے، یعنی ان ممالک کو ان کے معاشی اور سلامتی کے مفادات پر تقسیم کر دیا جائے۔ کیوں کہ ان میں سے بیشتر ممالک چین کی بڑی کنزیومر مارکیٹ سے منسلک ہیں اس لیے ان پر دبائو ڈال کر ’’کواڈ‘‘ کو تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
اکتوبر ۲۰۲۰ء کے سالانہ اجلا س میں پھر ’’مالابار‘‘ کی بحری مشقوں کے بعد چینی وزیر خارجہ کے لہجے میں واضح تبدیلی دیکھی گئی۔ انھوں نے ’’کواڈ‘‘ پر تنقید کرتے ہوئے سے ’’انڈوپیسیفک کا نیٹو‘‘ قرار دیا اور کہا کہ کواڈ کی انڈوپیسیفک حکمت عملی ایک فاش غلطی ثابت ہو گی اور اسے خطے کے لیے سکیورٹی رسک قرار دیا۔ اس کے ساتھ ہی بیجنگ نے چھڑی کے استعمال کے لیے اپنے ہدف کا انتخاب بھی کر لیا۔ چینی روایات ہیں کہ سیکڑوں کو ڈرانے کے لیے کسی ایک کو مار دو۔ اس صورت حال میں بھارت اور جاپان کو ڈرانے کے لیے اس نے آسٹریلیا کو ہدف بنانے کا فیصلہ کیا۔
بیجنگ اس سے قبل کینبراسے تعلقات بہتر بنانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا تھا، تاہم اچانک ہی چین نے بغیر کسی وضاحت کے آسٹریلوی کوئلے کی درآمد پر پابندی لگا دی۔ اس کے بعد آسٹریلیا سے گوشت، کپاس، اون، جو، گندم، لکڑی، تانبا، چینی، لابسٹر اور شراب پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ بیجنگ کا خیال تھا کہ چار کواڈ ممالک میں سے سب سے چھوٹا ملک آسٹریلیا ہے اس لیے اس کو معاشی طور پر دبائو میں لینا نسبتاً آسان ہوگا۔ اور وہ اپنی جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے چین کے لیے کسی بڑے خطرے کا باعث بھی نہیں بن سکتا۔ اسی دوران چین نے بھارت اور جاپان سے تعلقات میں بہتری لانے کا کام شروع کر دیا۔ آنے والے برسوں میں چینی صدر ژی چن پنگ کے جاپان کے دورے اور جاپانی وزیراعظم سے ملاقات کی کوشش بھی کی گئی۔ اس کے علاوہ بھارت سے کشیدگی کم کرنے کی کوششیں بھی جاری رہیں اور مذاکرات کے ذریعے اپنے فوجی کی رہائی ممکن بنانے کی سر توڑ کوششیں کی گئیں تاکہ ملک میں قوم پرستوں کے غصے سے بچا جا سکے۔
تاہم بیجنگ ’’کواڈ‘‘ ممالک کے باہمی اتحاد کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکا،اس کے سارے اقدامات ’’کواڈ‘‘ اتحاد پر کوئی خاطر خواہ اثر نہ ڈال سکے۔ ٹوکیو مشرقی چینی سمندر میں بیجنگ کے جارحانہ اقدامات اور ہانگ کانگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بیجنگ سے پہلے سے بھی زیادہ ناراض ہو گیا۔ اسی طرح نئی دہلی بھی سرحدی جھڑپوں کے بعد اگرچہ مذاکرات سے مسئلے کو ٹھنڈا کرنے میں تو دلچسپی ظاہر کرتا رہا تاہم بھارتی وزیر خارجہ نے واضح الفاظ میں کہا کہ ان سارے حالات کے بعد ہمیں اندازہ ہو گیا ہے کہ قومی سلامتی کے امور پر ہمیں مزید جامع حکمت عملی ترتیب دینی ہو گی اور واشنگٹن کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرنا ہو گا تا کہ ہم چیلنجز کا مقابلہ کر سکیں۔
اس سال کے اوائل تک چین کو اندازہ ہو گیا تھا کہ ’’کواڈ‘‘ کو نظرانداز کرنے سے یا پھر اسے تقسیم کرنے کی کوشش کرنے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا، تو چین نے تیسرے آپشن پر کام شروع کیا، تیسرا آپشن تھا کہ اس اتحاد پر بڑے پیمانے کا سیاسی حملہ کیا جائے۔
مارچ میں ہونے والے کواڈ سربراہ اجلاس نے چین کے بڑھتے ہوئے خدشات کو صحیح ثابت کردیا۔ صدر جو بائیڈن نے اپنے دور صدارت کے آغاز میں ہی کواڈ ممالک کے سربراہان کو اکٹھا کر کے(ورچوئلی)یہ اشارہ دے دیا کہ انڈو پیسیفک کے حوالے سے ان کی پالیسی میں اس اتحاد کا مرکزی کردار ہو گا۔ اتحاد کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اجلاس کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا،جس میں کہا گیا کہ ’’بین الاقوامی قوانین کے تحت ایک آزاد عالمی نظام کے فروغ کے لیے کوششیں کی جائیں گی،اور علاقائی سالمیت اور جمہوری روایات کا تحفظ کیا جائے گا۔ اعلامیہ میں یہ بھی کہا گیا کہ کواڈ ممالک کورونا کی ایک ارب خوراکوں کی مشترکہ پیداوار کریں گے اور خطے میں تقسیم کریں گے۔ مودی نے فورم سے خطاب کرتے ہوئے وہ بات کہی جس کا خدشہ چینیوں کو تھا، مودی نے کہا کہ ’’کواڈ اپنے ابتدائی سالوں سے نکل آیا ہے اب یہ اتحاد خطے میں استحکام کا باعث بنے گا‘‘۔
اس کے بعد سے تو چین کی جانب سے مذمتوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ چین کا کہنا تھا کہ چند ممالک کے اس چھوٹے سے گروہ نے خطے میں ایک نئی سرد جنگ کا آغاز کر دیا ہے۔ مئی میں چینی صدر ژی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’کثیر الجہتی‘‘ کی اصطلاح کو استعمال کرکے چھوٹے چھوٹے گروہ تشکیل دیے جا رہے ہیں، تاکہ نظریاتی اختلافات کو ہوا دی جائے‘‘۔ چین نے اپنے آپ کو ’’کثیر الجہتی‘‘ اور اقوام متحدہ کے قوانین پر عمل کرنے والے ملک کے طور پر جارحانہ طریقے سے پیش کرنا شروع کر دیا۔ چینی صدر اور دیگر حکام نے عالمی طاقتوں کی ذمہ داریوں اور اپنے آپ کو ذمہ دارعالمی طاقت کے طورپیش کرنے کی تکرار بڑھا دی۔ اسی طرح چین نے خطے کے دیگر فورم پر اپنی موجودگی اور فعالیت میں اضافہ کر دیا اور اس کے ساتھ ساتھ یورپ سے اپنے تجارتی معاہدوں کے لیے بھی تگ ودو تیز کر دی۔ چین کو یقین ہے کہ وہ کواڈ کو تجارتی اور سفارتی ذرائع استعال کر کے عالمی سطح پر اسے تنہائی کا شکار کر سکتا ہے۔
چین کی کواڈ کے خلاف جارحانہ حکمت عملی کے باوجود ’’کواڈ‘‘کی اہمیت میں مستقل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔صدر جوبائیڈن کے جون میں یورپ کے دورے اور وہاں بھارت اور آسٹریلیا کی جی سیون اجلاس میں شرکت اور وہاں چین کے معاملے پر ہونے والی بات چیت نے ظاہر کر دیا ہے کہ کواڈ ایک بڑا ’’چین مخالف‘‘ اتحاد بننے جا رہا ہے۔ ادھر امریکا نے جنوبی کوریا کو بھی اس اتحاد میں شامل کروانے کی کوشش کی، تاہم جنوبی کوریا چین کے خلاف کسی اتحاد کا حصہ بننے سے کتراتا ہے۔ پھر بھی اس نے امریکا کے ساتھ مل کر کواڈ کی تعریف ضرور کی۔
پریشانی کی وجہ:
چین کے پاس اس طرح کی پیش رفت سے پریشان ہونے کی ٹھوس وجوہات ہیں، اسے اندازہ ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے علاقائی اور عالمی سطح پر اس کے لیے کیا امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر دفاعی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو کواڈ کی بڑھتی ہوئی فعالیت نے چین کی آبنائے تائیوان، جنوبی بحیرۂ چین اور کچھ حد تک شمالی بحیرہ چین میں مختلف منظر ناموں سے نمٹنے کے لیے چین کی سوچ کو تبدیل کر دیا ہے۔ چین اب یہ سمجھتا ہے کہ ان علاقوں میں امریکا کے ساتھ کسی بھی تنازع کی صورت میں آسٹریلوی، بھارتی اور جاپانی فوج بھی امریکا کے پشت پر نظر آنے کا امکان بڑھ گیا ہے۔ اس کے ساتھ تائیوان کے گھیرائو کی چینی حکمت عملی میں کواڈ ممالک اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ خاص طور پر اگر تائیوان کے دفاع کے لیے یہ ممالک اپنی سرزمین پر اسلحے کی تنصیب کی اجازت دے دیتے ہیں تو چین کے لیے خاصی مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ اسی طرح ایک خدشہ اس بات کا ہے کہ اگر ’’کواڈ‘‘ اور ’’فائیو آئی‘‘ ممالک کے درمیان خفیہ معلومات کے تبادلے کا کوئی معاہدہ طے پا جاتا ہے تو چین کی تزویراتی حکمت عملیاں بڑی حد تک ’’ایکسپوز‘‘ ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔
چین کے نقطہ نظر سے بدترین صورت حال یہ ہو سکتی ہے کہ ’’کواڈ‘‘ ایک بڑے چین مخالف اتحاد کی بنیاد بن جائے۔ اس اتحاد میں اگر مزید یورپی اور ایشیائی ممالک شامل ہو گئے تو بین الاقوامی عزائم کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ چین کو ڈر ہے کہ اگر یہ اتحاد اپنا رخ تبدیل کر کے معاشی، کسٹم اور دیگر اسٹینڈرڈ کی طرف جاتا ہے اور نئے قوانین متعارف کرواتا ہے تو چین کے لیے خطے میں بہت سی مشکلات کھڑی ہو جائیں گی۔
چین کے لیے مثبت پہلویہ ہے کہ آسیان اپنے آپ کو واشنگٹن اور بیجنگ کیمپ کی کشمکش سے دور رکھے گا۔ کیوں کہ وہ پہلے بھی ایسے میں غیر جانبدار رہنے کو ہی ترجیح دیتا ہے۔ اس کے علاوہ چین کو اس بات کا بھی اندازہ ہے کہ واشنگٹن اور نئی دہلی چینی معاشی مارکیٹ کے حوالے سے تحفظ پسندانہ حکمت عملی اختیار کرتے ہیں۔ کیوں کہ دونوں ممالک جانتے ہیں کہ چین کی مارکیٹ اور اس کی کمپنیاں ان کے لیے کتنی اہمیت کی حامل ہیں۔ چین کی مستقل معاشی ترقی اور عالمی معیشت میں بڑھتا ہوا شیئر وہ تزویراتی عوامل ہیں جن کو نظرانداز کرنا دنیا کے لیے آسان نہیں ہو گا۔
چین روس کے ساتھ اپنے تزویراتی اور فوجی تعاون کو بھی دوگنا کر دے گا۔ ماسکو اور بیجنگ پہلے ہی دوطرفہ ایٹمی توانائی کے تعاون کو بڑھانے کے لیے پرعزم ہیں اور ژی کے ساتھ مئی کی ملاقات میں روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے چین اور روس کے تعلقات کو ’’تاریخی‘‘ قرار دیا۔ چین کے نقطہ نظر سے، کواڈ کے حوالے سے روس ایک مفید فوجی شراکت دار کے طور پر کام آسکتا ہے، وہ چین کے اسٹریٹجک آپشنز کے میدان کو جغرافیائی طور پر وسعت دینے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پرروس کی جاپان سے رقابت اور جاپان کے شمالی علاقہ جات پر اس کا مسلسل قبضہ، ٹوکیو کو چین کے خلاف کسی بھی امریکی مہم جوئی میں شرکت سے پہلے کئی مرتبہ سوچنے پر مجبور کرے گا۔
’’کواڈ‘‘ کی بڑھتی ہوئی طاقت چین کو اپنے فوجی اخراجات میں اضافہ پر مجبو ر کر دے گی۔ اگرچہ کچھ چینی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ’’کواڈ‘‘ جب تک کوئی ٹھوس شکل اختیار نہیںکر لیتا یعنی کسی خطرناک اتحاد کی صورت اختیار نہیں کر لیتا اس وقت تک ہمیں اسلحہ کی دوڑ میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔ دوسری طرف چین کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کا خیال ہے کہ ہمیں بدترین صورت حال کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ چینی حکام کو اس بات کا بھی ڈر ہے کہ کہیں وہ بھی سوویت یونین والی غلطی نہ دہرا دیں، جس نے اپنی معیشت سے حاصل ہونے والی آمدن کو جنگی جنون میں جھونک دیا تھا۔ تاہم اگر چین کو یہ محسوس ہوا کہ امریکی فوج اور اس کے اتحادی اپنی فوجیں مضبوط کر کے اس کے گھیرائو کی کوشش کر رہے ہیں تو مجبوراً چین کو بھی اپنی فوج کو ’’کواڈ‘‘ جیسے خطرے سے نمٹنے کے لیے تیار رکھنا پڑے گا۔
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ یہ ساری پیش رفت صدر ژی کے لیے کیا اہمیت رکھتی ہے؟ ایک ایسے وقت میں جب ۲۰۲۲ء میں پارٹی کی کانگریس کا اجلاس ہونے والا ہے۔ صدر ژی کو اس بات کی پوری امید ہے کہ وہ اس اجلاس سے اپنے سیاسی غلبے کے حصول کو ممکن بنا لیں گے۔ ایک ایسے وقت میں ’’کواڈ‘‘ کو ایک بڑا خطرہ بنا کر پیش کرنا اور قوم کو یہ احساس دلانا کہ چین کے دشمن سب اکٹھے ہو کر ہمارا گھیرائو کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ اتحاد کا مظاہرہ کریں۔ اور ایسے مشکل وقت میں صدر ژی کا اقتدار میں رہنا ملک کے لیے بہت ضروری ہے۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“Why the QUAD alarms China”.(“Foreign Affairs”. August 6, 2021)
Leave a Reply