
تیل کی دولت سے مالا مال افریقی اقوام یوکرین کے بحران سے بہت کچھ سیکھ سکتی ہیں اور بہت کچھ حاصل بھی کرسکتی ہیں۔ کینیا، لیبیا، نائیجیریا اور یوگنڈا یورپ سے بہت دور ہیں۔ یوکرین اور ان ممالک کے درمیان ہزاروں میل کا فاصلہ ہے۔ مگر اب دنیا چونکہ گاؤں کی سی شکل اختیار کرگئی ہے، اس لیے کسی ایک خطے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے اثرات دوسرے خطوں پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ یوکرین کے بحران کا اثر افریقا میں بھی دیکھا اور محسوس کیا جاسکتا ہے۔
یوکرین کے معاملے میں روس اور یورپ کے درمیان ٹھنی ہوئی ہے۔ تعلقات کی کشیدگی کے باعث اب یورپی ممالک کو تیل اور گیس کے لیے دیگر خطوں کی طرف دیکھنا پڑ رہا ہے۔ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے گیس کی قیمت پر گرفت مضبوط کرلی ہے۔ یورپ کو گیس کی اشد ضرورت رہتی ہے۔
کریمیا پر روسی تسلط قائم ہونے کے بعد امریکا کو بھی افریقا کی طرف متوجہ ہونا پڑا ہے۔ افریقا میں تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ممالک کے لیے یورپی ممالک کی ضرورت پوری کرنے کے لیے سامنے آنے کا یہ اچھا موقع ہے۔ امریکا نے اس معاملے میں غیر معمولی تیزی دکھانا شروع کردی ہے۔ افریقی ممالک سے تجارتی اور صنعتی تعلقات بہتر بنانے پر زیادہ توجہ دی جارہی ہے۔
اس سے پہلے کہ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کوئی بڑا قدم اٹھاتے، امریکی صدر براک اوباما نے افریقا سے تعلقات بہتر بنانے کا عندیہ دیتے ہوئے پہل کردی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا اور یورپ کے لیے افریقا سے توانائی کی ضرورت پوری کرنا خاصا بُرا جوا ہے کیونکہ افریقا میں تیل کے عالمی ذخائر کا صرف ۱۰ فیصد ہے۔ اگر یورپ اور امریکا نے افریقا سے تیل اور گیس لینا شروع بھی کردیا تو یہ سلسلہ طویل مدت تک جاری نہیں رکھا جاسکے گا۔ مقصود صرف یہ ہے کہ روس پر دباؤ میں اضافہ کیا جائے۔ امریکا اور یورپ نے مشرقِ وسطیٰ کی طرف دیکھنے میں زیادہ دلچسپی اس لیے نہیں لی کہ یہ خطہ اس وقت عدم استحکام سے دوچار ہے۔ ایسے میں اس سے زیادہ توقعات وابستہ نہیں کی جاسکتیں۔ یورپ بھی اس بات کو سمجھتا ہے کہ افریقا پر وہ توانائی کے معاملے میں زیادہ دیر انحصار نہیں کرسکتا مگر جب تک قابل تجدید توانائی والی کاریں نہیں بناتا تب تک تو اسے افریقا پر انحصار کرنا ہی پڑے گا۔ برٹش پٹرولیم نے بتایا ہے کہ اگر امریکا اور یورپ نے تیل اور گیس کے لیے افریقا کی طرف دیکھنا شروع کیا تو ۲۰۳۵ء تک خطے میں تیل اور گیس کی تلاش اور پروڈکشن کا کام انتہائی تیزی سے ہوگا اور مجموعی طور پر پورا خطہ تیزی سے ترقی کرے گا۔
ایک طرف برٹش پٹرولیم نے افریقا پر نظریں جمائی ہوئی ہیں اور دوسری طرف امریکا سب پر بازی لے جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ کریمیا کے بحران کے ایک ماہ کے اندر امریکا نے یوگنڈا میں اسپیشل فورسز کے مزید دستے اتار دیے۔ امریکا کے ۱۰۰؍اسپیشل فوجی وہاں پہلے ہی سے تعینات تھے۔ اس تعیناتی کا بنیادی مقصد لارڈز ریزسٹنس آرمی کے لیڈر جوزف کونی کو تلاش کرنا ہے۔ اس جنگجو لیڈر نے خطے میں عدم استحکام پھیلا رکھا ہے۔ امریکا نے افریقا میں دلچسپی بڑھنے کا عندیہ دیتے ہوئے وہاں جدید ترین ساخت کے ہائبرڈ ہیلی کاپٹر بھی بھیجے ہیں۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ امریکا نے یوگنڈا میں اپنی موجودگی کا احساس ضرور دلایا ہے مگر معاملات اب بھی افریقی یونین کے تحت کام کرنے والی فوج ہی کے ہاتھ میں ہیں۔ امن قائم کرنے اور استحکام کی راہ ہموار کرنے کی ذمہ داری اب بھی افریقی افواج ہی کے کاندھوں پر ہے۔ یوگنڈا کے دارالحکومت کمپالا میں امریکی سفارت خانے کے ترجمان ڈینیل ٹریوس کا کہنا ہے کہ امریکا نے یوگنڈا میں تعینات فوجیوں کی تعداد ضرور بڑھائی ہے مگر وہ کوئی عسکری کردار ادا نہیں کرنا چاہتا۔
مگر خیر، روسی صدر کی طرف سے کیے جانے والے جارحانہ اقدامات اور دوسری طرف افریقا میں امریکا کی بڑھتی ہوئی دلچسپی اس امر کی غَمّازی کرتی ہے کہ یہ محض انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فراہم کرنے کا معاملہ نہیں بلکہ توانائی کے حوالے سے امریکا کو اپنے اسٹریٹجک مفادات کی فکر لاحق ہے۔ یوگنڈا تیزی سے پنپتے مشرقی افریقی اتحاد کا رکن ہے جس میں کینیا، تنزانیہ، برونڈی اور روانڈا بھی شامل ہیں۔ امریکا کے معروف تھنک ٹینک ’’اسٹریٹ فار‘‘ نے حال ہی میں ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ افریقا میں توانائی کے حوالے سے معاملات تیزی سے نمٹائے جارہے ہیں۔ تیل اور گیس کی تلاش کے ساتھ ساتھ پیداواری عمل کے لیے بنیادی تنصیبات کی تیاری بھی تیزی سے کرنی ہوگی۔
تیل اور گیس کی ترسیل کے لیے پائپ لائنز کی تعمیر بھی توجہ طلب مرحلہ ہے۔ یعنی یہ کہ امریکا اور یورپ کا افریقا کی طرف متوجہ ہونا خطے کے لیے خاصی طویل مدت تک بہتر امکانات کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔
افریقا میں اسٹریٹجک حوالے سے معاملات کا نئی شکل اختیار کرنا کوئی نئی بات نہیں۔ سابق امریکی صدر جارج واکر بش کے دور میں بھی افریقا کو مختلف بیماریوں کی روک تھام کی مد میں پانچ ارب ڈالر سے زائد امداد دی گئی تھی۔ یہ سب کچھ امریکی فوج کی افریقن کمانڈ ایفکوم کے لیے میدان ہموار کرنے کی کوشش کے طور پر تھا۔ جب امریکی طیاروں نے لیبیا پر زبردست بمباری کی اور جبوتی، برکینا فاسو، نیجر اور جنوبی سوڈان میں ڈرون کے اڈے تعمیر کیے گئے اور مالی میں امریکا نے فرانسیسی افواج کی معاونت کی تب کسی کو حیرت نہ ہوئی۔ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے معمر قذافی جیسے لوگوں کو ہٹانا ضروری تھا۔ اب امریکی نیول شپس لیبیا سے شمالی کوریا کے لیے بھیجنے والے آئل ٹینکروں کو روک رہے ہیں۔
امریکا اب تک افریقا میں جو کچھ کرتا رہا ہے، اس کے لیے جواز یہ گھڑا ہے کہ اسلامی شدت پسندوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے یہ سب کچھ کرنا ناگزیر تھا۔ اب یہ حقیقت کھل کر سامنے آرہی ہے کہ سارا جھگڑا توانائی کا ہے۔ افریقا میں تیل اور گیس کے ذخائر کو امریکا اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ افریقا میں چین کی بڑھتی ہوئی دلچسپی نے بھی بڑے مسائل پیدا کیے ہیں۔ چین نے مختلف شعبوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ کان کنی کا شعبہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔ چین کی کمپنیوں نے کئی افریقی ممالک میں پائی جانے والی معدنیات کے سودے کیے ہیں۔ اس حوالے سے تیز رفتار پیداوار کے لیے فنڈنگ لازم ہے، اس لیے چین نے بنیادی ڈھانچا تیار کرنے کے لیے خطیر رقم خرچ کی ہے۔ ایتھوپیا کے دارالحکومت عدیس ابابا میں افریقی یونین کے ہیڈ کوارٹر کی تعمیر کے لیے بھی چین نے ۲۰ کروڑ ڈالر فراہم کیے ہیں۔ افریقا میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرات کے پیش نظر امریکا اور یورپ نے بھی انگڑائی لی ہے تاکہ سب کچھ ہاتھ سے جاتے رہنے سے قبل ہی بہت کچھ کرلیا جائے یا کم از کم اتنا کچھ تو کر ہی لیا جائے جس سے مفادات کا تحفظ ممکن ہو۔
افریقی سرزمین پر امریکا اور یورپ نے اپنے معاملات تیزی سے آگے بڑھائے ہیں۔ امریکی فوجی موجودگی میں اضافے کی رفتار سُست رہی ہے تاہم وسطی افریقی جمہوریہ میں فرانس کے دو ہزار فوجیوں کی موجودگی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مغربی دنیا افریقا کو کسی بھی طرح چین کی جھولی میں گرنے نہیں دینا چاہتی۔
یورپی یونین نے حال ہی میں افریقا کے لیے مزید ایک ہزار فوجیوں کی تعیناتی کا اعلان کیا ہے۔ اس پر سیاسی مبصرین کو حیرت ہوئی ہے کیونکہ یوکرین بحران کے باعث یورپی یونین کے لیے فی الحال اپنی حدود سے باہر دیکھنا انتہائی دشوار ہے۔ ان ایک ہزار فوجیوں کو خطے میں استحکام برقرار رکھنے کی ذمہ داری نبھانی ہے۔ یوگنڈا بھی متصل ہے اور نائیجیریا بھی زیادہ دور نہیں، جہاں سے امریکا کی ضرورت کا ۵ فیصد تیل آتا ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ افریقا خاصی تیزی سے نئے نو آبادیاتی کھیل کا میدان بنتا جارہا ہے۔ انسانی ہمدردی اور معاشی امداد کے نام پر بھی کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے مگر یہ محض لیپا پوتی کے لیے ہے۔ اسٹریٹجک مفادات کے حوالے سے جو کچھ نیتوں اور ارادوں میں ہے، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا اور یورپ مل کر جنگجو سرداروں کو ختم کرنا چاہتے ہیں تاکہ روانڈا جیسا کوئی قتل عام نہ ہو مگر کوئی شک میں نہ رہے۔ یہ سب کچھ افریقیوں سے ہمدردی کا نتیجہ نہیں بلکہ امریکا اور یورپ کے اپنے مفادات ہیں جن کا تحفظ ناگزیر ہے۔ توانائی کے حوالے سے مغرب کو اب محفوظ افریقا درکار ہے۔ وقت آگیا ہے کہ افریقا کے حوالے سے حکومتیں کمر کس لیں اور بدلتے ہوئے حالات کے لیے تیار ہوجائیں۔
“Why the sudden rush into Africa? It`s the oil”. (Daily “Dawn” Karachi. April 16, 2014)
Very nice Articles.Full of information and nice way to present