
بیس مئی ۲۰۱۶ء کو تیونس کی النہضہ تحریک کا دسواں اجلاس تیونس کے جنوبی نواحی علاقے میں واقع ریڈز اولمپک ہال میں منعقد ہوا۔ ۱۳؍ہزار لوگوں سے، جن میں بارہ سو نمائندے بھی شامل تھے، یہ اسٹیڈیم بھرا ہوا تھا، جسے آمر زین العابدین بن علی کے دور (۱۹۸۷ء۔۲۰۱۱ء) کا تعمیراتی کارنامہ مانا جاتا ہے۔ ۲۰۰۰ سے زائد افراد اسٹیڈیم کے باہر داخلے کے منتظر تھے۔
اپنے حالیہ اجلاس میں تیونس کی اسلامی جماعت النہضہ نے اپنے سیاسی اور دعوتی شعبوں کو علیحدہ کرنے کا عندیہ دیا۔
اجلاس کا ماحول کسی راک کنسرٹ جیسا تھا۔ ہجوم دیوانوں کی طرح خوش ہو رہا تھا اور النہضہ کے سفید جھنڈے ہر طرف لہرا رہے تھے۔ اسٹیڈیم میں اِکا دُکا تیونس اور فلسطین کے جھنڈے بھی نظر آرہے تھے۔ اسٹیڈیم پارٹی کے نغموں سے گونج رہا تھا۔ یہ ایک تاریخی لمحہ تھا۔ النہضہ نے باقاعدہ طور پر اپنے سیاسی اور دعوتی کام کو علیحدہ کرنے کا اعلان کیا۔
النہضہ شناخت کی تلاش میں سرگرداں ایک نظریاتی تحریک سے آمر کے خلاف ایک احتجاجی تحریک میں بدلی اور اب یہ ایک قومی جمہوری جماعت میں بدل گئی ہے۔ ’’ہمیں سیاسی جدوجہد سے مذہب کو دور رکھنا چاہیے‘‘۔ یہ اعلان پارٹی کے ۷۴ سالہ بانی اور صدر راشد الغنوشی نے مجمع کے سامنے کیا۔
تیس سال قبل تحریک اسلامی کے نام سے قائم ہونے والی النہضہ نے تاریخی طور پر خود کو ایک اسلامی جماعت کے طور پر نمایاں رکھا۔ اگرچہ اس نے شریعت کے نفاذ یا تیونس میں ایک اسلامی ریاست کے قیام کی بات نہیں کی، لیکن یہ ایک ایسے نظریہ پر قائم تھی، جو سیاست اور مذہب کو یکجا کرنے کا مدعی تھا۔
جمعہ کو ہونے والا اجلاس زبردست علامتی حیثیت کا حامل تھا، جس نے پارٹی کی نظریاتی تبدیلی پر مہر ثبت کردی۔غیر مذہبی نغمے چلائے گئے۔ حجاب کے بغیر جوان لڑکیاں اسٹیج پر آئیں اور سب سے بڑھ کر صدر بیجی سعید السیبسی ،جن کا تعلق سیکولر جماعت ندا تیونس سے ہے، اس شام کے مہمانِ خصوصی تھے۔
’النہضہ ایک شہری جماعت بن گئی ہے اور ہماری روایات میں اسلام جمہوریت کا متضاد نہیں ہے‘۔ السیبسی نے سامعین سے اپنے کلیدی خطاب میں کہا۔
تیونس کی آزادی کے بعد کی زیادہ تر تاریخ میں ریاست نے اسلام کی تعریف پر اپنی اجارہ داری قائم رکھی اور ایک ایسا ملک تشکیل دیا جس میں سیاست میں سیکولرازم کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ بن علی کو اقتدار سے ہٹانے والے ۲۰۱۱ء کے انقلاب تک النہضہ کی بیشتر سرگرمیاں خفیہ تھیں اور اس کے بہت سے راہنما جیل میں تھے یا پھر یورپ میں جلا وطن تھے۔ راشد الغنوشی نے خود بھی ۲۰ برس لندن میں گزارے۔
’’آمریت کے خلاف ،سیاسی قیدیوں اور انسانی حقوق کی حمایت میں اس تحریک کا آغاز کئی سال پہلے ہوا تھا‘‘ پارٹی کے ترجمان اسامہ صغیر نے اجلاس کے دوسرے دن ’’المانیٹر‘‘ کو بتایا۔
النہضہ ملک کے پہلے جمہوری انتخابات میں ۳۳ میں سے ۳۲ حلقوں میں جیت کر برسرِاقتدار آئی تھی، جو مختلف طبقات اور علاقہ جات میں اس کی مقبولیت کی عکاس ہے۔ تیونس کے لوگوں کا خیال تھا کہ النہضہ اپنی مذہبی بنیادوں کے ساتھ، بِن علی کے کرپشن زَدہ سالوں سے نجات کے لیے ایک ایماندار اور قابلِ بھروسہ جماعت ہے۔اس سے قبل النہضہ تیونس کی دو جماعتوں التکتل اور سی پی آر کو ساتھ ملا کر حکومت بنانے پر راضی ہو کر سیاسی تعاون کا ثبوت دے چکی تھی۔
عوامی مقبولیت کے باوجود النہضہ ایک غیر تجربہ کار سیاسی جماعت ثابت ہوئی۔ بے روزگاری ختم نہ ہوسکی، معیشت دشواریوں کا شکار رہی اور تیونس کی سلامتی کی صورتحال بد سے بد تر ہوتی گئی۔ یہ تاثر عام تھا کہ النہضہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے قابلِ قدر اقدامات نہیں کر رہی ہے۔۲۰۱۳ء میں حزبِ اختلاف کی بائیں بازو کی جماعت کے دو نمایاں راہنماؤں کے قتل نے النہضہ کی ساکھ کو مزید زک پہنچائی۔
۲۰۱۴ء میں النہضہ خود اقتدار سے الگ ہو گئی اور ایک غیر جانب دار عبوری حکومت کے لیے جگہ خالی کر کے نئے آئین کی حتمی تشکیل کے کام کی نگرانی اس کے سپرد کی۔جمہوری انتخابات کے نتیجے میں ندا تیونس اقتدار میں آئی۔ تاہم جنوری سے پارلیمان میں اکثریت النہضہ کے پاس ہے کیونکہ ندا کے ۲۲ ؍ارکان نے جماعت کے اندرونی مسائل کی وجہ سے استعفیٰ دے دیے تھے۔
النہضہ جس نے صدارتی انتخابات کی وجہ سے اپنا ۲۰۱۴ء کا سالانہ اجلاس منسوخ کر دیا تھا، اپنی ساکھ کو نئے سرے سے مرتب کرنے کے عمل میں ہے اور جماعتی ڈھانچے اور اپنے آئین میں ترامیم کر رہی ہے۔ دو دن سے زائد تک مندوبین ادھ کھلے دروازوں کے پیچھے غور و خوض کرتے اور الیکٹرانک بیلٹ کے ذریعے رائے دہی کرتے رہے۔
اجلاس سے قبل النہضہ کا یہ اعلان شہ سرخیوں میں جگہ بناتا رہا کہ وہ مکمل طور پر مذہب کو اپنی سیاسی پالیسیوں سے علیحدہ کر دے گی۔ یہ خدشہ موجود تھا کہ اس قسم کی تبدیلی جماعت میں اندرونی جھگڑے کا پیش خیمہ ثابت ہوگی یا النہضہ اپنے عسکریت پسند ووٹروں کو کھو دے گی۔ لیکن اجلاس کے دوران جماعتی عہدیداروں نے بارہا زور دیا کہ ایک مذہبی تحریک سے سیاسی جماعت تک کا سفر النہضہ کا ’قدرتی سفر‘ تھا۔
جب پارٹی ترجمان اسامہ صغیر سے پوچھا گیا کہ النہضہ اب کیوں اپنی اسلامی شناخت کو چھوڑ رہی ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ ’آج ہمارے پاس آزاد ملک ہے، سول سوسائٹی آزاد ہے‘۔ یہ اقدام النہضہ کو اپنے آپ کو داعش جیسے گروہوں سے الگ ثابت کرنے میں بھی معاون ہوگا، جو اپنی انتہا پسند سرگرمیوں کو سیاسی اسلام کا عنوان دیتے ہیں۔
اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ نظریے میں اتنی زبر دست تبدیلی کو جماعت میں عمومی طور پر مضبوط حمایت حاصل ہے۔ ۸ء۸۰ فیصد ارکین شوری نے سیاسی اور سماجی کام کو علیحدہ کرنے کے حق میں ووٹ دیا۔ اور ۷ء۸۷ فیصد نے جماعت کے نظریاتی وژن کی حمایت میں ووٹ دیا۔ غنوشی، جنہیں حکمت عملی کی اس تبدیلی کا معمار سمجھا جاتا ہے ، بآسانی دوبارہ صدر منتخب ہو گئے۔ انہیں ۸۰۰ یعنی ۷۵ فیصد ووٹ ملے، جو النہضہ کا اپنے بانی پر اعتماد کا اظہار ہے۔
لیکن تیونس کے عوام کے اہم ترین مسائل مذہب سے متعلق نہیں ہیں۔ بے روزگاری، تعلیم، معیشت اور سلامتی وہ غالب معاملات ہیں، جو تیونسی معاشرے کو کھا رہے ہیں۔ غنوشی نے اپنی جمعہ کی تقریر میں انہی معاملات پر بات کی اور دہشت گردی کے معاملے پر حکومت کے ساتھ اپنے بھرپور تعاون کایقین دلایا۔ انہوں نے ’فوری معاشی بحالی پروگرام‘ کا مطالبہ کیا جس میں پیشہ ورانہ تربیت اور ملک کے محروم علاقوں میں کھیل اور ثقافت کے مراکز بنانے کا منصوبہ بھی شامل ہو۔
لیکن حکمت عملی کی تبدیلی میں اتحاد کے باوجود کچھ معاملات نے ارکان کو عاجز کیا مثلاََ مجلس میں خواتین کی مخصوص نشستوں کا مسئلہ۔ بعض مندوبین خواتین کے لیے ۵۰ فیصد نشستیں مختص کرنا چاہتے تھے۔ لیکن بحث کے بعد یہ تعداد ۱۰ فیصد طے پائی۔
شوریٰ کی رکن سیدی الونیسی سے جب پوچھا گیا کہ کیا وہ اس تعداد سے مطمئن ہیں تو انہوں نے اپنے عدم اطمینان کا اظہار کیا۔
ایک اور اختلافی مسئلہ جماعت کے سب سے بااختیار ادارے شوریٰ کونسل کے کردار کے بارے میں تھا کہ آیا اسے جماعت کے انتظامی بورڈ کے ارکان منتخب کرنے کا حق ہو یا نہیں۔ کئی گھنٹوں کے غور و خوض کے بعد ۵۸ فیصد مندوبین نے بورڈ کے ارکان منتخب کرنے کے لیے صدر کو اختیار دینے کے حق میں ووٹ دیا۔ ارکان کی توثیق کونسل کے ذریعے ہوگی جس کے پاس ویٹو کا اختیار بھی ہوگا۔ یہ اقدام صدر کے اختیارات کو تھوڑا محدود کر دے گا۔
اس قسم کی انتظامی اور حکمت عملی کی تبدیلیوں کو ۲۰۱۷ء کے ملک کے بلدیاتی انتخابات سے پہلے کلیدی اقدامات کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ تیونس میں اگلے صدارتی انتخابات ۲۰۱۹ء میں ہوں گے۔ النہضہ غنوشی کی سربراہی میں ۲۰۱۱ء کی طرح ان انتخابات میں دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے پُرامید ہے۔
(ترجمہ: طاہرہ فردوس)
“Why Tunisia’s top Islamist party rebranded itself”. (“al-monitor.com”. May 23, 2016)
The experiment which is being done by AlNAHDA in Tunis deserves more through and deep study by other political parties in the Muslim world which are called rightist and/or calling to establish Islamic shariah as the fundamental law of the land. JI of Pakistan has failed to succeed in democratic process and has lost much of it’s fundamental stature as a Islamic revolutionary movement.
تیونس کی اسلامی جماعت النہضہ کا دین کو سیاست سے جدا کرنے کا فیصلہ پارٹی کے کمزور تربیتی نظام، خوف اور احساس کمتری پر مبنی ذہنیت کا عکاس ہے۔
مصر میں اخوان المسلمون پر مسلط ابتلا و آزمائش نے النہضہ کو بےجا خوف میں مبتلا کردیا ہے۔ سیدہ الونیسی جیسی ( مخلص لیکن مغربی تعلیم یافتہ قیادت جو قرآن کے تحریکی و سیاسی شعور سے اگر نابلد نہیں تو قرآنی پختگی سے محروم ہیں) قیادت نے اس خوف و احساس کمتری پر مبنی پالیسی سازی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
مصر میں اخوان المسلمون سیاسی طور پر کامیاب ہو کر بھی بظاہر ناکام اور ناقدین کی نظر میں مطعون ہیں تو پاکسان کی جماعت اسلامی کس کھیت کی مولی ہے کہ اسے مورد الزام نہ ٹھہرایا جائے۔
سیکولر تجزیہ کار مغرب کی بے تحاشا فنڈنگ کے بل بوتے پر ایسے ایسے تجزیے اور تبصرے پیش کرتے رہے کہ مغرب کے آغوش میں دو دہائی سے پناہ گزین قیادت کو اس نکتے پر آنا ہی پڑا۔ مزید براں اس طرح کے امن و امان اور معاشی حالات پیدا کیے گئے کہ النہضہ کی قیادت خوف و وساوس کا شکار ہوگئی کہ کیا پھر ہم ساحل پر پہنچ کر ڈوب جائیں گے۔ حالانکہ اسلامی تحریکوں کو ساحل نہیں ملا کرتا بلکہ بقول اقبال
ساحل نہ کر قبول والی کشاکش مطلوب رہتی ہے
اقبال نے تو یہ بھی کہا تھا اور درست کہا کہ
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
مگر لگتا ہے کہ النہضہ لندن میں قیام کے دوران اردو اور قرآن دونوں سے دور رہی۔
اللہ تبارک و تعالی کی کیا شان ہے کہ وہ ہر وقت دیکھنے والی آنکھ کو لذت نظارہ مہیا کرتا رہتا ہے، مثلاً ترکی اور تیونس کی اسلامی تحاریک متضاد مثالیں ہیں
النہضہ سیاست سے مذہب کو جدا کر رہی ہے تو عین اسی دور میں ترکی سیکولرازم سے مذہب کی جانب گامزن ہے
النہضہ اور اس کے ہم خیال سورہ الکافرون کا مسلسل اور گہرا مطالعہ کیا کریں
jamat e islami ko bhi es hawalay se ghor kerna chiye.revaity maslaki islam nay mahzhbi leadership ka image tabha kerdia hay aur mazhabi leadership ki corruption ka sara malba jamiat islami ko uthana perta hay..islamic front kay bajae awami front kay naam se samnay ana chiye