
یمن میں قیامت سی برپا ہے۔ شہریوں کا یہ حال ہے کہ ڈھنگ سے کھانے کو کچھ میسّر ہے نہ محفوظ طریقے سے زندہ رہنے کی گنجائش دکھائی دیتی ہے۔ جنگ نے سبھی کچھ الٹ، پلٹ کر رکھ دیا ہے۔ لاکھوں افراد کو بنیادی سہولتوں کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ پینے کا صاف پانی تک آسانی سے دستیاب نہیں۔ غذا کی شدید قلت کے باعث ہزاروں افراد بالخصوص بچوں کو موت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ عالمی برادری بہت ہی بے شرمی اور بے حِسی سے یہ تماشا دیکھ رہی ہے۔ سَنّاٹا ایسا ہے کہ کانوں کے پردے پھاڑنے پر تُلا ہے۔
بمباری کسی وقفے کے جاری ہے۔ ایک گھر میں والدین اپنے سات بچوں کے ساتھ دُبکے ہوئے ہیں۔ باہر نکلنے کی ہمت نہیں کیونکہ کسی بم کا ٹکڑا یا کوئی گولی زندگی کا چراغ گل کرسکتی ہے۔ یہ لوگ کریں تو کیا کریں؟ گھر میں کچھ کھانے کو ہے نہ پینے کو۔ چھت میں ایک بڑا سوراخ ہے جس کے ذریعے یہ آسمان کو دیکھتے ہیں، اِس اُمّید پر کہ شاید بادل گِھر آئیں، کچھ پانی برسے تو پینے کے لیے پانی جمع کیا جاسکے۔ اس گھرانے کے پاس پینے کا پانی بھی نہیں ہے۔ بچے پیاس اور بھوک سے بلک رہے ہیں۔ ماں نے ایک بچے کو گود میں لیا ہوا ہے۔ اُس غریب کے جسم میں اِتنی جان نہیں کہ بچے کو دودھ پلاسکے۔ اس بچے کی حالت بہت بُری ہے۔ بھوک سے اِس کے جسم میں جیسے جان ہی نہیں رہی۔ ماں بھی کیا کرے؟ کئی ہفتوں کی بھوک کے نتیجے میں پیدا ہونے والی شدید کمزوری رنگ لے آئی۔ بچے نے ماں کی گود ہی میں دم توڑ دیا۔ اگر بچہ بول سکتا تو اِتنا ضرور کہتا کہ میں پیدا ہی کیوں ہوا تھا۔
جیمز بیلڈوِن نے خوب کہا ہے کہ خدا کا شکر ہے بچوں کو کچھ پتا ہی نہیں کہ طاقت کتنی بے رحم ہوتی ہے اور لوگ کس قدر بے دردی اور بے پروائی سے ایک دوسرے کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ یمن میں بچے موت کے منہ میں جارہے ہیں اور دنیا یہ تماشا خاموشی سے دیکھ رہی ہے، گویا یہ سب کچھ کسی اور دنیا اور کسی اور زمانے میں ہو رہا ہو۔ یمن پر ایک ایسی جنگ مسلط ہے جس کا کوئی مفہوم ہے نہ جواز۔ ایک ملک تباہ ہو رہا ہے اور ایک پوری نسل موت کے منہ میں جارہی ہے۔ یمن کا المیہ یہ ہے کہ وہاں جو لوگ کسی نہ کسی طور اقتدار پر قابض و متصرف ہیں وہ اُنہی لوگوں کو ہلاک کرنے پر تُلے ہوئے ہیں جن پر وہ حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ وہ بُرائی ہیں جو صرف بے حِسی پر پلتی ہے اور اُس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔
یمن میں اب رہا کیا ہے جس پر یا جس کے لیے حکومت کی جائے؟ ۲۰ لاکھ افراد غذا کی شدید قلت سے دوچار ہیں۔ ۱۰؍لاکھ بچے ہیضے سمیت کئی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ لاکھوں چھوٹے بچے شدید بھوک کی حالت میں انتہائی کمزوری سے دوچار ہیں اور موت کے منہ میں اس طور جارہے ہیں کہ کسی کو شاید بعد میں معلوم بھی نہ ہوسکے گا کہ اُن کا کوئی وجود تھا بھی یا نہیں۔ اس وقت یمن غریب ترین ملک ہے مگر ظالموں نے اس پر بھی بس نہیں کیا۔ اُسے مزید تباہ کیا جارہا ہے۔ سویلین ہلاکتیں اب پسند کا معاملہ ہیں۔ جو جتنے زیادہ شہریوں کو ہلاک کرسکتا ہے وہ اُتنا بڑا فاتح ہے۔ ایک طرف سویلینز کی ہلاکتوں کا گراف بلند ہوتا جارہا ہے اور دوسری طرف جنگجو گروپ اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ وہ بڑی فتح کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
دوستووسکی نے لکھا تھا کہ لوگ جنگل کے حیوانات کی درندگی کا رونا روتے رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ درندگی اور سَفّاکی میں کوئی بھی درندہ انسان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔
اب ایک اہم سوال یہ ہے کہ عالمی برادری کب جاگے گی۔ جو لوگ بھیانک مظالم ڈھارہے ہیں اُن کی مذمت کرنا تو لازم ہے مگر سوال یہ ہے کہ جو لوگ یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں اُنہیں کیا کہا جائے۔ یمن میں جو کچھ ہو رہا ہے اُس کے آگے اب بند باندھنا لازم ہے۔ عالمی برادری اس حوالے سے اپنا فرض کب پہچانے گی؟ جو لوگ ایک لایعنی اور لاحاصل جنگ میں الجھے ہوئے ہیں اُنہیں کب ہوش آئے گا اور وہ کب خون خرابہ چھوڑ کر انسانیت کے نام پر امن کو اپنائیں گے؟
اب کچھ ایسا بچا نہیں جس کے لیے جنگ جاری رکھی جائے۔ ہاں، امن کے لیے کوشش کرنے کی گنجائش ضرور موجود ہے۔ اگر طے کرلیا جائے تو اچھی خاصی مثبت تبدیلی یقینی بنائی جاسکتی ہے۔ الہامی ادیان کی ایک بنیادی تعلیم یہ ہے کہ کسی بھی انسان کو کسی جواز کے بغیر قتل نہ کیا جائے۔ اور یہ کہ جس نے ایک انسان کو بچایا اُس نے گویا پورے عالمِ انسانیت کو بچایا۔ جو کچھ یمن میں ہو رہا ہے اُسے جاری رہنے دیا جائے اِس کی گنجائش اب کم ہے۔ نئے امریکی صدر جوزف بائیڈن یمن میں خانہ جنگی جاری رکھنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ یہ خانہ جنگی ہمارے ضمیر پر بڑا بوجھ ہے۔ ایران کو بھی یمن کے حوثی باغیوں کی مدد جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ ایران کو جزیرہ نما عرب میں مضبوطی کے ساتھ موجود رہنے کی اجازت بھی نہیں دی جاسکتی۔ اتحادی کی حیثیت سے یمن میں جنگ بندی موثر بنانے کے حوالے سے سعودی عرب کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ حوثی باغیوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اب کوئی بھی فاتح بن کر نہ ابھرے گا کیونکہ جس ملک کے لیے وہ لڑ رہے تھے وہ تو رہا ہی نہیں۔ اب انہیں نئے سِرے سے ابتدا کرنی ہے۔ انہیں نرغے میں رہ کر کام کرنے والی حکومت کے ساتھ مل کر امن کے لیے کام کرنا ہوگا، شدید اور شرم ناک نوعیت کے مظالم روکنا ہوں گے۔
ہوسکتا ہے کہ متحارب دھڑوں کو ایک جگہ دیکھ کر عالمی برادری کو بھی کچھ شرم آجائے اور وہ یمن میں استحکام یقینی بنانے کی طرف متوجہ ہو۔ انسانیت کی لاج رکھنے کے لیے یہ سب لازم ہے۔
یمن کے شہریوں بالخصوص بچوں پر جو قیامت گزر رہی ہے وہ پوری دنیا کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ یمن کے لیے ہر اس شخص کو کچھ کرنا ہے جس کے سینے میں دل ہے اور جو ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے کو تیار رہتا ہو۔ یہ ایسا قرض ہے جو چکانا ہی پڑے گا۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Why was I ever born?”(“theglobalist.com”. February 5, 2021)
Leave a Reply