وکی لیکس (Wikileaks) کے انکشافات کا مقصد صرف امریکا کی سفارت کاری کے تاریک گوشے وا کرنا ہی نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔در اصل یہ چندمخصوص ممالک اور شخصیات کے خلاف سائبر (Cyber) صلاحیت کا حربہ استعمال کر کے نفسیاتی جنگ کا نقطہ آغازہے جس کا مقصد افغانستان اور عراق میں ذلت آمیز شکست اور ۲۰۰۶ء میں اسرائیل کی لبنان میں شکست کی شرمندگی کو چھپانے کی ناکام کوشش ہے۔ یہ کہنا زیادہ موزوں ہوگا کہ ’وکی لیکس‘ انکشافات کا پس پردہ مقصد امریکی اور اس کے اتحادیوں کے چند مخصوص مقاصد کا حصول ہے مثلأ:
۱۔ افغانستان میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی شکست میں جن ممالک نے بلواسطہ یا بلا واسطہ کردار ادا کیا ہے ان میں باہمی پھوٹ ڈالنا تاکہ مستقبل میں وہ کسی امریکی مہم جوئی کی راہ میں مزاحمت کے قابل نہ رہیں۔
۲۔ افغانستان میں خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کرنا جس سے پورا خطہ انتشار اور بد امنی کا شکار رہے اور اس گومگو کی کیفیت میں پاکستان اور ایران کو زیر کیا جا سکے کیونکہ ابھی تک امریکا اس مقصد میںناکام ہے۔
۳۔ افغانستان سمیت پورے جنوبی ایشیا میں بھارت کی بالادستی قائم کرنا تاکہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے تذویراتی مقاصد کی تکمیل ممکن ہو سکے۔
ان انکشافات کے ذریعے اپنی افادیت منوانے کے لیے جھوٹ اورسچ کو آپس میں ملا کر پیش کرنے کی روایتی نفسیاتی جنگ کا حربہ استعمال کیا گیا ہے جس طرح سے مختلف شخصیات کے کردار سے متعلق جو حقائق منظرعام پر لائے گئے ہیں ان میں جھوٹ اورسچ دونوں شامل ہیں۔ اس پوری رپورٹ میں اسرائیل کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا گیا اور نہ ہی امریکا کو افغانستان‘ پاکستان‘ ایران اور دیگر مسلم ممالک کے بارے میں ناقص پالیسیاں تشکیل دینے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اسرائیل وہ ملک ہے جو امریکا کی سفارتکاری کے ان خفیہ رازوں تک رسائی کی پوری اہلیت رکھتا ہے جن تک پہنچنا جولین اسانج (Julian Assange) جیسے بد نام فراری شخص کے بس کی بات نہیں ہے۔ بے شک ان انکشافات نے دنیا میں ہلچل مچا دی ہے لیکن جونہی دنیا اس کے پس پردہ عزائم سے آگاہ ہو گی تو اس کی اصل حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی اور یہ ہیجان جھاگ کی طرح بیٹھ جائے گا۔
ہیلری کلنٹن نے ’وکی لیکس‘ کے انکشافات پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے مستقبل میں ایسے واقعات کو روکنے کا عزم کیا ہے۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کے علم میں نہیں تھا کہ جولین اسانج کیا کر رہا ہے اور کیا ملک کے مروجہ قوانین کے تحت اس کی ویب سائیٹ کو بلاک نہیںکیا جا سکتا تھا۔ یقینا ایسا ممکن تھالیکن حقیقت یہ ہے امریکا خود اس مکروہ کھیل کا حصہ ہے ۔
گزشتہ عرصے میں پاکستان‘ایران اور سعودی عرب کے باہمی تعلقات میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے اور ترکی نے بھی پاکستان‘ ایران اور سعودی عرب سے تعلقات بہتر بنائے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان ممالک میں تذویراتی یکجہتی (Strategic Consensus) کا شعور بیدار ہورہا ہے جو امریکا اور اسرائیل کو کسی صورت گوارانہیں۔ پاکستان نے ایران کے ساتھ اربوں ڈالر لاگت کا گیس پائپ لائن سمجھوتہ کیا ہے جس کے لیے پاکستان کے پاس مطلوبہ وسائل موجود نہیں لیکن چین نے اس منصوبے کے لیے درکار رقم فراہم کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ ایران نے سیلاب زدگان کی جس طرح فراخدلانہ امداد کی ہے پاکستانی قوم اس کی تہہ دل سے شکر گزار ہے۔ایرانی صدر نے اس سال کے اوائل میں سعودی عرب کا دورہ کیا تھا جس سے ایران اور سعودی عرب کے مابین مفاہمت اور تعاون کے نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔ افغانستان سے روسی فوجوں کی پسپائی کے بعد امریکا کی ایما پرجو خانہ جنگی ہوئی اس کے برے اثرات ایران پر بھی مرتب ہوئے تھے جس کی وجہ سے اب ایران خطے میںقابض فوجوں کے عزائم کا مخالف ہے۔ اس نازک وقت پر وکی لیکس کے انکشافات کا مقصدپاکستان‘ ایران اور سعودی عرب کے مابین نفاق و بد اعتمادی کے بیج بونا ہے جبکہ دوسری جانب قابض فوجیں افغانستان سے پرامن انخلاء کے راستے تلاش کر رہی ہیں جو طالبان کے ساتھ مفاہمت کے بغیر ممکن نہیں ہے کیونکہ وہ اس ظالمانہ جنگ میں فاتح کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس طرح افغانستان میں طالبان کی عملداری سے خوفزدہ ہو کر افغانستان کولسانی بنیادوں پر تین حصوں میں تقسیم کرنے کی ناپاک سازش کی جا رہی ہے۔ یہ سازش یورپی یونین کے ہیڈ کوارٹر برسلز میں تحقیقی ادارے انٹرنل کرائسس گروپ نے حال ہی میں تشکیل دی ہے جس کے خدوخال مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ حامد کرزئی کو چند ماہ کی مہلت دی جائے تاکہ وہ طالبان اور شمالی اتحاد کے ساتھ قیام امن کے حوالے سے بات چیت کے ذریعے کوئی قابل عمل فارمولا ترتیب دے سکیں۔اگر بات چیت کا یہ سلسلہ ناکام ہو جاتا ہے تو افغانستان کو تقسیم کرنے کے منصوبے پر عمل درآمد کیا جائے گا جس میںتمام وفاقی اکائیوں کی حمایت سے نئی حکومت تشکیل دینے کی آئینی ترجیحات کے ساتھ ساتھ عدالتی نظام اور سیاسی ڈھانچہ بھی مرتب کیا جائے گا۔
۲۔ افغانستان کی تقسیم کے تحت بدخشاں‘ سمرگان اور سرائے پل کے صوبے جو پہلے سے ہی تاجک اور ازبک جنگی سرداروں کے کنٹرول میں ہیں انہی کو دے دیے جائیں گے۔
۳۔ مشرق اور جنوب مشرقی صوبے پختون طالبان اور دیگر قبائل کی تحویل میں دے دیے جائیں گے۔
۴۔ کابل‘ پروان‘ وردک اور لوگر کے صوبے امریکا اپنے پاس رکھے گا جن کی حفاظت کے لیے اسے دس ہزار فوجیوں کی مدد حاصل ہوگی جو ان علاقوں میں واقع چار ہوائی اڈوں سے اپنی کاروائیاں جاری رکھ سکیں گے۔
یہ ایک انتہائی خطرناک منصوبہ ہے جس سے افغانستان ایک بار پھر خانہ جنگی کی لپیٹ میں آجائے گا جس کے مہلک اثرات تمام پڑوسی ممالک پر پڑیں گے جبکہ امریکا‘اس کے اتحادی‘ بھارت اور روس آگ و خون اور تباہی کے اس کھیل کا تماشہ دیکھتے رہیں گے۔ گزشتہ تیس سالوں سے افغانستان میں جاری اس خونی کھیل کا ہی ثمر ہے کہ آج پاکستان‘افغانستان‘ عراق‘ یمن‘ صومالیہ‘ فلسطین اور کشمیر دہشت گردی اور بنیاد پرستی کے عفریت میں مبتلا ہیں اور نہ جانے اب اور کتنے ممالک اس ناسور کا شکار بنیں گے۔اس خون ناحق کے بہائے جانے پر عالمی ضمیر کی مجرمانہ خاموشی ناقابل فہم ہے۔کیا عالمی ضمیر اس قدر زنگ آلود ہو چکا ہے کہ انسانیت کے خلاف اس جرم پر آواز تک نہیں اٹھا سکتا اور مستقبل میں مزیدخونریزی کا تماشا دیکھنے کا منتظر ہے؟
آج سے دوسال قبل جب اوبامہ نے امریکا کی صدارت سنبھالی تو ان کے لیے بہت آسان تھا کہ وہ جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ’تبدیلی‘ کے ایجنڈے پر عمل درآمد کرنے کی کوشش کرتے جس کا انہوںنے انتخابات میں امریکی عوام سے وعدہ کیا تھا لہٰذا وہ آسانی سے صدر بش سے یہ کہہ سکتے تھے کہ: ’’آپ کو افغانستان کی جنگ جیتنا مبارک ہو‘ لیکن اب میرا فیصلہ یہ ہے کہ افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلا کر افغانستان کے عوام کو موقع دوں کہ اپنے ملک کا نظام وہ خود سنبھالیں۔‘‘ اس فیصلے کے عالمی سطح پر بہت دور رس اثرات پڑتے خصوصأ مسلمان ممالک پر‘ جو کہ اب ’وکی لیکس‘ کے انکشافات اور افغانستان کی تقسیم کے رد عمل میں مزید مصائب و آلام کا شکار ہوتے نظر آ رہے ہیں۔
افغانستان میں قیام امن کاراستہ واشنگٹن سے ہو کر گزرتاہے جہاں کے پالیسی سازوں کو چاہیے کہ جنگ میں فتح حاصل کرنے والے طالبان کے ساتھ مفاہمت کی راہ اپنا کر قیام امن کی شرائط وضع کریں۔اور اس مثال کو سامنے رکھیں جو آج سے۲۳۳۶ سال قبل قائم ہوئی جب پاک افغان سرحدی علاقے کے حکمران ’پورس‘ کو سکند ر اعظم کے حضور پیش کیا گیا تو سکندر اعظم نے پوچھا:’’تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟‘‘ تو پورس نے جواب دیا: ’’آپ جنگ کے اصولوں سے اچھی طرح واقف ہیںکہ کس طرح ایک فاتح بادشاہ‘ شکست خوردہ بادشاہ کے ساتھ سلوک کرتا ہے۔‘‘ سکندر اعظم کوپورس کے اس جواب نے بہت متاثر کیا اور فتح کیا ہوا علاقہ اسے واپس کر دیا۔یہی وہ علاقہ ہے جہاں سے بعد میں موریہ (Maurias) سلطنت قائم ہوئی اور تین مورتی (Tri Murti) کا نشان اپنایا۔ آج یہی تین مورتیاں بھارتی ریاست کا نشان ہیں۔
واشنگٹن کے لیے ضروری ہے کہ ان سازشوں سے احتراز کرتے ہوئے کھیل کے اصولوں کی پاسداری کرے اور افغانستان میں قیام امن کی راہ ہموار کرے۔ سچائی کا سامنا کرنے سے گریز اچھا نہیں ہوتا‘ جیسا کہ فرانسیسی فلاسفر Albert Schweitzer نے کہا تھا: ’’سچائی کا اپنا کوئی معین وقت نہیں ہوتا بلکہ اس کا وقت ’ہمیشہ‘ اور ’ابھی‘ ہوتا ہے۔‘‘ جس کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ہی دانشمندی ہے۔
(موصولہ از ’’فرینڈز‘‘ اسلام آباد)
Leave a Reply