
سابق وزیراعظم خالدہ ضیاء کی سربراہی میں قائم بیس جماعتی اتحاد کا پُرتشدد احتجاج کئی ہفتے سے جاری ہے۔ جس میں جھڑپیں، نقصِ امن، پیٹرول بموں کا استعمال اور ٹریفک میں خلل اندازی سبھی شامل ہے۔ اس احتجاج کو دبانے کے لیے وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے انصار فورس، پولیس، سراغ رساں ادارے، سریع الحرکت بٹالین اور بنگلا دیشی سرحدی محافظوں تک کو خطرناک ہتھیار دے کر بلوائیوں کو ’’دیکھتے ہی گولی مارنے‘‘ کے احکامات جاری کر رکھے ہیں۔
اس افراتفری کے عالم میں خالدہ ضیاء کے زیادہ تر پارٹی رہنما اور اتحادی جیل بھیج دیے گئے ہیں اور اعانتِ جرم کے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ خالدہ ضیاء کے دفتر پر پولیس کا دھاوا اور ان کو نظر بند کرکے عوامی اجتماع سے خطاب کرنے سے روک دینا اس پر مستزاد ہے۔ وہ کارکنوں سے دُور اپنے دفتر میں اس حال میں قید رہی ہیں کہ جب انٹرنیٹ، فون اور ٹیلی ویژن کے کنکشن منقطع کردیے گئے تھے (بجلی اور موبائل فون کنکشن بھی منقطع کردیے گئے تھے جنہیں بعد میں بحال کیا گیا)۔ لیکن اس کے باوجود ان کے کارندے سارے ملک میں پھیلتے جارہے ہیں اور اب تک عوام اور تاجروں کی ایسی بین الاضلاعی تحریک چلانے میں کامیاب رہے ہیں، جو معاشی سرگرمیوں کو بڑی حد تک مفلوج کرکے جانوں اور املاک کے نقصان کا سبب بنی ہے۔ دوسری جانب وزیراعظم کے ماتحت قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کرکے قید خانوں کی آبادی تین گنا کردی ہے جبکہ مقابلوں اور دو طرفہ فائرنگ کے واقعات میں متعدد ماورائے عدالت قتل کرنے میں بھی ملوث ہیں۔
قانون نافذ کرنے والے وزیراعظم کے دستِ راست ہیں!
سابق ضلعی پولیس افسر نے، جو کہ اب فوج اور پولیس کے اہلکاروں پر مشتمل سریع الحرکت بٹالین کے ڈائریکٹر جنرل ہیں، صورتِ حال کو ’’تعداد گھٹانے کی جنگ‘‘ سے تشبیہ دی ہے۔ جبکہ پولیس کے ایک ڈپٹی انسپکٹر جنرل نے اپنے اہلکاروں کو حکم دیا ہے کہ وہ نہ صرف ’’سبوتاژ‘‘ کرنے والوں کو گولی مار کر ہلاک کردیں بلکہ ان کی ’’باقیات کو بھی صفحۂ ہستی سے مٹا دیں‘‘۔
جرمن خبر رساں ادارہ ڈیوچے ویلے نے ۱۰؍فروری کو خبر دی کہ بنگلا دیش کا بحران ’’واپس نہ آسکنے کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے‘‘۔ جبکہ کوئی بھی فریق پسپائی پر آمادہ نہیں ہے اور سیاسی بحران سنگین ہوتا جارہا ہے۔ جیسے جیسے اس سیاسی جنگ میں گہرائی پیدا ہو رہی ہے، ویسے ویسے ملک میں فوجی مداخلت کا خطرہ بڑھتا جارہا ہے۔
تجزیہ کاروں کے بقول سیاسی تشدد کی نئی لہر نے، جس میں ۵۰ سے زائد لوگ مارے جاچکے ہیں، حکمراں عوامی لیگ اور بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی کے درمیان موجود ڈیڈلاک کو نئے مرحلے میں داخل کردیا ہے۔ دونوں جماعتیں پاکستان سے آزادی حاصل کرنے والی اس جنوبی ایشیائی ریاست پر باری باری حکمران رہی ہیں۔ موجودہ بحران کے باعث ہونے والی آئے روز کی ہڑتالوں اور ٹریفک کی بندش نے کاروبارِ زندگی کو معمول کی ڈگر سے ہٹا کر عوام کے معاشی مفادات کو نقصان پہنچایا ہے اور ملک میں جاری معاشی سرگرمیوں کو بھی متاثر کیا ہے۔ تقریباً ۸۰۰ گاڑیوں کو جلایا جاچکا ہے اور دو ٹی وی اسٹیشن مالکان گرفتار کیے جاچکے ہیں۔ ایک طرف جہاں بی این پی عوامی طاقت کے بل بوتے پر حکومت کا تختہ الٹنا چاہتی ہے، وہیں حکمراں عوامی لیگ حزبِ اختلاف کو سبق سکھانے کے لیے پُرعزم ہے۔
اگر بحران نے مزید شدت اختیار کی تو اس کا نتیجہ فوجی مداخلت کی صورت میں برآمد ہوسکتا ہے، جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ پولیس اور سب سے زیادہ خوفناک ایجنسی سمجھی جانے والی سریع الحرکت بٹالین سمیت قانون نافذ کرنے والے تمام ادارے وزیراعظم حسینہ کے اشاروں پر چل رہے ہیں۔ عدلیہ برائے نام آزاد ہے۔ اس کے باوجود کم از کم کاغذوں کی حد تک ہی یہ وہ واحد ادارہ ہے جو حکومت کے غیر قانونی اور حزبِ اختلاف کے غیر آئینی اقدامات کو کچلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
بنگلا دیشی سول سوسائٹی سیاسی بنیادوں پر بری طرح منقسم ہے، جس سے اس کی دونوں جماعتوں کو کٹہرے میں لانے کی صلاحیت متاثر ہوچکی ہے۔
برسلز سے ۹ فروری کو جاری کردہ انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی ایشیا رپورٹ نمبر ۲۶۴ کے خلاصے میں بنگلا دیش سے متعلق اسی طرح کے نتائج اخذ کیے گئے ہیں:
’’ایک طویل اور پُرتشدد سیاسی بحران کے نتیجے میں شیخ حسینہ اور خالدہ ضیاء ہی خسارے میں رہیں گی، خاص طور پر امن و امان کی تیزی سے بگڑتی صورتِ حال نے اگر فوج کو مداخلت پر اُکسایا، گو کہ ابھی ایسے آثار نہیں ہیں مگر تاریخ بتاتی ہے کہ اس امکان کو رد بھی نہیں کیا جاسکتا‘‘۔
بین الاقوامی برادری کے مغربی ارکان اپنے دارالخلافوں اور ڈھاکا میں موجود اپنے سفارت خانوں کے ذریعے حزب اختلاف کی جانب سے تشدد کو بڑھاوا دینے اور حکومت کی جانب سے ’’جمہوری گنجائش‘‘ کو ناپید کرنے پر گہری تشویش کا اظہار کررہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکرٹریٹ نے یہ بیان جاری کیا:
اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق نے ۱۶؍جنوری کو اس امر پر تشویش کا اظہار کیا کہ بنگلا دیش میں سیاسی تشدد بڑھ رہا ہے جبکہ اس بات کے خطرات موجود ہیں کہ ملک انہی حالات کی طرف واپس لوٹ جائے، جب ۲۰۱۴ء کے انتخابات کے بعد سیاسی فوائد کے حصول کی تباہ کن کشمکش کا آغاز ہوا۔ جنیوا میں اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کی ترجمان روینہ شمداسانی نے کہا کہ ’’دو بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے پُرامن طور پر اختلافات ختم کرنے میں ناکامی کا نتیجہ بڑھتے ہوئے سیاسی تشدد کی صورت میں نکلا ہے جو بہت پریشان کن ہے‘‘۔
۲۸ جنوری کو بنگلا دیش کے حالات سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفین ڈوجارِک نے کہا کہ اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے انسانی حقوق نے بنگلا دیش بحران کے فریقین سے تحمل کا مطالبہ کیا جبکہ سیکرٹری جنرل بھی خاصے فکرمند ہیں۔ حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ’’اپنے طور پر حزب اختلاف کے کسی بڑے رہنما کو حراست میں لیں گے، نہ گرفتار کریں گے‘‘۔ بین الاقوامی قوانین میں طے کردہ انسانی حقوق سے متعلق معیارات کی ’’قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی جانب سے پاسداری کی جائے‘‘ جبکہ وہ ’’امن و امان کی بحالی‘‘ کے لیے اقدامات اٹھا رہے ہوں۔
پُرامن مظاہروں کی اجازت کے لیے حکومت پر دباؤ
ڈوجارِک سے جب پوچھا گیا کہ کیا بنگلا دیشی فوج اور پولیس اہلکاروں کی بھرتی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جارہی ہے تو انہوں نے کہا کہ ایسے معاملات میں اہلکاروں کے طرزِ عمل سے متعلق پالیسی میں انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے بین الاقوامی معیارات مکمل طور پر اور ’’مسلسل لاگو ہوتے ہیں‘‘۔ پھر ۵ فروری کو سابق وزیراعظم پر جلاؤ گھیراؤ کا مقدمہ بنانے، ان کے دفتر کی بجلی کاٹنے اور حکام کی جانب سے مظاہرین پر تشدد کرنے کی رپورٹ کے بارے میں ’’سیکرٹری جنرل کے ردعمل‘‘ سے متعلق پوچھا گیا کہ کیا سیاسی امور کا محکمہ یا اقوام متحدہ کا کوئی اور ادارہ مصالحت کار کا کردار ادا کررہا ہے، تو سیکرٹری جنرل کے نائب ترجمان نے بتایا کہ ’’قیام امن کے لیے تعینات اہلکار متعلقہ مشن کے ماتحت ہوتے ہیں جبکہ سیاسی عمل اس معاملے سے علیحدہ موضوع ہے۔ جہاں تک بنگلا دیش کے حالات کا تعلق ہے تو ہم نے اپنے تحفظات ظاہر کردیے ہیں۔ جیسا کے آپ جانتے ہیں، ہمارے محکمہ برائے سیاسی امور کے سینئر افسران سمیت حکام نے بنگلا دیش کے مسلسل دورے کیے ہیں، رہنماؤں سے ملنے کی کوشش کی ہے تاکہ بحران کو پُرامن طور پر حل کیا جاسکے‘‘۔
’ہم پُرامن احتجاج اور پُرامن اجتماع کا حق دینے کے لیے حکام کی مسلسل حوصلہ افزائی کررہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ اس کے علاوہ، ہم دونوں مرکزی جماعتوں کی رہنماؤں سے رابطے میں رہیں گے تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ وہ اپنے اختلافات دور کرلیں‘‘۔
عالمی خدشات اور آئی ایس پی آر کی تنبیہ
بنگلا دیشی فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر نے ۸ فروری کو ایک پریس ریلیز کے ذریعے میڈیا سے درخواست کی کہ مسلح افواج سے متعلق خبروں کی اشاعت کے وقت ’’محتاط‘‘ رہا جائے۔ پریس ریلیز میں کہا گیا کہ ’’مسلح افواج سے متعلق خود ساختہ اور افواہوں پر مبنی خبریں اور تبصرے کچھ عرصے سے ذرائع ابلاغ میں زیر گردش ہیں، جو کہ غیر ضروری ہیں اور لوگوں میں اضطراب پیدا کرسکتے ہیں۔ مسلح افواج ایک محب وطن ادارہ ہے جو ملکی آئین اور قوانین کا مکمل احترام کرتا ہے‘‘۔
عوام میں پھیلی بے چینی، عدم تحفظ کے احساس اور غیر یقینی صورت حال کے تناظر میں یہ ایک صائب اور بروقت انتباہ ہے۔ تاہم یہ قیاس اپنی جگہ کہ عالمی میڈیا اور سیاسی تجزیہ کار بھی آئی ایس پی آر کی اس تنبیہ سے متاثر یا محدود ہوں گے یا نہیں۔
امریکی سابق سفیر ولیم بی میلام جو اَب وُڈرو ولسن انٹرنیشنل اسکالر ہیں، دسمبر ۲۰۱۳ء سے بنگلا دیش پر مضامین کا ایک سلسلہ لکھ رہے ہیں جس میں انہوں نے شیخ حسینہ کی حکومت کو ان آئینی اور سیاسی اقدامات کے خلاف خبردار کیا ہے، جن کا مقصد مطلق العنان یک جماعتی ریاست کا قیام ہے۔ ۲۰ جنوری کو ’’فرائیڈے ٹائمز ڈاٹ کام‘‘ پر شائع ہونے والے تازہ مضمون میں وہ افسردگی کے ساتھ لکھتے ہیں کہ شیخ حسینہ کی ’’شخصی جمہوریت‘‘ نے بنگلا دیشی سیاست کو تشدد اور انتشار کی ایسی کھائی میں دھکیل دیا ہے، جس کا غیر متوقع نتیجہ فوجی بغاوت کی صورت میں نکل سکتا ہے (حالانکہ شیخ حسینہ ایک ایسی آئینی ترمیم لاچکی ہیں جس کے تحت ریاستی طاقت ’’غصب‘‘ کرنے والوں کو موت کی سزا دی جائے گی)۔
لندن سے نکلنے والے ’’دی اکانومسٹ‘‘ نے ۲ اور ۷ فروری کو یکے بعد دیگرے شائع ہونے والے شماروں میں خبردار کیا ہے کہ بنگلا دیش ایک غیر مؤثر دو جماعتی نظام سے ناقابلِ برداشت حد تک متاثر ہوچکا ہے اور جرنیل یہ سوچ سکتے ہیں، جیسا کے انہوں نے آٹھ سال پہلے سوچا تھا، کہ ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ اس سیاسی لڑائی کو کالعدم قرار دے دیں جس میں کوئی فریق جیت نہیں سکتا، اور یہ کہ خالدہ ضیاء اب ’’ملک کو اس دوراہے پر لاکھڑا کرنا چاہتی ہیں جہاں فوج اپنی مداخلت کو لازمی خیال کرے، حالانکہ وہ ایسا کرنا نہ چاہتی ہو‘‘۔
بنگلا دیش کہاں کھڑا ہے؟
دوسری جانب وزیراعظم سے قربت رکھنے والے عوامی لیگ کے کٹّر حامی کھلے بندوں یہ کہتے ہیں کہ شیخ حسینہ کسی ایسے فوری انتخابات کو قبول نہیں کریں گی جو خالدہ ضیاء کو اقتدار میں لے آئیں بلکہ وہ اس کے بجائے اقتدار فوج کے حوالے کردیں گی۔
میڈیا پر آنے والے صحافتی تجزیہ کار محتاط انداز میں یہ بات کہتے ہیں کہ فوج کی مداخلت کے ’’امکان‘‘ کا ذکر کرنا فوج کو مداخلت کی ’’دعوت دینا‘‘ نہیں ہے، وہ باہم دست بہ گریباں بیگمات کو ان کی مسلسل مخاصمت کے نتیجے سے ڈرانا چاہتے ہیں جو ممکنہ سیاسی تصفیوں کی راہ میں حائل ہے۔ دوسری جانب چند سیاسی تجزیہ کار مداخلت کی اس فوجی ’’خواہش‘‘ کو جانچ رہے ہیں جو وہ قومی ترقی کی صلاحیت کے مسلسل زوال کے خاتمے کی خاطر کر سکتی ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بنگلا دیش میں فوج خطے میں تزویراتی موجودگی رکھنے والی دو بڑی طاقتوں، امریکا اور چین کے ساتھ متوازن تعلقات رکھنے کی بہتر پوزیشن میں ہے جبکہ اس نے خطے کے بڑے ملک بھارت سے بھی اچھے تعلقات قائم کرلیے ہیں، جس کی سات مشرقی ریاستوں کی سلامتی کے حوالے سے خدشات کو بنگلادیشی فوج خوش اسلوبی سے دور کرسکتی ہے۔
(مترجم: حارث بن عزیز)
“Will a ‘military’ option save Bangladesh?”. (“weeklyholiday.net”. February 13, 2015)
Leave a Reply