
چین اور بھارت کی ۲۰۰۰ میل طویل مشترکہ سرحد ہے، جو کہ شمال مغرب میں جاکر پتلی سی راہداری کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور یہ راہداری ہی آج کل ایٹمی طاقت رکھنے والے دو پڑوسی ممالک کے درمیان تنازع کی وجہ بنی ہوئی ہے۔
۱۶ جون ۲۰۱۷ء کو چینی فوجیوں نے ڈوکلام کے مقام پر سڑک کو وسعت دینے کے لیے کام شروع کیا ،یہ وہ متنازع جگہ ہے جس پر بھوٹان اور چین دونوں دعویٰ کرتے ہیں (یاد رہے بھارت کا اس سے کوئی تعلق نہیں)، جب کام شروع ہوا تو بھوٹان نے بھارت سے اس کی تعمیر رکوانے کے لیے مدد مانگی۔
جب نئی دہلی نے اپنی فوج بھیجی تو بیجنگ نے اس مداخلت کو سختی سے مسترد کر دیا اور اس کے بعد سے دونوں ممالک کے ذرائع ابلاغ میں بیانات کی ایک جنگ شروع ہو گئی۔گزشتہ ہفتے چین نے سرحد سے ملحقہ علاقے میں جنگی مشقیں بھی کیں جن میں اصلی اسلحہ وبارود استعمال کیا گیا۔
دونوں ممالک کی طرف سے فوجی طاقت کا مظاہرہ پچھلے ایک ماہ سے جا ری ہے اور اس میں کمی کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔۳؍اگست کوچین کی وزاتِ خارجہ نے بھارت کی اس حرکت کو ’’غیر ذمہ دارانہ اور جارحیت سے بھرپور‘‘ قرار دیا ہے۔ اس کے ایک ہی دن بعد چینی وزارت دفاع کے ترجمان ’’جنرل ووقیان‘‘ نے پریس کانفرنس میں بھارت کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ’’قومی سلامتی اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے چین کا عزم غیر متزلزل ہے، بھارت حالات ہمیشہ اپنے حق میں سازگار رہنے کے مفروضے پر رسک لینے اور خیالی دنیا میں رہنے سے گریز کرے‘‘۔
بھارت ڈوکلام پر کوئی دعویٰ نہیں کرتا۔ لیکن یہ مقام ’’سلی گوری‘‘ راہداری سے متصل ہے، جو ریاست سکم کے پاس سے گزرتی ہے، یہ ریاست بھارت کی سات انتہائی شمال مغربی ریاستوں کو مرکزی بھارت سے ملاتی ہے۔انہی میں سے ایک ریاست اروناچل پردیش بھی ہے جو کہ رقبے کے لحاظ سے مغربی کیرولینا جتنی ہے ،فی الحال تو اس ریاست کا کنٹرول بھارت کے پاس ہے لیکن چین اس کی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے۔ یہ علاقہ تزویراتی طور پر بھارت کے لیے بہت اہم ہے اور بھارت کو ڈر ہے کہ چین اس علاقہ پر قبضہ نہ کر لے۔
چین اور بھارت ۱۹۶۲ء میں ایک سرحدی جنگ لڑ چکے ہیں، اس کے باوجود ان دونوں ممالک کے درمیان تنازعات حل نہیں ہوئے۔اروناچل پردیش کے علاوہ سیاچن، اکسائی چن اور Depsang Plains بھی متنازع علاقوںمیں شامل ہیں۔
ہانگ کانگ یونی ورسٹی کے پروفیسر Yvonne Chiu نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے نہیں لگتا کہ یہ کشیدگی کم ہو گی ،کیوں کہ کشیدگی کم نہ ہونے کی وجہ دونوں ممالک کے ذرائع ابلاغ میں ہونے والا شور شرابہ ہی نہیں ہے، بلکہ شائدچین یہ چاہتا ہی نہیں کہ یہ کشیدگی کم ہو‘‘۔
(ترجمہ: حافظ نوید نون)
“Will China and India Go to War Over This Tiny 12-Mile Strip of Land?”.(“Foreign Policy”. August 9, 2017)
Leave a Reply