
لبنان کے وزیر اعظم سعد الحریری نے سعودی عرب پہنچنے کے بعد منصب چھوڑنے کا اعلان کرکے ایک دنیا کو حیرت میں ڈال دیا۔ ان کے مستعفی ہونے کے ایک ہفتے بعد لبنان نے یہ پوچھنا چھوڑ دیا کہ وہ کہاں ہیں یا کیسے ہیں اور اب ان کی رہائی کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ لبنانی صدر مچل عونے سعد الحریری کے غائب ہو جانے کے حالات کو انتہائی پراسرار قرار دیتے ہوئے سعودی عرب سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس حوالے سے وضاحت کرے۔ کئی ممالک کے سفیروں سے ملاقات کے دوران لبنانی صدر نے ایک قدم آگے جاکر یہ بھی کہا کہ سعد الحریری کو اغوا کرلیا گیا ہے۔ سعد الحریری مختصر دورے پر ریاض گئے تھے اور ان کی واپسی طے تھی۔ مگر پھر یہ ہوا کہ ان کی طرف سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا گیا۔
میں نے لبنان میں سیریک لیگ کے صدر اور صدر مچل عون کے بہت نزدیک سمجھے جانے والے تھنک ٹینک لیونٹ انکاؤنٹر کے سیکریٹری جنرل حبیب ایفرم سے بات کی۔ انہوں نے مجھے کیلینڈر میں ایک انٹری دکھائی، جس کے مطابق سعد الحریری کو ۶ نومبر کو رات گیارہ بجے ایک انٹرویو کے لیے ٹی وی اسٹوڈیو آنا تھا، مگر پھر اچانک یہ ہوا کہ انہوں نے العربیہ کے کیمروں کے سامنے منصب چھوڑنے کا اعلان کردیا۔ یہ واقعہ ۴ نومبر کا ہے۔ استعفے کے اعلان سے چند گھنٹے پہلے حبیب ایفرم کو وزیر اعظم کے دفتر سے فون آیا تھا، یعنی خود وزیر اعظم سعد الحریری کے اسٹاف کو بھی معلوم نہ تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔
سعد الحریری اب ریاض میں اُسی طور پھنس کر رہ گئے ہیں، جس طور یمن کے صدر عبد ربہ منصور ہادی پھنسے ہوئے ہیں۔ انہیں بھی کئی ماہ سے ریاض چھوڑنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ سعودی عرب میں معاملات جتنی تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں اس کی روشنی میں لبنان اور دوسرے بہت سے علاقائی ممالک میں یہ خدشہ پروان چڑھ رہا ہے کہ سعودی عرب کو کہیں ڈھکی چھپی جنگ یا خانہ جنگی کا سامنا تو نہیں۔
ذرائع بتاتے ہیں کہ سعد الحریری کو حزب اللہ کی طرف سے قتل کیے جانے کا خدشہ تھا اس لیے انہوں نے سعودی عرب پہنچ کر ولی عہد سلمان بن عبدالعزیز سے ملاقات کے دوران استعفٰی پیش کردیا۔ دوسری طرف حزب اللہ نے سعد الحریری کے خدشے کو یکسر بے بنیاد قرار دیا ہے۔ سعودی عرب نے سعد الحریری کے بڑے بھائی بہا الحریری کو وزیر اعظم بنانے کا فیصلہ کرتے ہوئے حریری فیملی کے دیگر ارکان سے کہا ہے کہ وہ ریاض آکر اس فیصلے کی تائید کا اعلان کریں تاکہ لبنان میں سیاسی بحران ختم ہو۔ (جہاں تک مسلح جدوجہد کا معاملہ ہے، لبنان میں کوئی بھی جماعت ابھر کر سامنے نہیں آئے گی۔)
لبنان کے وزیر داخلہ موہاد میکنوک کہتے ہیں کہ لبنانی کوئی بھیڑوں کا گلہ نہیں کہ کوئی ہانک کر کہیں بھی لے جائے۔ اور یہ ملک کوئی پلاٹ نہیں، جس کی ملکیت کا دعویٰ کوئی بھی کر بیٹھے۔ لبنان میں جمہوری نظام ہے۔ یہاں بیعت لینے والا معاملہ نہیں چل سکتا۔
جو کچھ ہو رہا ہے اُسے لبنان کی خود مختاری اور اقتدارِ اعلیٰ پر حملے ہی سے تعبیر کیا جائے گا۔ لبنان میں اس حوالے سے شدید مزاحمت پائی جاتی ہے۔ سعودی عرب کے چند ایک شدید اور غیر لچک دار حامیوں کے سوا سبھی ان معاملات کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ان میں سابق وزیر انصاف اور ٹریپولی کے معروف و مضبوط سنی رہنما اشرف ریفی کے علاوہ عیسائیوں کی جماعت لیبینیز فورسز کے سربراہ سمیر گیگی بھی شامل ہیں، جن کے نزدیک سعد الحریری کا استعفیٰ حیرت انگیز نہیں تھا، ہاں ٹائمنگ تھوڑی سی حیرت انگیز ضرور تھی۔
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور بحرین نے بیروت میں مقیم اپنے شہریوں سے کہا ہے کہ وہ فوراً لبنان سے نکل جائیں۔ سعودی عرب اور اس کے ہم خیال ممالک نے الزام عائد کیا ہے کہ لبنان نے ان کے خلاف جنگ چھیڑ دی ہے۔ سعودی عرب نے اپنے شہریوں کو لبنان کے سفر سے پہلی بار نہیں روکا۔ فروری ۲۰۱۶ء میں تہران میں سعودی سفارت خانے پر حملے کے بعد بھی ریاض نے لبنان سے اپنے شہریوں کو نکل جانے کا حکم دیا تھا۔ تب یہ جواز پیش کیا گیا تھا کہ لبنان نے ایرانی جارحیت کی مذمت کرنے میں تساہل اور بزدلی کا مظاہرہ کیا ہے۔ بعد میں جب مچل عون صدر اور سعد الحریری وزیر اعظم بنائے گئے تب کشیدگی کم ہوئی اور لبنان کے معاملات درستی کی راہ پر گامزن ہوئے۔
اس وقت لبنان کے باشندے شدید خوف کا شکار ہیں۔ ایک طرف سعودی عرب کی طرف سے معاشی اور عسکری نوعیت کے اقدامات کا خدشہ ہے اور دوسری طرف اسرائیل کی طرف سے بھی جارحیت کا خدشہ ہے کیونکہ اسرائیلی قیادت نے سعد الحریری کے مستعفی ہونے سے پہلے ہی اشارہ دیا تھا کہ حزب اللہ سے ایک بار پھر بھرپور لڑائی ہوسکتی ہے۔
لبنان میں ایران کا ایک حلیف، حزب اللہ ملیشیا، مکمل طور پر مسلح اور تیاری کی حالت میں ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ سعودی قیادت لبنان میں ویسا ہی کچھ کرنا چاہے گی جیسا اس نے یمن میں کیا؟ کیا وہ لبنان میں حزب اللہ سے براہِ راست تصادم کی راہ پر گامزن ہوگی؟ اگر ایسا کچھ ہوا تو لبنان میں معاملات بہت خراب ہو جائیں گے۔ اس وقت لبنان میں شام اور فلسطین کے لاکھوں پناہ گزین مقیم ہیں۔ جنگ یا خانہ جنگی سے ان کے لیے بھی مشکلات غیر معمولی حد تک بڑھ جائیں گی۔ شام، یمن اور عراق میں حالات انتہائی ناگفتہ بہ ہیں۔ ایسے میں اگر لبنان بھی میدان جنگ میں تبدیل ہوا یا کردیا گیا تو خطے میں شدید انتشار پھیلے گا، قتل و غارت کا نیا بازار گرم ہوگا اور کئی نئے بحران جنم لیں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ لبنان جنگ نہیں چاہتا۔ سعودی حکام جو کچھ کہہ رہے ہیں، وہ لبنان میں معاملات کو خراب کرنے اور کشیدگی کو بڑھانے کے لیے کافی ہے۔ سعودی حکام نے لبنانی صدر اور پارلیمان کے اسپیکر کو دہشت گردوں کی صف میں شامل کرنے سے بھی گریزنہیں کیا۔ اس طرح کے الزامات سے لبنانی عوام کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے اور معاملہ اس حد تک آگے بڑھا کہ وزیر انصاف سلیم جریساتی نے پراسیکیوٹر جنرل کو حکم دیا کہ وہ صدر، اسپیکر اور کابینہ کے ارکان کے خلاف سعودی الزامات کی تحقیقات کریں اور اس امر کا جائزہ لیں کہ اس توہین پر سعودی عرب سے جواب طلبی کی جانی چاہیے یا نہیں۔
اگر سعودی عرب نے سعد الحریری کے استعفے کی شکل میں حزب اللہ کے خلاف کوئی محاذ کھڑا کرنے کی کوشش کی تھی تو یہ کوشش ناکامی سے دوچار ہوتی دکھائی دے رہی ہے کیونکہ لبنان میں قومی سطح پر وحدت اور یگانگت دکھائی دے رہی ہے۔ اب تک ایسا نہیں لگتا ہے کہ یہ ملک کسی بھی سطح پر کسی جنگ کے لیے تیار ہے۔
لبنان میں سعودی عرب کی حمایت کرنے والے بہت ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ جب مکمل جنگ ہوگی تب وہ کیا رویہ اختیار کریں گے۔ حزب اللہ سے جنگ کی صورت میں سعودی عرب کے حامی ہتھیار اٹھاکر میدان میں آئیں گے یا نہیں؟ اور ایسا بھی نہیں ہے کہ لبنان میں حزب اللہ کے لیے سب کچھ اچھا ہے۔ وہ اب لبنان کی حدود سے باہر ایسا کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں، جس سے سعودی عرب اور اس کے حلیف برہم ہوں۔ اگر ایسی کوئی بھی کیفیت پیدا ہوئی تو سعودی عرب اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر لبنان میں حزب اللہ کے خلاف بھرپور کارروائی سے گریز نہیں کرے گا۔
ایک بات تو بالکل واضح ہوچکی ہے، وہ یہ کہ لبنان کے عوام فی الحال کسی بھی جنگ یا خانہ جنگی کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں صرف خرابیاں پیدا ہوں گی اور معاملات الجھیں گے۔ وہ حزب اللہ سے کوئی ایسی لڑائی نہیں چاہتے جس کے نتیجے میں ملک مزید خرابیوں کا شکار ہو۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اپنی سرزمین پر کسی اور کی جنگ بھی نہیں چاہتے۔ ۱۹۷۵ء سے ۱۹۹۰ء کی خانہ جنگی کافی تھی۔ اسرائیل سے مناقشے بھی مسائل پیدا کرتے رہے ہیں۔ قتل و غارت بہت ہوچکی۔ اب دانش سے کام لینے کا وقت ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Will Lebanon become Saudi’s next Yemen?”. (“Al Jazeera”. Nov.12, 2017)
Muslims must not involve in any war. Solve the problems by dialogue only.