سیاسی پنڈت اندازے لگا رہے ہیں کہ ملائیشیا کے وزیر اعظم نجیب رزاق آئندہ عام انتخابات میں کامیابی سے ہم کنار ہوں گے یا نہیں۔ اسلام پسند حکمران کی واضح فیصلہ کن پوزیشن کو ختم یا کمزور کرنے کے لیے اپوزیشن کی تمام جماعتیں سابق وزیر اعظم مہاتیر محمد کی قیادت میں جمع ہیں۔ ان جماعتوں کو پارلیمان میں ایک تہائی تک نشستیں مل سکتی ہیں۔ اب ملائیشیا کئی عشروں کے دوران کے انتہائی اہم عام انتخابات سے کچھ ہی ہفتوں کی دوری پر ہے۔ ۹۲ سالہ مہاتیر محمد چاہتے ہیں کہ ان کا سابق سیاسی لے پالک نجیب رزاق ایک اور میعاد کے لیے وزیر اعظم نہ بنے۔ جس اپوزیشن کو انہوں نے کسی زمانے میں دبوچ کر رکھا تھا اب اسی کے ساتھ مل کر نجیب رزاق کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ مگر خیر مہاتیر محمد کی سابق جماعت یونائٹیڈ مالیز نیشنل آرگنائزیشن کے ساٹھ سالہ اقتدار کو ختم کرنا ایسا آسان بھی نہ ہوگا۔
سیاسی امور پر گہری نظر رکھنے والوں کا اندازہ ہے کہ نجیب رزاق ایک بار پھر دو تہائی اکثریت سے کامیاب ہوسکتے ہیں، اور یوں وہ آئین میں ترامیم کی پوزیشن میں ہوں گے۔ مہاتیر محمد کے پاس پان ملائیشیا اسلامسٹ پارٹی کے اقتدار کو ختم کرنے کے لیے بہت کم وقت رہ گیا ہے۔ انہوں زیادہ تیزی سے کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے ملائیشیا یونائٹیڈ انڈیجینس پارٹی کے عنوان سے نئی جماعت کی داغ بیل ڈالی ہے۔ اس نئی جماعت کو یونائٹیڈ مالیز نیشنل آرگنائزیشن کا متبادل بنانے کے لیے انہیں بہت محنت کرنا پڑے گی۔ اور بظاہر وقت کم ہے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پان ملائیشیا اسلامسٹ پارٹی (پی اے ایس) نے الیکٹوریٹ کے محض ۱۵فیصد کی حمایت بٹورنے پر بھی یونائٹیڈ مالیز نیشنل آرگنائزیشن کا سامنا کرتے ہوئے اپنے ایجنڈے کے مطابق کام کرنے میں غیر معمولی حد تک کامیابی حاصل کی ہے۔ پی اے ایس نے اپنے نیشنلسٹ اور اسلامسٹ ایجنڈے پر عمل کرنے کے حوالے سے کوئی خاص دشواری محسوس نہیں کی۔ اس ایجنڈے کے حوالے سے ملک بھر میں تشویش پائی جاتی ہے۔ بہت سوں کو امید ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد عام انتخابات میں پی اے ایس کو شکست دے کر ملک کو اسلامائزیشن کی راہ پر مزید آگے بڑھانے سے روکنے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔
چند برسوں کے دوران کچھ ایسے اقدامات کیے گئے ہیں جن سے ملائیشیا کے سیکیولر سمجھے جانے والے معاشرے میں مذہبی عدم رواداری کو ابھرنے کا موقع ملا ہے۔ ملائیشیا میں مسلمان اور عیسائی رب العالمین کے اسم ذات اللہ کو مشترکہ طور پر استعمال کرتے تھے مگر اب یہ لفظ مسلمانوں کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ چارلس ڈارون کی کتاب ’’اصل الانواع‘‘ کی اشاعت اور فروخت پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔ اسلام دوست سمجھے جانے والے مغربی مفکرین جان ایسپزیٹو اور کیرن آرم اسٹرانگ کی کتب پر بھی پابندی عائد کی جاچکی ہے۔ یہ سب کیوں ہو رہا ہے، یہ سمجھنا کچھ زیادہ دشوار نہیں۔ نوآبادیاتی دور میں ملائیشیا کی اصل آبادی (یعنی مالے نسل کے لوگ) کو کچل کر رکھا گیا۔ ان کے بہت سے حقوق پر ڈاکا ڈالا گیا۔ آزادی کے بعد انہیں کھل کر پنپنے کا موقع ملا ہے اور بیشتر سیاسی، معاشی اور معاشرتی معاملات میں ان سے واضح ترجیحی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ یونائٹیڈ مالیز نیشنل آرگنائزیشن بھی کچھ اِسی طرز کی باتیں کرکے اپنی بات آگے بڑھاتی ہے۔ اکثریت پر مبنی مالے نسل یہ سمجھتی ہے کہ اس کے تمام حقوق کی پاسداری اسی وقت ممکن ہے جب یو ایم این او کو اقتدار میسر ہو۔
یو ایم این او کے ابتدائی قائدین ملائیت اور بائیں بازو دونوں ہی کے خلاف تھے۔ ان کی ابتدائی کامیابیوں نے پی اے ایس کو اسلام ازم کے واحد چہرے کے طور پر عروج بخشا۔ ۱۹۸۱ء میں مہاتیر محمد برسر اقتدار آئے تو پی اے ایس کو اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔ اور اس نے یو ایم این او کے خلاف اسلام ازم کو انتہائی کارگر ہتھیار کے طور پر پیش کیا۔
پی اے ایس کے لیڈر ہادی اوانگ نے یو ایم این او کے ہر حامی کو کافر قرار دینے میں کسی تامل کا مظاہرہ نہیں کیا کیونکہ ان کے مطابق یو ایم این او نے نو آبادیاتی دور کے آئین کے مطابق کام جاری رکھا تھا، غیر اسلامی شعائر اختیار کیے تھے اور اسلام سے پہلے کے اطوار اپنائے تھے۔ ہادی اوانگ کے نظریات نے ملائیشیا کے معاشرے میں واضح حد فاصل پیدا کی۔ ہر گاؤں میں دو طرح کی مساجد قائم ہوئیں۔ قبرستان بھی تقسیم ہوئے اور علماء بھی دو گروپوں میں بٹ گئے۔
ملائیشیا کا ایک بنیادی مسئلہ تارکین وطن کا بھی ہے۔ چین اور بھارت سے لاکھوں افراد نے ترکِ وطن کرکے ملائیشیا کو اپنا وطن بنایا ہے۔ اب ملائیشیا میں عیسائیوں کی ایک مقامی کمیونٹی بھی ہے۔ نوآبادیاتی دور کے بعد ملائیشیا کے مسلمان یقینی طور پر اس خواہش کے حامل تھے کہ معاشرے میں ان کی اکثریت اپنی مرضی کے مطابق حکومت کی اہل ہو۔ جمہوری نظام میں تکثیر پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ تمام شہریوں کو مساوی حقوق ملیں۔ پی ایس اے کے لیے یہ بڑا چیلنج رہا ہے۔ ملائیشیا کے مسلمانوں میں بھی یہ خواہش پروان چڑھتی رہی ہے کہ اقلیتیں اقلیتوں ہی کی طرح رہیں۔ ان کے خیال میں اقلیتوں کو ذِمّی کی حیثیت سے رہنا چاہیے۔ مسلمانوں کی غالب اکثریت کو اپنی مرضی کے مطابق نظام حکومت ترتیب دینا چاہیے تاکہ قوانین بھی انہی کی مرضی کے ہوں۔
پی اے ایس کسی زمانے میں ملائیشیا کو خالص اسلامی ریاست میں تبدیل کرنے کی بات کرتی تھی۔ اب ایسا نہیں ہے مگر اب بھی پی اے ایس چاہتی ہے کہ شرعی قوانین پر عمل کی راہ ہموار ہو اور شرعی عدالتوں میں عائلی اور بہت سے دوسرے غیر فوجداری معاملات اسلامی قوانین کے مطابق چلائے جائیں۔ دوسری طرف یو ایم این او چاہتی ہے کہ ملک کا نظام قوم پرستانہ ہو یعنی جو لوگ زمین کے اصل باشندے ہیں ان کی مرضی نظام حکومت کی ترتیب و تشکیل میں غالب حیثیت رکھتی ہو۔
مہاتیر محمد واضح طور پر مذہبی تو نہیں ہیں مگر انہوں نے ۱۹۸۲ء میں ہادی اوانگ کے سب سے زیادہ مضبوط ہم عصر انور ابراہیم کو اپنے ساتھ ملاکر یو ایم این او کے اسلام کاری کے ایجنڈے کے تحت تھوڑا بہت کام کیا۔ اسلامی اعلیٰ تعلیم، اسلامی بینکاری اور چند دیگر معاملات میں انہوں نے اسلام کاری کے حوالے سے خدمات انجام دیں۔ پھر یو ایم این او منقسم ہوگئی۔ ۱۹۹۸ء میں جب انور ابراہیم نے مہاتیر محمد کو ہٹاکر اقتدار میں آنے کی کوشش کی تو مہاتیر محمد نے انہیں قید کرادیا۔ اس کے بعد پی اے ایس نے انور ابراہیم کے بہت سے وفاداروں کو اپنے اندر جذب کرلیا۔ یوں پی اے ایس شمال میں اپنے مضبوط گڑھ سے نکل کر پورے ملک میں پھیل گئی۔
۲۰۱۳ء میں نجیب رزاق نے زیادہ وقیع انتخابی کامیابی تو حاصل نہیں کی تاہم انہوں نے الیکٹورل سسٹم کی مہربانی سے اقتدار بچانے میں ضرور کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے سخت شرعی سزائیں نافذ کرکے ہادی اوانگ کو اپنی طرف کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ اس کے نتیجے میں پی اے ایس اپوزیشن کے اتحاد سے نکل گئی اور ہادی اوانگ کو نجیب رزاق کے دفاع پر مجبور ہونا پڑا۔
آئندہ عام انتخابات میں بہت عجیب معاملات متوقع ہیں۔ اگر مالے نسل کے لوگوں کا ووٹ ڈالنے کا تناسب کم رہا تو اپوزیشن کے اتحاد کو زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا اور کم ووٹ لے کر بھی نجیب رزاق ایک بار پھر اپنا اقتدار بچانے میں کامیاب ہوجائیں گے اور پارلیمان کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے میں کامیاب رہیں گے۔
پی اے ایس مجموعی طور پر بہت اچھی پوزیشن میں ہے۔ اگر اپوزیشن کا اتحاد ایک تہائی نشستیں لینے میں ناکام رہا تو پی اے ایس یہ دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہوگی کہ وہ ملک کے لیے ناگزیر ہے اور معاملات بہتر طور پر چلانے کی اہلیت رکھتی ہے۔ پی اے ایس کے پاس مسلم نیشنل ازم کا ایجنڈا آگے بڑھانے کی بھرپور قوت بظاہر موجود ہے۔
ملائیشیا میں اسلام کاری کا عمل جاری رہے گا یا نہیں، اس کا مدار اس بات پر ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں یو ایم این او کی کارکردگی کیا رہتی ہے۔ اگر اس نے ایک تہائی نشستیں حاصل کرنے میں کامیابی پائی تو بہت کچھ ممکن ہوگا۔ ایسے میں اگر امانۃ پارٹی بھی پی اے ایس کے ساتھ مل کر چلتی ہے تو اسلام کاری کی طرف سفر روکنے میں کسی حد تک کامیابی ضرور حاصل ہوگی۔ بہت سے سیاسی تجزیہ کار یہ کہہ رہے ہیں کہ مالے نسل کے لوگوں کے ٹرن آؤٹ سے ہٹ کر نسلی اقلیتوں کے علاقوں میں کم ٹرن آؤٹ بھی پی اے ایس کے حق میں جائے گا اور ملک میں پورے نظام کو اسلام کے رنگ میں رنگنے کا عمل تیز تر ہوجائے گا۔ سیکولر تجزیہ کار اس حوالے سے خدشات کا اظہار کرنے میں باک محسوس نہیں کر رہے۔ ان کا خیال ہے کہ پی ایس اے کی پوزیشن کا مضبوط ہونا ملائیشیا کے مفاد میں نہ ہوگا کیونکہ ایسی صورت میں اسلام کی طرف سفر تیز ہوجائے گا!
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Will Malaysia’s Islamization change course?”. (“project-syndicate.org”. March 8, 2018)
Leave a Reply