
تیونس کی حکمراں جماعت ’ندا تیونس‘ کے ۳۲؍ارکان اسمبلی نے ۱۹؍نومبر کو پارلیمانی بلاک سے استعفے دے کر مقامی سیاست میں ایک کھلبلی مچادی ہے۔ مبصرین ان استعفوں کو مختلف زاویو ں سے دیکھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ استعفے یا تو ’ندا تیونس‘ کے اندرونی انتشار کے ابتدائی مراحل کی نشاندہی کر رہے ہیں، یا پھر ’النہضہ‘ پارٹی کے دوبارہ ابھرنے کی طرف اشارہ۔ اور ہو سکتا ہے کے ان استعفوں سے مصر کی اِخوان المسلمون پر بھی کچھ اثرات مرتب ہوں۔ ان استعفوں کی وجہ تنظیم کی قیادت سنبھالنے کی جنگ بھی بنی ہے۔ تنظیم کا ایک دھڑا تنظیم کے جنرل سیکرٹری محسن مرضوع کی حمایت کر رہا ہے اور دوسرا دھڑا پارٹی کے نائب صدر حفیظ السبیسی (تیونس کے صدر الباجی قائد السبسی کے بیٹے) کی حمایت کر رہا ہے۔
’النہضہ‘ ۲۰۱۱ سے ۲۰۱۴ تک تیونس کی سب سے مؤثر جماعت رہی ہے لیکن ’ندا تیونس‘ اکتوبر ۲۰۱۴ میں ہونے والے اتخابات میں ۸۶ نشستیں حاصل کر کے فاتح قرار پائی تھی۔ جبکہ ’النہضہ‘ نے ۶۷ نشستیں حاصل کرنے کے باوجود بھی صرف ایک وزارت لے کر حکومت میں شامل ہونے پر اتفاق کیا تھا۔ استعفوں کے بعد ’ندا تیونس‘ کی نشستیں کم ہو کر ۵۴ رہ گئی ہیں، اور اب ’النہضہ‘ سب سے بڑی پارلیمانی جماعت بن گئی ہے۔ اگلے اقدامات کا اعلان ہونا ابھی باقی ہے۔
’النہضہ‘ جس کی قیادت راشد الغنوشی کے ہاتھ میں ہے، ابھی بھی اِخوان المسلمون کے محمد مرسی کو مصر کا قانونی صدر مانتی ہے، جن کو مصری فوج معزول کر چکی ہے۔ ’ندا تیونس‘ کے استعفوں اور ممکنہ طور پر ’النہضہ‘ کا دوبارہ بڑی سیاسی جماعت کے طور پر ابھرنے کے بعد یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا آنے والے دنوں میں اس کے اثرات اخوان المسلمون پر بھی پڑیں گے؟
’مرکز برائے سیاسی و اسٹریٹجک اسٹڈیز‘ ’’الاحرام‘‘ کے نائب سربراہ وحید عبدالمجید کہتے ہیں کہ ’النہضہ‘ کے ممکنہ اثرات کا اندازہ تین سوالات کے جوابات سے لگایا جا سکتا ہے۔ کیا ’النہضہ‘ حکومت کی باگ دوڑ سنبھالنے کا ارادہ رکھتی ہے؟ کیا استعفے دینے والے اراکین وزیراعظم الحبیب الصید کی حکومت کی مخالفت کریں گے؟ کیا مستعفی اراکین ’النہضہ‘ کی اسمبلی میں حمایت کریں گے؟ ان تمام سوالات کا جواب نفی میں ہی محسوس ہوتا ہے۔ حالات اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ پارلیمان میں کوئی تبدیلی نہیں آرہی۔ البتہ ملک کا سیاسی نقشہ تبدیل ہو رہا ہے، جس کی گواہی ۲۰۱۶ء میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات دیں گے۔
عبدالمجید کا کہنا ہے کہ ’’راشد غنوشی موجودہ حالات میں اقتدار میں آنا نہیں چاہتے۔ وہ اس دبائو اور مشکلات سے اچھی طرح واقف ہیں جن کا سامنا ’النہضہ‘ کو اقتدار سنبھالنے کی صورت میں کرنا پڑے گا۔ وہ اِخوان المسلمون کے اقتدار سے سبق حاصل کر چکے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ’النہضہ‘ پہلے سرکاری اداروں میں اپنی بنیادیں مضبوط کرے تاکہ وہ اس ذمہ داری کو بہتر طریقے سے سنبھال سکے۔
سید صادق جو کہ امریکن یونیورسٹی قاہرہ میں سیاسی سماجیات کے پروفیسر ہیں، وہ ’’المانیٹر‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’سیاسی اسلام بھی کمیونزم کی طرح ایک بین الاقوامی نظریہ ہے۔ کمیونسٹ سویت یونین کے زوال نے جس طرح مشرقی یورپ کی تمام کمیونسٹ تنظیموں کو متاثر کیا، بالکل اسی طرح مصر میں اِخوان کے زوال نے بھی سیاسی اسلام کے بین الاقوامی نظریہ کو متا ثر کیا ہے۔ اس لیے راشد الغنوشی کا یہ بیان کے وہ اِخوان المسلمون سے ہمدردی رکھتے ہیں، اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ وہ اِخوان کے نظریہ کا دفاع کرتے ہیں۔ ان کے اس بیان سے نہ صرف تیونس میں بلکہ تیونس سے باہربھی ان کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔ ’النہضہ‘ کبھی بھی یہ نہیں چاہے گی کہ مصر میں اِخوان کا خاتمہ ہو، کیونکہ اس سے ’النہضہ‘ کی سلامتی کو بھی خطرات لا حق ہو جائیں گے۔‘‘
تیونس کی اِخوان المسلمون کے اثرات ترکی کی اِخوان کے اثر و رسوخ سے مختلف ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کے مصر سے نکلے ہوئے اِخوان کے رہنما ترکی میں پناہ لیے ہوئے ہیں، اور اس کے ساتھ اِخوان کے سیٹیلائیٹ چینل کی نشریات بھی ترکی ہی سے نشر کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ اِخوان المسلمون ترکی میں جنرل عبدالفتاح السیسی کے خلاف مظاہرے بھی کرتی رہتی ہے، جب کہ تیونس میں ایسا نہیں ہے۔
مصری خارجہ امور کی کونسل کے سربراہ المانیٹر سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’تیونس میں لبرل قوتوں کے زوال کو اِخوان المسلمون اپنی تحریک کی حمایت میں اضافہ کے طور پر لیتی ہے، وہ سمجھتی ہے کہ یہ زوال اس بات کی علامت ہے کہ لوگوں میں ابھی بھی اسلامی رجحان پایا جاتا ہے اور یہ رجحان مضبوط اور بااثر بھی ہے۔‘‘
سید الواندی جو کہ قاہرہ یونیورسٹی میں پروفیسر اور ماہر بین الاقوامی تعلقات ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اِخوان کا پڑوسی ممالک تیونس، لیبیا، مراکش اور یمن میں دوبارہ سے مضبوط ہونا مصری عوام پر کوئی اثر نہیں ڈالے گا۔ کیونکہ مصری عوام سمجھتے ہیں کہ اِخوان کا ایک سالہ دورِ حکومت مصر کی تاریخ کا ایک سیاہ باب تھا جس میں عوام کو ہا ئی جیک کیا گیا۔ سید الواندی مزید کہتے ہیں کہ مصر کے عوام نے سیاسی اسلام کی ہر شکل کو مسترد کر دیا ہے، چاہے سیاسی پارٹی کی صورت میں ہو یا کسی اور صورت میں۔ اس بات کی گواہی ابھی ہونے والے انتخابات نے دی ہے، جس میں النور پارٹی صرف ۱۲؍نشستیں حاصل کر پائی (۲۰۱۲ء کے انتخابات میں النور پارٹی نے ۱۱۲؍یعنی ۲۲ فیصدنشستیں حاصل کی تھیں)۔ النور کی شکست کی وجہ بھی یہی ہے کہ عوام اس کو اِخوان جیسا ہی سمجھتے ہیں۔
کمال حبیب جو کہ اِخوان سے متعلقہ امور کے ماہر سمجھے جاتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’’اخوان کو مصر سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ کسی ایسے طریقے پر غور کیا جائے جس سے اِخوان کو سیاسی نظام کا حصہ بنایا جاسکے، جس کا مطالبہ راشد الغنوشی کر رہے ہیں۔ الغنوشی سعودی عرب کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ اِخوان اور السیسی کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرے اور ان کے درمیان صلح کروائے۔ کیونکہ ایسا نہ ہوا تو نفرت اور تقسیم بڑھے گی جس کی بنیاد پر معاشرے کی تعمیر ممکن نہیں۔‘‘ حبیب کی نظر میں الغنوشی اِخوان کے معاملے سے بہترین سیاستدان کے طور پر نمٹ رہے ہیں، جبکہ ترکی کے صدر طیب ایردوان نے اس معاملے کو ذاتی معاملہ سمجھا ہوا ہے، جس کی گواہی ان کے ڈیسک پر موجود رابعہ کا علامتی نشان دے رہا ہے۔
(ترجمہ: محمد نوید نون)
“Will Nidaa Tunis’ troubles boost Muslim Brotherhood in Egypt?”
(“al-monitor.com”. November 18, 2015)
Leave a Reply