
علاقائی حریف سعودی عرب اور ایران کے مابین تلخیاں کوئی نئی بات نہیں ، لیکن ایرانی سرکار کی جانب سے حال ہی میں لگائے گئے الزام نے اس میں ایک نئے باب کا اضافہ کردیا ہے، کہ جس کے مطابق سعودیہ عرب حج کے امور سے متعلق ایرانی سرکار سے ملاقاتوں میں جان بوجھ کر تاخیر کر رہا ہے تاکہ ایرانی شہریوں کو اس سال حج کی ادائیگی سے روکا جا سکے۔ واضح رہے کہ اگر ایسا ہوا تو یہ گزشتہ تین دہائیوں میں پہلی دفع ہوگا۔
روزنامہ ’’ارمان‘‘ نے ’’ایرانی حجاج کے بنا حج!‘‘ کے عنوان سے چھپنے والے اپنے ایک مضمون میں ایرانی سرکار کے امورِ حج کے ذمہ داران کے حالیہ بیانات شائع کیے ہیں۔ رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای کے نمائندے حجت السلام سید علی غازی عسکر نے ۳؍اپریل کو دیے گئے بیان میں کہا ہے کہ حج کی تیاریوں کے حوالے سے گفت و شنید میں تاخیرظاہر کرتی ہے کہ سعودی عرب نہیں چاہتا کہ ایران حج کی تیاریاں بروقت مکمل کر پائے۔انہوں نے خبردار کیا کہ اگر رہائش، سفر ، کھانے اور دیگرسہولیات کے حوالے سے جلدبات چیت نہ شروع ہوئی تو ایرانی شہریوں کے لیے حج کے مطلوب انتظامات کرنا بے حد کٹھن ہو جائے گا۔
اسی طرح ایران کے حج اور زیارتوں کے ادارے کے سربراہ سعید اُحدی نے ایرانی نئے سال کے آغاز سے ذرا پہلے، ۲۰ مارچ کو دو طرفہ ملاقاتوں میں حائل رکاوٹوں کا ذکر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’سعودی حکومت نے اپنی وزارتِ خارجہ اور متحدہ عرب امارات میں موجود کونسلر سروس کے درمیان ایک غلط فہمی کوبنیاد بنا کر پہلے تو ۷ جنوری کو ہونے والی ملاقات کو نو مارچ تک کے لیے ملتوی کردیا اور اس کے بعد اس ملاقات کے لیے ایرانی وفد کو ویزہ دینے سے ہی انکار کردیا۔ پچھلے سال تو اس وقت تک حج کی تیاریاں زیرِ تکمیل تھیں۔ بد قسمتی سے ایرانی شہریوں کے لیے اس سال حج ادا کرنے کی کوئی توقع نہیں‘‘۔
یاد رہے جنوری میں تہران میں سعودی سفارت خانے پر ہونے والے مظاہرین کے حملے کے بعد سعودی عرب نے ایران سے تعلقات منقطع کرلیے تھے۔یہ مظاہرین سعودی عرب کی جانب سے ایک شیعہ لیڈر شیخ نمر کو موت کی سزا دیے جانے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔
سفارتی تعلقات توڑنے، خطے میں ایک دوسرے سے مقابلے بازی کرنے اور شام، یمن اور لبنان میں اپنے مہروں کو لڑانے سے قبل بھی سعودی عرب اور ایران حج کے حوالے ایک تلخ ماضی رکھتے تھے۔
اپریل ۲۰۱۵ء میں دو ایرانی لڑکوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بعد کہ جس میں سعودی ہوائی اڈے کے محافظوں نے انہیں ان کے گھر والوں سے علیحدہ کر کے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا تھا، ایران نے اپنے شہریوں کے عمرے پر پابندی عائد کردی تھی۔ گو کہ سعودی حکام کا دعویٰ تھا کہ اس واقعے میں ملوث افراد کو سزا دے دی گئی تاہم غازی عسکر کا کہنا تھا کہ اس واقعے پر سعودی عرب کا ردِ عمل اور دی جانے والی سزا دونوں نا کافی تھیں۔ ’’ابتکار‘‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق ہر سال لگ بھگ ساڑھے آٹھ لاکھ ایرانی شہری عمرہ ادا کرتے ہیں۔ اسی مضمون میں سعودی حکام کی جانب سے پیدا کردہ مشکلات کے باعث ایرانی شہریوں کے حج سے محروم رہنے کے امکانات کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔
یاد رہے ،جدہ میں ہونے والے حادثے کے بعد، ستمبر میں ایک سو سات زائرین ایک کرین کے حادثے میں مارے گئے تھے، جس میں آٹھ ایرانی شہری بھی شامل تھے۔اسی طرح منیٰ میں ہونے والی بھگڈر میں بھی چار سو ایرانی کچلے گئے۔ ایرانی حکومت اور عوام نے اس کو سعوی حکومت کی بدانتظامی تصور کیا اور اس پر شدید غصے کا اظہار کیا۔ غازی عسکر کا کہنا تھا کہ کرین حادثے اور بھگدڑ میں مارے جانے والے ایرانی شہریوں کو ابھی تک زرِ تلافی بھی ادا نہیں کیا گیا۔
انہوں نے دو ملکوں کے مابین سیاسی تلخیوں کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں حج کے موقع پر ان مسائل کو ایک طرف رکھ دیا جاتا تھا، لیکن اس سال صورتحال بالکل مختلف ہے۔
یہ ۱۹۸۷ء کی بات ہے جب ایک مظاہرے میں ایرانی شہریوں کی سعودی پولیس سے ہونے والی جھڑپوں میں سینکڑوں ایرانی مارے گئے تھے۔ اس کے بعد سعودی عرب نے ایرانی حجاج کی تعداد گھٹا دی تھی۔ اس کے ردِ عمل میں ایران نے حج کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا اور یہ بائیکاٹ ۱۹۹۰ء تک جاری رہا۔
سعودی وزیرِ خارجہ عادل الجبیر کا کہنا ہے کہ سیاسی کشیدگی سے قطع نظر، ہم ایرانی زائرین کو مکہ اور مدینہ میں خوش آمدید کہتے ہیں، کی جانب اشارہ کرتے ہوئے سعید احدی نے کہاکہ ہمیں امید ہے کہ سعودی سرکار کے قول اور عمل میں بے ربطگی اور تضاد جلد دور ہوجائے گا۔
واضح رہے اس سال حج ۹ ستمبر سے شروع ہو رہا ہے۔
(ترجمہ: حارث علی خان)
“Will Saudi block Iranians from hajj this year?”. (“almonitor.com”. April 4, 2016)
Leave a Reply