عظیم فیصلے کرنے والے پُرعزم رہنما تاریخ کو نیا رُخ دیتے ہیں۔ ایسے رہنما تاریخ کو یہ موقع نہیں دیتے کہ وہ ان کے مقدّر کا فیصلہ کرے۔ نیا سال ۲۰۰۶ء تاریخِ انسانی کے ایک ایسے موڑ پر آیا ہے‘ جس کی تشبیہ حضرت آدمؑ کے اس جملے سے دی جاسکتی ہے جو انہوں نے باغِ عدن سے رخصت ہوتے ہوئے اماں حوا سے کہا تھا کہ ’’ہم ہر آن ایک تغیر پذیر عبوری وقت میں رہتے ہیں‘‘۔
وہ طاقتور سیاستدان جو صرف دو برس قبل کرۂ ارض کی تقدیر کے فیصلے کرتے تھے‘ اب جاچکے ہیں یا ان کی حیثیت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ ایک یا دو قابلِ ذکر مستثنیات کے سوا زیادہ تر ایسے تھے جنہوں نے بعد المشرقین کا باعث بننے والی تبدیلی کے لیے کوشش کی لیکن وہ واقعات کو قابو میں نہ رکھ سکے اور آنے والے سال کو ہنگامہ خیز اور غیرمحفوظ حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔
ایسے رہنماؤں کی قدر و قیمت میں مزید کمی یا ممکنہ طور پر اُن کے منظر سے ہٹ جانے کی وجہ سے ۲۰۰۶ء کے سال کو ایک ایسے محور (چُول) کی حیثیت حاصل ہو جائے گی‘ جو عالمی حالات میں انقلابی تبدیلیاں لانے کا باعث بن جائے گا۔ یہ سال ۱۹۶۸ء کے اُن لمحات کی شکل اختیار کر سکتا ہے‘ جب ایک نئی نسل اپنی پیشرو نسل کی جگہ لے رہی تھی اور دھماکہ خیز سماجی کشیدگیاں جنم لے رہی تھیں۔ ان دو عناصر نے مل کر دنیا کو ایک ایسے راستے پر ڈال دیا جو اِرتقا کی بجائے انقلابات لانے کا سبب بنا۔
یوجین میکارتھی کی موت سے ۲۰۰۵ء ایک ایسا سال ثابت ہوا‘ جس میں وہ عمل اپنے انجام کو پہنچ گیا‘ جس کا آغاز ۱۹۶۸ء میں ہوا تھا۔ گیرہارڈ شروڈر اور جوشیکا فشر نے ۱۹۶۸ء میں بغاوت کر کے جرمنی کی عنانِ اقتدار سنبھالی تھی اور سات برس تک حالات کو جوں کا توں رکھنے کے لیے کوشاں رہے۔ ان میں سے شروڈر کا مخلوط اتحاد ستمبر کے انتخابات میں شکست سے دوچار ہوا اور خود شروڈر نے اپنی ۱۹۶۸ء کی بچی کُھچی آئیڈیالزم کا یوں سودا کر لیا کہ انہوں نے اُسی روس آئل کمپنی میں شمولیت اختیار کر لی جس کی بحیثیت چانسلر وہ مدد کرتے رہے تھے۔
فرانس میں بھی نسل کی تبدیلی کا وقت آن پہنچا ہے‘ جہاں یاک شیراک اپنی صدارت کا آخری سال گزار رہے ہیں۔ ان کی قدامت پرست سیاسی قوت آئندہ اقتدار سنبھالنے کی جنگ میں دو حصوں میں بٹ چکی ہے‘ جبکہ تارکینِ وطن اور خطرات میں گِھرے ہوئے سماجی نظام کے علمبردار اِس نکتے پر باہم دست و گریباں ہیں کہ خزاں کے ہنگاموں کی سزا کا مستحق کون ہے۔
جنگ سے دُور رہنے کے حامی شروڈر شیراک ہی اپنی مقبولیت سے محروم نہیں ہوئے بلکہ عراق میں امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے اتحادی بھی اپنی رَوِش کی تبدیلی کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ پولینڈ کے الیگزینڈر کو اسنی وسکی نے ۲۰۰۵ء میں اپنی مدتِ اقتدار مکمل کر لی‘ اٹلی کے سلوو برلسکونی کو آئندہ موسم بہار کے انتخابات میں سخت مقابلے کا سامنا ہے جبکہ جاپان کے جونی شیرو کوئے زومی ستمبر میں اپنے پُراثر روایتی مدت کا اختتام کرنے والے ہیں۔
ٹونی بلیئر کی لیبر پارٹی کے باغیوں نے نومبر میں نئے سکیورٹی قوانین مسترد کر کے انہیں پریشانی میں مبتلا کر دیا تھا۔ انہیں توقع ہے کہ وہ ۲۰۰۶ء میں بھی انہیں (بلیئر کو) پارلیمنٹ میں ایک اور شکست سے دوچار کریں گے اور وہ انہیں آئندہ انتخابات سے پہلے اقتدار چھوڑنے کا وعدہ پورا کرنے پر مجبور کر دیں گے۔ فلپ اسٹیفن کو حال ہی میں ’’فنانشل ٹائمز‘‘ میں مجبوراً لکھنا پڑا کہ بلیئر کی وزارتِ عظمیٰ زوال کی جانب سفر کا آغاز کر چکی ہے۔
بش کے اقتدار کی باقی ماندہ مدت انہیں مزید تنہا کر دے گی اور امریکی روایات کے مطابق ۲۰۰۶ء ان کے ہمہ مقتدر ہونے کا آخری سال ثابت ہو گا۔ اس سال نومبر میں کانگریس کے انتخابات کے بعد امریکی قوم کی توجہ اور توانائی اس امر پر مرکوز ہو جائے گی کہ آیا میک کین کوری پبلکن پارٹی کا کون سا امیدوار اقتدار میں آنے سے روک سکتا ہے اور کون ڈیموکریٹ ہیلری کلنٹن کا راستہ روک سکتا ہے۔
اُدھر عالمی ادارے کی قیادت سنبھالنے کی دوڑ بھی کم اہم نہیں ہو گی۔ کوفی عنان دسمبر میں اپنے منصب کا دوسرا دور مکمل کر رہے ہیں۔ چنانچہ ایشیا اور وسطی یورپ سے ان کے امکانی جانشین سکیورٹی کونسل کے ارکان کی حمایت حاصل کرنے میں مصروف ہو گئے ہیں۔
کوفی عنان نے ہال واکر کو اس امر کی مکمل تحقیقات کرنے کے لیے مقرر کر دیا ہے کہ وہ تیل برائے خوراک اسکینڈل کی چھان بین کریں۔ اس اسکینڈل کے سلسلے میں روس اور فرانس کے سفارتکار اعتراف کر چکے ہیں کہ صدام حسین کی حکومت نے انہیں آئل ووچر جاری کر کے مالی فائدہ پہنچایا تھا۔
اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے پاس یہ موقع موجود ہے کہ وہ اس سلسلے میں ایک مثبت روایت قائم کریں۔ امریکی وزیرِ خارجہ کونڈا لیزا رائس نے اپنے ایک واضح بیان میں کہا ہے کہ ان کی انتظامیہ میں اس مقصد کے لیے کوفی عنان کا پورا پورا ساتھ دے گی۔ اُدھر حالیہ مہینوں میں واشنگٹن نے اقوامِ متحدہ کے ان حکام کا گرمجوشی سے استقبال کیا جو لبنان‘ شام اور عراق کی صورتحال‘ ایران کے نیوکلیئر پروگرام سے پیدا ہونے والے بحران‘ فلو کے متعدی مرض کی طرح پھیلنے اور ان تمام معاملات پر تبادلۂ خیال کرنے کے لیے گئے تھے‘ جن سے بش انتظامیہ تنہا نمٹنے پر اِصرار کرتی رہی تھی۔
قرائن اس امر کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ کوفی عنان اور رائس ۲۰۰۶ء میں کامیابیوں سے ہمکنار ہوں گے۔ اسی طرح جرمنی میں شروڈر کی جانشین انجیلا مارکل کا مستقبل بھی روشن نظر آتا ہے۔ حالیہ انتخابات میں جب شروڈر نے زوردار مہم چلا کر ووٹرز کو اس طرح تقسیم کر دیا کہ چانسلر کے عہدے پر متمکن ہونے کے لیے اَعصاب شِکن تعطل پیدا ہو گیا تو مارکل نے کابینہ کے بااثر ارکان کو جمع کر لیا اور انہیں مجبور کیا کہ یا تو وہ ان کا ساتھ دیں اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پھر انہیں اس الزام کا سامنا کرنا پڑے گا کہ وہ نئے انتخابات کرانے کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ اس کے بعد مارکل نے دسمبر میں منعقد ہونے والے یورپی یونین کے سربراہی اجلاس کو شرمناک ناکامی سے بچا لیا۔
روس کے تیل کے محاصل اور چین کی مسلسل ترقی پذیر معیشت کی وجہ سے ولادیمر پوٹن اور ہوجنتاؤ اس سال اپنے اپنے ملک میں بالکل محفوظ رہیں گے لیکن قیادت کی سب سے بڑی خبر‘ وہ اچھی ہو یا بُری‘ عراق سے آئے گی جو بڑی تبدیلیوں کے اس سال کے دوران ان طاقتوں پر غلبہ حاصل کر لے گی جو اسے ٹکڑے ٹکڑے کرنے پر تُلی ہوئی ہیں اور یا پھر ان کے سامنے دَم توڑ دے گی۔ ان امکانی نتائج کے لیے دباؤ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اسے مزید ایک برس کے لیے ٹالا نہیں جاسکتا۔
(ترجمہ: ملک فیض بخش۔۔۔ بشکریہ: ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘)
Leave a Reply