
مشرق وسطیٰ میں آخری چیز جس کی کسر باقی رہ گئی ہے وہ یہ ہے کہ ایک اور ملک جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل کر لے اور یہ ممکن بھی ہے اگر امریکا سعودی عرب کے جوہری توانائی کے کاروبار میں شامل ہونے کی منصوبہ بندی سے غلط انداز میں نمٹے اور پچیس سال میں بجلی پیدا کرنے کے لیے۱۶ ؍ایٹمی ری ایکٹرز بھی لگا کر دے۔
سعودی یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ وہ بدترین عدم استحکام کا شکار اس خطے میں اسرائیل کے بعد ایٹمی ہتھیار رکھنے والا دوسرا ملک بننا چاہتے ہیں، بلکہ ان کا اصرار ہے کہ ری ایکٹرز کو صرف بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا، تاکہ وہ اپنے تیل کے ذخائر کو بیرون ملک فروخت کرکے آمدنی میں اضافہ کرسکیں۔ پھر بھی اس طرح کی کئی علامات موجود ہیں کہ سعودی اپنے روایتی حریف ایران کے خلاف دفاع کے لیے ایٹمی ہتھیار بنانے کا اختیار چاہتے ہیں۔ایران ۲۰۱۵ء کے جوہری معاہدے سے قبل ایک مضبوط ایٹمی پروگرام رکھتا تھا۔اوباما انتظامیہ نے سعودیہ سے سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی منتقلی کے معاہدے کے حوالے سے مذاکرات بھی کیے تھے، سعودی عرب کی جانب سے یورینیم کی افزودگی اور پلاٹینیم کی ری پراسسنگ کی قانونی حد کو تسلیم کرنے سے انکارپر مذاکرات ناکام ہوگئے۔ کیونکہ اس سے ایٹمی ہتھیاروں کے لیے ایندھن تیار کیا جاسکتا تھا۔اس سے قبل عرب امارات ۲۰۰۹ء کے معاہدے میں ان قانونی حدوں کو تسلیم کرچکا تھا،اس نے سول نیوکلیئر معاہدے کے لیے عدم پھیلاؤ کے بلند معیار کو قبول کرلیا۔ نئے مذاکرات ایک ایسے صدر کے ماتحت ہونے جارہے ہیں، جو امریکا کی تجارتی ضروریات کو پورا کرتا ہے اور جارحانہ انداز میں سعودی قیادت سے نمٹ سکتا ہے، صدر ڈونلڈ ٹرمپ سعودی عرب سے قانونی حدوں کو تسلیم کروانے کے لیے زبردست کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ٹرمپ دلیل دے سکتے ہیں کہ سعودی عرب کے لیے بیرون ملک سے افزودہ ایندھن حاصل کرنا ملک میں ایندھن تیار کرنے سے سستا پڑے گا۔
ایسا کوئی بھی معاہدہ سعودی عرب اور امریکا کے تعلقات کو مزید مضبوط کردے گا۔ ویسے بھی امریکا نے سعودیہ کی دشمنوں سے حفاظت کرنے کا وعدہ کررکھا ہے۔ لیکن مذاکرات کے آغاز سے قبل سوال یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی حدود اور شرائط کیا ہوں گی جو سعودیوں کو بھی قبول ہوں، سخت شرائط پر اصرار سعودی عرب کوروس، چین، فرانس اور جنوبی کوریا سے خریداری پر مجبور کرسکتا ہے۔ یہ ممالک جوہری عدم پھیلاؤکے حوالے سے کوئی شرائط بھی نہیں لگائیں گے، ویسے بھی امریکی جوہری صنعت قریب المرگ ہے اور کسی بڑے منافع بخش کا م کی تلاش میں ہے۔
امریکی کمپنیاں ایک کنسورشیم پر تبادلہ خیال کررہی ہیں، جو کئی ارب ڈالر کے منصوبے کی بولی دے سکے، تاہم معاہدے میں سخت پابندیاں شامل کرنے میں ناکامی سے سعودیوں کو ایٹمی ہتھیار وں کی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی کھلی چھوٹ مل جائے گی۔ اس سے کئی دہائیوں سے جاری ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کی امریکی کوششوں کو بھی شدید نقصان پہنچے گا۔امریکا طویل عرصے سے ایٹمی ٹیکنالوجی فروخت کرنے والوں میں قیادت کادرجہ رکھتا ہے،یہ فروخت دیگر ممالک کے ساتھ دوطرفہ سول جوہری معاہدے کے تحت ہوتی ہے اور معاہدے میں جوہری عدم پھیلاؤ کی ۹ شرائط شامل ہوتی ہیں۔ معاہدہ کرنے والے ملک کوامریکاکی جانب سے فراہم کردہ جوہری مواد کو ایٹمی دھماکے کے لیے استعمال نہ کرنے کی ضمانت دینا ہوتی ہے۔امریکاکی اجازت کے بغیر ٹیکنالوجی اور معلومات کسی تیسرے ملک کو فراہم نہیں کی جاسکتی اور معاہدہ کرنے والا ملک یورینیم کی افزودگی اور پلوٹونیم کو ری پروسیس نہیں کرسکتا۔ لیکن سعووی حکام کا اصرار ہے کہ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کے تحت انہیں یورینیم افزودگی اور پلوٹونیم کو ری پروسیس کرنے کی اجازت دی جائے۔ جبکہ ان ٹیکنا لوجیز تک صرف ایٹم بم بنانے کا ارادہ نہ رکھنے والے ممالک کو ہی رسائی دی جاتی ہے۔ اگر یہ اختلافات مذاکرات کو ناکام بنا دیتے ہیں تو امریکا سعودی عرب پر جوہری عدم پھیلاؤ، نیو کلیئر سیکیورٹی او ر سیفٹی کو نافذ کرنے کا موقع کھو دے گا۔اس لیے معیاری معاہدہ کرنے میں ناکامی کی صورت میں امریکا کے سابق جوہری مذاکرات کار’’رابرٹ این‘‘ کی جانب سے اس معاملے میں سمجھوتہ کرنے کی تجویز اہمیت رکھتی ہے۔ اس صورت میں سعودی عرب پر ۱۵سال تک یورینیم افزودگی اور پلوٹونیم کو ری پروسیس کرنے پر پابند ی ہوگی، اگرچہ اس طرح سے مستقبل میں کئی سوالات جنم لیں گے۔ بہرحال کوئی بھی معاہدہ کرنے کاحتمی حق کانگریس کو ہونا چاہیے اوراگر انتظامیہ عدم پھیلاؤ کی شقیں معاہدے میں شامل کرنے میں ناکا م رہے تو کانگریس کو ان شقوں کو معاہدے میں شامل کرانا چاہیے۔ سعودی عرب کی جوہری سہولیات کا اچانک معائنہ کرنے کا حق بھی حاصل ہونا چاہیے، جیسا کہ ایران کے معاملے میں یہ حق حاصل ہے۔ جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے صدر ٹرمپ کا بدلتا رویہ ایٹمی عدم پھیلاؤ کے حوالے سے کانگریس کی ذمہ داریوں پر اثر انداز ہورہا ہے،یہ رویہ نہ صرف سعودی عرب، بلکہ ترکی، مصر اور دیگر ممالک کو بھی جوہری طاقت بنا سکتا ہے۔ کانگریس ارکان کو ان قوانین کے تحفظ کی ضرورت ہے،تاکہ بہت سارے ممالک ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کے قریب نہ پہنچ جائیں۔
(ترجمہ: سید طالوت اختر)
“Will the U.S. Help the Saudis Get a Nuclear Weapon?” (“Newyork Times”. Feb.25, 2018)
Leave a Reply