
امریکا میں صدارتی انتخاب ہونے کو ہے۔ نومبر میں پولنگ ہوگی۔ ہر صدارتی انتخاب سے قبل امریکا میں کم و بیش ۶ ماہ تک بھرپور بحث و تمحیص کی جاتی ہے۔ صدر کی چار سالہ کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا ہے اور اُس کے دوبارہ انتخاب یا کسی اور امیدوار کے صدر بننے کی صورت میں ممکنہ کارکردگی کے حوالے سے بھی اندازے لگائے جاتے ہیں، رائے دی جاتی ہے۔ اب کے صدارتی انتخاب کی مہم کے دوران اِس نکتے پر بھی بحث ہو رہی ہے کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ دوسری میعاد کے لیے صدر منتخب نہ ہوسکے تو کیا ٹرمپ اِزم بھی ختم ہوجائے گا؟ کچھ لوگوں کے خیال میں یہ صدارتی انتخاب نہیں بلکہ ٹرمپ اِزم کے لیے ریفرنڈم ہے۔ اس بحث میں ایک بنیادی اختلافی نکتہ یہ بھی ہے کہ آخر ٹرمپ اِزم ہے کیا۔
اب جبکہ صدارتی انتخاب میں دو ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے، رائے عامہ کے جائزوں میں ڈیموکریٹ امیدوار اور سابق نائب صدر جو بائیڈن آگے ہیں۔ سیاست میں ایک دن بھی بہت ہوتا ہے۔ ایسے میں ۶۰ دنوں کو تو واقعی بہت سمجھا جانا چاہیے، خاص طور پر کوئی بڑا اور بنیادی فرق یقینی بنانے کے حوالے سے۔ اور وہ بھی ایک ایسے انتخاب کے لیے جس کے نتائج کے دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ غیریقینیت کے باوجود اس نکتے پر بھی خوب بحث ہو رہی ہے کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ منتخب نہ ہوسکے تو اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔
اس نکتے پر تو بیشتر امریکیوں میں بہت حد تک اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے کہ ٹرمپ اِزم امریکی سیاسی تاریخ کے بنیادی نظریات سے کچھ زیادہ تال میل کا حامل نہیں مگر پھر بھی یہ بحث اب تک جاری ہے اور اس حوالے سے اختلافِ رائے پایا جاتا ہے کہ ٹرمپ اِزم آخر کیا ہے، کن سیاسی اقدار یا وراثت کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے میدان میں ہے۔ ٹرمپ اِزم ایک ایسی انا پرست اور بہت حد تک جذبات انگیز شخصیت میں اس قدر لپٹا ہوا ہے کہ اسے قابل فہم اور مستقل نوعیت کے خیالات کے مجموعے کی حیثیت سے قبول نہیں کیا جاسکتا۔ بہر کیف، ٹرمپ اِزم کو ایسی خصوصیات اور میلانات پر مشتمل عارضے کی حیثیت سے شناخت کیا جاتا ہے جو امریکی معاشرے میں طویل مدت سے موجود رہے ہیں، اور ڈونلڈ ٹرمپ نے اُنہیں وضع نہیں کیا بلکہ وہ تو اُن کا محض مجسّم اظہار ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران کی جانے والی بحث میں ٹرمپ اِزم کو مختلف زاویوں سے بائیں بازو کی قوم پرست اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ عوامیت کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ٹرمپ اِزم کو ٹرمپ کے کاروباری کیریئر کے دوران پائے جانے والے بیانیے اور ماضی کے رجعت پسند فلسفے سے مرکب دائیں بازو کے بڑھک آمیز بیانیے کا ملغوبہ بھی قرار دیا جاتا رہا ہے اور افلاطونی نظریات کی حامل عوامیت اور سیاست و دنیا کے مجموعی نقطۂ نظر کی حیثیت سے منوانے کی بھی کوشش کی گئی ہے۔
ٹرمپ اِزم کے چار باہم مربوط زاویوں کی تفہیم سے اندازہ ہوسکے گا کہ ٹرمپ اِزم ناموافق انتخابی نتیجے کے ساتھ مٹی میں مل جائے گا یا اپنی بقا یقینی بنانے میں کامیاب ہوسکے گا۔ یہ چار زاویے ہیں :
٭ غیر معمولی بالا دستی پر یقین رکھنے والی دائیں بازو کی عوامیت اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ اظہار
٭ باریکی سے ڈھکی چھپی نسل پرستی جس میں سفید فام تصورات کی بالادستی گندھی ہوئی ہے
٭ تمام غیر امریکیوں سے خوفزدہ ہوکر تارکین وطن کے خلاف اپنایا جانے والا موقف … اور
٭ باقی دنیا سے معاملات میں اپنایا جانے والا ’’سب سے پہلے امریکا‘‘ کا یک طرفہ نقطۂ نظر
یہ نکتہ کسی بھی حالت میں نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ یہ چاروں نکات ڈونلڈ ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس میں آنے کے ساتھ ہی ظاہر نہیں ہوئے بلکہ اُنہوں نے تو اِسے سیاست کے مرکزی دھارے کی شکل دکھاکر، بہت بڑا کرکے پیش کیا ہے، آگے بڑھایا ہے۔ اب سوال صرف یہ ہے کہ یہ سب کچھ جس تیزی سے ابھرا ہے، کیا اُتنی ہی تیزی کے ساتھ منظر سے غائب بھی ہو جائے گا۔
اگر ہم دائیں بازو کی عوامیت کے حوالے سے سوچیں تو حقیقت یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی شکست اس سیاسی حقیقت (دائیں بازو کی عوامیت) کے لیے دھچکا ضرور ہوگی مگر ختم نہ ہوسکے گی کیونکہ سوال صرف امریکا کا نہیں۔ یہ تو دنیا بھر میں تیزی سے مقبولیت حاصل کر رہی ہے۔ امریکا میں اس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ ڈونلڈ کی وائٹ ہاؤس یا سیاست میں آنے سے بہت پہلے دائیں بازو کی عوامیت فکر و نظر کے محاذ پر بھی دکھائی دیتی رہتی تھی۔ ٹرمپ کے ہاتھوں دائیں بازو کی جارحانہ سوچ محض اس حقیقت کا ردِعمل ہے کہ اب امریکا عالمی معیشت کے محاذ پر کمزور پڑتا جارہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ صدارتی انتخابی مہم میں ’’آیے، امریکا کو دوبارہ عظیم بنائیں‘‘ کا نعرہ دیا تھا۔ یہ نعرہ امریکا کی اسٹرکچرل حقیقتوں کو تبدیل کرنے اور ملکی و سیاسی سطح پر سیاسی و معاشی قوت میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے مطابقت پیدا کرنے سے کہیں زیادہ براک اوباما اور اُن کی پالیسیوں کی کمزوریوں کو نشانہ بنانے کے لیے تھا۔ ٹرمپ کے دور میں عوامی سطح پر جذبات کے اُبال کو روایتی سیاسی جماعتوں سے امریکی عوام کی بیزاری اور اشرافیہ کی پروان چڑھائی ہوئی عالمگیریت کے دور میں پیدا ہونے والے چیلنجوں سے نمٹنے میں اسٹیبلشمنٹ کی ناکامی کے خلاف شدید ردِعمل کے طور پر دیکھا اور دکھایا جاتا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ کی سیاست کے لیے عروج یقینی بنانے والے عوامل تیزی سے غائب نہیں ہوں گے کیونکہ وہ اب امریکی معاشرے کے اہم طبقات یا حصوں کے میلانات کی نشاندہی کرتے ہیں۔
ٹرمپ نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف عوام کے جذبات ابھارے ہیں۔ اُن کا کیا؟ بات یہ ہے کہ کئی عشروں کے دوران ایسا بہت کچھ ہوا ہے جس نے ریاستی اداروں پر عوام کا اعتماد متزلزل کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ٹرمپ نے بڑھک آمیز سیاسی انداز کی مدد سے عوام میں پہلے ہی سے موجود اینٹی اسٹیبلشمنٹ جذبات کو ابھارا ہے۔ ٹرمپ نے سرکاری اداروں کی حیثیت عوام کی نظر میں کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ کیا ٹرمپ کے ہار جانے سے یہ رجحان پلٹ جائے گا؟ کہا جاسکتا ہے کہ بہت جلد تو ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا۔ اور مستقبلِ بعید میں اس کا مدار اِس نکتے پر ہے کہ آنے والا صدر سرکاری اداروں پر عوام کا اعتماد مکمل طور پر بحال کرانے میں غیر معمولی دلچسپی لے گا یا نہیں۔ دنیا بھر میں ایسی بہت سے مثالیں موجود ہیں کہ سرکاری یا ریاستی اداروں پر سے عوام کا اعتماد اٹھ جائے یا کم ہو جائے تو اس نقصان کا ازالہ کرنے کے لیے خاصا طویل دورانیہ درکار ہوتا ہے۔
نسل پرستی امریکی معاشرے میں کوئی نیا یا اجنبی قسم کا عامل نہیں۔ ایک زمانے سے نسل پرستی امریکی نفسیات کا حصہ رہی ہے۔ بہت سوں کی نظر میں نسل پرستی امریکی معاشرے میں ایک بڑے مسئلے کے طور پر پنپتی آئی ہے۔ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے حالیہ عشروں کے دوران مرکز پسند پالیسیاں اپنائی ہیں، جن کے نتیجے میں نسل پرست رجحانات کو سر اٹھانے کا زیادہ موقع نہیں مل سکا۔ ٹرمپ نے سفید فام نسلوں کی بالا دستی کے تصور کو ایک بار پھر ہوا دی ہے اور اس کے نتیجے میں امریکا میں نسل پرستی زور پکڑ رہی ہے۔ چند ماہ کے دوران امریکا میں نسل پرستی کی بنیاد پر جو ناخوشگوار واقعات رونما ہوئے ہیں، اُن کی کم و بیش پچاس برسوں میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ امریکا میں غیر سفید فام نسلوں کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ٹرمپ نے اس حقیقت کو بھی سفید فام امریکیوں کی نفسی ساخت میں پیوست کرنے کا موقع ضایع نہیں کیا۔ انہوں نے سفید فام امریکیوں کو یہ کہتے ہوئے ڈرایا کہ اگر انہوں نے اپنی بالا دستی برقرار رکھنے پر خاطر خواہ توجہ نہ دی تو غیر سفید فام امریکی لہر کی صورت اُنہیں بہادیں گے۔ گزشتہ صدارتی انتخابی مہم کے دوران لگایا جانے والا ’’ملک کو واپس لیجیے‘‘ کا نعرہ بھی اس حقیقت کی طرف لطیف اشارہ تھا کہ براک اوباما کے آٹھ برس میں امریکا کو اقلیتوں نے ہتھیالیا ہے اور اب اُسے اقلیتوں سے واپس لینے کا وقت آگیا ہے۔
اگر ٹرمپ ہار گئے اور جو بائیڈن صدر بن گئے تو وہ نسل پرستی کی آگ بجھانے کی بھرپور کوشش کریں گے، اور معاشرے میں ٹرمپ عہد کی پیدا کردہ تفریق اور محاذ آرائی کا گلا گھونٹنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے۔ امریکا میں نسل پرستی کے رجحان کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جاسکتا۔ بالخصوص ایسی حالت میں کہ جب ایک نسل پرست اقلیت نے قومی معاملات میں اپنی آواز کو استحقاق سے کہیں زیادہ بلند کر رکھا ہے۔
ٹرمپ اِزم کا ایک بڑا حصہ غیر امریکیوں کو قبول نہ کرنے سے متعلق ہے۔ تارکین وطن کے خلاف جذبات ابھارنے میں ٹرمپ نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ انہوں نے غیر امریکیوں اور بالخصوص مسلمانوں سے خوفزدہ کرکے عام امریکیوں کو تارکین وطن کے خلاف فکری اور عملی محاذ پر متحرک ہونے کی راہ سُجھائی ہے۔ میکسیکو سے ملنے والی سرحد پر غیر قانونی تارکین وطن کو روکنے کے لیے دیوار کی تعمیر کا تصور اِسی سلسلے کی اہم کڑی ہے۔ مسلمانوں سے عام امریکیوں کو خوفزدہ کرکے کئی مسلمان ممالک سے امریکا کے لیے سفر پر پابندی بھی لگائی گئی۔ جو بائیڈن نے انتخابی مہم کے دوران دیے جانے والے بیانات میں کہا ہے کہ وہ صدر منتخب ہوئے تو اس نوعیت کی کسی بھی پابندی کی حمایت یا وکالت نہیں کریں گے۔ اگر امریکیوں کی واضح اکثریت بھی یہ اقرار کرے کہ ملک کی تعمیر میں تارکین کا کردار غیر معمولی، تعمیری اور مثبت ہے تب بھی تارکین وطن کے خلاف اختیار کی جانے والی سخت گیر پالیسیوں کو فوری طور پر ختم کرنا ممکن نہ ہوگا کیونکہ یہ سیاسی معاملہ ہے اور اِسے غیر معمولی جوش و جذبے سے ہوا دی گئی ہے۔
جہاں تک باقی دنیا سے معاملات کا تعلق ہے، ٹرمپ کی شکست ممکنہ طور پر انتہائی درجے کی یک طرفہ ذہنیت کے رخصت ہونے کی نوید ہوگی۔ ڈیموکریٹ صدر ملک کو ایک بار پھر بڑے عالمی اداروں سے وابستگی اختیار کرنے کی طرف لے جائے گا اور ہمہ جہتی تعلقات کی راہ ہموار کرنے کی بھرپور کوشش کرے گا۔ مختلف نظریات کے حامل ممالک سے اشتراکِ عمل کو ترجیح دی جائے گی اور اتحادیوں سے تعلقات بہتر بنانے کے حوالے سے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جائے گی۔ اس محاذ پر ٹرمپ اِزم زیادہ دیر نہیں ٹک سکے گا اور بہت کچھ تیزی سے پلٹے گا۔
ممکنہ ڈیموکریٹ صدر کی طرف سے انقلابی نوعیت کے اقدامات نسل پرستی کے خلاف تازیانے کا کام ضرور کریں گے، مگر نسل پرستی کو مکمل طور پر ختم کرنے میں کسی بھی طور کامیابی ممکن نہیں بنائی جاسکے گی۔ یہ سوال برقرار ہے کہ کیا ٹرمپ اِزم کے ہاتھوں امریکا اِس قدر تبدیل (اور تقسیم) ہوچکا ہے کہ صدارتی انتخابات کے بعد بھی یہ تبدیلی اور تقسیم برقرار رکھی جاسکے گی۔
مصنفہ اقوام متحدہ اور امریکا میں پاکستان کی سفیر اور برطانیہ میں ہائی کمشنر رہ چکی ہیں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Will Trumpism survive election?”.(daily “Dawn” Karachi. Sept. 7, 2020)
Leave a Reply