
لبنان میں حکومت بنانے کی کوششیں بظاہر ناکام ہوچکی ہیں۔ معاملات اتنے الجھے ہوئے ہیں کہ کوئی معیاری اور قابلِ قبول متبادل بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ ایک بار پھر لبنان کا مستقبل اُس کے ماضی جیسا تاریک دکھائی دے رہا ہے۔
نامزد وزیر اعظم مصطفی ادیب نے ستمبر کے اواخر میں استعفیٰ دے دیا تھا۔ انہوں نے کم و بیش ایک ماہ تک ٹیکنوکریٹس کی حکومت بنانے کی کوشش کی۔ اس کوشش کو فرانس کے صدر ایمانویل میکراں کی حمایت بھی حاصل تھی۔ ۵؍اگست کو لبنان کے دارالحکومت بیروت کی بندر گاہ پر ہونے والے دھماکے نے پورے ملک کو ہلاکر رکھ دیا۔ اس دھماکے کے بعد وزیر اعظم حسن دیاب نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ لبنان میں اصل جھگڑا وزارتِ خزانہ پر ہے۔ اس جھگڑے نے پوری معیشت کو جکڑ رکھا ہے۔ سیاسی نظام کی ناکامی نے عوام کو عجیب الجھن میں مبتلا کر رکھا ہے۔ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ جب ملک کا دارالحکومت ہی محفوظ نہیں تو پھر کسی اور مقام کا تحفظ یقینی بنانے کے بارے میں کیسے سوچا جاسکتا ہے؟
لبنان میں سیاسی سطح پر غیر معمولی تعطل ایک ایسے وقت آیا ہے، جب ملک قومی تاریخ کے فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے۔ فرانس کے صدر نے واضح کردیا ہے کہ جب تک سیاسی سطح پر تمام بنیادی اختلافات دور نہیں کرلیے جاتے تب تک لبنان کو مزید بین الاقوامی امداد نہیں دی جاسکتی۔ حکومت کی تشکیل ایک دشوار گزار مرحلہ ہے۔ ملک عملاً ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ ملیشیا کے تصرف میں ہے۔ امل ملیشیا کے ساتھ مل کر حزب اللہ چاہتی ہے کہ وزارتِ خزانہ اُسے دی جائے۔ لبنان کی گروہی سیاست میں وزارتِ خزانہ پر اب تک شیعہ بلاک کا تصرف رہا ہے۔
لبنان میں بے روزگاری اور مہنگائی عروج پر ہے۔ یہ انتہائی مقروض ملک ہے۔ اگر آئی ایم ایف سے فوری طور پر کوئی بڑا بیل آؤٹ پیکیج نہ ملا تو معاملات بگڑیں گے اور اس کا حشر بھی وہی ہوگا جو وینزویلا کا ہوا۔ معیشت کا برا حال ہے، تنخواہیں اور اجرتیں پہلے ہی بہت کم ہیں اور اب حکومت نے عوام کی بینک ڈپازٹس کو بھی کنٹرول کرنا شروع کردیا ہے۔ فرانس کی مدد سے لبنان کے لیے کم و بیش ۱۰؍ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کا ڈول ڈالا گیا ہے، تاہم سیاسی تعطل کے باعث معاملات اب تک اٹکے ہوئے ہیں۔ امداد دینے والے ممالک لبنان میں احتساب کے نظام کا تقاضا کر رہے ہیں تاکہ بدعنوانی میں ملوث عناصر کو سزا ملے اور فنڈ دیانت دار لوگوں کے ہاتھوں بروئے کار لائے جائیں۔
بیروت کی فضا میں شدید بے یقینی اور بے چینی ہے۔ لوگ ماضی کو یاد کرکے کانپ اٹھتے ہیں۔ معاشرہ اب بھی منقسم ہے۔ پندرہ سالہ خانہ جنگی میں ملوث عسکریت پسند گروپوں نے نام بدل کر سیاست کے میدان میں قدم رکھا ہے۔ ملک اب تک انہی لوگوں کے ہاتھوں میں ہے، جو معیشت و معاشرت کا استحکام نہیں چاہتے۔ منافع خور اشرافیہ قومی وسائل کو اپنی مرضی کے مطابق اور اپنے مفادات کے لیے بروئے کار لارہی ہے۔ ملک بھر میں بجلی کا بحران ہے۔ پینے کا صاف پانی بھی لوگوں کو آسانی سے میسر نہیں۔ پینے کا صاف پانی بوتل کے ذریعے فروخت کرنے کا کلچر پروان چڑھ چکا ہے۔ بیروت سمیت ملک بھر میں صفائی ستھرائی کا نظام بھی ناکامی سے دوچار ہے۔ جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر ہیں۔
۵؍اگست کے دھماکے سے بیروت کی بندر گاہ اور اُس سے ملحق علاقے میں زبردست تباہی پھیلی۔ تعمیر نو کے لیے کم و بیش ۱۵؍ارب ڈالر درکار ہوں گے۔ لوگ اس بات پر حکومت سے سخت برہم ہیں کہ ۲۷۵۰ ٹن ایمونیم طویل مدت تک وہاں رہنے کیوں دیا گیا۔ایک سال قبل جب حکومت نے واٹس ایپ پر ٹیکس لگایا تھا تب بھی عوام بھڑک اٹھے تھے۔ اس کے بعد سعد حریری کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔ عوام کا مطالبہ ہے کہ پورے سسٹم کی اوور ہالنگ کی جائے۔ تمام سیاسی جماعتوں کا محاسبہ کرنے کا مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں نے عشروں تک قومی وسائل کو بڑی بے رحمی سے لُوٹا ہے۔ حد یہ ہے کہ ملک میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا نظام بھی تباہ کردیا گیا۔ ملک کے حالات کی ابتری کے حوالے سے حزب اللہ پر تنقید بڑھتی جارہی ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ حزب اللہ کے ارکان سمیت ان تمام لوگوں کا محاسبہ کیا جائے، جو ملک کو تباہی کے دہانے تک پہنچانے کے ذمہ دار ہیں۔ حزب اللہ پر سرکاری فنڈ کی خورد برد کے علاوہ منشیات کی اسمگلنگ کا بھی الزام ہے۔ نئے انقلابیوں کا مطالبہ ہے کہ ملک کو مافیاز سے پاک کیا جائے۔
لبنان کے بیرونی دوست پریشان ہیں۔ وہ مسلح گروپوں کو ملک کے لیے بہت بڑا خطرہ گردانتے ہیں مگر ان سے نمٹنے کے طریق کار پر اختلافات پائے جاتے ہیں۔ میکراں نے ایران کے غیر معمولی اثر و نفوذ کا سوال اٹھایا ہے۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ حزب اللہ کا انداز کسی بھی طور سیاسی جماعت کا نہیں۔ ہاں، اس نے امریکا کی طرح حزب اللہ کو دہشت گرد گروپ قرار دینے سے اب تک گریز کیا ہے۔ حزب اللہ نے طاقت میں اضافہ کرکے متوازی حکومت کی سی حیثیت حاصل کرلی ہے۔ اس کے اپنے میڈیا آؤٹ لیٹس ہیں۔ وہ خود کو تنقید سے بالاتر قرار دے کر ملک کی تباہی کے لیے امریکا کو ذمہ دار قرار دیتی ہے۔ گزشتہ برس جب عوامی تحریک شروع ہوئی اور ملک کا سیاسی نظام تبدیل کرنے کی باتیں ہونے لگیں تب بھی حزب اللہ نے احتجاج کرنے والوں کے خلاف بے بنیاد باتیں پھیلائیں۔ اس کا دعوٰی تھا کہ سیاسی تبدیلی کا مطالبہ کرنے والے بیرونی قوتوں کے آلۂ کار ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس نے مظاہرین پر حملے بھی کرائے۔
۵؍اگست کے دھماکے کے بعد امریکا نے بھی لبنان میں بڑے پیمانے پر سیاسی تبدیلیوں کے لیے دباؤ بڑھایا ہے۔ حزب اللہ کو اب اپنے مالیاتی وسائل بچانے کی فکر لاحق ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ وزارتِ خزانہ پر کنٹرول کی بھرپور کوشش کر رہی ہے تاکہ سرکاری فنڈنگ پر بھی اس کی نظر رہے۔
لبنان میں سنجیدہ حلقے کہتے ہیں کہ حزب اللہ چونکہ ایک مرکزی قوت ہے، اس لیے اصلاحات میں اس کا بھی کردار ہونا چاہیے۔ اسے سیاسی عمل میں درست طریقے سے شامل کرنے پر زور دیا جانا چاہیے۔ ملک اب بھی مسلح گروپوں کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ جب تک یہ گروپ غیر مسلح نہیں کیے جائیں گے تب تک بیرونی امداد بھی نہیں آئے گی۔
فرانس کی کوشش ہے کہ لبنان میں حکومت سازی کی آخری سنجیدہ اور ٹھوس کوشش کی جانی چاہیے۔ اگر اصلاحات کے حوالے سے سنجیدگی نہ دکھائی گئی تو ملک سے متوسط طبقے کا خاتمہ ہو جائے گا۔ ایسے میں صرف تباہی رہ جائے گی۔ سیاسی نظام کی اوور ہالنگ نہ کی گئی اور کرپشن میں ملوث سیاست دانوں کا محاسبہ نہ کیا گیا تو حزب اللہ مزید طاقتور ہوکر ابھرے گی۔ تب اُسے کنٹرول کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ یہ سب کچھ عام آدمی کے لیے انتہائی تباہ کن ہوگا۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“With little hope for reform, Lebanon continues down the road to ruin”. (“wpr.com”. Oct. 6, 2020)
Leave a Reply