
زیرِ نظر انٹرویو معروف صحافی آصف انور علیگ (ایڈیٹوریل کو آرڈینیٹڈ، مینجمنٹ ڈیولپمنٹ انسٹی ٹیوٹ گڑ گائوں) نے (جو ان دنوں ای ٹی وی نیٹ ورکس سے منسلک تھے) فروری ۲۰۰۷ء میں ایک آن لائن انگریزی اخبار Indianmuslims.info کے لیے لیا تھا۔ اس کا اردو متن قارئین کی نذر ہے۔
سوال: ہندوستان کی آزادی سے قبل اردو کی صورتحال کیا تھی؟
جواب: اردو ایک مشترکہ گنگا جمنی تہذیب کی زبان سمجھی جاتی تھی۔ اس کی اہمیت کا احساس جب انگریزوں کو ہوا تو انہوں نے کلکتہ میں ۴ مئی ۱۸۰۰ء کو فورٹ ویلیم کالج کی بنیاد ڈالی تاکہ اردو زبان سے انگریزوں کو روشناس کرا سکیں اور سیاسی و مذہبی مقاصد کے حصول میں دشواری نہ ہو۔ ڈاکٹر جان گلکرسٹ (1841۔D) جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازم تھے ۱۷۸۳ء میں ہندوستان پہنچے اور ہندوستانی زبانوں کو سیکھنا شروع کیا۔ فورٹ ویلیم کالج میں وہ ہندوستانی زبان کے پروفیسر ہوئے اور انہوں نے اس وقت کے اردو کے بڑے دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں سے کام لیا۔ گلکرسٹ نے لغت، لسانیات اور قواعد اردو پر متعدد کتابیں تصنیف کیں۔ اردو جاننے والے انگریز تیار کیے۔ اردو کے نثری ادب کا شعبہ قائم کر کے کتابیں لکھوائیں اور باضابطہ اشاعت کا کام شروع کیا۔ ہندوستان کا پہلا دارالاشاعت یہیں قائم ہوا۔ اردو زبان کی ترویج و اشاعت اگرچہ انگریزوں نے محض اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے کیا تھا لیکن اردوزبان و ادب کو ان کے کام سے فائدہ پہنچا۔ لیکن رفتہ رفتہ ہندو مسلم اختلافات کو ہوا دینے کے سبب اردو کو مسلمانوں کی زبان کہتے ہوئے اس کی تبلیغ شروع کر دی گئی۔ کیونکہ مسلانوں نے اردو کو اپنی مادری زبان کے طور پر قبول کر لیا تھا۔ اکثریت کے متعصب ذہنوں کو یہ بات ناگوار محسوس ہوئی۔ انہوں نے دور اندیشی کو پس پشت ڈال کر اپنی نسل کو ہندی کی طرف راغب کیا اور بالخصوص ان کی عورتوں نے اس سلسلے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
سوال: آزادی کے بعد اردو کی صورتحال کیا ہے؟
جواب: آزادی سے قبل اردو کے خلاف جس فرقہ پرستی کا بیج بویا گیا تھا اس کی فصل کاٹنے کا کام شروع کیا گیا۔ ہندی کو دیوناگری لپی میں سرکاری قومی زبان کا درجہ دیا گیا اور اردو کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے اسے حاشیے پر پہنچا دیا گیا حتیٰ کہ اس کے رسم الخط سے بھی نفرت کا اظہار کیا گیا۔ بیشتر مسلم قائدین نے اس سلسلے میں اچھا کردار ادا نہیں کیا۔ اردو کے شعلہ بیان مقرر، نامور ادیب و صحافی اور مسلمانوں کے قائد مولانا ابوالکلام آزاد بھی کچھ نہ کر سکے۔ پاکستان کا بننا مقدر تھا لیکن وہاں کی سرکاری زبان اردو ہونے کے سبب یہاں کے فرقہ پرستوں نے مسلم قائدین کو ڈرایا دھمکایا۔ یہاں کا کریمی لیئر پاکستان ہجرت کر چکا تھا۔ بچے کھچے مسلم قائدین نے وہی کیا جو اُن سے کہا گیا۔ اس کے برعکس مسلم عوام اردو سے محبت کرتے رہے اور اسے سرکاری سرپرستی میں لینے کے لیے قائدین پر دبائو ڈالتے رہے۔ دوسری طرف صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر راجندر پرساد ہندی زبان کی جڑ کو مستحکم کرنے کے لیے سنسکرت کی نشاۃ ثانیہ کی منصوبہ سازی کرتے رہے۔ چنانچہ ۱۱جنوری ۱۹۵۷ء کو کروکشیتر سنسکرت یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے انہوں نے فرمایا:
[english]”The new university would draw the people to that great store of knowledge lay hidden in sanskrit & other indian languages by popularising the study of their literature”[/english]
ڈاکٹر راجندر پرساد نے ہندوستانی زبانوں کے فکری مواد کو قدیم ثقافت سے جوڑتے ہوئے اسے عالمی اہمیت کا حامل قرار دیا اور مزید فرمایا:
[english]”The ancient literature and the thought connected with it is the most important part of our heritage, which is of vital importance not only for this country but the whole world” (The Hindu, Jan 12, 1957)[/english]
۱۹۵۸ء میں ڈاکٹر ذاکر حسین کی قیادت میں انجمن ترقی اردو (یہ انجمن بھی دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئی اور اس کے نام کے ساتھ ’ہند‘ کا لاحقہ لگا دیا گیا) کا ایک وفد صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر راجندر پرساد سے ملا۔ وفد نے جو میمورنڈم پیش کیا تھا اس پر ساڑھے ۲۲ لاکھ شہریوں کے دستخط تھے۔ اس کے باوجود ہمارے قائدین پورے ملک (ہندوستان) تو بہت دور کی بات ہے، ریاست اترپردیش میں بھی اردو کو دوسرے سرکاری زبان کا درجہ نہ دلا سکے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین جب صدر جمہوریہ ہند کے منصبِ جلیلہ پر فائز ہوئے تب بھی کچھ نہ کر سکے۔
ہندوستان کے جن اسکولوں میں کبھی اردو میڈیم سے پڑھانے کا سلسلہ جاری تھا اب ان اردو میڈیم اسکولوں میں بھی ہندی زبان میں پڑھائی ہوتی ہے۔ ہندی اور انگریزی میڈیم اسکولوں میں تو اردو کا نام و نشان بھی مٹا دیا گیا وہاں اردو بطور ایک مضمون (Subject) بھی زندہ نہ رہ سکی۔ اردو ناشرین صرف مذہبی کتابیں چھاپنے لگے۔ ادیب و شعرا اردو کے شعری محاسن میں الجھ کر رہ گئے۔ اردو اساتذہ نے پرائمری سے یونیورسٹی کی سطح تک اپنی زندگی اور گھروں سے اردو کو خارج کر دیا۔ البتہ ایک منصوبے کے تحت اردو صرف ادب کی حیثیت سے متعارف کرائی گئی جس کی وجہ سے عملی زندگی میں اردو بانجھ بن کر رہ گئی۔
سوال: سرکاری سطح پر اردو کا فروغ اور اقدام؟
جواب: عوام کے احتجاج اور سیاسی منظر نامے میں مسلم ووٹ بینک کو دیکھتے ہوئے سرکاری سطح پر اردو اکیڈمیاں کھول دی گئیں۔ ان اکیڈمیوں میں بعض نام نہاد اردو دانشوروں، ادیبوں، شاعروں اور پروفیسروں کے اثرات رہے جس کی وجہ سے یہاں بھی اردو تہذیب اور مشاعروں سے آگے اردو کو عملی فروغ حاصل نہ ہو سکا۔ البتہ وزارت انسانی وسائل اور ترقی (HRD) نے اردو ترقی بیورو اور بعد میں اسی ادارے کی نئی شکل نیشنل کونسل برائے فروغِ اردو زبان (NCPUL) کے ذریعہ کسی حد تک اردو زبان کو عملی زندگی میں شامل کرنے کی کوشش کا آغاز کیا۔ اس کے تحت اردو کی تکنیکی کتابوں کی اشاعت، اردو اخبارات و رسائل کو تعاون، اردو کتابوں کی خریداری اور کتابوں کے مصنفین کو طباعت کے لیے جزوی مالی تعاون کو یقینی بنانے کی کوشش کی گئی۔ اب بھی یہ ادارہ کسی حد تک سرکاری سطح پر اردو کے فروغ کا کام کر رہا ہے، اردو زبان سیکھنے کی طرف غیر اردو داں طبقے کو راغب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تاہم عملی طور پر ملک کے تمام سرکاری و غیر سرکاری اسکولوں میں اردو نصاب کی شمولیت نہیں ہے۔ واضح ہو کہ ملکی سطح پر تمام تعلیمی اداروں میں اردو کی شمولیت کے بغیر اس کی ترقی اور فروغ کا خواب تو دیکھا جا سکتا ہے، حقیقت سے اس کا سروکار نہیں ہو سکتا۔
سوال: اردو کی ترقی اور فروغ میں اردو اداروں اور تنظیموں کا رول؟
جواب: اردو کے تئیں بے حسی اور بدعملی کو دیکھتے ہوئے انجمن ترقی اردو (ہند) کے ذریعے ملک کی مختلف ریاستوں میں اردو کے فروغ کی تحریکات شروع کی گئیں لیکن عوامی سطح پر اردو کو فروغ دینے کے لیے اس کے پاس کوئی ٹھوس پروگرام نہیں تھا۔ یہ انجمن محض سرکاری سطح پر اردو کے جزوی حقوق کی بات کرتی رہی ہے۔ بعض ریاستوں میں اس تحریک سے وابستہ چند اہم شخصیات کی وجہ سے اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ تو مل گیا لیکن عملی طور پر اردو انحطاط پذیر ہی رہی۔ مثلاً بہار میں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دلانے میں ڈاکٹر عبدالمغنی مرحوم کی کوششوں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ مرحوم انجمن ترقی اردو (ہند) بہار کے صدر اور اس کی مرکزی مجلس عاملہ کے رکن بھی رہے۔
ہندوستان کے دینی مدرسوں میں اگرچہ اردو زبان و ادب پر باضابطہ کوئی کام نہیں ہوا لیکن وہاں اردو میڈیم ہونے کی وجہ سے بڑی حد تک اردو کو زندگی ملی۔ مدارس کا یہ تعاون (Contribution) دراصل غیر شعوری ہے۔ کاش مدارس اسلامیہ کی طرف سے آزادی کے بعد اس سمت میں عملی کوشش کی جاتی تو صحیح معنی میں اردو کو فروغ حاصل ہو سکتا تھا۔ اس کے باوجود مدارس کی خدمات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس کوشش کے ذیل میں ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی کا نام لیا جا سکتا ہے۔
سوال: اردو مسلمانوں سے مشروط کیوں ہے؟
جواب: زبان پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہوتی۔ ایک زمانے میں اردو ہندوئوں اور مسلمانوں کی مشترکہ زبان رہی ہے۔ اگر اکثریت نے اس زبان سے بے وفائی کا انداز اختیار کیا تو کیا مسلمان بھی اس روش کو اختیار کرتے؟ مسلمانوں نے اس زبان کو چونکہ کلّی طور پر اپنا لیا اور بالخصوص شمالی ہندوستان میں مسلانوں کی یہ مادری زبان بن گئی تو موجودہ ’’ہندو توا لابی‘‘ نے اسے زبردستی مسلمانوں کی زبان قرار دیا۔ حالانکہ آج بھی اردو ہندوستان کی مشترکہ زبان ہے۔ اس ضمن میں ہندوستانی فلم انڈسٹری اور اب اس کے بعد الیکٹرانک میڈیا کی مثال دی جا سکتی ہے۔
سوال: اردو کولنگوافرنکا (Lingua Franca) بنانے کی راہ میں کیا دشواریاں حائل ہیں؟ ہندی قومی زبان بنا دی گئی لیکن کیا اردو کے امکانات زیادہ روشن ہیں؟
جواب: ہندوستان کی موجودہ سیاست میں عصبیت کا شاید کوئی علاج نہیں۔ مسلم حکمرانوں نے ہندوستان پر سیکڑوں برس حکومت کی لیکن اسے جوڑ کر رکھا۔ انگریزوں کی غلامی سے آزادی کے بعد ہی لسانی اعتبار سے ہندوستان میں صوبائی سطح پر شدید اختلافات رونما ہو گئے۔ لسانی عصبیت ایک فطری جذبہ ہے لیکن لسانی عصبیت کی بدترین مثالیں ہمارے ملک میں کچھ زیادہ ہی دکھائی دیتی ہیں۔ اردو کی عصبیت میں ہندی کو قومی زبان بنانے کے بعد ہی جنوبی ہند میں ہندی سے نفرت کی فضا پیدا ہوئی۔ اس کے مقابلے میں اردو زبان عوام کی پسندیدہ زبان کل بھی تھی اور آج بھی ہے۔ اردو کو لنگوافرنکا بنانے کی راہ میں زیادہ دشواریاں حائل نہیں ہیں۔ فلم انڈسٹری سے لے کر موجودہ الیکٹرانک میڈیا میں استعمال کی جانے والی زبان سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہندوستان میں صرف اردو ہی لنگوافرنکا ہے جسے گاندھی جی نے ’’ہندوستانی زبان‘‘ کہا۔ جنوبی ہندوستان میں ہندی سے زیادہ اردو کی مقبولیت سے بھی اس کا اندازہ ہوتا ہے۔
سوال: برطانوی حکمراں کے دور میں عدالت کی زبان اردو تھی۔ ہندی کا استعمال معیوب تھا۔ کیا آزادی، اردو کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئی؟
جواب: آزادی کو اردو کے لیے نقصان دہ نہیں کہا جا سکتا بلکہ اس کی وجوہات تاریخی ہیں۔ ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان تفریق کا اصل سبب ’’ہندو توا‘‘ کا وہ جذبہ ہے جو ہندوئوں کے اندر آزادی سے قبل ہی منصوبہ بند طریقے سے سرایت کیا جاتا رہا ہے۔ اس جذبہ سے وہ نفسیاتی خوف اور کمزوری کے شکار ہو گئے۔ انہیں یہ خوف لاحق ہوا کہ اگر ان کی نسل اردو سے قریب رہی تو وہ بھی مسلمان ہو جائیں گے۔ چنانچہ ۱۹۲۵ء میں آر ایس ایس کی بنیاد ڈالی گئی اور آزادی سے قبل ہی ہندو مسلم تفرقہ کا بیج بویا گیا۔ اس پس منظر سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اردو سے مسلمانوں کی غیر معمولی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے ہندو انتہا پسندوں نے مسلمانوں کی دشمنی میں اردو کو بھی اپنا دشمن قرار دیا۔ لہٰذا آزادی کا خمیازہ مسلمانوں کو ہی نہیں اردو کو بھی بھگتنا پڑا۔
سوال: کیا اردو تقسیم کی زبان ہے؟
جواب: اس سوال کا جواب بڑی حد تک دیا جا چکا ہے۔ لیکن یہاں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے ایک حالیہ تجزیہ کے حوالے سے کچھ کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ موصوف نے نیا ورق، ممبئی کے ایک شمارہ میں ڈاکٹر گیان چند جین کی تازہ کتاب ’’ایک بھاشا: دو لکھاوٹ، دو ادب‘‘ کے سلسلے میں اپنے مؤقف کی وضاحت کرتے ہوئے ایک طویل مضمون لکھا ہے اس میں انہوں نے بابائے اردو مولوی عبدالحق کے دو بیانات نقل کیے ہیں۔ پہلا بیان ہے: (تقسیم سے قبل)
’’اردو خالص ہندوستان کی پیداوار ہے اور دونوں قوموں یعنی ہندو اور مسلمانوں کے لسانی، تہذیبی اور معاشرتی اتحاد کی بدولت وجود میں آئی‘‘۔
مولوی عبدالحق کا دوسرا بیان: (تقسیم کے بعد)
’’پاکستان کو نہ جناح نے بنایا نہ اقبال نے بلکہ اردو نے پاکستان کو بنایا۔ ہندوئوں اور مسلمانوں میں اختلاف کی اصلی وجہ اردو زبان تھی۔ سارا دو قومی نظریہ اور سارے ایسے اختلافات صرف اردو کی وجہ سے تھے۔ اس لیے پاکستان پر اردو کا بڑا احسان ہے‘‘۔
ڈاکٹر نارنگ صاحب نے اپنے مضمون میں بابائے اردو کے مذکورہ بیانات کو ’’تضاد بیانی‘‘ کہا ہے۔ میں ڈاکٹر نارنگ صاحب سے معذرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ دونوں بیانات میں کوئی تضاد محسوس نہیں ہوتا ہے۔ دراصل اول الذکر بیان کا سیاق و سباق تاریخی اور ارتقائی ہے اور دوسرا بیان تجزیاتی ہے۔ اردو کے ارتقا کی حقیقت وہی ہے جسے مولوی عبدالحق نے پہلے بیان کیا ہے لیکن جب ہندوئوں کو اپنی سنسکرتی کے نام پر سنسکرت اور ہندی کی طرف لوٹنے کو کہا گیا تو ان میں اردو سے نفرت کی تحریک پیدا ہوئی۔ انہیں یہ بھی باور کرایا گیا کہ یہ زبان تو اسی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے جو عربی ہے اور عربی زبان ’’اسلام کی زبان‘‘ ہے۔ قرآن بھی عربی میں ہے ان کو خوف دلایا گیا کہ اگر اس زبان کو ہندوئوں نے اپنا لیا تو ان کی سنسکرتی بھرسٹ ہو جائے گی۔ اس تحریک کا اثر یہ ہوا کہ نامو افسانہ و ناول نگار پریم چند جیسے سیکولر اہلِ قلم بھی جنہوں نے اردو ہی میں لکھنا شروع کیا تھا ہندی میں لکھنے لگے۔ لہٰذا مسلمانوں کی مخالفت میں اردو زبان کے کلیدی کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ تقسیم ہند پر اردو کے اثرات کیا پڑے بہرحال یہ بحث کا موضوع ہے، اس میں اختلافِ رائے کی پوری گنجائش ہے۔
سوال: کچھ برادرانِ وطن کو اردو سے نفرت کیوں ہے؟
جواب: نفرت کی وجہ واضح ہے کہ جس کا جواب گزشتہ سوال کے ذیل میں آ چکا ہے۔
سوال: اردو کا رسم الخط بدل دیا جائے تو اس میں کیا حرج یا قباحت ہے؟
جواب: ہر چیز اپنی تخلیقی ابتدا (Origin) سے پہچانی جاتی ہے۔ جو لوگ اردو کے رسم الخط کو بدلنے یا اسے رومن کرنے کی بات کرتے ہیں وہ یا تو احمق ہیں یا شاطر، اُن کی نیت میں خُبث ہے۔ اردو رسم الخط کا بدلنا ایسا ہی ہے جیسے کسی بچے کو کہا جائے کہ وہ اپنے باپ کو بدل ڈالے۔
سوال: اردو میں سائنسی علوم اور تکنیکی معلومات کی کتابیں کیوں نہیں ہیں؟
جواب: جب طبیعت میں نشاط نہ ہو تو دستر خوان پر چُنے ہوئے بہترین کھانے بھی مزہ نہیں دیتے اور کسی زبان کو عملی زندگی سے خارج کر دیا جائے تو اس میں تخلیقی علوم فنا ہو جاتے ہیں۔ تخلیقی علوم، تخلیقی ادب کا نام نہیں۔ ایک زمانے میں اردو میں ہر فن کی کتابیں موجود ہوا کرتی تھیں۔ اس زبان سے فرانسیسی زبان میں بھی ترجمے ہوا کرتے تھے۔ جب اس زبان سے ناطہ توڑ لیا گیا تو نہ اس زبان کے جاننے والے کی طبیعت میں نشاط باقی رہی اور نہ ہی اس کی نشاۃ پر توجہ دی گئی۔ میں نے خود اردو زبان میں علم کیمیا اور طبیعات کی کتابیں پڑھیں ہیں۔ حیدرآباد میں اس لحاظ سے اردو کا ایک سنہری دور رہا ہے۔ مگر گزشتہ ۶۰ برسوں میں بتدریج انحطاط نے اردو کو عملی زندگی سے باہر کر دیا۔ اگر پھر اردو کو عملی زندگی سے جوڑ دیا گیا تو یقینی طور سے عصری علوم پر مبنی کتابوں کی اردو زبان میں کمی نہ رہے گی۔ ہمارے پڑوسی ملک پاکستان میں یہ کام جاری ہے اور خود ہمارے ملک میں نیشنل کونسل کی جانب سے اس کام کا آغاز ہوا ہے۔
سوال: Competition Master کی طرح اردو میں کوئی رسالہ کیوں نہیں ہے؟
جواب: اردو حلقے میں اردوسے نشاط انگیز تعلق پیدا ہوتے ہی اس طرح کے رسائل بھی نکلنے شروع ہو سکتے ہیں۔ تاہم مہاراشٹر میں اس طرف کسی قدر توجہ کی جا رہی ہے۔
سوال: گجرال کمیٹی کی رپورٹ اب تک کیوں شائع نہیں ہوئی؟
جواب: اس سوال کا بہتر جواب انجمن ترقی اردو (ہند) یا سابق وزیراعظم آئی۔کے۔ گجرال صاحب ہی دے سکتے ہیں۔
سوال: اردو کے فروغ کے لیے عملی کوششیں کیا ہو رہی ہیں؟
جواب: سرکاری اور عوامی دو سطحوں پر عملی کوششیں ہو رہی ہیں لیکن نتیجہ ہمیشہ صفر ہی رہا ہے۔ اس کی ذمہ داری ملّی قائدین اور دانشور طبقہ پر زیادہ عائد ہوتی ہے۔ اردو زبان کا براہِ راست تعلق تعلیم اور تعلیمی ادارے سے ہے۔ میں اس بات کا اعادہ ایک بار پھر کروں گا کہ ملک کی تعلیم گاہوں میں اردو زبان کی تدریس کو یقینی بنائے بغیر عوامی سطح پر اردو کا فروغ مشکل ہے۔ گزشتہ ۶۰ برسوں میں تعلیم گاہوں سے ہی اردو کو بتدریج ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس کے نتیجے میں اردو آہستہ آہستہ ہمارے گھروں سے بھی نکل گئی۔
سوال: اردو زبان کے زوال کا ذمہ دار کون ہے؟
جواب: پہلی ذمہ داری ملّی قیادت اور دانشور طبقے پر عائد ہوتی ہے، اس کے بعد حکومت پر اور اس کے زوال کی آخری ذمہ داری عوام پر ڈالی جا سکتی ہے۔
سوال: اردو کے پروفیسر ان اردو اخبارات و رسائل خرید کر کیوں نہیں پڑھتے؟
جواب: جب انہیں مفت فراہم کر دیا جائے تو وہ خریدنے کی زحمت کیوں کریں۔ تاہم یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ جب ذہنوں کا سانچہ ہی بدل جائے تو وہی کچھ برآمد ہوتا ہے جو بدلے ہوئے سانچے میں ہوتا ہے۔ افسوس کہ آزاد ہندوستان کا تعلیمی ڈھانچہ ہماری قیادت نے کچھ اس طرح بنایا کہ وہاں کے بیشتر پڑھے لکھے حضرات کو اپنا کیریئر روٹی کے چند ٹکڑوں میں نظر آنے لگا۔ یونیورسٹی اور کالج کے پروفیسر کا شمار بھی انہی میں ہوتا ہے۔ ڈگری حاصل ہو گئی، نوکری مل گئی، مستقبل محفوظ ہو گیا۔ وہ مفاد کی سیاست سے جُڑ گئے۔ یونیورسٹی یا کالج میں نوکری نہیں ملتی تو کسی دفتر میں نوکری کرتے۔ پڑھنے لکھنے کا رجحان یا تو ورثے میں ملتا ہے یا اس معاشرے کی دَین ہوتا ہے جہاں تعلیم کے ساتھ اخلاقیات کو اولیت دی جاتی ہے۔ یہ معاملہ صرف پروفیسروں اور اساتذہ تک محدود نہیں بلکہ ہندوستان کے اکثر پڑھے لکھے لوگوں میں کیریئر کی چاہت کا جادو ایسا چڑھا ہوا ہے کہ وہ مطالعہ کے خوف میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ ان کا ڈرائنگ روم قیمتی ساز و سامان سے تو مزین ہوتا ہے لیکن وہاں کتابوں کی کوئی الماری نہیں پائی جاتی۔ الاما شاء اللہ۔
سوال: اے ایم یو کورٹ کے موجودہ انتخاب پر آپ کا تبصرہ؟
جواب: اے۔ ایم۔ یو۔ کورٹ کے موجودہ ۴۲ افراد کے انتخابی نتائج سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ ہماری نوجوان قیادت ابھی تک سطح آب پر نہیں آ سکی ہے اور نہ ہی روایت پسندی کے حصار سے نکل سکی ہے۔ بہرحال میں خیر کے لیے صرف دعا ہی کر سکتا ہوں۔
(بشکریہ: سہ ماہی ’’اردو بک ریویو‘‘ دہلی۔ جولائی تا ستمبر۲۰۰۹ء)
Leave a Reply