صنم کدۂ تجدد پسندی کے اراکین نے اپنے شوق تجدد پسندی سے مجبور ہو کر ایک نئی فقہ کی تشکیل کا آغاز کیا ہے جس کا مقصد بزعم خود اسلام کو روشن خیال بنانا اور زمانۂ جدید سے ہم آہنگ کرنا ہے۔ اس مقصد کی تکمیل کے لیے امریکا کے زیرِ سایہ رہنے والی سیاہ فام پروفیسر امینہ ودود نے ’’قرآن اور عورت‘‘ کے موضوع پر لکھی گئی اپنی کتاب میں فرمایا ہے:
’’قرآن چودہ صدیوں پرانی باتیں کرتا ہے جو اکیسویں صدی میں قابلِ عمل اور قابلِ قبول نہیں۔ لہٰذا جدید تقاضوں کے مطابق قرآن میں ترمیم کی ضرورت ہے اور اس مقصد کے لیے ہم عورتیں ایک ’نئے فرقہ‘ کو جنم دے رہی ہیں‘‘۔
(بحوالہ: روزنامہ ’’امت‘‘۔ کراچی۔ ۲۸ مارچ ۲۰۰۵ء)
درحقیقت محترمہ کا جذبہ دنیائے انسانیت کی مظلوم عورتوں کی سربلندی ہے‘ مگر انہوں نے اس کے لیے جس راہ کا انتخاب کیا ہے‘ وہ یکسر غلط اور اس کا دائرۂ اثر نہایت محدود ہے۔ انہیں چاہیے تھا کہ اسلام میں ’فرقہ نسواں‘ کی تشکیل کی بجائے ’مذہبِ نسواں‘ کی تاسیس کرتیں۔ کلیسائوں میں عورتوں کا تقرر کروانے کی کوشش کرتیں۔ افسوس پوپ جان پال کے بعد دوسرا پوپ منتخب ہو گیا ورنہ اس عہدے کا اصل استحقاق تو کسی عیسائی عورت کو حاصل تھا۔ مندروں میں جس برہمنیت کا سہارا لے کر مرد حضرات براجمان ہیں‘ انہیں کوشش کر کے وہاں کسی عورت کو صدر نشین بنانا چاہیے۔ برسہا برس سے بیوہ عورت ستی ہوتی رہی ہے‘ اب اس کے برعکس ہندو مردوں کے لیے ستی ہونے کی رسم کا آغاز ہونا چاہیے۔ اسی طرح بدھسٹ بھکشوئوں اور یہودیوں ربیوں میں بھی خواتین کو برابر کی نمائندگی ملنی چاہیے۔ اسی طرح روشن خیالی کی تکمیل ممکن ہو سکے گی۔ اس کے بغیر روشن خیالی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
ذیل میں ہم اسلام میں عورت کی امامت برائے عبادات کا مختصر علمی جائزہ لیں گے۔ وبیدہٗ التوفیق
نماز میں عورتوں کے لیے عورت کی امامت جائز و درست ہے اور ادلہ صحیحہ سے اس طرزِ عمل کی تائید ہوتی ہے۔ اس ضمن میں بکثرت احادیث و آثار موجود ہیں‘ جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ فرائض و نوافل کے لیے عورتیں جماعت کرا سکتی ہیں اور ان کی اِمامت کا فریضہ ان ہی میں سے ایک عورت انجام دے سکتی ہے۔ ’‘سنن ابی دائود‘‘ اور ’’مسند احمد‘‘ کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ام ورقہ رضی اﷲ عنہا کو امامت کرنے کا حکم فرمایا تھا۔ متعدد روایاتِ صحیحہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ام المومنین عائشہ صدیقہ و ام المومنین ام سلمہ رضی اﷲ عنہما نے نماز میں عورتوں کی امامت کی۔ یہ امامت فرائض میں بھی ہوئی اور نوافل میں بھی۔ چنانچہ ان روایات کو مصنف عبدالرزاق مصنف ابن ابی شیبہ‘ مسند الشافعی‘ کتاب الآثار الامام محمد‘ سنن الدار قطنی‘ سنن البیہقی‘ مستدرک للحاکم‘ طبرانی‘ مسند ابوا یعلی‘ قیام اللیل للمروزی وغیرہا کتبِ حدیث میں بسند صحیح ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ ہم بخوفِ طوالت ان روایات کو یہاں نقل نہیں کر رہے ہیں۔
امام ابو الطیب شمس الحق عظیم آبادیؒ فرماتے ہیں:
’’ھذہ الروایات کلھا تدل علی استجاب امامۃ المراۃ للنساء فی الفرائض و النوافل‘ و ھذا ھوالحق و بہ یقول الشافعی و الاوزاعی و الثوری و احمد و ابو حنیفۃ و جماعۃ رحمھم اﷲ تعالی‘‘
(التعلیق المغنی شرح سنن الدار قطنی:۱/۵۔۴)
ترجمہ: ’’یہ تمام روایات فرائض و نوافل میں عورتوں کے لیے عورت کی امامت کے استجاب پر دلالت کرتی ہیں اور یہی حق ہے اور امام شافعی‘ امام اوزاعی‘ امام سفیان ثوری‘ امام احمد‘ امام ابو حنیفہ اور ائمہ کی ایک جماعت نے ایسا ہی کہا ہے‘‘۔
ایران کے روحانی پیشوا آیت اﷲ سید خامنہ ای کا فتوی بھی یہی ہے‘ فرماتے ہیں:
’’عورت کا عورتوں کی نماز جماعت کے لیے امام بننا جائز ہے‘‘۔
(استفتا اور ان کے جوابات:۱/۲۔۲)
تاہم امام مالکؒ اور ان کے اصحاب نے عورت کی امامت کو مطلقاً منع فرمایا ہے اور متاخرینِ احناف نے اسے مکروہ قرار دیا ہے‘ جس کی تائید احادیث و آثار سے نہیں ہوتی۔
اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک مرد عورتوں کی امامت کر سکتا ہے خواہ اس کے مقتدیوں میں صرف عورتیں ہی ہوں کوئی مرد نہ ہو۔
(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ’’قیام اللیل‘‘ للمرمذی)
تاہم اس امر میں کہ کیا ایک عورت بھی مردوں کی امامت کر سکتی ہے؟ سنن ابی دائود اور مسند الامام احمد کی حدیثِ ام ورقہ رضی اﷲ عنہا سے کچھ شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ حدیث کے الفاظ ہیں:
کان رسول اﷲﷺ بزورھا فی بیتھا وجعل لھا موذنا یوذن لھا وامرھا ان توم اھل وارھا۔
’’نبی کریمﷺ ان (حضرت ام ورقہؓ) سے ملنے ان کے گھر جایا کرتے تھے اور ان کے لیے ایک موذن مقرر کر دیا تھا جو ان کے لیے اذان دیتا تھا اور آپؐ نے ان کو اہلِ خانہ کی امامت کرنے کا حکم دیا تھا‘‘۔
ڈاکٹر حمید اﷲ مرحوم (پیرس) کو خاص اصرار ہے کہ:
’’میں اس کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں کہ صرف عورتوں کے لیے امام بنایا گیا تھا۔ حدیث میں یہ الفاظ ہیں ’’اہلِ خاندان کے لیے‘‘ ’’اہل‘‘ کے معنی صرف عورتوں کے نہیں ہوتے پھر اس حدیث میں بیان فرمایا گیا ہے کہ ان کا ایک موذن تھا جو ایک مرد تھا اور مزید تفصیلات بھی ملتی ہیں کہ ان کے غلام بھی تھے۔ ظاہر ہے کہ غلام ان کی امامت میں ہی نماز پڑھتے ہوں گے۔ غرض یہ کہ امامت صرف عورتوں کے لیے نہیں تھی بلکہ مردوں کے لیے بھی تھی‘‘۔
(خطبات بہاول پور ص۳۷۶‘ ادارہ تحقیقات اسلامی اسلام آباد)
ان کے علاوہ طبری‘ المزنی اور ابو ثور بھی یہی نقطۂ نظر رکھتے ہیں۔
(ملاحظہ ہو: سبل السلام شرح بلوغ المرام ص۴۳۷‘ جلد۲)
تاہم جمہور اس کے مخالف ہیں۔
(ملاحظہ ہو سبل السلام ج۲‘ ص۴۳۷‘ عون المعبود جلد۱‘ ص۳۲۱)
جہاں تک حدیث کے الفاظ ’’اہل دارھا‘‘ کا تعلق ہے تو بعض روایات میں نساء اھل دارھا کے الفاظ بھی آئے ہیں۔ (ملاحظہ ہو اتحاف الکرام شرح بلوغ المرام از مولانا صفی الرحمان مبارکپوری)
بعض شارحینِ حدیث نے حدیث ام ورقہؓ کی تصفیف کی ہے اور اس کے ایک راوی عبدالرحمان بن خلاد کو مجہول قرار دیا ہے تاہم یہ درست نہیں۔ امام ابن حبان نے اس کا شمار ثقات میں کیا ہے۔
(عون المعبود/۳۲۱)
حدیث درست ہے۔ ہمیں اس حدیث کی تصفیف کرنے کے بجائے ان اذہان کو مطمئن کرنا چاہیے جو ادہام کا سہارا لے کر ایک صحیح حدیث سے باطل استدلال کر رہے ہیں۔
مردوں کے لیے عورت کی امامت کے قائلین کا اصل استدلال یہ ہے کہ چونکہ حضرت ام ورقہؓ کے لیے ایک موذن مقرر تھا لہٰذا اس سے متبادر ہوتا ہے کہ وہ ان کی امامت ہی میں نماز پڑھتا ہو گا۔ لیکن یہ استدلال بوجوہ درست نہیں۔
۱۔ حدیث میں اس کا کہیں کوئی ذکر نہیں کہ موذن نے حضرت ام ورقہؓ کی زیرِ امامت نماز ادا کی۔
۲۔ بالفرض محالہ اگر تسلیم کر لیا جائے کہ موذن نے حضرت ام ورقہؓ کی زیرِ امامت نماز پڑھی تو آخر ان کا مقام صلوٰۃ کیا تھا‘ کیا وہ عورتوں کے پیچھے کھڑے ہوئے؟
۳۔ عورتوں کے برابر کھڑے ہوئے؟
۴۔ عورتوں سے کنارے الگ کھڑے ہوئے؟
۵۔ یا حضرت ام ورقہؓ سے آگے کھڑے ہوئے؟
ان میں سے ہر صورت ناممکن ہے اور نماز کو فاسد کرنے والی ہے۔
اس کے برعکس سنن ابی دائود‘ کتاب الصلوٰۃ‘ باب اذا کانوا ثلاثۃ کیف یقومون کی ایک حدیث ملاحظہ ہو:
’’حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ کو ان کی دادی ملیکہ نے کھانے پر بلایا جس کو خود انہوں نے آپؐ کے لیے تیار کیا تھا۔ آپؐ نے کھانا کھا کر نماز پڑھی اور فرمایا: کھڑی ہو جائو میں تم کو نماز پڑھا رہا ہوں۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ میں اٹھا اور ایک پرانا بوریا جو پڑے پڑے کالا ہو گیا تھا‘ اس پر پانی ڈالا۔ آپؐ اس پر کھڑے ہوئے اور میں اور (میرا بھائی) یتیم آپؐ کے پیچھے کھڑے ہو گئے اور ملیکہ پیچھے کھڑی ہوئیں۔ پھر آپؐ ے ہمیں دو رکعتیں پڑھائیں اور فارغ ہو گئے‘‘۔
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ عورت اپنے سگے احناد کے برابر بھی کھڑی ہو کر نماز ادا نہیں کر سکتی بلکہ اس کا مقامِ صلوٰۃ بہرصورت مردوں کے پیچھے ہے۔ امام ابو سلیمان الخطابیؒ فرماتے ہیں:
’’اس حدیث میں یہ دلیل ہے کہ مردوں کے لیے عورت کی امامت جائز نہیں کیونکہ مقامِ صف میں ان کے اور مردوں میں مساوات نہیں ہے‘‘۔
(معالم السنن۔ ۱/۱۷۴‘ مطبوعہ المکتبۃ العلمیہ بیروت۔ ۱۹۸۱ء/۱۴۰۱ھ)
حاصل کلام وہ مسجد جہاں مرد و زن ایک دوسرے سے شانے ملائے ایک عورت کی اقتدا میں اپنے سر بارگاہِ ایزدی میں جھکانا چاہتے ہوں‘ مسجد کے سوا سب کچھ ہو سکتی ہے اور اس دیوار گیر عمارت میں جو رسمِ عبادت ادا کی جائے گی وہ نماز کے سوا سب کچھ ہو سکتی ہے۔ کیونکہ اسلامی اعمال اپنے عاملین سے صرف ظاہری حرکات و سکنات کی تکمیل ہی نہیں چاہتے بلکہ باطنی رفعت کی جستجو کا تقاضا بھی کرتے ہیں۔ واﷲ اعلم بالصواب۔
(مضمون نگار نے اس موضوع پر اپنی کتاب ’’عورت کی امامت‘‘ میں تفصیلی بحث کی ہے)
Leave a Reply